آمد سال نو

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(سال نوکی آمدپر خصوصی تحریر)

ایک سال بھرکی عمرعزیزگویاایک پگھلتی ہوئی برف کی سل ہے جو ہر ہر لمحے اپنے وجود سے عدم کی طرف گامزن ہے۔اگرچہ فرد کے سال کاآغازتواس کی پیدائش سے ہی ہوجاتاہے لیکن ظاہرہے کہ ہرہرفرد کے لیے الگ الگ سے کیلنڈر بناناتو ممکن نہیں پس صدیوں سے انسان نے اپنے اجتماعی نظام کی بارآوری کے لیے ایک سال کی مدت کو اپنارکھاہے،اسی کیلنڈر سے مہینوں ،ہفتوں اور دنوں کاحساب بھی چلتاہے،یہیں سے موسموں کے تغیر کو بھی تخمین کر لیاجاتاہے اور یہیں سے فصلوں ،نسلوں اور قوموں کی پختگی وعروج و زوال کے دورانیے کا فیصلہ بھی کرلیاجاتاہے۔دنیابھرکے کم و بیش تمام مذاہب بھی اپنا اپناجداگانہ کلینڈر رکھتے ہیں اور اسی کیلنڈر کے مطابق جہاں انکے مذہبی سال کا آغاز ہوتاہے وہیں ان کے جملہ مذہبی تہوار بھی اسی کیلنڈرکی تاریخوں کے تحت استوار کیے جاتے ہیں۔تہذیبیں چونکہ ہمیشہ سے مذاہب کے زیراثر رہی ہیں اس لیے اگر کہیں کسی تہذیب نے اپنا الگ سے بھی کیلنڈر بنایاتو وہ مذہب کی گرفت سے نکل نہ سکا۔جیسے کہ یورپی سیکولرتہذیب نے اگرچہ اپنے آپ کو مذہب سے جداکرنے کا نعرہ لگایااور علیحدہ کیلنڈر بھی ترتیب دیا لیکن اسے مذہب عیسائیت کے اثرات سے بچانہ سکے ۔چنانچہ انسانوں کی بہت بڑی تعداداور حکومتیں بھی پوری دنیامیں اس وقت عیسوی کیلنڈرکورائج کیے ہوئے ہیں اورحضرت عیسی علیہ السلام کی اصل تعلیمات چونکہ مسلمانوں کے پاس ہیں اور وہ بھی اسی طرح دین اسلام کے سچے نبی تھے جس طرح باقی کل انبیاء علیھم السلام بشمول محسن انسانیت خاتم الانبیاء ﷺ تھے اسی لیے یہ کیلنڈر بھی کلیۃ اسلامی کیلنڈر ہے ۔قرآن مجید نے برملا دیگرمذاہب کو اپنی مشترکات کی طرف دعوت دی ہے اس لیے یہ ایک خوش آئند امر ہے سال عیسوی مسلمانوں اور مذہب مسیحی کے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔

اﷲ تعالی نے قرآن مجیدمیں ارشاد فرمایا کہ ’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف بڑھتاچلا جا رہا ہے‘‘محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ’’جس کاآج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا‘‘۔’’سال‘‘ ایک فرد کی انفرادی و ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا دورانیہ ہوتاہے،ایک سال کے دوران کئی منصوبے،بے شمارارادے اور کتنے ہی ترتیب دیے ہوئے انسانی قیاسات و اندازے و تخمینے گزر جاتے ہیں،سال کے آخر میں انسان سوچتا ہے کہ ان میں سے کتنے پایہ تکمیل کو پہنچے ،کتنے ہنور زیر تکمیل ہیں اور کتنے ہی ہیں جو محض ہوا میں تحلیل ہو کر آرزوؤں،خواہشات اور امنگوں کی شکل اختیارکرکے تو وقت کہ دبیزتہہ میں دب کر قبرماضی میں دفن ہو چکتے ہیں۔ان میں سے کچھ کی کسک سینے میں چھبتی رہتی ہے اور کچھ نسیان و فراموشی کی منزل کو پا لیتے ہیں گویاارادے سے شعور اور شعور سے تحت الشعور اور پھر لاشعور کے راستے انسانی وہم و گمان سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پس اس خاص تناظر میں مذکورہ بالا قول رسولﷺکتنا برموقع ہے کہ اگرچہ ہر دن کے اختتام پر خوداحتسابی کے عمل پیہم سے گزرناایک خوشگوار عادت ہے لیکن دن کے حجم کو ایک سال کی وسیع ترمدت پر قیاس کیاجائے تو تصویر بہت کچھ واضع ہو جاتی ہے اور انسان اپنا کچھا چٹھاخود سے ملاحظہ کر کے اپنی بڑھوتری یا خسارے کااندازہ لگا لیتاہے۔

