دنیا کے بیشتر ممالک میں
افراتفری کا ماحول بنا ہوا ہے کہیں پر آفات خداوندی سماوی و ارضی ہے تو
کہیں انسان ایک دوسرے کے جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ مشرق و مغرب ہو کہ شمال
و جنوب، ہر جگہ کسی نہ کسی بہانے انسان پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں
پر سیاسی مقاصد کے تحت انسانوں کو لڑاکر اقتدار کا حصول یا اقتدار پر متمکن
رہنے کی سعی کی جاتی رہی ہے تو کہیں پر ظلم و تشدد کے ذریعہ بے قصور
انسانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔گذشتہ صدیوں کے اوراق کی ورق گردانی کی
جاتی ہے تو بڑے بڑے جنگوں کے ذریعہ انسانوں کا بے دریغ خون بہانے کی تاریخ
ملتی ہے اور ماضی کے چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو صرف فرق اتنا دکھائی دیتا
ہے کہ اُس وقت زمینی جنگیں ہوتی تھیں اور آج فضائی ہتھیار کے ذریعہ انسانوں
پر حملے کئے جارہے ہیں ۔ مرنے والوں میں اُس وقت بھی وہی بے قصور انسانوں
کی اکثریت تھی اور آج بھی وہی معصوم بچے، مرد خواتین اور ضعیف انسان ہیں ۔
صرف ظلم کرنے کے طریقے بدل گئے ہیں اور آج ظلم کرنے والے اپنے آپ کو
انسانیت کا علمبردار بتاتے ہیں جبکہ جو بے قصور ہیں انہیں دہشت گردوں میں
شمارکیا جاتا ہے۔
مشرقِ وسطی میں بھی یہی سب کچھ گذشتہ تین دہائیوں سے ہورہا ہے کبھی
افغانستان سے مسلم حکمرانوں کو بے دخل کرنے کے لئے مختلف طریقہ اختیار کئے
گئے تو کبھی عراق کے مضبوط اقتدار کو بے دخل کرنے کے لئے ناپاک سازشوں کو
اپنایا گیا اور جھوٹے الزامات عائد کرکے صدام حسین جیسی مردِ آہن شخصیت کو
اقتدار سے محروم کرکے انہیں سزائے موت دی گئی۔ افغانستان اور عراق کی تباہی
سے عالم اسلام سنبھل جانا چاہیے تھا لیکن اسلامی اور عرب ممالک کے مقتدر
شخصیتوں نے کبھی اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ افغانستان اور
عراقی عوام پر ہونے والے مظالم کا جائزہ لیتے اور اس کی سختی سے مذمت کرتے
تو آج دنیا میں مشرقِ وسطیٰ کی حیثیت کچھ اور ہی ہوتی۔ آج عرب ممالک تیل و
قدرتی گیس کی دولت سے مالامال ہے جس کا فائدہ امریکہ اور مغربی طاقتیں
بھرپور انداز میں اٹھارہی ہے ۔ عرب و اسلامی ممالک آپسی اختلافات ، رسہ کشی
اور مختلف مسائل میں گرفتار ہوکر یا گرفتار کرائی جاکر بین الاقوامی سطح پر
بدنام ہوتے جارہے ہیں۔ شام، مصر ، پاکستان، افغانستان، عراق وغیرہ کے حالات
پر نظر ڈالیں ۔ ان ممالک میں ہر روز دہشت گردحملوں کے ذریعہ سینکڑوں افراد
لقمۂ اجل ہورہے ہیں۔ کہیں پر خودکش حملے کئے جاتے ہیں تو کہیں پر حکمراں
اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان لڑائی یا پھر سرد جنگ جاری ہے۔ ان تمام حالات
کے ذمہ دار کون ہیں؟ ملت اسلامیہ کے حکمراں یا عوام؟
ابتداء اسلام سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں ، کبھی منافقین
نے کفار و مشرکین کا ساتھ دیا تو کبھی کفار و مشرکین نے مسلمانوں کی صفوں
میں انتشار پیدا کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے رہے۔ آج بھی یہی سب
کچھ ہورہا ہے۔ آج مشرقِ وسطی میں سب سے زیادہ کنٹرول امریکہ کو حاصل ہے۔
اسرائیل جو مسلمانوں کا کٹر دشمن ملک ہے اس کی سرپرستی کرنے والا امریکہ
مسلم حکمرانوں کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ یا پھر مسلم حکمراں کسی انجانے خوف
کے سایہ میں اقتدار پر فائز ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ اور مغربی
طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آج عراق کے حالات پر نظر
ڈالیئے اقوم متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف نومبر کے ماہ میں 659افراد
ہلاک ہوئے جس میں 565عام شہری اور 94سیکوریٹی فورسز کے عہدیدار شامل ہیں
جبکہ جنوری 2013سے اب تک 950سیکیورٹی عہدیدار سمیت 7150افراد ہلاک ہوچکے
ہیں اور یہ تعداد 2008ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
پاکستانی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن طالبان کے رہنما
ملا فضل اﷲ نے حکومت سے امن مذاکرات بے معنی بتاتے ہیں ، انہوں نے ایک بار
پھر دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت کو ہٹانے اور ملک میں شرعی نظام
نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کے سلسلے میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان
کیا ہے۔ ویسے پاکستانی طالبان ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان حکومت کے ذمہ
دار ٹھہراتے ہیں کیونکہ وہ امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے ڈرون حملوں کو
بند کرانے میں ناکام ہوگئی ہے یا پھر اس کے پیچھے خود پاکستانی حکومت کا
کارفرما ہے۔ تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ کے مطابق پاکستان کی موجودہ
حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ، ڈالر کی بھوکی اور کمزور ہے۔ اگر طالبان کو
یقین ہے کہ حکومت مذاکرات کی بات کرتی ہے لیکن اندرونی طور پر فوجی
کارروائی کرنے کے منصوبے بنارہی ہے۔ اور طالبان ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے
لئے اپنے آپ کو تیار بتاتے ہیں۔ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی اس
لڑائی میں پاکستان کے معصوم عوام نشانہ بن رہے ہیں اور مستقبل میں مزید
نشانہ بنیں گے۔ اسی طرح افغانستان کا حال بھی کچھ کم نہیں ہے۔ یہاں پر بھی
آئے دن ڈرون حملوں کے ذریعہ دہشت گردی کو ختم کا نام دے کر معصوم افراد کو
نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ شام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جس طرح کی
لڑائی ہورہی ہے اس میں بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد ختم ہوگئے اور
معیشت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ مصر میں جمہوری حکومت کو برخواست
کرکے اقتدار حاصل کرنے والے حکمراں جنوری میں ریفرنڈم کروانے والے ہیں لیکن
اخوان المسلمین اور مخالف فوج اتحاد کی جانب اس ریفرنڈم کے بائیکاٹ کرنے کا
امکان قوی ہے۔ مصر کے بعض علماء کی زبان بندی کی گئی ہے یعنی مساجد میں
خطاب سے قبل انہیں حکومت کی جانب سے اجازت لینے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ اس
طرح مصر کے حالات مستقبل قریب میں بھی بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
قبلۂ اول کی تقسیم اور یہودیانے کی سازش کے خلاف سعودی عرب کی کابینہ نے
انتباہ دیتے ہوئے مسجد اقصیٰ کو بچانے کے لئے فیصلہ کن اقدام کرنے ، سلامتی
کونسل میں جامع اصلاحات کا مطالبہ کرنے کی بات کہی ہے۔ لیکن کیا سلامتی
کونسل امریکہ کی سرپرستی والے اسرائیل کو یکا و تنہا کردے گا۔ اس طرح کا
امکان بہت ہی کم ہے ، ہاں اگر عالم اسلام مضبوط طریقہ سے اتحاد کے ذریعہ
آواز اٹھاتا ہے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے کم از کم فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج
کے مظالم بند ہوسکتے ہیں یا پھر اس میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور فلسطینی
عوام کودی جانے والی امدادان تک آسانی سے پہنچ سکتی ہے۔ غرضیکہ 2013میں
مصر، شام میں جس طرح مسلمانوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے یہ انسانیت کے
لئے شرمناک بات ہے لیکن اقتدار کے بھوکے اپنی مقصد براری کے لئے ہمیشہ سے
جس طرح انسانیت پر ظلم کابازار گرم کرتے رہے ہیں اس سال بھی یہی سب کچھ
ہوا۔
گذشتہ دنوں مشرقِ وسطی میں زبردست بارش اور برف باری نے عوام کو بے گھر
کرکے رکھ دیا تھا۔نظام زندگی درہم برہم ہوگئی اور معیشت پر بھی منفی اثر
پڑا۔ اسرائیل جو ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے یہاں کے حکمراں اپنے آپ کو
طاقتور سمجھتے رہے ہیں وہ اﷲ رب کے قہر الٰہی کے سامنے بے بس ہوکر رہ گئے
اور اسرائیلی عوام اپنی طاقتور ترین حکومت کو کوسنے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ |