یہ یکم مارچ کی ایک خنک شام تھی، میں اپنے آفس میں اپنے
پیشہ وارانہ امور میں مصروف تھا۔گلگت بلتستان میں ابھی سردی کا زور پوری
طرح ٹوٹا نہیں تھا۔ اچانک مولانا خلیل الرحمان صاحب داریلی میری آفس میں
تشریف لائے۔مجھ سے کہا کہ'' میں نے دو مہینے پہلے ایک خواب دیکھا ہے۔مجھے
حکم ہوا ہے کہ میں اس خواب میں ''دیکھے پیغام'' کو میاں نوازشریف تک
پہنچاؤں مگر ابھی تک کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ہے کہ کیسے ان تک اپنا
پیغام پہنچاؤں؟میں نے ان سے کہا کہ ذرا اپنا خواب تو بتائیں، انہوں نے ایک
خواب سنایا کہ '' اگلی حکومت ن لوگ کی ہوگی ''۔ میں نے ہنس کر ٹال دیا۔ میں
اپنے معمولات میں مصروف رہنے لگا۔ پھر دو ہفتے بعد مولانا دوبارہ آئے۔ وہ
کافی پریشان تھے انہوں نے کہا کہ آپ لکھاری آدمی ہے کوئی سبیل نکالو۔ میں
نے مولانا سے کہا کہ آپ کا خواب بذریعہ خط مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت تک
پہنچا دیتے ہیں اور حافظ حفیظ الرحمان صاحب کو بھی ایک کاپی دے دو۔وہ بھی
ارسال کریں گے۔ میں نے مولانا کے خط کو مختصراً کمپوز کیا اور انہیں تین
کاپیاں پرنٹ دے دی۔ میں مولانا کی باتوں کو دیوانے کی بڑ سمجھتا تھا۔ میں
نے اس کو معمول کا واقعہ قراردیا۔مولانا نے اس خط کی ایک کاپی بذریعہ ڈاک
ارسال کیا اور حافظ صاحب کو بھی پہنچایا۔آئیں پہلے اس خط کو پڑھ لیتے ہیں۔
'' بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ محترم و مکرم جناب نواز شریف صاحب(صدر مسلم
لیگ نون پاکستان)۔ السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ! امید ہے مزاج گرامی
خریت سے ہونگے۔محترم المقام! آپ کی خدمت عالیہ میں ایک خصوصی درخواست ہے کہ''
بندہ ناچیز نے دو ماہ قبل ایک خواب دیکھا ہے۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ
ایک بزرگ جو سفید ریش اور سفید پوش تھا نے فرمایا کہ'' اگلی حکومت پاکستان
میں نوازشریف کی آئے گی' اور وہ برسر اقتدار ہونگے۔ تو آپ ابھی ہی میرا یہ
پیغام ان کو ضرور پہنچائے کہ '' اس ملک کو جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا
ہے سے سود جیسی لعنت سے پاک کردیں''۔ محترم المقام یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ
سود قرآن و حدیث کی روشنی میں قطعاً حرام ہے۔ لہذا آپ اس مسلم ریاست سے سود
جیسی قبیح چیز کو جڑ سے اُکھیڑ کر ختم کردیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
جس نے سود ترک نہیں کیا اس نے اللہ اور اس کے رسول ۖ کے ساتھ جنگ کا واضح
اعلان کیا، اور حرمت سود پر احادیث مبارکہ کی ایک لمبی فہرست ہے۔مجھے امید
ہے کہ آپ مایوس نہیں کریں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔والسلام مع
الاکرام،(مولانا)خلیل الرحمان عفی عنہ، استاد الحدیث و ناظم تعلیمات جامعہ
نصرة الاسلام گلگت، بتاریخ14,03,2013فون نمبر:03555408149''۔
وقت گزرتا رہا، میں بھی اس بات کو تقریباً فراموش کر بیٹھا تھا۔اب جب 2013ء
