ابھی میں بزم میں آیا ابھی کہاں بولا

قرآنِ مجید ایک حکیمانہ کتاب ہے ۔ اِس کا یہ وصف ہے کہ اِس کے ذریعہ جو حکمت و دانائی کے درس ہمیں حاصل ہوتے ہیں، وہ انتہائی بے مثال،بڑے غیر معمولی ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خودارشادفرمایا ہے:یٰس والقرآن الحکیم۔’’یٰس، قسم ہے اس قرآن کی جو حکمت سے بھر پور ہے۔ ‘‘ یعنی حکمت سے بھر پوراپنی اِس کتاب کی ربِّ کائنات نے قسم کھائی ہے۔اِنسان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات کے لئے ہمیں اس میں حکیمانہ درس ملتے ہیں۔اس سے صرف تھوڑا سا مانوس ہوجانے کی ضرورت ہے کہ اِس کی حکیمانہ تعلیمات پرتدبر کرتے ہوئے ہم اپنی زندگی کے ہر واقع کو اپنی اُخروی زندگی کا زادِ سفر بنا سکتے ہیں۔

سورۂ نساء(۴) کی ایک سو چودھویں آیت میں ارشاد فرمایا گیا:’’اِنسانوں کی اکثر مجلسوں میں کوئی خیر نہیں ہوتا ،بجز( ایسی مجلسوں کے،کہ) ، جہاں صدقات کا حکم دیا جارہاہویا معرو ف اور بہتر سماجی آداب طے کئے جا رہے ہوں، یاسچ کوبڑھاوا دیاجارہا ہویافلاحی اُمور طے کئے جارہے ہوں اور اِنسانوں کے درمیان اِصلاح اور رفاہی کام ہورہا ہو اور اﷲ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر جو یہ کام کرے گا، تو اُسے ہم ضرور اجرِ عظیم سے، زبردست اِنعام سے نوازیں گے۔ ‘‘(۱۱۴)۔

اِنسان ایک سماجی مخلوق ہے اور لفظ ’’ اِنسان‘ ‘قرآن حکیم کا لفظ ہے۔ جیسا کہ اس لفظ کے مادّے سے واضح ہے ،یہ اپنی تفصیل آپ ہے یعنی انسان کو انسان کہتے ہی اس لئے ہیں کہ وہ اپنی ہی جیسی مخلوق کے لیے اپنے سینے میں اُنسیت کے جذبات رکھتا ہے اور اُس کی طرف وہ کھنچتا ہے تو ایک طرح کے تال میل کی کیفیت اِن کے درمیان پیدا ہو جاتی ہے۔ مجلسوں کا اِنعقاد اور اُن میں شرکت انسانی سماج کا خاصہ ہے۔آئے دن ہر شخص کو کسی نہ کسی مجلس میں بہر صورت شرکت کرنی پڑتی ہے، جو مختلف النوع ایجنڈوں کے تحت انعقاد پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ آیت پر غور کیجیے گا تو معلوم ہوگا کہ مختلف عنوانات کے تحت منعقد ہونے والے اجتماعات کو ایک باشعور اور دانشور انسان چاہے تو انہیں فائدہ مند اور ثمر آور بنا سکتا ہے۔ گویا اس آیت میں ایک سود مند مجلس کے انعقاد کا فارمولہ دیا گیا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ آج کل مجلسوں کا انعقاد روز افزوں ہے۔ضروری نہیں کہ ہماری ہر مجلس اپنے مقصد اور اہداف میں کامیاب بھی ہو جائے۔کامیابی دور کی بات ہے کبھی کبھی تو اِن کے بالکل الٹے ہی نتائج برآمد ہو تے ہیں۔ پھر یہ کہ بعض مجالس ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان میں ہم شریک تو ہوتے ہیں مگرہمارے بس کی بات نہیں ہوتی کہ ان مجالس کو ہم ہماری اپنی مرضی کے مطابق چلائیں اور کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں۔ربِّ کائنات کے مذکورہ بالا بیان میں اِس حقیقت سے پردہ اُٹھایا گیا ہے کہ اصلاً وہ کونسی مجالس ہیں جن کے مقدر میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ زندگی کے روزمرہ کے مشاغل کے دوران ہم یہ جو مختلف قسم کی مجلسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں، ہمارا تجربہ ہے کہ بیشتر مجالس کے انعقاد یا Proceedings میں ہماری مرضی اور خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ چاہے یہ مجالس کٹی پارٹیوں Kitty Parties پر مشتمل ہوں یا کسی ہاؤزنگ سوسائٹیوں یا کسی محلہ کمیٹیوں سے جڑی ہوئی کوئی میٹنگ ہی کیوں نہ ہو، مختلف کاروباری انجمنوں کی مجالس ہوں کہ ایوانِ حکومت کے گلیاروں سے تعلق رکھنے والی کوئی نشست یا کوئی بین الاقوامی سطح کا اجتماع ہی کیوں نہ ہو۔آیتِ شریفہ میں رب تعالیٰ نے اِرشاد فرما یا ہے کہ مجلس جو بھی ہو ان مجالس میں سے صرف تین قسم کی مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جن میں رب تعالےٰ نے خیر رکھا ہے۔اِن کے علاوہ دوسری کسی بھی طرح کی میٹنگ یا کسی بھی ایجنڈے کے تحت منعقد ہونے والی کوئی مجلس خیر سے خالی ہی ہو گی، قطع نظر اِس سے کہ وہ دُنیاوی اعتبار سے کامیابی سے ہمکنار ہونے والی مجلس ہو یا ناکام مجلس۔

