’’مناظرہ و مباہلہ‘‘ چند تجاویز

اب کی بار پھر دھرتی کا خون گرم ہورہا ہے۔مولانا لدھیانوی صاحب اور آغا راحت صاحب کی تقاریر اورا خباری بیانات نے نوجوانوں کو شعلہ فشاں بنا دیا ہے۔سوشل میڈیا میں ایک شور بپا ہے۔اخباری تراشے لمبے لمبے کمنٹس کے ساتھ پوسٹ ہورہے ہیں۔شیئر کیے جارہے ہیں۔موبائلوں میں لدھیانوی صاحب اور آغا صاحب کی تقاریر سنی جارہی ہیں۔مساجد ایکٹ کی منظوری کے بعد، ہونا تو یہ چاہیے تو کہ حکومت اس پر مکمل عملداری کرواتی ، مگر اے کاش ایسا نہ ہوسکا۔اہل تشیع نے فقہ جعفریہ کے قائد ین کو گلگت بلایا اور پورے جی بی میں مجالس اور پروگرامات منعقد کروائے۔ رہی سہی کسر فیصل رضا عابدی نے نکال دی۔ فیصل رضاعابدی نے وہ زبان استعمال کی کہ گلگت بلتستان کی عوام اور سیاسی قیادت دھنگ رہ گئی۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کو سخت تردیدی بیان جاری کرنا پڑا۔اب کیا تھا کہ اہل سنت والے بھی موج میں آگئے اور انہوں نے بھی اپنے مرکزی قائدین کو بلاکر ایک بڑا پروگرام منعقد کروایا اور تلخ زبان استعمال کی گئی۔اس کے بعدایک دوسروں کے خلاف اخباری بیانات کا سلسلہ جاری ہوا۔مناظرہ اور مباہلہ کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔پولو گروانڈ اور گھڑی باغ میں میدان سجانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ ہر دوسرا آدمی حیران بھی ہے پریشان بھی۔ میں خود سوچ رہا ہوں کہ آخر ہمیں کیا ہوا ہے، ہم کس سمت کو چل نکلے ہیں۔

گلگت بلتستان میری دھرتی ہے ۔ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں۔میری دھرتی کے مجموعی فرقہ وارانہ ماحول کے اثرات اب یہاں کی سیاست وصحافت اور تجارت و تعلیم میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔تعلیمی اداروں کا برا حال ہے۔ وہاں تعلیم بعد میں فرقہ پرستی پہلے ہے۔اخبارات نے قوم کو ایک ہیجان میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہے۔اہل تشیع اور اہل سنت نے آج تک اسماعیلی برادری سے کامیاب معاشرتی زندگی کے حوالے سے تھوڑا سا بھی سیکھنے کی زحمت نہیں کی۔مباہلہ اور مناظرہ کا ایک اخباری دور کچھ سال پہلے بھی چل نکلا تھا اور اب کی بار اس نے بلوغت کے بعد مکمل پَر نکالنے شروع کیے ہیں۔دونوں اطراف سے تیاریاں جاری ہیں۔علمی کتابوں کوجمع کیا جارہا ہے۔ حوالے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ ایک دوسروں کو زیر کرنے کی تراکیب اور ہنر سیکھے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام حیران ہے۔ انتظامیہ تماشا بین ہے۔اور ایک نادیدہ قوت کھلکھلا کر ہنس رہی ہے۔ کیوں کہ اس کا گُر کارگر ثابت ہورہا ہے۔ یہ کوئی اچھا شگون نہیں !یہاں ضابطہ اخلاق اور امن معاہدہ بنا مگر حکومت کی سرپرستی میں ان دونوں کا جنازہ نکالا گیا۔کیا اس دھرتی میں عدالت و قانون نام کی کوئی چیز نہیں ؟آخر سب کیوں خاموش ہیں؟ نوجوانوں بالخصوص کم عمر طالب علموں کو جیلوں اور عدالتوں میں گھسیٹنا کیوں ضروری خیال کیا جاتا ہے؟ پھر ان پر لاکھوں خرچہ کرکے باہر نکالا جاتا ہے۔ کاش اس رقم سے کوئی تعلیمی ادارہ ہی منیج کیا جاتا۔