کے انتخابات ہوچکے تھے ،نواز شریف کو اکثریت مل چکی تھی مگر میں اس سب کچھ
کو بھول چکا تھا۔ کل اچانک سرراہ مولانا نے مجھ سے کہا کہ دیکھا ! آپ میرا
مذاق اڑا رہے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بے حدتعجب ہوا۔میں نے طویل سوچ و
بچار کی ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ سود کے حوالے سے کچھ تحقیق کروں کہ اب تک اس
ملک میں اس کے خاتمہ کے حوالے سے کیا کوششیں ہوئی ہیں۔جب میں نے اس حوالے
سے جاننے کی کوشش کی تو میری معلومات میں کچھ ایسی باتیں آئی جن کا یقینا
مجھے علم نہیں تھا اور خوشگوار حیرت ہوئی اور اس خواب کا اور سفید ریش بزرگ
کے حکم کا پورا پس منظر سمجھ میں آگیا۔مولانا خلیل الرحمان صاحب جامعہ
عائشہ صدیقہ اور جامعہ نصرة الاسلام کے شیخ الحدیث ہیں۔ایک سادہ لوح اور
فقیرمنش انسان ہے۔ جید عالم دین ہے۔نمود و نمائش سے کوسوں دور ہیں۔ذہنی و
نظری سیاست میں جمیعت علماء اسلام کا رجحان رکھتے ہیں اور عملی سیاست سے
میلوں دور ہیں۔آج مجھے ان کے درویش ہونے کا پورا یقین آیا۔ورنہ تو ہم جیسے
لوگ ایسے بزرگوں کی تضحیک میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تمام سودی معاملات قرآن و حدیث کی رو سے حرام
ہیں۔پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا تھا، اس لیے اس ملک کا حق ہے کہ
یہاں اسلامی احکامات نافذ کیے جائے۔سود جیسی قبیح لعنت کے خلاف سب سے پہلے
اس ملک میں قائد اعظم محمد علی جناح نے آواز اُٹھایا تھا۔یکم جولائی 1948ء
کو انہوں نے کراچی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔افتتاحی تقریب
میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ''میں اس بینک کے تحقیقی شعبے کی کارکردگی،
امور اور معاملات وغیرہ کو ذاتی طور پر خود دیکھونگا کہ وہ بینکنگ کے شعبے
کو اسلام کے معاشی واقتصادی اورمعاشرتی اصول و ضوابط کے مطابق ڈھالے۔ مغرب
کے معاشی و اقتصادی نظام نے بنی نوع انسان کے لیے ایسے ناقابل اصلاح مسائل
پیدا کیے ہیں کہ اکثر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہی اس ظالمانہ نظام
سے دنیا کو بچا سکتا ہے یعنی انسانیت کو اس کے عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔''
قائداعظم کی یہ تقریر بہت طویل ہے۔جسے سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا
جاسکتا ہے۔
دسمبر1969ء کو اسلامی مشاورتی کونسل کا ایک اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوا، اس
اجلاس میں طویل غورو خوض اور بحث و مباحثہ کے بعد بینک کے قرضوں، پوسٹل
لائف انشورنش، پرائز بانڈ،سیونگ سرٹیفیکیٹ وغیر ہ سب کے سب کو سود قرار دے
دیا۔اور ان سودی معاملات کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کو کہا۔1973ء میں جب
متفقہ طور پر آئین منظور ہوا تو اس میں بہت ساری اسلامی باتوں کے ساتھ سود
کے خاتمے کی بات آئین کا حصہ بنا اور اس کے خاتمے کی ذمہ داری حکومت کو
سونپ دی گئی۔اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی۔ جنرل ضیاء الحق نے جب
