کتاب کا نام: شینا لکھنے کی ورک بک
تدوین و تشکیل: شکیل احمد شکیل
سن اشاعت اول: 2013
ضخامت: 66صفحات
قیمت: 200 روپے
پیشکش: شینا لینگویج اینڈ کلچر پروموشن سوسائٹی گلگت'قلندر پلازہ' سنیما
بازار گلگت
ڈسٹری بیوٹرز: نارتھ بکس ' مدینہ مارکیٹ گلگت' المرتضیٰ بک ڈپو، اتحاد چوک
گلگت
زبان کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ اختلاف السنہ کا ذکر تو خدا تعالیٰ نے
قرآن کریم میں بھی کیا ہے۔ زبانوں کا مختلف ہونا ہی حسن ہے۔یہ ایک حقیقت ہے
کہ بعض دفعہ اختلاف السنہ ہی کی وجہ سے ملک ٹوٹتے ہیں اور کبھی کبھار کسی
انقلاب کا باعث بھی یہی زبانیں بنتی ہیں۔ ہمارے سامنے شینا لکھنے کی ورک بک
ہے۔بنیادی طور پریہ کتاب ''زبانی کلامی'' معاشرے کے لیے ورک بک ہے۔شینا
زبان چونکہ اپنی مکمل لطافت و شیرینی اور پس منظر رکھنے کے باوجود ابتدائی
ارتقائی مراحل میں ہے۔زبان دانی کی ترقی کیسے پیدا کی جانی چاہیے اس کتاب
کو اسی تناظر میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس کتاب کا جائزہ لینے کے بعد معلوم
ہوتا ہے کہ زبانی ، کلامی سماج کوشینا لکھنے کی روایت سے آشنا کروانے کے
لیے اور بالغان کے لیے یہ ورک بک زیادہ مفید لگ رہی ہے بلکہ اسی بات کو
ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ ہماری دانست کے مطابق سکینڈری کلاسز اور اس سے ُاوپری
درجے کے طبقات اس کتاب سے بہتر طریقے سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ لسانیات پر کام
کرنے والوں کے لیے بھی اس ورک بک سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ اردور نظام لکھائی
و پڑھائی کے وہ مسائل جو شینا زبان کی لکھائی وپڑھائی میں بھی پیش آرہے ہیں
انہیں بھی کچھ کچھ حل کی طرح راہ سجھائی دیتی ہے۔
بہرصورت یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کے تعلیمی
نصاب ونظام میں مضمر ہے۔ جن قوموں نے اپنے تعلیمی نظام کو درست بنیادوں پر
استوار کیا ہے وہ قومیں آج ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں۔علمی و تعلیمی
ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچے کو ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان
میں دی جائے تو وہ بہتر طریقے سے علمی منازل طے کرتا جاتا ہے۔ڈاکٹر
عبدالسلام پاکستان کے علاقہ جھنگ کے رہنے والے ہیں۔جنہیں نوبل انعام ملا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایف ایس سی کی کوئی بک ساٹھ دفعہ ارود اور انگلش
میں باقاعدہ مختلف استادوں سے پڑھی مگر کتاب کا اصل مفہوم دل میں نہیں اترا،
جب انہوں نے 61ویں دفعہ اپنے کسی استاد سے پنجابی زبان میں پڑھی تو کتاب کی
تمام جزئیات و کلیات دل و دماغ میں اتریں۔ یہ ہے کرشمہ اپنی مادری زبان میں
تحصیلِ علم کا۔پاکستان کے تمام صوبوں میں صوبائی زبانیںداخل نصاب ہیں سوائے
گلگت بلتستان کے۔شومئی قسمت گلگت بلتستان کے ارباب حل وعقد اس بات کی طرف
توجہ ہی نہیں دے پارہے ہیں۔ ہماری درمندانہ اپیل ہوگی کہ گلگت بلتستان کی
مختلف بولیوں کو ابتدائی نصاب میں جگہ دی جائے۔ یہ کام چونکہ اتنا آسان
نہیں ،تاہم اگر سنجیدگی سے اس امر کے لیے کمر کَس لی جائے تو کچھ بھی مشکل
نہیں۔ حکومت اس ضمن میں حکومت سندھ اور پنجاب سے رہنمائی لے سکتی ہے کہ
انہوں نے اپنی علاقائی بولیوں کو کیسے اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا۔حکومت
اگر سنجیدہ ہو تو صرف ان اضلاع ، جہاں ''شینازبان'' بولی جاتی ہے کے لیے
ابتدائی نصابی کتب تیار کروا کر تجربہ کرسکتی ہے ۔ اگر یہ تجربہ مفیداور
خوشگوار ثابت ہوا تو، شیناکی طرح بلتی' کھوار'بروشسکی اور وخی وغیرہ کو بھی
نصاب کا حصہ بنا سکتی ہے۔ گلگت بلتستان کی اکلوتی یونیورسٹی میں بھی
علاقائی لسانیات کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا جاسکتا ہے۔اس ضمن میں شینا لینگویج
اینڈ کلچر پروموشن سوسائٹی گلگت ' محکمہ تعلیم گلگت اور قراقرام انٹرنیشنل
یونیورسٹی کے لیے بہتر خدمات انجام دے سکتی ہے۔اور یہ تینوں شعبے مل کراس
حوالے سے کوئی مرکزی کردارادا کرسکتے ہیں۔ دل کی ایک ارمان ہے کہ کتنی
خوبصورت بات ہوتی جب ''قرآن کریم اور احادیث مبارکہ'' کی معروف کتب کا شینا
زبان میں ترجمہ کیا جا تا اور لوگ اپنی مادری زبان میں قرآن و احادیث کی
لطافت و شرینی سے محظوظ ہوتے۔آج نہیں تو آنے والا کل ایسا ہوگا ، انشاء
اللہ
٭٭٭ |