مناظرہ اور مباہلہ کے حوالے سے چند ایک گزارشات اہل تشیع اور اہل سنت کے سرکردہ لیڈران اور علماء و شیوخ سے کرنی کی جسارت کرونگا اس نیت سے کہ اﷲ مجھے اس کے عوض ثواب عطا کرے۔ ہمارے ملک میں 2010ء کو اٹھارہویں آئینی ترمیم ہوئی تھی۔ اس ترمیم کے لیے پارلیمانی کمیٹیاں بنی تھی اور اسمبلی میں تمام سیاسی پارٹیوں نے کھل کر ان ترامیم پر مباحثہ کیا تھا۔ اور آخر میں اتفاق رائے سے ایک رزلٹ سامنے آیا تھا۔جب تک مکمل یکجہتی اور اتفاق نہ پایا گیا تھا اس وقت تک اس تمام تر کاروائی کو خفیہ رکھا گیا تھا اور میڈیا کو خبر تک نہیں لگنے دیا گیا تھا۔اگر اہل تشیع اور اہل سنت کے زعماء واقعی مخلص ہیں تو وہ اس طرح کی مناظرے کا اہتمام کریں۔ گلی کوچوں میں مناظرے اور مباہلوں سے لوگ آپ کے لیے محبت کے بجائے نفرتیں پال لیں گے۔فرقہ واریت اورمناظرہ کا یہ معاملہ چونکہ ملکی ہے ، صرف گلگت بلتستان کی سطح کا نہیں اس لیے سپریم کورٹ آف پاکستان اور قانون ساز اسمبلی اہل علم ،قانونی و آئینی ماہرین ،وکلاء اور ججوں پر مشتمل ایک جاندار کمیٹی تشکیل دیں۔اور یہ کمیٹی مناظرہ اور مباحثہ کے اصول طے کریں۔ اور یہ واضح ہو کہ کن خطوط پر مناظرہ ہونا چاہیے۔ پھر دونوں فریقین کے علماء کو بلایا لیا جائے اور ان کی تمام گفتگو کو باقاعدہ ریکارڈ کیا جائے ۔ ایک ایسا پرسکون اور مہذب ماحول مہیا کیا جائے کہ دونوں فریق اپنے اپنے دلائل اور خدشات آزادانہ طور پربیان کریں۔ مباحثے کو حتمی شکل دینے تک کوئی فریق میڈیا پر نہ آئے۔ اس تمام کاروائی کے بعد کمیٹی مکمل سفارشات بنا کر قومی اسمبلی میں پیش کریں اور قومی اسمبلی ان سفارشات پر باقاعدہ قانون سازی کریں اور آئینِ پاکستان میں لکھ دیا جائے کہ آئندہ یہ ریاست کی پالیسی ہوگی۔مبصر ین کے طور پر اس علمی مباحثے میں فوجی قیادت،حساس اداروں کے ذمہ داران اور انتظامیہ و ریاست کے سربراہان کو بھی بٹھایا جائے۔