آئیے رب کے مقرر کردہ ان تین ایجنڈوں پر ہم غور و فکر کرتے ہیں، جن کے مقدر میں کامیابی ہی کامیابی ہے(ہم نے الفاظ کی رعایت سے ممکنہ مفہوم کو لینے کی کوشش کی ہے):

اولاً، ایسی مجلس جس کے ایجنڈے میں صدقات کا حکم شامل ہو، سچ کو بڑھاوا دینے کی شق ہو،کچھ فلاحی اُمور سے متعلق گفتگو پیش نظر ہو۔ عام طورپر اُردو میں لفظ’’ صدقہ‘‘ کے ایک ہی معنی لئے جاتے ہیں،جبکہ بنیادی طور پریہ قرآن شریف کا لفظ ہونے کی وجہ سے اپنے اندر معانی کی ایک دُنیا رکھتا ہے۔ حتمی صدقہ کو عملاً ،قولاً اور فعلا ً ادا کرنے کے معنی میں بھی لیا جاتا ہے۔رب تعالیٰ کی وحدانیت،آخرت کے حساب کا برحق ہونااور سچے اعمال بھی اسی معنی میں ہیں۔اگر دوسرے الفاظ میں اس لفظ کو سمونے کی کوشش کریں تو ہر وہ مثبت اور تعمیری سرگرمی جس کی بنیاد سچ پر ہو،صداقت اور حقیقت پر ہو، فلاح ورفاہ پر ہو۔نقصان دہ اور تخریبی ایجنڈوں کا تو یہاں کوئی سوال ہی نہیں اُٹھتاکہ اس میں اِنسانیت کے لئے کوئی نفع بخش چیز اور کوئی خیر نہیں ہوا کرتا۔

ثانیاً، ایسی مجلس جس کے ایجنڈے میں معرو ف بہتر سماجی آداب کے طے کئے جا نے کی شق شامل ہو۔ انسان کی فطرتِ سلیمی میں رب تعالیٰ نے شر اور خیر میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھ دی ہے۔رب تعالیٰ نے سورۂ مریم(۹۰)میں فرمایا:’’اور ہم نے انسان کو دونوں راہوں کی تمیز بھی ودیعت کردی۔‘‘(۱۰)۔یہ اور اس نوعیت کے کاموں کے لیے منعقد کی جانے والی مجالس میں ہمارے رب نے خیر ہی خیر رکھا ہے۔

ثالثاً، ایسی مجلس جس کے ایجنڈے میں انسانوں کے درمیان ’’اصلاح اور رفاہِ عام‘‘ کے کام انجام دیے جانے کے اُمور شامل ہوں۔صلح صفائی،اِنسانوں کے آپسی ’’تنازعات کے تصفیہ‘‘ جیسے معاملات سے لے کر تمام اصلاحی کام اس میں شمار ہوسکتے ہیں۔ اس نوع کی مجالس میں رب تعالیٰ نے خیر ہی خیر رکھا ہے۔

اِنسانی معاشرے میں کوئی خاندان یا فرد اگر ان تین ایجنڈوں کے تحت یا ان میں سے کسی ایک کواپنی مجالس کا محرک بناتا ہے تو بلا شبہ یہ اُس کے لیے باعثِ خیر ثابت ہوگا، قطع نظراِس سے کہ معاشرہ مومن ہے یا غیر مومن۔ مگر انسانوں میں سے جو ایمان والے ہیں،وہ دوہرے خیر کے مستحق ہو جاتے ہیں۔وہ اِس دُنیا کے خیر بھی سمیٹ لیتے ہیں اورآخرت کا دائمی خیران کا مقدر بن جاتا ہے۔ بشرطیکہ مومن اپنی ہر دنیوی سرگرمی کے دوران اپنی حقیقت سے مانوس ہوجائے،اپنے رُخ کو درست کرلے۔ اس طرح وہ محض کسی ایک مجلس ہی کو نہیں بلکہ اپنی زندگی کے ہر واقع کو اپنی دنیا کے لیے اور اپنی آخرت کے لئے نفع بخش بنا کر رہے گا۔

