ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام
دشمنوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی تہوار ہو یا خوشی، غموں
و دکھوں کے بغیر نہ گزرنے پائے، یہ کبھی کی باتیں تھیں آج تو ہر نیا دن خون
خرابہ لیئے ہوئے آتا ہے۔ آج ہر طرف یہی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان
کے خرمن کو جلا کر خاکستر کر دینے والی یا تو بجلیاں گرا دی جاتی ہیں یا
پھر کسی نہ کسی بہانے ان کے خون کی ندیاں بہا دی جاتی ہیں۔ آج کل یہ المناک
صورتحال سب سے زیادہ عالمِ عرب میں پائی جا رہی ہے جہاں مسلمانوں کا خون
پانی سے بھی سستا ہوتا جا رہا ہے اور لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی
پیاس بجھانے میں لگے ہیں۔ اور پیاس ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
عالمِ اسلام کا کون سا ایسا ملک ہے ، کون سا ایسا خطہ ہے جہاں دشمنوں کی
بھڑکائی آگ میں اسلام کے پروانے جل جل کر اپنی جانوں کے نذرانے نہ پیش کر
رہے ہوں، اور مسلم حکمرانوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان کے اندر اب نہ دینی
حمیت ہی رہی اور نہ ہی ملّی غیرت ہی باقی رہی، یہ تو بے حسی کی گولیاں کھا
کر بسترِ راحت میں اس طرح محو خواب ہیں کہ ان کے خوفناک خراٹوں کے خوف سے
پوری قوم لرز نے لگی ہے۔ دشمنوں کی گولیوں سے فرزندانِ ملت پرندوں کی طرح
گر رہے ہیں۔ کٹ رہے ہیں ، مر رہے ہیں، پیوند خاک ہو رہے ہیں، لیکن ان شاہوں
کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ابھی شام جل ہی رہا تھا اور اس کی آگ مدھم بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہی خوں
آشام شام مصر کے آنگن میں بھی رقص کرنے لگی ہے۔ جب کہ وہاں طلوع ہونے والا
نیا سورج ابھی تک اپنی پوری کرنیں بھی پھیلا نہ سکا تھا کہ خونی بادلوں نے
اسے یکایک ڈھانپ لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی پورا ملک خون کی بارش میں جل تھل
ہوگیا۔ ایسے حالات میں ایک بار پھر ہم اپنے کلیجوں پر پتھر ہی رکھ لیں، یہ
سوال اہلیانِ اسلام کے ہر بچے، بڑے، بزرگ کے دل کو چھلنی کر رہا ہے۔ کیونکہ
کسی کے بابا ان سے چھین لیئے گئے، کسی کا بھائی چھین لیا گیا، کسی کا شوہر
چھین لیا گیا، اب ایسے بچے کن کی انگلیاں پکڑ کر چلنا سیکھیں گے۔
اہلِ اسلام تو جسد واحد کی مانند ہیں، جسم کے کسی حصے میں بھی اگر کوئی
تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے، اسی طرح دنیا کے کسی حصے میں بھی
مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم ہوتا ہے تو اس کی ٹِیس ہر مسلمان اپنے دل میں
محسوس کرتا ہے، اور صورتحال یہ ہے کہ آج پورا عالمِ اسلام ہی مغربی ملکوں
کے زیرِ عتاب ہے، اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ اب نہ کوئی ان کی داد رسی کرنے
والا ہے، نہ ہی کوئی غم مٹانے والا، اور نہ ہی کوئی داد بخشی ہی کرنے والا
رہ گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی بد سے بد تر صورتحال کیونکر
ہوگئی؟ جب کہ ابھی کل تک تو شیاطین ان کے سائے سے پناہ مانگتے تھے،آج وہ
خود اپنے سائے سے پناہ مانگنے لگے ہیں۔ یہ حالتِ بد اس لیئے ہو گئی ہے کہ
کل تک مسلمانوں کا عمل قرآن کے سانچے میں ڈھلتا تھا اور آج امریکہ و
برطانیہ کے فرمان کے سانچے میں ڈھلنے لگا ہے۔
کیا بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے بعد اب شام و
مصر میں آگ و خون کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے پیچھے ان مسلم دشمن
ملکوں کا ہاتھ نہیں جنہوں نے عربوں کے سینے پر اسرائیل کو لا بسایا ہے، اور
جن کے عزائم، نیل کے ساحل سے لے کر کرتا بہ خاک کاشغر وسیع تر ہیں، ظاہر ہے
ایسے شیطان صفت لوگوں کے لیئے کوئی بھی وقع ہو، چاہے وہ خوشی کا ہو یا غمی
کا وہ اپنی شیطانیت کا مظاہرہ کیئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔ ایسے میں کہیں
