پوری دنیا کی طرح پاکستان اور گلگت بلتستان میں بھی
اسماعیلی کمیونٹی اقلیت میں ہے۔مگرانتہائی منظم ہیں۔ان کے حوالے سے میں نے
کافی '' علمی اسٹڈی '' کی ہے۔آج میں نے نہ ان کے عقائد کو زیر بحث لانا ہے
اور نہ دیگر مسالک کے ساتھ ان کے علمی و نظری اختلافات کی بحث چھیڑنی
ہے۔میں آج اسماعیلی کمیونٹی کو قبل از وقت بلکہ بہت ہی پہلے مبارک باد پیش
کرنے چلا ہوں۔یہ میری پیش گوئی ہے۔میں ہواؤں میں گھوڑے دوڑانے کا قائل ہوں
نہ ہی قیافہ شناس ہوں، اور نہ ہی علم نجوم کا ماہر۔ تاہم قوموں کی تاریخ
اور معاشرتی زندگیوںکے عمیق مطالعہ سے کچھ نتائج اخذ کرکے یہ پیش گوئی کرنے
میں حق بجانب ہوں۔میں اپنی بات پر مصر ہوں نہ ہی اسے حرفِ آخر سمجھتا
ہوں۔عمرانی زندگیوں کے مطالعہ سے جو منظر مجھے سمجھ آیا ہے صرف وہی آپ سے
شیئر کرتا ہوں۔آپ مجھ سے مکمل ا ختلاف کا حق رکھتے ہیں۔میں مایوس ہرگز نہیں
ہوں مگر حقیقت سے انکار بھی تو نہیں کرسکتا ۔زمینی حقائق کو جھٹلانا اپنے
ساتھ ظلم سے کم نہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ آنے والا کل اسماعیلی برادری کا ہے۔مجھے ان کا ایک
جیتا جاگتا حسین مستقبل نظر آتا ہے بالعموم پاکستان میں اور بالخصوص پورے
گلگت بلتستان میں۔مستقبل قریب میں ہر میدان میں ان کی اجارہ داری نظر آتی
ہے۔آپ ائندہ بیس پچیس سال بعد گلگت بلتستان میں فاطمی دور کی جھلک دیکھ
سکتے ہیں۔کیوں ؟ اس کیوں کے پیچھے بہت سارے دلائل ہیں مگر ایک دلیل جو
روزروشن کی طرح عیاں ہے وہ ہے ان کا نظام تعلیم، نصاب تعلیم۔آج سے کچھ
دہائیاں پہلے گلگت بلتستان میں اسماعیلی برادری انتہائی مفلوک الحال
تھی۔زندگی کے ہر شعبے میں بہت پیچھے تھے ،مگران کے روحانی پیشوا نے پورے
گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا۔بنیادی طور پر یہ شریف قسم
کے لوگ ہیں، اپنے کام سے کام لیتے ہیں، دوسروں سے الجھنا ان کی روایات میں
نہیں، اس لیے ان لوگوں نے تعلیمی میدان میں رینگتے رینگتے وہ کامیابیاں
حاصل کی کہ آج گلگت بلتستان کے ہر شعبے میں ان کی اکثریت ہے۔ تعلیم کے ساتھ
صحت اور رفاہی کاموں کے جال بھی بچھا دیے گئے۔آپ حیران ہوجائیں گے جب آپ ان
کے نظام تعلیم و نصاب تعلیم کو اسٹڈی کریں گے تو۔آج گلگت بلتستان میں
آغاخان فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ایسے اسکول موجود ہیں جن کا معیار پورپ
کے بڑے اسکولوں سے کسی بھی طور کم نہیں۔آپ جب آغاخان ہائی اسکینڈری اسکولوں
کے طلبہ وطالبات سے گفتگو کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان میں کس قسم
کے Skillsپائے جاتے ہیں۔آپ پاکستان کی تمام معیاری یونیورسٹیوں میں گلگت
بلتستان کے طلبہ کے پروفائل جمع کرکے دیکھ لیں، ان میں اکثریت اسماعیلی
کمیونٹی کے طلبہ کی ہوگی۔ آپ کے ائی یو بورڈ ، فیڈرل بورڈ اور آغاخان بورڈ
میں پوزیشن ہولڈر طلبہ وطالبات کو دیکھ لیں وہ اسماعیلی کمیونٹی سے تعلق
رکھتے ہونگے۔گلگت بلتستان کا سب سے پہلا پی ایچ ڈی اسکالر اور سب سے زیادہ
پی ایچ ڈیز اسماعیلی کمیونٹی سے ہیں۔سب سے زیادہ اسکالرشپ وصول کرنے والے
بھی اسماعیلی کمیونٹی سے بلانگ کرتے ہیں۔جو بھی نئی ٹیکنالوجی اور ہنر جی
بی میں آجاتا ہے اس کو اپنانے والے بھی یہی لوگ ہیں۔سب سے زیادہ رفاہی
ادارے ان کے پاس ہیں۔ اس کے بعد کیا میں یہ کہنے پر حق بجانب نہیں ہوں کہ
آنے والا کل ان کا ہی ہوگا ۔ ہاں اور ہم! ہم ہر ڈیپارٹمنٹ میںبراجمان اس
Bossکو درخواست دیں گے کہ ہمیں چوکیداری دی جائے اور ہماری درخواست مسترد
کی جائے گی اورہمیں کہا جائے گا کہ آپ کو چوکیداری بھی میرٹ پر ملے
گی۔کیوں؟ اس کیوں کے پیچھے بھی بہت سارے دلائل ہیں مگرا یک بات واضح ہے کہ
جب گلگت بلتستان میں اہل سنت اور اہل تشیع لڑرہے تھے، اس وقت اسماعیلی
تعلیم و تربیت حاصل کرر ہے تھے اور اپنا مستقبل سنوار رہے تھے۔ہم آخر کب تک
مساجد و امام بارگاہوں سے اعلانات کرکے، سرکاری آفیسروں کو ڈرا دھمکا
کراوررشوت دیکر چھوٹی چھوٹی نوکریاں حاصل کرتے رہیں گے۔ ہم ہرروز میرٹ اور
عدل کی بات کرتے ہیں لیکن وہ وقت قریب آنے والا ہے کہ جب گلگت بلتستان کے
ہر محکمے کا بڑا اسماعیلی ہوگا اور وہ ہرکام میرٹ پر کرے گا تو اہل سنت اور
اہل تشیع میرٹ کے قریب سے بھی نہیں گزر سکیں گے۔کیوں کہ میرٹ پر وہی آئے گا
جس کی تعلیم و تربیت بہتر انداز میں کی گئی ہو، اور ہم ان دونوں سے کوسوں
دور ہیں۔ہم نے مار دھاڑ، قتل و غارت،ظلم و ستم ،معا شرتی بگاڑ اور تمام
لایعنی کاموں کو اپنا شعار بنا کررکھا ہے ۔حقیقت پسندی،مقتضائے وقت،استعمال
عقل،زمینی حقائق سے دور بھاگنا اپنے فر ائض منصبی میں داخل کررکھا ہے ،ہم
نے اپنی دنیا اور عاقبت کی فلاح صرف اور صرف ان لایعنی باتوں میں محدود
کررکھا ہے۔ہمارے پاس کوئی تعلیمی پلان نہیں ہے۔ ہم نے نوجوانوں کی فکری
ونظری کو ئی تربیت ہی نہیں کی ہے۔ہم فکر دینے سے قاصر ہیں۔شعور ہمارے قریب
سے بھی چھو کر نہیں گزرتا، ہمارے پاس آنے والے کل کا کوئی منصوبہ
نہیں۔ریاست کی ضروریات کا ہمیں علم ہی نہیں۔اسلامی تعلیمات، جدید نظام
تعلیم، میڈیااور اس کے لوازمات، بزنس منیجمنٹ، سیاحت و تفریح ،سول سوسائٹی
اور پبلک پالیسی، بین الاقوامی تعلقات، معاشیات و اقتصادیات،صحت عامہ،مسائل
و وسائل کا درست استعمال، خو بصورت مستقبل کے لیے پلاننگ اور عدل و انصاف
پر مبنی ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ہمارے پاس کوئی منصوبہ
بندی نہیں اور نہ ہی اس پر سوچنے کے لیے کوئی ذہنی و فکری طور پر تیار
ہے،ہماری حالت اس دیوالیہ رئیس کی طرح ہے جو بھیک مانگ کر گزارہ کرتا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ اہل سنت واہل تشیع کے پاس کسی چیز کی کمی ہے، سوال یہ ہے
کہ ہم عقل کو استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ ہماری پشت پر بڑے بڑے امیر
ممالک کھڑے ہیں۔ ہمیں کسی نہ کسی مد میں تعاون بھی حاصل ہوتا ہے۔ ہم خود
بھی معاشی حوالے سے مضبوط ہیں۔ ہمارے بڑے اس ملک میں، اس علاقے میں کسی
تعلیمی پلان کو ترتیب دینے کے لیے تشریف نہیں لاتے ہیں۔ کسی کالج ،
یونیورسٹی اور دینی درسگاہ کا افتتاح کے لیے نہیں آتے۔کسی رفاہی ادارے کی
داغ بیل ڈالنے کے لیے نہیں آتے ، اگر وہ ہماری پشت بانی کرے بھی تو ایسے
کاموں میں جن سے نہ دنیا کا فائدہ نہ آخرت کا۔لامحالہ ہمارا نوجوان خسارے
کی گھاٹیوں میں جاگرتا ہے۔جبکہ اسماعیلی برادری کا روحانی پیشوا جب بھی آتا
ہے تو کسی تعلیم پلان کو لے کرآتا ہے۔اب کی بار بھی ان کے روحانی پیشوا نے
پاکستان کا وزٹ کیاتو ایک تعلیمی ادارے کا کانووکیشن بنیادی سبب بنا۔انہوں
نے کراچی میں آغا خان یونی ورسٹی کے 30 ویں کانوکیشن کے موقع پر خطاب
کیا۔آپ ان کے خطاب کی چندجھلکیاں ملاحظہ کیجیے ،پھر بتائے کہ میں اپنی پیش
گوئی پر حق بجانب ہوں کہ نہیں۔
''پرنس کریم آغا خان نے کہا ہے
کہ تعلیم ہی معاشرے میں ترقی کا بہترین ذریعہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بین
الاقوامی سطح کے اسکالر پیدا کریں جو مستقبل کے چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کر
سکیں۔ آج ملک اور یونی ورسٹی کے لئے تاریخی موقع ہے، تمام پاسنگ آٹ
گریجویٹس کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں، تمام طلبہ کے بہتر
مستقبل کے لئے پر امید ہوں اور مستقبل میں طلبہ سے معاشرتی ترقی کی توقع
ہے۔ تعلیم معاشرے میں بہتری کا سب سے بہترین ذریعہ ہے، یہ ادارہ جذبہ خدمت
سے سرشار ہے اور بہترین میعار ہی ہماری پہچان ہے۔ دنیا کے مستقبل کے بارے
میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، بہت سے معاملات میں سول سوسائٹی کا اہم کردار
ہوتا ہے اور تعلیم ہی معاشرے میں میں مہارت اور قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے
کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے اس لئے طلبہ میں چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت
پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پزیز خصوصا مسلم ممالک میں
میڈیا، بزنس منیجمنٹ، ٹورزم اور پبلک پالیسی، بین الاقوامی تعلقات، معیشت
اور ایگری کلچر کے شعبوں میں نئے ادارے تعمیر کرنا چاہتے ہیں تاکہ طلبا
معاشرے کے چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ
*ہمارا ادارہ جذبہ خدمت سے سرشار ہے۔
*تعلیم اور خدمت ہمارا ورثہ ہے۔
*تعلیم معاشرے کی بہترین خدمت ہے ۔
*اپنے ادارے ترقی پزیر ملکوں میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
*گریجویشن کے لئے 7 نئے ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
*اغآخان یونیورسٹی کے 30 سال مکمل ہونے پر فخر ہے۔''
یہ تمام باتیں آپ ملکی اوربین الاقوامی میڈیا میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔کاش
!آج کے بعد اہل سنت اور اہل تشیع بھی تعلیم کو اپنا پہلا اور آخری ہدف
بنائے۔اپنی ترجیحات میں اولین ترجیح قرار دیں۔ تعلیم کو زندگی اور موت کا
مسئلہ بنائے اور اعلان کریں کہ آج کے بعد ہم لڑائی کے بجائے تعلیم و تربیت
کو اپنا موٹو بناتے ہیں۔ ہم بھی اسماعیلیوں کی طرح تعلیم اور صرف تعلیم
پرتوجہ دیں گے۔ تو پھر گلگت بلتستان میں کتنی خوبصورت معاشرتی زندگی کا
آغاز ہوگا، اگرایسا ہوا تو یقین جانیں لوگ پیرس اور واشنگٹن سے گلگت
بلتستان میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔کیوں کہ گلگت بلتستان کے ان کالے پہاڑوں
، بہتی ندیوں، آبشاروں، دریاؤں ،گھنے جنگلوں ،خوبصورت جھیلوں اور رس بھرے
پھلوں میں وہ صلاحیت موجود ہے کہ پیرس اور دیگر مغربی ممالک ان کی گرد تک
نہیں پہنچ سکتے۔ اورپھر یہاں علم و ادب کے ذریعے سونے کے وہ محل تعمیر کیے
جائیں گے کہ دنیا ورطہء حیرت میں رہ جائے گی۔میں مقرر اسماعیلی کمیونٹی کو
روشن مستقبل پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سو مبارک ہو۔میرے پاس کہنے کے لیے
بہت کچھ ہے مگر طول نہیں دیناچاہتا۔کاش ہم بھی تعلیمی اداروں پر فخر
کرسکیں،نئے ادارے قائم کرنے کا بیڑہ اٹھائیں،تعلیم اور خدمت کو اپنی کھوئی
ہوئی میراث سمجھیں،جدید چیلنجز سے نمٹنا ہمارا بھی منشور ہو، نوجوانوں میں
قائدانہ صلاحتیں پیدا کرنا ہمارادستور ہو اور تعلیم کو معاشرے میں عام کرنا
اور اس کو بہترین معاشی، سماجی، معاشرتی خدمت قرار دینا ہمارا فرض ہو۔کاش
اس نبی ۖ جس پر ہم ایمان لائے ہیں پراول دفعہ اترنا والا یہی پیغام''اقراء
باسم ربک الذی خلق،'' ہمیں سمجھ آجائے اور ہم عملی تفسیر بن جائے۔ |