ڈار اور ڈالر

دو چیزیں جن کا موجودہ دنیا میں اپنی اپنی جگہ کوئی ثانی نہیں ہے، اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بادشاہ، ایک جنگل کا بادشاہ اور ایک دنیاوی جنگل کا بادشاہ۔ مسلم لیگ نون کی بدولت شیر تو بے عزت ہوا ہی تھا، اسحاق ڈار نے تو حد ہی مکا دی، ڈالر کو بھی بے عزت کر کے رکھ دیا۔ اب پتہ نہیں وہ کس ڈالر کی بات کر رہے تھے۔ ہم نے تو یہ خبر سنتے ہی کہ روپے کو جلد ڈالر میں تبدیل کروا لیں ڈالر گرنے لگا ہے وہ بھی دڑھم سے فوری طور پر گوگل کی راہ لی کہ ذرہ دیکھیں تو سہی کہ کس کس افریقی ملک کی کرنسی ڈالر ہے۔ وہاں سے بھی مایوسی ہوئی تو گمان ہوا کہ واقعی امریکی ڈالر کی بات کی وزیر خزانہ صاحب نے، حد ہو گئی یعنی کہ ڈار صاحب کی نظر میں ڈالر اور روپے میں کوئی فرق ہی نا رہ گیا۔ با عزت لوگ یا چیزیں اتنی رفتار سے گرتی کبھی نہیں دیکھی جس رفتار سے ڈار صاحب نے گرا دی ہیں۔ ان کی خود اعتمادی سے تو لگتا ہے کہ ان کے ہاتھ کوئی ڈالر چھاپنے کی مشین آ گئی ہے۔ جس طرح انہوں نے نوٹ چھاپ چھاپ کر روپے کی قیمت گھٹائی تھی بالکل اسی طرح اب یہ ڈالر چھاپ چھاپ کر ایسا کوئی کارنامہ کرنے لگے ہیں۔ ان کی جماعت کے عظیم دعوں سے لگتا تو یہ تھا کہ ملک اوپر کچھ نا کچھ جائے گا۔ حکومتی جماعت کہتی ہے کہ ہمارے لئے چھ مہینے کافی نہیں البتہ تحریک انصاف کے لئے کافی ہیں ان سے پوچھیں انہوں نے کیا کیا۔ ملک اوپر گیا یا نہیں البتہ ڈالر کہیں کا کہیں نکل گیا۔ جس رفتار سے ڈرون نیچے آتے رہے ہیں، اس رفتار سے تو ڈالر کو اتنا اوپر نہیں جانا چھاھئے تھا۔ اصل میں تو ڈالر اور ڈرون کو راست متناسب ہونا چھا ہئے کہ جس قدر ڈرون نیچے آئیں اسی قدر ڈالر بھی ساتھ میں آئیں۔ آخر کو تجربہ کار ٹیم کو اتنا تجربہ تو ہونا ہی چھاہئے۔
ہمارا تو مشورہ ہے کہ جس طرح مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے مزدوری ملنی چا ہئے اسی طرح حکومت کو چاہئے کہ امریکہ سے مطالبہ کرے کہ ڈالرز کی ادائیگی تدفین سے پہلے کر دی جائے، ظاہر ہے کہ تجربہ کار ٹیم کو یہ تو پتہ ہی ہوگا کہ گزارش کرنی ہے، وہ مان جائیں تو مہربانی نا مانیں تو سر جھکا لیا جائے۔

انڈیا کی ڈپلومیٹ گرفتار کر لی گئی امریکہ میں، امریکہ نے جواب میں جس غیرت و حمیت کا ثبوت دیا اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ انڈیا امریکہ سے ڈالر نہیں لیتا ہوگا، پر مسئلہ یہ ہے کہ پھر انڈیا زندہ کیسے رہتا ہے۔ ہم نے تو یہ سنا ہے کہ ڈالرز کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہتی۔ شائد انہوں نے یہ پڑھا یا سنا ہوگا کہ زندگی اور موت امریکہ کے ہاتھ میں نہیں، بڑے کافر نکلے انڈین تو۔ خوش رہنے کے لئے انسان کو ایماندار ہونا چاہئے۔ جب سے اے آر وائی نیوز کا پروگرام سر عام دیکھنے لگے ہیں تھوڑا تھوڑا سمجھ آنے لگا ہے کہ پاکستان میں عوام خوش کیوں نہیں ہیں معاشرے میں اضطراب اور بے چینی کیون ہے۔ کہتے ہیں کہ بچوں کو خوش رہنا سکھائیں دولت مند ہونا نہیں، اب بھلا کیسے سکھا ئیں جب کہ یہ باتیں نا ہم نے سیکھیں نا کبھی مشاہدہ ہی ہوا۔ سیکولر لوگ تو چھوڑ ہی دیں مولویوں نے بھی کمال ہی کیا۔

روف کلاسرا کا ایک کالم نظر سے گزرا بتا رہے تھے ایک مفتی صاحب کی کہانی کہ کس طرح وہ اربوں کا مال بٹور کر سنگا پور شفٹ کر رہے ہیں وہ بھی اسلام کے نام پر۔ صحافی ہی تو صحافت کو نقصان پہنچاتے ہیں، جیو نیوز کو ہی دیکھ لیں۔ تو مولوی ہی اسلام کے نام پر یہ کام کریں گے اور بھلا کون کرے گا۔
سال کا اختتام ہے۔
اس سال اسلام کے نام پر سب سے بڑا مزاق ملک سکندر نے کیا تھا۔
ملک کے ساتھ سب سے بڑا مذاق پیپلز پارٹی نے کیا۔
جمہویت کے ساتھ سب سے بڑا مذاق الیکشن نے کیا.
اس سال سب سے زیادہ اوور کونفیڈنٹ آدمی مشرف صآحب۔
صدارت کے ساتھ بھی مذاق ہوا، کتنے زبردست لوگوں کی جگہ تھی وہ۔
سب سے بڑے منجن شیخ رشید صاحب.
الیکشن میں سب سے زیادہ خوشی جس کے ہارنے کی ہوئی وہ حنیف عباسی تھا۔
اس سال بھی سب سے زیادہ آرزو پنڈورا بکس کے کھلنے کی رہی۔
سب سے زیادہ مایوس بلاول نے کیا، ثابت کیا کہ بچے ناناوں پر نہیں بلکہ باپ پر جاتے ہیں۔
John Almeida
About the Author: John Almeida Read More Articles by John Almeida: 4 Articles with 3035 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.