غیر مسلموں کا سال نو اور مسلمانوں کا جشن

پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ۔ قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں قیام پاکستان کی وضاحت صاف صاف الفاظ میں کی ہے کہ’’ہمیں ایسا آزاد ملک چاہیے جہاں ہم اپنی اسلام قوانین کے مطابق زندگی بسر کرسکیں‘‘ ۔ اب آگے سوچنے کا مقام ہمارا ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں جو غیر مسلموں کی نقل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض ہے مگر ہم اور ہمارے حکمران پینٹ شرٹ پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لباس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے اور ہم کرکٹ پر جان دیتے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے خود قائداعظم کہتے ہیں کہ قران نے قانون دیا ہوا ہے لیکن اسلامی قوانین کی موجودگی میں ہم غیر مسلموں کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں ایک ہی آواز بلند ہے ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ ۔ غیر مسلم بڑے زور و شور سے اس کو منانے کی تیاری کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارا پاکستان بھی ان غیر مسلموں سے پیچھے نہیں ہے۔ پاکستان میں میں بھی ہیپی نیو ائیر کی تیاری کے لیے ہوٹلوں میں بکنگ کے ساتھ ساتھ شراب جیسی حرام چیز کا بھی سٹاک جمع کرلیا گیا ہے۔ اب سوچیں ذہن کو نوچ رہی ہیں کہ غیر مسلموں اور پاکستانیوں میں کیا فرق ہے جو یہ نیا سال منانے کے لیے مسلمان ہونے کے تقاضے بھی بھول گئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے تہوار اس جوش و جذبہ سے مناتے دیکھا گیا ہے؟

نئے سال کی آمد آمد ہے اور ہرکوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے۔ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ۔ تھوڑی دیر کے لئے تمام رنج و الم بھلا کرساری دنیا میں نئے سال کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور جی بھر کے خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ دعوتیں اڑائی جاتی ہیں، رقص و سرود کی محفلیں سجتی ہیں جہاں شراب شباب کباب جمع کیے جاتے ہیں ، مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے، کہیں دید کے متلاشی من کی مراد پاتے ہیں تو کہیں ایس ایم ایس سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید ضرور کہتا ہے۔ اس تیاری میں اربوں کی فضول خرچی ہوگی۔ اگر ان فضول اخراجات کوجوڑا جائے تو اس سے کسی ایک ملک کی غریبی دور کی جاسکتی ہے۔ لیکن تاریخ میں ایسا نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ اس نئے سال کے جشن کے ماحول میں کوئی بھی انسانی مجبوریوں کونہیں سمجھتا ہے اورنہ کسی کو فکر ہے؟

سال2013رخصت ہونے والا ہے چونکہ دن رات کے بدلنے کی نشانیاں عقل مندوں کے لئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ آنے والے سال خواہ وہ عیسوی یا قمری ان کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر سوچ لیا جائے کیونکہ انسان ابھی حالات سے مایوس نہیں ہوا۔ ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے۔سال شروع ہوتے ہی نجومی بھی ستاروں کی بساط بچھا کر آنے والے سال کے حالات بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں بہتر طریقے سے کام کیا جائے۔
جہاں تک نئے سال کے جشن کی بات ہے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ نئے سال کے جشن کا کیا مطلب ہے۔ یہ تو محض ہم نے اپنے دنوں کو سمجھنے اور اس کے شمار کے لیے بنایا ہے۔ پھر ان دنوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے جو ہم انہیں جشن میں تبدیل کر دیں؟ اگر جشن منانا ضروری ہے تو سب سے پہلے تو ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ۔مسلما ن ہونے کے ناطے ہمیں اپنا نیا سال جب منانا چاہیے تھا مگر اس وقت تو ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے جب تو ہم جلدی سے کسی کوہیپی نیو ائیر کا ایس ایم ایس بھی نہیں کرتے۔ اب ہرمنٹ بعد اپنی پچھلے سال کی غلطیوں کی معافی کے لیے ایس ایم ایس بھیج رہے ہیں تو کوئی نئے آنے والے سال کی مبارکباد دے رہا ۔ ان کو یہ تو معلوم ہے کہ 2014 شروع ہورہا ہے اور2013ختم ہونے والا ہے مگر ایسے مسلمانوں سے پوچھاجائے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ کونسا ہجری سال ہے تو اکثر لوگوں کا جواب معذرت ہی ہوگا۔