دُنیا کا یہ روز مرہ کا معمول ہے کہ ہر شخص علی الصبح رب تعالیٰ کے فضل کی تلاش یاتلاشِ روزگار میں نکل پڑتا ہے۔ظاہر ہے یہ کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔تاہم اگر وہ ایک مومن ہو اورجستجوئے معاش کے لیے نکلے تو لازماً وہ اپنی اس تگ و دو کواپنی آخرت کی پونچی جمع کرنے کا بھی ذریعہ بنا کر رہے گا۔کیونکہ آخرت میں جواب دہی کاتصور اُس کے دل و دماغ پر چھایا رہے گا،اُس کی نیت اوراُس کے معاملات ٹھیک سمت اختیار کریں گے،وہ کسب معاش میں تو مصروف رہے گاہی، مگروہ دُعاؤں ، خوفِ خدا، صبر وشکر، توکل و قناعت کے جذبات کے ساتھ دن بھر کی سرگرمیوں میں دُنیا بھی کما لے گا اور آخرت کی پونجی بھی جمع کر لے گا۔ اس کی سوچ، رویہ اور شخصیت اور اُس کے اخلاق و معاملات پکار پکار کر گواہی دیں گے کہ یہ فرد آخرت کا سودائی ہے۔اُس کے کردار میں نکھار کی ایک دلفریب جھلک چاروں جانب پھیل کر دعوت نظارہ دے گی۔رزق تو اسے اُسی قدر حاصل ہوگا،جو رب تعالیٰ نے اسکے لئے لکھ دیا ہے، لیکن تلاشِ معاش کے دوران اُس کے منفرد کردار کے سبب سوسائٹی میں اُ س کی امانت داری اور وقار کی دھاک دلوں میں بیٹھے گی۔کسب معاش کے نئے دروازے اُس پر وا ہوں گے،اور مواقع Opportunities خود چل کر اُس تک آ پہنچیں گی۔جو کسی دنیا دار کے بس کی بات نہیں ہو سکتی۔ اﷲ نے سورۂ طلاق(۶۵)میں بیان فرمایا ہے:’’……اور جو اﷲ سے ڈر تا رہے گا ،اپنی ہرسرگر می میں،تقویٰ کی روش اِختیار کر رہا ہوگا،تو اﷲ پریشانی کے معاملات میں اُس کے لئے باہر نکلنے کا راستہ Exit بنادیگا اور اسے ایسی جگہ سے رزق، Provisionsفراہم کریگا،جس کا اِس نے سوچا بھی نہ ہوگا، اور جوکوئی اﷲ پر توکل کرتا ہو ، اُس پربھروسہ کرتا ہو،تو اﷲ اس کو کافی ہوجائے گا……(۳اور۴)‘‘۔

مسئلہ دراصل یہ ہے کہ کتاب اﷲ سے ہمارا تعلق بڑا کمزور ہوگیا ہے۔ نتیجتاً ہماری سوچ ،ہماری فکر اورہماری ذہنی ساخت میں بھی کمزوری در آئی ہے۔

حکمت کے جگنو تو ہیں، لیکن دانش و دانائی کی کوئی چمک ان سے نہیں نکلتی۔ہمارے کردار کا بودہ پن اور ہماری شخصیت کی بے وزنی قدم قدم پر اس حقیقت کی چغلی کھاتی دکھائی دیتی ہے کہ اﷲ کی حکیمانہ کتاب سے ہماری غفلت عروج پر ہے۔کسی سمت سے بھی ہم پر کامیابی کا کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔

محض اس ایک آیت ہی پر غور کر جائیے جس میں بظاہر مجلسوں کے تین ایجنڈوں ہی کی بات درج نظر آتی ہے، لیکن حقیقتاً یہ آیت ہماری پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔جن تین مقاصد کے لیے مجلسوں کے انعقاد کی بات کہی گئی ہے ، اُن کا لبّ لباب یہ ہے کہ انسانوں کی سرگرمیوں کا محور صرف اور صرف’’ انسانوں کی خدمت‘‘ ہے ،جسے عرفِ عام میں خدمت خلق یا خدمت اِنسانیت کہتے ہیں۔اِنسانیت کی نفع بخشی کے کاموں کی انجام دہی کی ترغیب ہمیں کتاب اﷲ میں جا بجا ملتی ہے۔حضرت انسان سے ،جسے اشرف المخلوقات کا لقب ملا ہوا ہے،رب تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے،اور خصو صاً ایسے انسان سے جو اپنے جیسے انسانوں کے کام آتا ہے۔اِنسان کا یہ عمل خالق و مالکِ انسانیت کی خوشنودی کا باعث بنتا ہے۔ اپنے بندے کی یہ سرگرمی اُسے بے حد خوش کردینے والی ہے۔جنابِ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں خدمت خلق کی سرگرمیوں میں آپؐ کی ذاتی دِلچسپیوں کے واقعات پر مشتمل بہ کثرت تذکرے ہمیں کتب ِ احادیث میں جا بجا ملتے ہیں۔سورۂ مائدہ(۵) میں حکم دیا گیا ہے:’’……نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہو،اور گناہ، سرکشی و زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دینا، تعاون نہ کرنا(۲)……‘‘

اِنسان ایک مہذ ب و منظمOrganised مخلوق کا نام ہے ۔ دیگر افراد سے وہ متنوع قسم کی رشتہ داریوں کے ساتھ منسلک رہتا ہے۔ اس کا اپنا ایک خاندان ہوتا ہے اور ایسے خاندان ایک معاشرے کو وجود میں لاتے ہیں۔اس پورے Set upمیں وہ دیکھتا ہے کہ اس کی اپنی ایک حیثیت اُبھررہی ہے اور اسے اپنی اِس دنیوی زندگی میں طوعاً و کرہاًکئی رول ادا کرنے پر آمادہ کررہی ہے۔پھر اس کے یہ رول اس کی عمر کے مختلف مدارج کے دوران بدلنے بھی لگتے ہیں۔ کبھی وہ اولاد کے رول میں ہوتا ہے، کبھی وہ والد کا رول نبھانے لگتا ہے۔ اس کی زندگی کبھی ذاتی زندگی کے دائرے میں مصروف کار رہتی ہے اور کبھی وہ ایک خاندانی زندگی سے وابستہ ہو کر اپنے رول کو ایک نئی جہت بخشتا ہے۔اُس کی نجی زندگی بھی اُس سے کچھ ذمہ داریاں ادا کرواتی ہے تو کبھی اُس کی عوامی زندگی اُسے ایک اور اہم رول ادا کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔چاہے جو رول بھی وہ نبھا رہا ہو،ہر رول میں اس کی شخصیت سے ایک مثالی رول ادا کروانے کے لیے کتاب اﷲ آگے بڑھتی ہے اوراُسے وہ آداب و سلیقہ شعاری سکھاتی ہے جو با لآخر اُس کی شخصیت کو ایک مثالی شخصیت میں ڈھال کر دم لیتی ہے اوروہ تمام رہنمایانہ خطوط فراہم کرتی ہے، جن کی اِس سلسلے میں ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کتاب اﷲ کی تلاوت ہمارا معمول بن جائے،اِس سے جو ہماری اجنبیت ہے وہ ختم ہو جائے تو کتاب اﷲ کا یہ معجزہ یقیناہمارے تجربہ میں آئے گا کہ زندگی کے ہر موڑ پریہ ہماری رہنمائی کر رہی ہے،اِس کے مضامین موقع و محل کے حساب سے ذہن و قلب میں تازہ ہو رہے ہیں۔ قدم قدم پر وہ ہمیں کبھی خوشخبریاں سنا رہی ہے تو کبھی ہماری خطاؤں پر ہمیں متنبہ کررہی ہے۔رب تعالیٰ نے اِجتماعی سرگرمیوں کے لئے سورۂ(۵۸) میں فرمایا:’’اے ایمان والو!جب تم سے کہا جائے کہ مجالس میں،اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے لئے جگہ کرو،تواﷲ تمہارے لئے کشادگی پیدا کرے گا اور جب کہا جائے کہ( نیکی کے اِجتماعی کاموں کے لئے) کھڑے ہو جاؤ،تو اَس کے لیے اُٹھو ۔ اﷲ تم میں سے ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا،جو ایماندار ہیں،اورانکے بھی جو علم سے نواز دئے گئے ہیں اور اﷲ تمہارے تمام اعمال سے،تمام سرگرمیوں سے باخبر ہے(۱۱)۔‘‘