ایک سال کے اختتام پر اور آئندہ سال کے آغاز پر قرآن مجید نے اپنے ایک خاص انداز سے بہت خوبصورت تبصرہ کیاہے۔سال چونکہ زمانے کی ایک اکائی تصورکی جاتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے زمانے کی قسم کھاتے ہوئے انسان کے نقصان کو واضع کیاہے گویازمانے کی اس مدت کے گزرنے پر انسان نقصان کاشکارہوگیا۔خودقرآن مجید نے انسانی مہلت کو وقت سے تعبیر کیاہے اور جتناوقت انسان کو ملااس میں سے ایک سال گزرنے کامطلب ہے ایک سال کا نقصان ہوگیااور وقت کے استعارے جو دولت انسان کو میسرآئی تھی اب وہ مزید کمی کاشکار ہوتے ہوئے تنزل پزیر ہے۔قرآن کا یہ تصور عقل و خرد انسانی سے کتنا قریب تر ہے کہ انسان کے ان تقاضوں اور پیمانوں پر عین پورا اترتا ہے جو خود حضرت انسان نے اپنے کامیابی و ناکامی کے لیے تراش رکھے ہیں۔طالب علم کو امتحان گاہ میں ایک خاص وقت لیے پرچہ تھمایاجاتاہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعلان کیاجاتارہتاہے کہ اب اتنا وقت گزرگیایااتنا وقت رہ گیا،وقت کے اسی پیمانے پر طالب علم اپنی کارکردگی کو جانچتااورتولتاچلاجاتاہے اور جتناوقت گزرتاچلاجائے وہ اس کے مدت امتحان سے منہاکرلیاجاتاہے اورپھربقیہ وقت میں وہ اپنی کارگردگی کو اس تیزی سے پوراکرتاہے کہ وقت گزشتہ کے نقصان کو پوراکر سکے۔اسی طرح فی زمانہ ایک مخصوص مدت کے لیے برسراقتدارآنے والے حکمرانوں کی کارکردگی کو وقت کے پیمانوں سے جانچااورپرکھاجاتاہے کہ کتنی مدت گزرگئی اور کتنی کامیابیاں حاصل کر لی گئیں یا نہیں حاصل کی جا سکیں۔ایک سال کااختتام اور اگلے سال کی آمد پر قرآن کے اس تبصرے کو امام رازی رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے ایک اورمثال سے بھی روشن کیاہے،وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اس نقصان کو برف فروش کی صداسے پہچانا جو بآوازبلندپکارتاچلاجارہاتھاکہ لوگو میراسرمایا پگھلتاچلاجارہاہے ،کوئی تو خریدلو۔ہرمنصوبہ ایک خاص مدت کے لیے مرتب کیاجاتا ہے اور وہ مدت مقصودہی اس کی کامیابی یاناکامی کی دلیل ثابت ہوتی ہے۔

ایک سال کااختتام اگلے سال کاآغازانسان کو دعوت فکردیتاہے کہ کیاکھویااورکیاپایا؟؟؟انسان کا مقصد وجودعبادت ہے،پس انسان شعور سے وفات تک عبادت گزار ہی رہتاہے،کہیں تو ایک اﷲ تعالی عبادت کرتاہے تو کہیں اپنی خواہشات نفسانی کی عبادت کرتاہے،کوئی انسان پیٹ کا پجاری ہے تو کوئی پیٹ سے نیچے کی خواہش کو خدا بنائے بیٹھاہے اور کسی نے دولت،شہرت اور اپنے پیشے کو الہ تصور کرلیاہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی قوم،رنگ،نسل ،علاقہ اور اپنی زبان کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے چلے جارہے ہیں اور انسانوں کے ہر قبیلے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اقتدارکے بت کا پجاری ہے اور اسے دین فروخت کرنا پڑے ا یااپنے ایمان کا سوداکرنا پڑے یا پھر اپنے ملک و ملت اور قوم کو داؤپر لگاناپڑے وہ کسی بھی قیمت پر اقتدارکے اس بت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا۔انسان چاہے یا نہ چاہے وہ بہرصورت ایک پجاری کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اگرچہ اپنی پجارت و عبادت کووہ کیسے ہی دیگر ناموں سے موسوم کر بیٹھے۔پس جس کسی نے اپنا ایک سال کا سرمایا عظیم ایسی عبادت میں گزاراجس سے اسے نفع ہواتو وہ کامیاب ہے اورجس کی عبادت نے اسے نقصان سے ہمکنارکیااس کاسال اسی طالب علم کی طرح ضائع ہوگیاجو ایک بار پھر گزشتہ جماعت میں بٹھادیاگیا۔کامیابی کے بے شمار پیمانے ہمیشہ سے قبیلہ بنی آدم میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں ان کو انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات نے دو ہی حصوں میں تقسیم کیاہے،دنیاکی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ۔پس جس نبی علیہ السلام سے منسوب ایک سال کااختتام اور دوسرے کاآغاز ہے انہی کی تعلیمات آخرت کی کامیابی کی طرف بلاتی ہیں۔کیاہی خوبصور ت بات ہو کہ جس رب کی طرف انسان کھنچاچلاجارہاہے اس کی طرف خود اپنی مرضی سے بڑھتاچلاجائے اور تمام جھوٹی عبادتوں کو خیرآبادکہتے ہوئے ایک سچی عبادت کواپنی زندگی میں اپنالے۔روزانہ کی بنیادپر خود احتسابی،پھر ہفتہ وار خود احتسابی اور پھر ماہانہ بنیادوں پر خود احتسابی کے بعد سال کے اختتام پر دیکھاجائے کہ ہم نے انفرادی طورپرکہاں ہیں اور بحیثیت قوم اوربحیثیت امت ہم نے کیاحاصل کیا۔بحیثیت فرد کے موت ہر وقت پیش نظر رہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺ نے مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت علی کرم اﷲ وجہ سے پوچھاکتنا زندہ رہنے کی توقع ہے؟؟؟عرض کیاایک جوتاتو پہن چکاہوں دوسرے کی خبر نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا تم نے تو بہت لمبی امید باندھ لی اور پھرارشاد فرمایامجھے ﷺکو توآنکھ جھپکنے کی بھی توقع نہیں کہ اتنی مہلت بھی ملے گی کہ نہیں۔یہ ایک فرد کے لیے تعلیمات ہیں جبکہ کل امت کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے روم اور ایران کی کنجیاں اور بحرین کے خزانوں کی پیشین گوئیاں فرمائی جا رہی ہیں۔پس ہمارا سال اس طرح گزرے کہ ایک فرد کی حیثیت سے رخت سفر ہمہ وقت تیارہے اور مسافر پابہ رکاب رہے لیکن اپنے عقیدہ و ملک و ملت اور آنے والی نسلوں کے لیے اتنی بڑی قربانی کا جذبہ ہو کہ صدیوں تک ان کی بالادستی دنیاپر قائم کرنا پیش نظر ہو۔

نقصان پر خوشیاں منانا اور لھولعب اور بدمستیوں میں راتیں گزارنا کہیں کی عقلمندی نہیں ہے،ہر نقصان دعوت فکر دیتاہے اور فکرکے لمحات کوآوارگی کی نظر کرنا بے ہودگی اور واہیاتی کی علامات ہیں۔ہمارادشمن ہمیں ہمارے نقصان سے بے خبر رکھ کر ہمیں فتح کرناچاہتاہے۔ تین سوسالہ دورغلامی کے دوران انگریز نے اپنی خوبی توکوئی بھی ہمارے اندر نفوذپزیرنہیں ہونے دی لیکن اپنی خباثتیں ساری کی ساری چھوڑ گیااور ایک بہت موثر طبقہ ہمارے درمیان باقی رکھ گیاجو آج تک اسی کاذہنی غلام ہے اور اسی کی تہذیبی و ثقافتی باقیات سے چمٹا ہے۔سیکولرمغربی تہذیب کادلدادہ یہ طبقہ عبداﷲ بن ای اور میرجعفرومیرصادق کاکرداراداکرنے والا دوقومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کے پنجے آج تک ہماری نسلوں کی گردنوں پر پیوست ہیں اور ہمارا خون نچوڑ کر اپنے آقاؤں کا دوزخ بھرنے اورہمیں سود کی دوزخ میں جلاناچاہتاہے لیکن اب وقت نے کروٹ لے لی ہے اور بہت جلد یہ طبقہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو گااور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گریں گی،انشاء اﷲ تعالی۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572809 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.