اگر بات 2013کی کریں اور بقول ایسے لوگوں کے جو ’’ہیپی نیو ائیر‘‘ منا رہے ہیں تو اس سال میں ہم نے ایسا کیا پا لیا جس کے لیے ہم جشن منائیں یا پھر ہم کو ایسی کیا خوشخبری مل گئی جو ہم آنے والے سال کا جشن منائیں؟دہشت گردی ، بجلی اور گیس سے محروم عوام، بیروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والے لوگ ظلم و جبر کے اس ماحول میں بھلا جشن کیسے منائیں گے؟اس نئے سال میں کس لیے جشن منایا جائے؟ جشن اور خوشی کا ماحول تو اسی وقت بنتا ہے جب ہر طرف خوشحالی اور امن و مان ہو۔ لیکن یہاں تو بد حالی اور کرپشن نے لوگوں کو خودکشی پر مجبور کررکھا ہے۔ سیاستدان اپنی کرسی بچانے یا اپنی کرسی بنانے کے لیے عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔

بھلا کیسے ہم نئے سال کا جشن منا سکتے ہیں جبکہ مسلمان اقتصادی، سماجی اور تعلیم اعتبار سے بہت کمزور ہیں۔دہشت گردی کی چکی میں مسلمان پس رہے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں دہشت گردی ہوتو سب سے پہلے میلی نظر سے مسلمانوں کو دیکھا جاتا ہے ۔ ہم کشمیرکو آج تک آزاد نہ کرا سکے اور جو آزاد ملک ہیں ان پر غیر مسلموں کو مسلط کر دیا ہے ۔مسلمانو اب بیدار ہوجاؤ۔ کب تک غیر مسلموں کی غلامی میں رہو گے؟ مسلمان ایک دلیر قوم ہے جس کو ہم نے اب بزدل بنا دیا ہے۔ تاریخ پڑھ لیں جتنے بھی ملک آزاد کرائے وہ مسلمانوں نے کرائے ہیں۔ لیکن آج ہم ان کے متضاد چل رہے ہیں بجائے اسکے کہ ہم اپنے اسلامی ملکوں کو آزادی دلائیں بلکہ جو آزاد ہیں ان پر بھی غیر مسلموں کو بیٹھا رہے ہیں۔پیارے نبی حضرت محمد ﷺ پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی سنت کو پورا کرتے ہوئے ہر مسلمان کو غیر مسلموں کے تہوار منانے کے بجائے اپنے اسلامی تہوار وں کو منانا چاہیے ۔

اگر نیا سال منا نا پھر بھی ضروری ہے تو پھر ہم سب کو آج کے دن یہ عہد کرنا ہوگا کہ قوم اور قوم کے رہنماؤں کو سمجھداری، بردبادی اور اتفاق رائے سے تمام معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ بحیثیت قوم ہمیں تعلیم، صحت، صنعت، کھیل اور سائنس کے میدانوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے کا عزم کرنا ہوگا۔ ملک کی سلامتی کے ذمہ داروں کو اس سال ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کرنا ہوگا۔ اگر یہ سب کرنے کا عزم کرتے ہیں تو نئے سال سے امیدیں باندھ سکتے ہیں ورنہ تو بس۔۔۔ جیسے ایک وزیر اعظم گیا تو دوسرا آگیا ویسے ہی۔۔ ایک سال گیا دوسرا آگیا۔ اﷲ اﷲ خیر صلا۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 235076 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.