ریاست کی نگرانی میں ہونے والے والے مبا حثے میں جونتائج سامنے آئیں ان کی روشنی میں قانون سازی کرکے یہ باقاعدہ طے کرنا ہوگا اور آئین کا حصہ بنانا ہوگا کہ تکفیر صحابہ و اہل بیت کے بعد بھی انسان اسلام کی چاردیواری کے اندر ہوتا ہے یا باہر ؟ قائلینِ تحریفِ قرآن کا کیا حکم ہے؟ امہات المؤمنین و اہل بیت کے خلاف زبان درازیوں کا کیا حکم ہے اور ایسے افعال رذیلہ میں ملوث لوگوں کی کیا سزا ہے۔امامت اور خلافت کا قضیہ کیا ہے؟ شرعی نصوص کیا ہیں اورفروع کیا ہے؟شرعی نصوص کے ساتھ چھیڑنے والوں کا حکم کیا ہے؟نصوص پر کیسے عمل کیا جائے گا اور فروعات کو کس حد تک دبایا جائے؟ کون شہید ہے کون مردار ہے؟ پاکستان میں منعقد کی جانے والی مذہبی جلسہ جلوسوں کا شرعی حکم کیا ہے؟ ان جلوسوں کو موقوف یا محدودکیسے کیا جاسکتا ہے؟قران وسنت اور اھل بیت عظام کی تعلیمات ان جلسہ جلوسوں کے بارے میں کیا ہیں؟کیا مسلک و مذہب کے نام پر سیاست کی جانی چاہیے؟کیونکہ ہمارے ہاں مذہب کو بیدردی سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔مملکت کی اختیار کے بغیر کوئی کسی پر کفر و ارتداد کا فتویٰ صادر کریں تو اس کی سزا کیا ہوگی اور فتویٰ کا اختیار کن لوگوں کو ہونا چاہیے؟ملت اسلامیہ کا اجتماعی تصور کیا ہے؟ اور اس کے تقا ضے کیا ہیں؟ ریاست پاکستان کے شہری ہونے کے حوالے سے کیا فرائض و واجبات عائد ہوتے ہیں؟اور یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ کس حد تک ریاست کی اطاعت لازم ہے اور کہاں اور کب بغاوت کی راہ نکلتی ہے؟محرم الحرام ، ربیع الاول اور رمضان المبارک جیسے مقدس مہینوں میں ہونے والے اجتماعات و حفلات کے لیے بھی شفاف اور واضح اصول و ضوابط طے کیے جانے چاہیے۔ ان جیسے کئی متنازعہ امو ر و سوالات ہیں جو دھرتی ماں میں کشت و خون اور مذہبی منافرت کے باعث ہیں ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔اگر ریاست پاکستان کے لئے ایسا کیے جانا ممکن نہیں تو پھر یہ بازاری مناظروں،مباہلوں، چیلنجوں، مباحثوں، مسلکی فتاؤوں، تکفیری نعروں، بینروں،پمفلٹوں، کتابوں،سی ڈیز، مجلسوں،خطبوں جو منافرت ومخاصمت کی ترویج کرنے کا سبب بن رہے ہیں کو سختی سے روکنا ہوگا۔کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتاہے۔ آخر ہم کب تک زوال کی سیڑھیاں چڑھتے رہیں گے۔میں نے اپنے علم اور مشاہدہ کے مطابق خلوص دل سے یہ تجاویز پیش کی ہے۔میرے بڑوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبھی انتہائی سنجیدگی سے ایک طالب علم کے سوالات اور تجاویز پر غور کرنا چاہیے۔

ہم حیران ہیں کہ اہل تشیع بھی اخباری بیانا ت میں علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم خلفائے راشدین کو کچھ نہیں کہتے۔ تحریفِ قرآن کے قائل نہیں ہیں۔ آخر یہ معمہ کیا ہے جو اہل سنت والے کئی سالوں سے کھڑا کر رہے ہیں اور ہر چوک پر مناظرے کی دعوت دیتے ہیں۔انقلابِ ایران کے بعد اس میں مزید شدت آئی ہے۔ بقول آغا راحت الحسینی صاحب کے کہ اہل سنت والے ملک کے ہر شہر میں ، ہر گلی اور چوک میں مناظرے کی چیلنج دیتے ہیں۔ اب کی بار گلگت میں آکردی ہے لہذا ہم بھی مجبور ہیں کہ چیلنج قبول کریں۔میری دونوں فریق سے گز ارش ہے کہ خدا رسول اور اہل بیت و صحابہ کرام کے واسطے اس مناظرے کو کسی فرقہ کی جیت ہار کا مسئلہ نہ بنائیں ۔ اسلام کی خاطر ، اس ملک کی خاطر اور اس قوم کی خاطر، آپ لوگ ایک دوسروں کو لتاڑنے،للکارنے اورکوسنے کے بجائے ایک آئینی راستہ اختیار کریں۔اس ملک میں ایک آئینی نظام ہے۔ ایک مضبوط آئین ہے، ایک منظم فوج ہے، ایک فعال عدلیہ ہے۔ اور آزاد میڈیا بھی۔ جمہوریت کی پٹری پر چلنے والی ایک حکومت بھی ہے۔کریم ذہنوں سے تیار کی جانے والی بیوروکریسی بھی ہے ۔ اب یہاں غیرآئینی اور غیرجمہوری وغیر اسلامی مباہلوں ،مباحثوں،جھگڑوں اور مناظروں کی گنجائش نہیں۔ اور نہ یہ مباہلوں ،مباحثوں،جھگڑوں اورمناظروں کا دور ہے۔اور نہ مقتضائے حال ان کے روادار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعی اگر آپ دونوں ان مناظروں اور مباہلوں کے حوالے سے مخلص ہیں تو آپ دونوں یا کسی ایک فریق کو سپریم کورٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی کا دروازہ کٹھکٹھانا چاہیے تاکہ ایک پُرامن ، آئینی، قانونی، اخلاقی اور جمہوری و اسلامی راستے کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچ پاؤ گے۔ورنہ یاد رہے کہ اخباری بیانات، اپنی اپنی مساجدو امام بارگاہوں اور اپنے اپنے پروگرامات میں ایک دوسروں کو للکار کر،لعن و طعن اور سب وشتم کرکے ،آپ نہ دین کی خدمت کررہے ہیں نہ اس قوم کی نہ ملک و ملت کی۔ یہ بھی یاد رہے کہ اب قوم اتنی بے قوف بھی نہیں کہ آپ کی باتوں کو مان لیں۔تحسین کے پھول نچھاور کردیں۔اور آپ کو سروں کا تاج بنائیں۔ میں نے خود کئی لوگوں کو دیکھا ہے جومناظرہ کے شائقین پر پھبتیاں کستے ہیں۔اب بازاری مناظروں سے آپ کی دال گھلنے والی نہیں۔دنیا بہت آگے جاچکی ہے۔ لوگ بہت اَپ ڈیٹ ہوچکے ہیں۔آپ کے سامنے احتراماً خاموش رہتے ہونگے لیکن دل میں بہت ہنستے ہیں۔مضحکہ اڑاتے ہیں۔

