قومی احتساب بیورو (نیب )کے
چیئرمین قمرالزمان چودھری کی چھٹیوں سے واپسی کی وجہ سے اب نیب میں زیر
التواء کئی کیسوں پرعملدرآمد شروع ہونے کا امکان ہے، چیئرمین نیب نے جب
اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو سب سے پہلے اُنہوں نے ایسے با اَثر شخص کی
گرفتاری کا حکم دیا جن کا گرفتار کرنا شاید ہی ناممکن تھا ۔ جی ہاں جب سے
نیب کا ادارہ قائم ہوا ہے تب سے اب تک پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے
والے کسی اعلیٰ پولیس افسر کو گرفتار نہیں کیا گیا مگر نیب کی تاریخ میں
پہلی خیبر پختونخواہ پولیس کے اسلحہ و بلٹ پروف جیکٹ کی خریداریوں میں خرد
بُرد کرنے والے سابق آئی جی پولیس ملک نوید خان کو ہاتھ ڈالا گیا جو واقعی
میں نیب کا بڑا کارنامہ ہے، کچھ ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک نوید کو
شفاعیت کا سرٹیفیکیٹ دینے کے لئے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ چیئرمین نیب
قمرالزمان چودھری جب وفاقی سیکرٹری داخلہ تھے تو خیبر پختونخواہ پولیس کے
اسلحہ و بلٹ پروف جیکٹ کی خریداریوں کے اسکینڈل میں ملوث کئی پولیس افسران
دیگر صوبوں میں اُن کے ماتحت کام کر رہے تھے اور اسی وقت ملک نوید آئی جی
پی خیبر پختونخواہ پولیس تعینات تھے اور اسکینڈل کے دوسرے ملزم عبدالمجید
مروت ایڈیشنل آئی جی پی ہیڈ کوارٹرز تعینات تھے ( جو آجکل کمانڈنٹ فرنٹئیر
کانسٹیبلری ایف سی تعینات ہیں) جووفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت ہوتا
ہے۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ماضی میں نیب میں کئی اعلیٰ پولیس افسروں کی
کرپشن کے متعلق انکوائریاں ہوتی رہیں مگر پورے پاکستان میں سے اب تک صرف
ایک پولیس سروس آف پاکستان ( پی ایس پی ) گروپ کے افسر کو گرفتار کیا گیا
جبکہ پورے ملک میں اس وقت سینکڑوں پی ایس پی افسران کام کر رہے ہیں کیا وہ
سارے ایماندار ہیں ؟ آخر نیب پی ایس پی گینگ کے اِن افسران کو کرپشن میں
کیوں گرفتار نہیں کر پاتا؟ماضی میں نیب خیبر پختونخواہ میں سابق آئی جی
پولیس میاں مسعود شاہ، فیاض احمد خان طورو، فقیر حسین ، فاروق اعظم، کاشف
عالم ، میاں مظہر الحق کاکاخیل، ساجد علی خان سمیت کئی پولیس افسران کے
خلاف انکوائریاں چلتی رہیں مگر تاحال اُن کی انکوائریوں کا کچھ پتہ نہ چل
سکا۔ اب خیبر پختونخواہ پولیس کے اسلحہ و بلٹ پروف جیکٹ اسکینڈل میں
مذیداعلیٰ پولیس افسروں کی بھی گرفتاریاں باقی ہیں، مگر اس بار بھی نیب بہت
سستی سے کام لے رہا ہے کیونکہ اسکینڈل میں ملوث کئی اعلیٰ افسران حاضر سروس
ہیں اور وہ اپنا پاور استعمال کرکے مذکورہ کیس کو دفن کروانا چاہتے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق اگر ایک ملزم جرم میں ملوث ہونے پر کسی دوسرے شخص
کا نام عدالت میں لے لے توپھر عدالت اور نیب کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس شخص
کو گرفتار کر کے اس سے پوچھ گچھ کرے۔ دوسری جانب عدالت کے پیشی کے بعد ملک
نوید نے موقع پر موجود دیگر پولیس افسران کے ذریعے اپنا پیغام اُن حاضر
سروس پولیس افسران کو بھجوایا ہے کہ اُنہیں اگر بچانے کے لئے دوڑ دھوپ نہ
کی گئی تو ملک نوید اُن کے خلاف سارے ثبوت نیب کو پیش کر دیں گے مگر
اسکینڈل میں ملوث دیگر پولیس افسران نے ایکا کرتے ہوئے ملک نوید کے خلاف
گواہی دی ہے کہ وہ خواہ مخواہ میں اُن کا نام لے رہے ہیں۔ ملک نوید کو جب
گرفتار کیا جا رہا تھا تو چیئر مین نیب نے انہیں ٹیلی فون کرکے کہا کہ ملک
صاحب میڈیا آئے روز ہمارے خلاف خبریں لگا رہا ہے کہ نیب اسلحہ اسکینڈل میں
ملوث افراد کو گرفتار نہیں کر رہی لہذٰ آپ ہمیں گرفتاری دے دیں تاکہ میڈیا
اور ایجنسیوں کے کان ٹھنڈے رہیں مگر آپ فکر نہ کریں آپ کا نیب میں ٹھیک
خیال کیا جائے گا۔۔ اب اسی خیال کی وجہ سے اب تک ملک نوید صرف چالیس فیصد
انکشافات کر چکا ہے اور لگتا یہ ہے کہ بعد میں انہیں جیل بھجوانے کی بجائے
کسی بڑے ہسپتال منتقل کر دیا جائے گاکیونکہ جیل تو صرف چھوٹی مچھلیوں یا
غریب لوگوں کے لئے بنی ہے بڑا آدمی اگر جرم کرتا ہے تو اُسے بیمار ظاہر
کرکے کسی بڑے ہسپتال میں داخل کر دیا جاتا ہے اور وہ تب تک وہاں رہتا ہے جب
تک اس کی ضمانت نہ ہو جائے، اور اس دوران موقع ملنے پر وہ اپنے گھر بھی آتا
جاتا ہے۔ نیب وفاقی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کئی بار خط لکھ چکا ہے کہ خیبر
پختونخواہ پولیس کے اربوں مالیت کے اسلحہ و بلٹ پروف جیکٹ اسکینڈل میں ملوث
حاضر سروس پولیس افسران کو او ایس ڈی بنایا جائے تاکہ اُن سے تفتیش کرنے
میں آسانی پیدا ہو مگر تاحال وفاقی اسٹیلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے کوئی ایسا
حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے نیب کو مذکورہ اسکینڈل میں مذید
کاروائی کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔۔ موجودہ حکومت کا یہ فرض
بنتا ہے کہ وہ نیب کو حکم جاری کرے کہ وہ ملک بھر میں تمام سرکاری افسران
خصوصاً پولیس سروس آف پاکستان( پی ایس پی) ڈسٹرکٹ منیجمٹ گروپ (ڈی ایم جی)،
فارن سروس،اور پاکستان ایڈمنسٹرٹیوسروس کے افسران سے اُن کے اثاثہ جات اور
بینک بیلنس کی تفصیلات جمع کرے اور اگر اس معاملے میں کوئی افسر سستی کرے
یا جھوٹ بولے تو اسے فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ موجودہ حکومت کو نیب کے
ادارے کو مذید با اختیار بنانا ہو گا تاکہ وہ کسی بھی بڑی مگر مچھ کو
گرفتار کرنے سے پہلے سو بار نہ سوچے ،نہ ڈرے اورنہ ہی کسی کے دَباؤ میں آئے۔۔ |