دراصل ہمارا رب زندگی کے ہر پہلو میں ہم میں ایک مثبت ترقی کا خواہشمند ہے۔جس سماج میں ہم رہتے بستے ہیں،اس کے اجتماعی اُمورمیں ہماری شرکت کو اور اس کے مختلف معاملات میں اپنے مثبت رول کوادا کرنے کو ہم نہ صرف یہ کہ ایک دینی ذمہ داری ،بلکہ ایک سعادت سمجھیں۔اِن ذمہ داریوں سے پہلو تہی سے گریز کریں۔اپنی اہلیت و قابلیت کے بموجب ہم اپنے آپ کوجس خدمت کے قابل سمجھیں، ادا کریں اور بخوشی ادا کریں۔یہ مناسب نہیں کہ کوئی ہم سے ہماری کسی صلاحیت و قابلیت کی بنا پر ہم سے کسی خدمت کی توقع کرے اور ہم اس سے صرفِ نظر کردیں۔ہمیں قطعاً کسی ذمہ داری کی ادائیگی سے جی نہیں چرانا چاہیے۔اجتماعی اُمور میں ہماری لامحالہ دلچسپی ہماری ذات کو انسانوں اور انسانی سوسائٹیوں کے لیے مفیدResourceful بنادے گی۔ایک عرصہ ہوا ہم دوسرے کے لیے مفید بننا چھوڑ چکے ہیں اور اس کے برعکس ہم دوسروں سے فائدہ اٹھانے کو اپنی قابلیتوں کی معراج سمجھتے ہیں۔

عوامی زندگی کے تعلق سے ایک اور نہایت ہی اہم آیت کا مطالعہ فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ سورۂ نور(۲۴) میں رب تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:’’……اور ایمان والوں کی یہ شان ہونی چاہئے کہ کسی اجتماعی معاملے میں حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوں،تواس وقت تک اٹھ کرنہ جائیں،جب تک آپؐسے اس کی اجازت نہ لے لیں……‘‘(۶۲)کسی بھی اجتماعی کام میں اپنے ذمہ دار کو ہمارا اعتماد ہونا چاہیے۔کسی اجتماعی کام میں اپنے ذمہ دار کو تعاون کا یقین دلایا جائے اورعین وقت پر اپنے آپ کو غائب کر لیا جانایا الگ کر لیا جاناانتہائی درجے کی غیر ذمہ داری اور پہلو تہی ہے۔ اسی طرح مجلسی آداب کے خلاف یہ بات بھی ہے کہ جب تک مجلس کی برخواستگی کا اعلان نہ ہو، شرکائے مجلس اٹھ کر مجلس کی درہمی کا جوکھم نہ اٹھائیں۔ اگر واقعی ایمرجنسی کا کوئی معاملہ ہو یا کوئی ایسا عذر ہو جس کی شریعت اِجازت دیتی ہوتو ذمہ داروں سے اجازت لیکر مجلس سے نکلا جا سکتا ہے۔

’’……اِن دنوں ہمارے ملک میں جو اِنقلابات رُونما ہو رہے ہیں اور انسانی خدمت گاروں کے جو غول کے غول اِسی معاشرے سے نکل کرہمارے سامنے نمودار ہورہے ہیں اور پانی اوربجلی( روشنی) جیسی نعمتوں سے اِنسانوں کو مالامال کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں…… حالانکہ اِن کے پاس ’’ کتاب ِ ہدایت‘‘ جیسی کوئی قوتِ محرکہ یا قوتِ نافذہSanction بھی موجود نہیں ہے اور ایسے کسی محرک کے نہ ہونے کے سبب کسی وقت بھی اِس قافلے کے جوش و ولولے کے ٹھنڈا پڑ جانے کا اندیشہ لاحق ہے……! ایسے میں ہمارا حال کیا ہے؟ خود کو کتاب ِ ہدایت کے علم بردار سمجھنے والے ہم لوگ،دربہ در کی بھیک سے اپنے دامن کو بھرنے کی بے مصرف کوششوں میں مصروف ہیں۔کیاکبھی ہمیں بھی اِس تڑپتی بلکتی اِنسانیت کا خیال ستاتا ہے؟ اِنسانوں کی ہدایت کی پیاس بجھانے کی کبھی ہمیں بھی توفیق نصیب ہوتی ہے……؟ اِنسانیت کی تاریک زندگیوں کو ہدایت کے اُجالوں سے روشن کرنے کا کیا کبھی ہمیں بھی خیال ستاتا ہے……؟ کب تک ہم یوں ہی کتاب ہدایت کو بغل میں دبائے چین سے بیٹھے رہیں گے……؟ ـ‘‘

Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83460 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.