دور جدید کے مفکرین کا موقف ہے کہ جنگ امن
کے لیے ناگزیر ہے۔ جنگ کی ہولناکی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو جنگ کےسرخ
شعلوں میں رہ چکا ہو یا ان میں زندگی بسر کر رہا ہو۔ تجربہ گاہ میں یا کسی
بند کمرے میں بیٹھ کر بیان داغنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اس کا تجربہ اور
تجزیہ کہیں بھیانک اور دشوار گزار ہوتا ہے۔ میں ارباب فکرونظر کی اس سوچ پر
انگشت بدنداں ہوں کہ آخر وہ تصویر کا شرم ناک رخ کیوں نہیں دیکھتے یا
سسکیاں آہیں کراہیں انہیں سنائ نہیں دیتں۔ چشم زمانہ جنگ کی ہولناکیاں
متعدد بار دیکھ چکی ہے۔ مورخ کے حرف ترانے سناتے ہیں۔ فاتح کے کارناموں کے
گن گاتے ہیں۔ سرخ لہو کی بےحرمتی بےمعنی‘ سنگدلی اور ہولناکی ثانوی سی چیز
ہو کر رہ جاتی ہے۔ گویا وہ سب ایک لایعنی سا کھیل رہا ہو۔ سب کچھ دیکھ کر
بھی امن کے لیے جنگ کو ناگزیر قرار دے دینا بذات خود ظلم اور زیادتی کے
مترادف ہے۔
ہیروشیما کے بےگناہ انسانوں کی سسکیاں اور کراہیں آج بھی انسانیت کے منہ پر
طماچے کا درجہ رکھتی ہیں۔ مخلوق فلکی کی آنکھیں آج بھی پرنم ہوں گی۔ اس کے
برعکس امن کے حامی امن کے لیے جنگ کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ یہ اندھیر نہیں
تو اور کیا ہے۔ جنگ میں فاتح ہو یا مفتوح‘ دونوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ فتح
کا نشہ وقتی ہوتا ہے۔ برطانیہ فاتح جنگ عظیم دوم کی علمداری کا دنیا میں
سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج وہاں سورج بمشکل طلوع ہوتا ہے۔ جنگ میں زندگی
کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ خصوصا معاشی ڈھانچہ تو مفلوج ہو کر رہ جاتا
ہے۔بےگاری وبےروزگاری زندگی کی رگوں میں اتر جاتی ہے۔ خوش باشی اور خوش
مزاجی نام کو بھی باقی نہیں رہتی۔ ذہن جامد اور روح مردہ ہو جاتی ہے۔ جستجو
اور کچھ کر لینے کی آرزو پستیوں میں دب کر رہ جاتی ہے۔
آپ حیران ہوں گے کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تو جناب میں جنگ
کے سرخ شعلوں میں رہ چکا ہوں۔ مجھے اپنی روح کی آہیں اور سسکیاں سونے نہیں
دیتیں۔ میرا چہرا اور رنگ و روپ ہمیشہ سے ایسا نہیں۔ کافی پرانی بات ہےاس
وقت میری رگوں میں جوان اور گرم خون گردش کرتا تھا۔ زیست کی راہداری میں
امنگوں کے خوش رنگ پھول مجھے خوش آمدید کہا کرتے تھے۔ شعور جوان تھا۔ دل کی
دھڑکنیں پر شباب تھیں۔ میرے گردوپیش امیدوں کا اک ہجوم تھا۔ تھکن اور
بےزاری کا دور تک نام ونشان بھی نہ تھا۔میرے قلم میں طاقت تھی۔ دوسرا مجھے
چھپنے چھپانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ رسائل میں میرے افسانے اور مضامین
بڑے اہتمام سے شائع ہوا کرتے تھے۔ قارئین میری بھرپور حوصلہ افزائ کیا کرتے
تھے۔ ڈاک میں سیکڑوں خطوط موصول ہوتے۔ میرے فن کی تعریف ہوتی۔ مجھے خودستائ
مطوب نہیں۔ میں تعریف و تحسین کی ابجد سے خوب خوب آگاہ ہوں۔ تعریف سننے
والے کان اور تحسین کے جملے پڑھنے والی آنکھیں خودفریبی کے زنداں میں مقید
ہوتی ہیں۔ جب سراب کھلتا ہے سب کچھ راکھ ہوچکا ہوتا ہے۔
اب کوئ تعریف یا تنقید میرے حواس پر اثر نہیں چھوڑتی۔ بےحس سا ہو گیا ہوں۔
سب کچھ جنگ کے شعلوں کی نذر ہو چکا ہے۔ اب تو راکھ بھی باقی نہیں رہی۔ بادی
النظر میں میں خوش مزاج ہوں لیکن یہ سب بناوٹ سے زیادہ نہیں۔ میرے پاس
