دو تین دن سے ایک اﷲ کے بندے کو
دیکھ رہا تھا کہ وہ ہاتھ میں فارم تھامے گھوم رہا ہے۔ آخر کار ہمت کرکے
پوچھ ہی بیٹھے کہ بھیا آخر ایسی کیا وجہ ہے جو حیران و پریشان ہاتھ میں
فارم تھامے پھر رہے ہو؟ تو جناب فرمانے لگے ’’حیران اس وجہ سے ہوں کہ میں
نے حکومت کو ووٹ بغیر کسی ضامن کے دیا تھا تو پھر اس اسکیم کیلئے ضامن کی
نہ پوری ہونے والی شرط کیوں رکھی گئی اور پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ مجھے
اس بزنس لون اسکیم کیلئے کوئی گارنٹر نہیں مل رہا اور میں پچھلے کئی دنوں
سے ایک عدد گارنٹر ڈھونڈنے میں سرگرداں ہوں۔ ایک جگہ بڑی اُمید تھی مگر
وہاں سے بھی نااُمید لوٹ آیا۔ وہ بے چارہ خود اپنے بیٹے کیلئے گارنٹر کی
تلاش میں تھا اور مجھے کہنے لگا کہ آپ اپنے لیے تو گارنٹر ڈھونڈ ہی رہے ہو
ساتھ میں میرے بیٹے کیلئے بھی ایک عدد گارنٹر ڈھونڈ دیجیے گا، بڑی مہربانی
ہوگی۔ ایک دُکاندار کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ میرے قرضے کا کیا بنے گا،
اس کی گارنٹی کون دے گا؟ تودُکاندار نے کہا پہلے میرا قرضہ ادا کرو بعد میں
اور باتیں ہوں گی‘‘۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک دوسرا نوجوان آ
دھمکا اور پوچھنے لگا کہ جناب آپ کے پاس کیمرے والا موبائل تو نہیں ہوگا۔
ہماری ہاں کے ساتھ ہی وہ نوجوان ہمارے ہاتھ سے موبائل لے کر ایسا بھاگا کہ
کچھ دیر کیلئے تو ہم کو چوری کا گمان ہونے لگا کہ آج کل ایسے چور بھی پیدا
ہو گئے ہیں جو پہلے پوچھتے ہیں کہ کون سا موبائل ہے اس کے بعد واردات کرتے
ہیں۔ ساتھ والا ساتھی بھی ویسا ہی حیران و پریشان تکتا رہا مگر یہ ہمارا
محض وہم ہی تھا وہ شخص پھر سے موبائل لیے ہماری طرف آ گیا اور آتے ہی بولا
کہ اس میں دو تصویریں میں نے اُتاری ہیں یہ مجھے بلیوٹوتھ کر دیجئے۔ ارے
تصویریں؟ ہاں میں نے قرضے کے حصول کیلئے بینک سے فارم لے رکھے تھے اور ایک
عدد ضامن نے بھی حامی بھرلی ہے کہ میں گارنٹی دوں گا۔ اس کیلئے تصویروں کا
معاملہ تھا تو جناب ایک ہفتہ سے اس کے پیچھے گھوم رہا تھا کہ چلیے صاحب! آپ
کی تصویریں کھنچوانی ہیں، چلیے صاحب ! آپ کیلئے گاڑی بھی لے کر آیا ہوں، آپ
کے مَن پسند ہوٹل پر کھانا بھی کھلاؤں گا، تو بے چارے کو ٹائم ہی نہیں مل
رہا تھا، روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا کہ آج چلیں گے کل چلیں گے۔ آج
یہاں سے گزر رہا تھا کہ میں نے سوچا کہ چلو چلتے چلتے ہی اس کی تصویر اُتار
لیتے ہیں، اس لیے موبائل لینے آپ کے پاس آ گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ نوجوان
وہاں سے چل دیا۔ آج کل جس کو بھی دیکھیے وہی بے چارہ گارنٹر کی تلاش میں
خاک چھانتا پھر رہا ہے۔ قرض لون اسکیم کا اعلان ہوتے ہی گارنٹروں کی مانگ
میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اخبار والے بھی اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا سکتے
ہیں اور اپنے اخبارات میں ’’ضامن دستیاب ہے‘‘ کا اشتہار لگوا دیں تو شاید
عوام کی پریشانی دور ہو سکتی ہے یا خود جو کسی کی ضمانت دینا چاہتا ہے وہ
ایک عدد بورڈ لگا ڈالے کہ ’’یہاں ضامن دستیاب ہے‘‘۔ ہمارے ہاں دیہی علاقوں
میں مطلوبہ گریڈ پندرہ یا اس سے زیادہ کے پہلے تو سرکاری افسران ہی کم ہیں
اور اگر کچھ ہیں تو زیادہ تر لوگ پہلے سے ان کی بکنگ کروا دیتے ہیں۔ ایک
دیہاتی کسی شہر سے تو اپنے لیے ضامن نہیں ڈھونڈ سکتا اور شہر میں اس بے
چارے کو کون جانتا ہے جو اس کی ضمانت لینے کو تیار ہوگا۔ حکمران بھی بڑے
سیانے ہیں کہ عوام کا منہ بھی بند ہو جائے اور قرض بھی نہ جائے کے مصداق
عوام کو ضامنوں کی تلاش میں لگا دیا ہے۔ بااثر افراد تو اس اسکیم سے مستفید
ہو سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کیلئے یہ قرض ویسے ہی خوش رکھنے کا ایک ہتھیار
ہے۔ وزیراعظم یوتھ بزنس لون اسکیم کے تحت بہت بڑی رقم اس قرضہ کے لیے مختص
کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ضامن کی نہ پوری ہونے والی شرط بھی لگا دی ہے۔
اب ایک ضامن خود بھی اتنا صاحب حیثیت ہونا چاہئے کہ اس کا بینک بیلنس ہو تب
جا کر وہ کسی کی ضمانت لے سکتا ہے۔ اگر ایک صاحب حیثیت ضامن کے پاس سب کچھ
ہے تو اسے کیا ضرورت ہے کہ ایک غریب کیلئے اپنی جان سولی پر لٹکا دے، جس کے
لیے اسے اپنی بینک اسٹیٹمنٹ بھی مہیا کرنا ہوگی۔ اب اگر ہر درخواست گزار سے
سو روپیہ ناقابل واپسی فیس بینک لے گا، تو آپ خود اندازہ لگایئے کہ پاکستان
کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں سے اگر صرف تین کروڑ عوام ہی فارم خرید لیتی ہے
تو کتنے پیسے بنے اور ان پیسوں سے کون مستفید ہوگا؟ بینک کو بھی یہ اختیار
مل چکا ہے کہ بینک مقررہ وقت میں بغیر نوٹس دیئے اس شخص کے مقررہ اکاؤنٹ یا
اس کے کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ سے رقم نکال سکتا ہے اور سود کا عنصر بھی اس
اسکیم کا بنیادی مرکز جو ٹھہرا۔ ہر مقروض نئی شرح کے ساتھ پیسے واپس کرنے
کا پابند بھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انگور کھٹے ہیں بلکہ ہم تو اس صاحب کو
بھی یہی مشورہ دینا چاہیں گے کہ بھائی تْو تو خوش قسمت ٹھہرا کہ تجھے ابھی
تک کوئی گارنٹر نہیں ملا۔ اس پر شکر کرو ورنہ کل روزِ قیامت یہی گارنٹر
تجھے اپنے بازوؤں میں تھامے واصل جہنم کر دیگا۔ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا
ہے، ہم کہتے ہیں کہ سچ اس کیلئے کڑوا ہوتا ہے جو اسے پینا نہیں چاہتا، جو
پی لیتا ہے اس کے نزدیک سچ سے زیادہ میٹھی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک مولانا
صاحب فرماتے ہیں کہ رات کو دروازے پر دستک ہوئی، باہر آیا تو ایک برخوردار
فرمانے لگے کہ مولانا صاحب ! خدا کیلئے میرے ضامن بن جائیے، تو میں نے کہا
کہ برخوردار کیا معاملہ ہوگیا ہے؟ کہیں کسی کیس میں پھنس گیا ہے جو اتنی
رات یہاں پر ضمانت لینے آیا ہے۔ اس پر برخوردار فرمانے لگے کہ مولانا صاحب!
آپ تو بڑے صاحب ثروت انسان ہیں، بڑے مالدار بھی ہیں، آپ کا بینک اکاؤنٹ بھی
ہے اور ضامن کی شرط پر بھی پورا اُترتے ہیں ، اس لیے میرے گارنٹر بن جائیے۔
تو مولانا صاحب نے فرمایا، میں نے اس نوجوان کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ
’’چلو تنگ نہ کرو، اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ جنگ نہ کرو‘‘۔
|