یاد رہے کہ آپ کے ان رویوں نے کاروبارِامن اورانسانی جانوں،سمیت کئی اہم مسائل پیدا کیے ہیں۔میں حیران ہوں کہ میرے واجب الاحترام علماو شیوخ اورسنجیدہ تعلیم یافتہ احباب، صحافی ،وکلاء برادری اور طلبہ و طالبات نے بہت سارے خرافا ت وسیئات اورغیرضروری چیزوں کو ان کی شرعی حیثیت سے زیادہ اپنی انا کا مسئلہ بنایئے رکھا ہے ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کہ فرقہ پرست لڑائیاں اس طرح جاری رہی اور غریب لوگوں کا خون''مقدس خون ریزیوں'' کی آڑ میں بہایا جاتا رہا اورضد، حسد، کینہ ،بغض، عداوت، ناانصافی، ظلم، ستم، بربریت و چنگیزیت،میرٹ کی پامالی، تعلیم سے دشمنی،سماجی انصاف سے دوری،مقتضائے حال سے لاشعوری اور''مسلکی اکھاڑپچھاڑ'' کایہ خونی سلسلہ جاری رہا تو ہم پر اﷲ تعالٰی کا کوئی عذاب نازل نہ ہو۔ویسے بھی بصیرت کی آنکھ رکھنے والے اہل دل و درد سال 2014ء کو انتہائی خطرناک سال قرار دے چکے ہیں۔ آہ ! ہماری بد قسمتی دیکھو کہ ہم اس دھرتی کے باسی ہیں جہاں ہر طرف موت کا رقص ہے اور آتش وآہن کی برکھا برس رہی ہے ۔،خونِ مسلم کا ضیاع ہے۔غریب کے معصوم بچوں کے ہواؤں میں بکھرے لتھڑے ہیں۔ بہنوں کی لٹی جوانیاں ہیں ،نازنینوں کے اجڑے سہاگ ہیں۔ حکا یات خونچکاں ہیں۔گھر گھر ا لم ناک داستانیں ہیں،معاشی بربریت ہے۔کساد بازاری کا ننگا ناچ ہے۔ مہنگائی کا وہ عفریت سوار ہے کہ دووقت کے کھانے کے لیے مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جسموں کی عصمت وحیا کابیوپار بنیں پھر رہیں ہیں اور ہم خریدار․․․․․․․․․․․․․․․ ۔ پھر بھی مالکانِ دیر و حرم خوش ہیں اور مناظروں ومباہلوں کی تیاریوں میں مگن․․․․․۔سو تمہیں خوشیاں مبارک ہو اور مناظرے بھی۔۔آخرکیوں؟ یا اﷲ کیوں․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․؟ شاید اس کیوں کا جواب میری زندگی میں نہ ملے۔

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 434063 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More