اقتدار پر قبضہ جمالیا تو انہوں نے اپنی پہلی نشریاتی تقریر میں ہی پاکستان
میں اسلامی نظام کو نافذ کرنے کا وعدہ فرمایا۔1981ء میں وفاقی شرعی عدالت
وجود میں لائی گئی مگر افسو س کہ اس پر پابندی لگادی گئی کہ وہ دس سال تک
اقتصادی امور کے حوالے سے کوئی کیس سماعت نہیں کرسکے گی۔ یہ تھی ضیائی
اسلام کی اصل حقیقت اوران کی واضح منافقت 'کہ وفاقی شرعی عدالت سودی
معاملات کو نہ روکے۔اللہ اللہ کرکے جب یہ دس سال اختتام کو پہنچے تو وفاقی
شرعی عدالت نے 14نومبر 1991ء کو ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا کہ بینکوں وغیرہ
کے تمام سود کو حرام قرار دے دیا اور حکومت کو تنبیہ کی کے وہ فوری طور
پراس کے خاتمے کا اعلان کرے۔جب یہ تاریخی فیصلہ ہورہا تھاتو نوازشریف
اقتدار کے'' شیر'' پر براجمان تھے۔وہ اپنے شیر میںسوار ہوئے ،رعونت سے
سیدھے سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچے اور وفاقی شرعی عدالت کے اس تاریخ ساز
فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی کہ یہ غلط ہے۔انا للہ وانا الیہ راجعون! صوم
و صلوة کے پابند نوازشریف سے مسلم عوام یہ توقع نہیں کرسکتی تھی۔خیریہ
سلسلہ چلتا رہا۔ہر آنے والی حکومت سپریم کورٹ سے تاریخ پہ تاریخ لیتی رہی
یعنی سپریم کورٹ سود کے خلاف کوئی فیصلہ نہ دے۔پھر اس ملک میں وہ دن بھی
آیا جب پاکستان کی سپریم کورٹ نے 23دسمبر 1999ء کو وفاقی شرعی عدالت کے
فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے تمام سودی معاملات کو حرام قرار دے دیا۔سبحان
اللہ
معلوم نہیں ہم اللہ کے کس کس عذاب میں کسے ہوئے ہیں۔جب سپریم کورٹ میں یہ
تاریخ رقم ہورہی تھی تو اس وقت جنرل مشرف زمامِ اقتدار سنبھالے ہوئے تھے
بلکہ ہتھیا لیے ہوئے تھے۔یہ تو سود سے بھی بڑا عذاب تھے۔ مشرف نے ایک
سرکاری بینک ''یونائیٹڈ بینک'' کو فرمان جاری کیا کہ وہ کورٹ میں کیس دائر
کرے کہ عدلیہ اس فیصلے کی نظر ثانی کرے۔ پھر کیا تھاسپریم کورٹ کے اس مبارک
فیصلے کے خلاف لمبی لمبی زبانیں کھولی جانے لگی۔کئی ہڈحرام خور وکیل خدااور
اس کے حبیب کے احکامات کے خلاف زبانیں دراز کرنے لگے۔ وفاقی شرعی عدلیہ کو
لتھاڑا گیا۔ نظر ثانی کے نام پر اس مبارک فیصلے کو ردی کی ٹوکری کا خوراک
بنایا گیا۔ پھر ہمیں اس اسلامی ملک میں یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ چیف جسٹس
شیخ ریاض حسین کی سربراہی میں قائم بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کا مبارک فیصلہ
کالعدم قرار دے دیا۔اور اللہ کے ساتھ ہم نے حکومتی و عدالتی طور پر جنگ
شروع کیا۔ 24جون2002ء کا یہ سیاہ دن بھی ہمیں دیکھنے کو ملا۔ یا اللہ معاف
فرما۔اس حوالے سے مزید تفصیلات ہیں ۔بہرصورت مجھے مولانا خلیل الرحمان کے
خواب کا پس منظر سمجھ میں آگیا۔
اس ملک کے درودیوار چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ یہاں نظام اسلام کو نافذ
کیا جائے۔حالات دہائی دے رہے ہیں کہ اگر مسلم قوم کو زندہ رکھنا ہے پاکستان
کو بچانا چاہتے ہو، اس کی سالمیت و بقاء عزیز ہے،دہشت گردی، انتہا
پسندی،افراتفری،نفسانفسی،قتل وغارت اور لوٹ مار ،کرپشن اورآئین کی پامالی
سے بچنا ہے تو اسلام کو عملی طور پر نافذ کردیا جائے۔میں حیران ہوں کہ
ہمارے ارباب اقتداراب تک ایسا کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔کیا اسلامی نظریاتی
کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی صاحب بتا سکیں گے کہ نفاذ اسلام کی راہ میں
کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی عالم دین اس کونسل کا
چیئرمین بنا تھا مگر انہوں نے بھی خاموشی سے مراعات لیتے ہوئے اپنا پریڈ
پورا کرلیا۔ہم نے بڑی جدوجہد سے اللہ سے زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا تھا کہ
ہم یہاں اسلام نافذ کریں گے مگر ہم نے اللہ سے دھوکہ دیا تو اللہ نے ہمیں
مختلف عذابوں میں مبتلا کردیا، اس ملک کے ایک شعبے میں بھی اسلام نافذ نہیں
ہے۔اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اسلام مساجد اور مدارس میں محصور ہوکر رہ
گیا ہے۔ نظریاتی طور پر اب بھی ہم مسلمان ہیں مگر عملی طور پر بالکل ایسا
نہیں۔ کیا آج ہماری دانش گاہوں، علمی اداروں، عدالتوں، سرکاری و غیر سرکاری
محکموں اور قومی اداروں اور گھر گھر سے اسلام کو دھکیل کر باہر نہیں نکالا
گیا اور کھرچ کھرچ کراس کا چہرہ مسخ نہیں کیا گیا۔
آج اللہ تعالیٰ نے نواز شریف کو ایک دفعہ پھر موقع دیا ہے، وہ اس ملک اور
قوم کے ساتھ مہربانی فرماتے ہوئے نفاذِ اسلام کا آغاز کرے۔اور اس کی ابتداء
سود کے خاتمے سے کیا جائے تو کیا ہی بہتر ہے۔سود ی معاملات کرنے والوں کے
بارے میں آپ ۖ کا فرمان ہے کہ'' اس کااقل گناہ اپنی ماں سے نکاح کرنے کا
مترادف ہے۔سورہ بقرہ میں اللہ کا فرمان ہے'' یأیّھا الذین آمنوا اتّقوا
اللہ وذروا مابقی من الربوا اِن کنتم مؤمنین، فِان لم تفعلوا ، فاذَنُوا
بحرب مّن اللہ و رسولہ''یعنی''اے یمان والو! اللہ سے ڈرو اوراگر تم ایمان
پر قائم ہوتو سود(سودی معاملات) میں جو کچھ باقی ہے اس کو چھوڑ دو، اور اگر
تم ایسا نہیںکرو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار
ہوجاؤ''۔جانتے ہو اللہ سے جنگ کتنی مشکل پڑے گی۔ اور پھر اس کے حبیب ۖ
سے۔خمیازہ بھگت رہے ہیں 66سال سے۔
آج اسلام اور پاکستان کو کسی عمربن عبدالعزیز، صلاح الدین ایوبی، اورنگزیب
عالمگیر اور امیرالمومنین ملاعمر جیسے جری لوگوں کی ضرورت ہے جو ملک و
حکومت کے تمام وسائل و ذرائع، اسلام اور نفاذِ اسلام کے لیے وقف کریں۔کیا
نوازشریف ایساکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔ نون لیگ گلگت بلتستان کے تمام ذمہ
داروں بالخصوص حافظ حفیظ الرحمان، سلطان مدد، حاجی غندل شاہ،حاجی فدا محمد
ناشاد ،مخلص کارکنوںاور موسمی پرندوں کی طرح جگہ بدلنے والے لیگی لیڈورں سے
بھی گزارش ہے کہ ہمارا پیغام اپنی مرکزی قیادت کو پہنچاؤ۔شاید ہماری کوئی
نیک امید بھر آئے،اپنی زندگی میں اسلام کی بہاریں دیکھنے کوملے اور اس
واسطے کل روز قیامت اللہ مغفرت فرمادے۔ وماعلینا الا البلاغ
|