بےلطف اور پھیکی مسکرہٹ بھی باقی نہیں رہی۔ یہ مشینی دور ہے اور میں اس دور
کا باسی بھی نہیں۔ میرا اس دور سے رشتہ ہی کیا ہے
ہاں تو عرض کر رہا تھا میرے قلم کا سکہ جم چکا تھا۔ مجھ سے خطوط لکھوائے
جاتے۔ تقریبوں کے لیے تقاریرکی فرمائش کی جاتی تھی۔ میں نے کبھی کسی کو
نراش نہ کیا۔ اس عہد میں اپنے اصلی نام سے لکھا کرتا تھا۔ اب سب کچھ نقلی
ہو گیا ہے‘ اس لیے نقلی نام سے لکھتا ہوں۔ سب کچھ جنگ کے شعلوں کی نذر ہو
چکا ہے۔ نام بدلنے سے درد میں کمی واقع نہیں ہوئ۔ جلن بدستور باقی ہے۔۔۔۔۔
یادیں جب بھی سر اٹھاتی ہیں سسک بلک جاتا ہوں۔ دیر تک آنکھیں شبنمی رہتی
ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہوں۔ میرے پاس کرنے کو رہ ہی کیا گیا
ہے‘ جو کروں۔ جانے کیوں اب بھی ماضی کی شکستہ سڑک پر برہنہ پا مسلسل اور
متواتر دوڑے چلا جا رہا ہوں۔
آتش نمرود برسوں پہلے بھڑکی تھی مگر اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ لوگ مجھے
پاگل سمجھتے ہیں۔ نشانہ تضحیک بناتے ہیں۔ الله جانے کیا کچھ کہتے ہیں۔ وہ
نہیں جانتے یہ آنکھیں پتھر ہو چکی ہیں۔ میرے چہرے کی انقلابی جھریوں کی
زبان وہ نہیں پڑھ سکتے۔ انھیں پڑھنے کے لیے درد کے تنور میں جلنا پڑتا ہے۔
اس مشینی دور میں ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ سے‘ سب کچھ غرض کے ساتھ وابستہ
رہا ہے۔ جہاں کچھ نظر آتا ہے لوگ اسی سمت دوڑنے لگتے ہیں۔ لفظوں کو کسی نے
کیا کرنا ہوتا ہے۔ لفظ پیٹ نہیں بھرتے‘ تن نہیں ڈھانپتے۔ میں مفلس تھا‘
مفلس ہوں۔ اب میرے پاس لفظ رہے ہیں اور ناہی احساسات۔۔۔۔۔۔ میں تو چلتی
پھرتی جیتی جاگتی لاش ہوں۔۔۔۔۔۔زندہ لاش۔۔۔۔۔ لاش سے کسی کو کیا لابھ ہو
سکتا ہے۔ اب کسی کو میرے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں بھی کیسا سنار ہوں
جس کے پاس کوئ نیارا آنے کی حماقت نہیں کرتا۔ میں ریگ دریا بھی نہیں جو طلا
دستیاب نہ ہو سکے گا۔
شاید وہ ہفتہ کی شام تھی۔ میں ڈاک نکال رہا تھا۔ چوتھے خط پر میری نظر پڑی۔
نیلے رنگ کا لفافہ تھا۔
پشت پر مرقوم تھا۔۔۔۔۔
God is lov love is God
میں نے اصول توڑتے ہوئے سب سے پہلے وہی خط پڑھنا شروع کر دیا۔ یہ خط پرانی
انار کلی سے مس جیولی نے تحریر کیا تھا۔ خط میں مرقوم تھا:
ڈیر! سوچ رہی ہوں کیا لکھوں اور کیا نالکھوں۔ خط کا آغاز کس طرح سے کروں۔
اتنا پیارا لکھنے والے کی انگلیوں کو چوم لینے کو دل مچل رہا ہے۔ محسوس نہ
کرنا کہ پہلی ہی تحریر میں فرینک ہو گئ ہو۔ میں پیار اور خلوص کے معاملہ
میں کسی لگی لیپٹی کی قائل نہیں۔ اسے ہر طرح سے کھرا اور سچا ہونا چاہیے۔
یہ خلوص کی سچائ ہی مجھے لکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ جس چاہت سے لکھ رہی ہوں
اسی خلوص سے جواب دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط جیولی
جیولی کا خط چار صفحات پر مشتمل تھا۔ ہر لفظ سے خلوص ٹپک رہا تھا۔ میں نے
اس خط کو تین سے زیادہ مرتبہ پڑھا۔ ہر بار نیا لطف میسر آیا۔ میں نے خط کا
جواب اسی خلوص سے دیا۔
یہ کسی پہلی خاتون کا خط نہ تھا لیکن یہ خط منفرد اور اپنی نوعیت کا ضرور
تھا۔ پہل جیولی نے کی تھی لیکن گھاءل میں ہوا۔ سوچ کے بطن سے سنہرے سپنوں
نے جنم لیا۔ سپنے خوابوں پر بھی اثر انداز ہوئے۔ مجھے تسلیم ہے کہ یہ سب
غلط تھا لیکن یہ سب مجھ سے ہوا۔ میں دل کے ہاتوں ایک کھلونے سے زیادہ نہ