نہ کہیں اپنے پسندیدہ خونی کھیل کا مظاہرہ کر دکھاتے رہتے ہیں، تاکہ اس طرح
پوری دنیا کے مسلمانوں کا سینہ شق ہو جائے اور ان کا کو خوشی کا کوئی دن
ملنے کے بجائے غموں میں ڈوبے رہیں، جیسے کے گذشتہ دنوں مصر کے سینکڑوں
اسلام پسندوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا اور مسلمانوں کو غموں اور دکھوں
کا تحفہ دے کر ایک بار پھر رنجیدہ کر دیا گیا۔ جیسا کہ اوپر کے سطروں میں
لکھا گیا ہے کہ برسوں سے مسلمانوں کو زخموں سے چور چور کرکے رکھا گیا ہے
اور مسلمان اپنی خوشیوں کا ہر تہوار چاہے اس میں جمعہ المبارک ہی کیوں نہ
ہو لہو پوش مناتے آ رہے ہیں، حسبِ روایت ہر دن کہیں نہ کہیں ہمارے زخم ہَرے
کر دیئے جاتے ہیں۔ یوں مسلمان آج بھی لہو لہان ہی نظر آ رہا ہے اور زخموں
سے چور چور لگتا ہے۔ آج بھی کتنے ہی مسلمان خاندان کیمپوں میں پڑے بے
سروسامانی کی حالت میں اپنا وقت کاٹ رہے ہیں، کتنے معصوم جیلوں کی سیر میں
مصروف ہیں، کتنے بے گھر اپنوں کی راہیں تک رہے ہیں، کتنے معصوموں کا سر کا
سایہ اٹھ گیا ہے اور کتنی عورتوں کا سہاگ لُٹ گیا ہے، جو اپنے دینی بھائیوں
کی طرف خوشیوں کی شامل ہونے کے لئے آس لگائے ہوتے ہیں۔ کیا آپ انہیں بھی
اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی کوشش کریں گے؟ اصل خوشی تو جبھی ہوگی جب سب
مل کر خوشیوں کی طرف گامزن ہونگے، اور پھر حقیقی پیغام بھی تو یہی ہے۔ ایسے
حالات میں مزید اگر کچھ پڑھنا ہے تو اس شعر کو پڑھیئے۔
خشک پتّے پر ہے نقشہ دنیا کا
اس کو ماچس سے بچانا چاہیئے
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے ترقی یافتہ مذہب تھا، مسلمان دنیا کی
فاتح قوم تھی، لیکن اکیسویں صدی میں نقشہ بالکل بدل گیا ہے، اسلام کا دائرہ
محدود ہو گیا ہے، مسلمان دنیا کی مظلوم قوم بن گئی ہے، دنیا کے ہر خطے میں
مسلمان پریشان ہیں، ہمارے اسبابِ زوال کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میں سرِ
فرست ہمارا آپس میں اختلاف و انتشار ہے۔ ہمارے داخلی اختلاف سے دشمنوں کو
نہ صرف ہم پر فوقیت مل گئی ہے بلکہ ہمارے خلاف شب و روز کے ہر لمحے میں ان
کی سازشیں ہو رہی ہے، اسلام کو روئے زمین سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے
بنائے جا رہے ہیں، کوئی یہودی کہیں قرآن کی بے حرمتی کر رہا ہے تو کوئی نبی
ﷺ کی شان میں گستاخی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سارا کفر اسلام کے خلاف متحد
ہو چکا ہے، لیکن مسلمان اب تک اس تلخ حقیقت کا ادرک نہیں کر سکے ہیں۔
صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہماری سیاسی بصیرت اور نابالغی کی وجہ سے
کفر کو وسیع پیمانے پر پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے بلکہ ایک جامع منصوبہ
بند حکمتِ عملی کے ساتھ مسلمانوں کو ہر سطح پر تذبذب میں مبتلا کر دیا گیا
ہے۔ہمارے ملک میں اس زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں انفرادی
شخصیات سے بہت بڑھ کر ہوتے ہیں، ہماری سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ ہم
ادارے کے معنوی قوت و افادیت کو اپنی انفرادی حیثیت تلے دبا دیتے ہیں، جس
کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادارے اپنا مرکزی کردار ادا نہیں کر پاتے، ہمارے
مسلم قائدین کو اس حوالہ سے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور غور و فکر کرنا
چاہیئے اور قوم کی خدمت شخصیت و ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر کرنا چاہیئے، صاف
لفظوں می یہ کہ اگر مسلم قائدین مسلمانوں کے تئیں فکر مند ہیں، تو انہیں
اپی ’’ اَنا‘‘ اور شخصیت کے لبادے کو اتارنا ہوگا اور یک صف ہوکر مسائل کو
حل کرنے کے لیئے میدان میں آنا ہوگا۔خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین |