پڑھا لکھا معاشرہ کسی بھی قوم کی
ترقی میں اہمکردار ادا کرتاہے اور ہمارے ملک کے ناقص تعلیمی نظام میں یہ
اصطلاحات آج سے نہیں،بلکہ جب سے پاکستان بنا ہے یہ ناقص تعلیمی اصطلاحات
چلتی آرہی ہیں اور انکی بہتری کے لیے کسی بھی دور حکومت میں کوئی خاص
اقدامات عملی طور پر نہیں کیے گئے۔گزشتہ کچھ روز سے ایک خبرگردش کررہی تھی
کہ گورنمنٹ کی جانب سے پانحویں اورآٹھویں جماعت کے سلیبس میں مطالعہ
پاکستان مکمل طورپرختم کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے ۔او ر کچھ روز قبل سابق
ڈپٹی وزیرا عظم چوہدری پرویز الہی کی جانب سے بھی ایک تقریب کے دوران
مطالعہ پاکستان کو نصاب میں شامل رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے-
قارئین میرے لیے یہ خبر کسی حیرانی سے کم نہ تھی۔جس معاشرے کے طلبہ کے نصاب
میں سے انکی تاریخ ہی ختم کر دی جائے وہاں کے طالب علموں کو انکی جغرافیائی
حثیت سے ناواقف رکھا جائے تواس معاشرے کے طالب علم اپنے ملک کو کس طرح کسی
دوسرے کے سامنے متعارف کروا پائیں گے۔کس طرح وہ کسی کے پوچھنے پر پاکستان
کے بانیوں کے نام بتائیں گے۔اس بات سے تمام اہل علم باخوبی واقف ہیں کہ
پانچویں اورآٹھویں جماعت کے طلبہ کو مطالعہ پاکستان میں جو کچھ
پـڑھایاجاتاہے وہ تمام پاکستانی طالب علموں کی ضرورت ہے یقینا تاریخ کی
ایسی چھوٹی چھوٹی کتابوں کو نصاب میں ختم کرنے سے پاکستانی طلبہ پاکستان
بننے کے محرکات ،بنانے والوں کی قربانیاں ،اور تمام قائدین کے نام بھی بھول
جائیں گے۔اور معصوم بچے اپنے ملک کو دوسروں کے سامنے متعارف کروانے کا
اعتاد بھی کھو دیں گے۔
اپنے پڑھنے والوں کو بتاتاچلوں کہ گورنمنٹ کی جانب سے اس سے پہلے جہاد کے
سلیبس کو بھی اسی طرح ہی رفتہ فتہ کم کرتے ہوئے تقریبا ختم کردیا گیا ہے
کسی بھی مسلم ممالک کے دفاع کے لیے وہاں کی عوام کو جہاد کے متعلق علم
ہونابہت ضروری ہے اسلام میں جہادکی کئی اقسام ہیں جن میں جہادبالنفس سب سے
اولین ہے لیکن نصاب میں سے جہاد کے مضامین کو ختم کرنا یا نہ ہونے کے برابر
کم کر دینابھی ان کی اخلاقی تربیت نہ کرنے کے مترادف ہے۔اگرنظام تعلیم میں
تبدلیاں لانی ہی ہیں توان کتابوں کوسلیبس میں سے ختم کرنے کی بجائے بچوں کی
تعلیم میں پریکٹیکل تعلیم کا نفاذ ممکن بنایاجائے۔پاکستان کیبہت سے اردو
اورانگلش میڈیم سکولوں،کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدطلبہ جب کسی نوکری
کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتیہیں تو انہیں متعلقہ اداروں سے کام سکھینے
کے لیے خامی تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے جس کے بعدوہ کسی کام میں مہارت حاصل
کرنے کے بعدکام کے قابل ہوتے ہیں اس کے برعکس امراء لوگ جو اپنے بچوں کوO
یا Aلیول کی تعلیم دلوانے کی حثیت رکھتے ہیں ان بچوں کو تعلیمی نظام میں
ہرمضمون میں پریکٹیکل بھی کروایا جاتاہے اور انOیاA لیول کے طالب علموں کی
تربیت بھی ہوتی رہتی ہے اورکسی بھی ادارے میں نوکری حاصل کرنے کے بعد ان
جوانوں کو خاص تربیت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔آخریہ تربیت عام سکول،کالجوں
کے طلبہ کوکیوں نہیں دی جاتی۔میرے سمیت اس ملک کی غریب عوام کا کیا قصور ہے
جو اپنے بچوں کوOیاAلیول کی تعلیم مہیا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
ہمارے ہاں پرائمری اور مڈل کی کتابیں وہ لوگ لکھ رہے ہیں جنہوں نے کبھی اس
لیول کے بچوں کو پڑھایا ہی نہ ہو۔کوئی بھی شخص چاہے جتنا ہی اہل علم کیوں
نہ ہو جب تک وہ ایک خاص لیول پرجاکرطلبہ کے ساتھ وقت نہ گزارے یا انکو نہ
پڑھائے۔وہ کس طرح انکے لیول کی بکس لکھ سکتا ہے ۔صوبائی گورنمنٹ کے لوگ
بورڈز دفاترمیں غیر ملکی بھرتیاں کرکے اورتعلیمی شعبوں میں غیرملکی NGO,Sکا
تعاون حاصل کرکے شایدبہت اطمینان محسوس کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ
غیرملکی ماہرین کے لیے پاکستانی طلبہ کی ذہنیت کے مطابق سلیبس تیار
کروانابہت مشکل ہے
بورڈزدفاترمیں غیر ملکی بھرتیاں کرنے، مطالعہ پاکستان کو سلیبس میں سے ختم
کرنے ،جہاد کے مضامین کو کم کرنے،تعلیمی نظام میں پریکٹکل سرگرمیاں نہ ہونے
کے ساتھ ساتھ ایک اورخوب عمل یہ ہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے جنسی تعلیم کی
کتب بھی بچوں کے سلیبس کا حصہ بنانے کی مکمل تیاری کر لی گئی ہے کراچی
اورگجرانوالہ کے کئی سکولوں میں مقامی NGO,Sکے تعاون سے یہ بکس بچوں میں
تقسیم بھی کردی گئی ہیں ان جنسی تعلیم کی کتابوں میں ایسا شرمناک مواد شامل
ہے جس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں موجود گھرانوں میں ذکر کرنا قابل شرم
سمجھا جاتا ہے یقینا اخلاقی کینسر کی یہ کتابیں بچوں کے سلیبس میں شامل
کرکے ایک ایسا لبرل معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو مکمل طور پر
مغرب کی عکاسی کرتاہے جس میں بسنے والے لوگ مسلمان تو ہوں لیکن اس معاشرے
میں مسلم روایات اور اسلامی نظام تعلیم بالکل نہ ہو۔آخر ہم سب یہ کیوں بھول
گئے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں
اسکی اپنی ایک پہچان ہے ہرچیز میں اسکی اپنی ایک حدود مقرر ہے وہ چاہے
پاکستان کا معاشی نظام ہو یا تعلیمی نظام ہو۔
شکایت ہے مجھے یا ربّ خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
میراان تمام اساتذہ سے یہ سوال ہے جو کچھ عرصہ قبل اپنی نوکریوں کو پکا
کروانے کے لیے احتجاج کرتے رہے، بھوک ہڑتالیں کرتے رہے، گورنمنٹ کی جانب سے
تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی بنانے کے خلاف
دھرنے دیتے رہے وہ سب کہاں چلے گئے۔جو اپنے مستقبل کو تو روشن کرنے کے لیے
احتجاج ،ہڑتالیں،دھرنے دینا جانتے ہیں لیکن بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے
کے لیے گورنمنٹ کو مشورے دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔کیا پاکستان کے بچوں
میں ان کے اپنے بچے شامل نہیں یا انکے بچے Oیا Aلیول میں تعلیم حاصل کرتے
ہیں جہاں انہیں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ نظر آرہاہے۔میڈیا کے اکثر کالم
نگاروں کے قلم بھی اس بے جا تبدیلی پر خاموشہیں۔ تمام کالم نگار حضرات کو
وقت کی ضرورت کے مطابق کالم لکھ کر گورنمنٹ آف پاکستان کو مطالعہ پاکستان
کی اہمیت اور جنسی تعلیم کی کتابوں سے معاشرے میں پھیلنے والی بیماریوں سے
آگاہ کرنا ہوگا۔اور گورنمنٹ آف پاکستان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ فوری
طوری پرمطالعہ پاکستان کوسلیبس میں شامل رہنے اور جنسی تعلیم کی کتابوں پر
پورے ملک میں پابندی لگانے کا حکم دے۔
آخر ہم کیوں ایسی آزادی کو انسانی بنیادی حقوق کانام دیتے ہیں جوہمارے مذہب
اورمعاشرے کوتباہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں شرم وحیا ہی ختم کردے۔نظام
تعلیم میں جنسی تعلیم کا ذحول مسئلے کا حل نہیں بلکہ حدود اﷲ کا نفاذ مسائل
کا حل ہے
تحریر عبدالرًوف چوہان |