رہا تھا۔ دل سمجھانے کے باوجود نہ سمجھا۔ جیولی میرے حواس پر گرفت کر گئ
تھی۔ وہ کیسی تھی میں نہیں جانتا مگر جو تصور باندھا تھا اس میں وہ رادھا
ہیرا اور قلوپطرہ سے کسی طرح کم نہ تھی۔ کئ بار ذہن میں سوال ابھرا کہ وہ
بدصورت اور بدکردار بھی ہو سکتی ہے لیکن دل نے ہر خدشے۔۔۔۔۔ ہر خیال کی نفی
کر دی اور میں تصور کے براق پر سوار عشق کے عرش کی جانب محو پرواز رہا۔
بغیر دیکھے سنے کسی کا ہو رہنا بلاشبہ حماقت تھی۔۔۔۔۔۔حیران کن حقیقت یہ ہے
کہ یہ سب ہوا۔
دو برس خط وکتابت کا سلسلہ چلتا رہا۔ نہ اس نے مجھے بلایا اور ناہی میں نے
کبھی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پہلے ڈاکیہ ڈاک دے کر جاتا تھا اب میں
خود ہی صبح سویرےڈاک لینے چلا جاتا۔ جس دن ڈاک میں جیولی کا خط ہوتا میری
روح خوشی کے نشے سے سرشار ہو جاتی۔ جیولی کی اسیری نے میرے قلم پر بڑے گہرے
اثرات مرتب کیے۔ جب بھی کچھ لکھنے بیٹھتا یوں لگتا جیسے جیولی کو خط لکھ
رہا ہوں۔ افسانہ خؤبصورت لفظوں کے ساتھ نئ انوکھی کہانی کی بھی ڈیمانڈ کرتا
ہے۔ مرے افسانوں میں یہ عنصر تقریبا مفقود ہو گیا تھا۔اس بدلاؤ کو ہر کسی
نے محسوس کیا۔ قارءین میں وہ پہلے سی گرم جوشی نہ رہی تھی۔ ایک پرچے کے
ایڈٹر نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرے نام سے کوئ اور لکھ رہا ہے۔ اب میں ایک
ناکام لکھاری تھا۔ کئ بار میں نے انداز بدلنے اور پہلی ڈگر پر آنے کی کوشش
کی مگر کہاں‘ اب لوٹنا امکان میں نہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ایک رستے پر آدمی جب چل
نکلتا ہے تو پیچھے مڑنا آسان نہیں رہتا۔ جیولی کو چھوڑ دینا میرے ممکن ہی
نہ رہا تھا۔ میں بہت آگے نکل آیا تھا۔
آہ!
دس اکتوبر کا وہ منحوس لمحہ تھا جب میں نے جیولی کا آخری خط پڑھا جسے پڑھ
کر میرا سارا نشہ
ھرن ہو گیا۔ ابتدا اس کی جانب سے ہوئ تھی انتہا بھی اس کی جانب سے ہوئ۔
گھائل میں ہوا۔ وہ چاندی دیس چلی گئ۔ میرے پاس کچھ بھی نہ رہا تھا۔ زخمی
انگلیاں اور رفتہ سے جڑے کاغذ کے چند پرزے۔ اب میری کل یہی بساط تھی۔ میں
نے کبھی دولت دیکھی نہیں‘ ہاں اس کا نام ضرور سنا سا ہے۔ یہ سب آخر کیا
تھا‘ میں اب تک اس گتھی کو سلجھا نہیں پایا۔ ان دیکھا سہی‘ یہ کچہ تھا
ضرور۔ میں نے ایک خواب کوسچ سمجھ کر وفا شعار نادرہ کو طلاق دے دی۔ ننھی سی
جان روبی کو مایوسیوں کے جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا۔ کون کہتا ہے فرعون مر
گیا ہے۔ مجھ سے لاکھوں فرعون خودغرضی کے اترن میں معاشرے کے ہر موڑ پر ملیں
گے۔ ان میں سے ہر کوئ ظلم کرکے‘ مظلوم شکل بنا کر سامنے آئے گا۔ لایعنیت کا
تعاقب کرنے والوں کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔ میں اپنے کیے پر پشمان ہوں مگر
کیا فاءدہ‘ چڑیاں کھیت چگ کر جا چکی ہیں۔
عشق کی جنگ ہو تو دل لہو لہو ہوتا ہے۔ دماغ کی جنگ تو اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں۔
توپ ٹینک کی جنگ ہو تو انسانی زندگی لقمہ بنتی ہے۔ نظریاتی جنگ ہو تو
بدامنی اور بے پھیلتی ہے۔ مذہب کی جنگ تفسیم کے دروازے کھولتی ہے۔ بیگم سے
جنگ ہو تو چولہا خود گرم کرنا پڑتا ہے۔ غرض جنگ کوئ بھی ہو وہ مثبت نتاءج
کی حامل نہیں ہو سکتی۔ اس کا انجام ہولناک ہوتا ہے اور اس کے اثرات دیرپا
ہوتے ہیں۔
3 مارچ 1970 |