بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
عہدِ حاضر کے امام عاشقاں ، امام احمد رضا محد ث بریلوی قد س سرہ ‘ اپنے
نعتیہ دیوان ’’ حدائق ِبخشش‘‘ کے حصہ اول کی ردیف ’’ ی‘‘ میں قصید ہ ’’
حاضری درگاہ ِابد ی پنا ہ وصل دوم رنگِ عشقی ‘‘ میں فرماتے ہیں:
چھائے ملائکہ ہیں لگا تار ہے درود
بدلے ہیں پہرے بدلی میں بارش دُرُر کی ہے۱
سعدین کا قِران ہے پہلوئے ماہ میں
جُھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے۲
’’سعدین‘‘ سے مطلب دوسیارۂ سعید ’’زہر ہ ‘‘اور’’ مشتر ی‘‘ ہیں…… قِران سے
مطلب اُن کا ایک دقیقۂ فلک میں جمع ہونا ہے…… یہاں پر امام احمد رضا نے یہ
مثال دے کر بتائی ہے اور اسی مثال سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سعد ین
سے مراد ’’ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما‘‘ ہیں اور ماہ
وقمر سے مر اد’’ حضور اکر م ﷺ کی ذات پُر نو ر‘‘ہے۔ تا رے وہ ستر ہز ار
ملائکہ ہیں کہ جو مزار پُر انور پر ہر وقت چھائے رہتے ہیں۳ …… اسی قصید ہ
میں آگے فرماتے ہیں :
ستر ہزار صبح ہیں ستر ہزار شام
یوں بندگیء زُلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے
رُخصت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے۴
ان اشعار کے حاشیہ میں درج ہے کہ:
’’ جو فرشتے شام کو حاضر ہونے والے تھے ‘ ان کو دن بھر شام کی اُمید لگی
تھی کہ شام ہو اور ہم حاضر ہوں ……اور جو صبح کو حاضر ہو نے والے تھے ،
انہیں شب بھر صبح کی آس بند ھی ہوئی تھی کہ صبح ہواور ہم حاضر ہوں …… جو
ایک با ر حاضر ہو چکے ہیں انہیں نہ دن کو ویسی شام کی اُمید ہے نہ شب کو
ویسی صبح کی کہ دوبا رہ آنانہ ہوگا‘‘۵ ۔
محقق علی الا طلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃاﷲ علیہ اپنی مایہ ناز کتاب
’’جذب القلوب اِلیٰ دیا ر المحبوب ‘‘ میں ایک حدیث شریف نقل کرتے ہیں جو
حضرت کعب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ :
وہ (حضرت کعب)اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہاکے پاس آئے ‘ ان کی
مجلس میں رسول اﷲ ﷺ کا ذکر جاری تھا ‘ حضرت صدیقہ رضی اﷲ عنہانے فرمایا کہ
جب آفتاب طلوع ہوتاہے تو ستر ہزار فرشتے قبرِ مطہر حضور ﷺ کے گر د اگر
دآجاتے ہیں اور صلوٰۃ (درود) بھیجتے ہیں اور جب شام ہوتی ہے تو چلے جاتے
ہیں اور دوسرا گر وہ فرشتوں کا اسی تعداد میں آجاتا ہے ا ور جس طرح انہوں
نے درود بھیجا تھا یہ بھی وہی کرتے ہیں ‘ جس وقت تک آپ ﷺ قبر شریف سے نکلیں
گے اس وقت تک یہی سلسلہ جاری رہے گا‘‘۶ ۔
پھرامام احمد رضا علیہ الرحمۃ ان ملائکہ کی تڑ پ اور آس کا ذکرکرتے ہیں کہ
جوملائکہ ایک بار درِاقد س پر حاضر ی کا شرف پالیتے ہیں وہ دوبا رہ حاضر ی
کے لیے تڑپتے رہتے ہیں مگر کس کی مجال کہ اس تعالیٰ کی حکم عد و لی کرے ،
وہاں سے تو صرف ایک بارہی حاضر ی کا اذن ہے جس میں اس تعالیٰ کی اپنے حبیب
ﷺسے محبت کا دخل کارفرما نظر آتا ہے کہ کثرت مائکہ کے سبب کوئی محروم نہ
رہے،سب درِ محبوب کی حاضری کا شرف پالیں…… بروز حشر تک تمام فرشتے باری
باری یہ سعادت حاصل کرلیں، فرشتے یونہی صبح سے شام اور شب سے سحردوبارہ کی
آس میں گزار رہے ہیں ……امام احمد رضا فرماتے ہیں :
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب
بے حکم کب مجال پرندے کو پَر کی ہے
اے وائے بیکسی تمنا کہ اب اُمید
دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے۷
حواشی : ٭٭٭
۱……امام اہل سنت امام احمد رضا بریلوی ، حدائق بخشش ، حصہ اول، مطبو عہ
لاہور ، ص: ۸۱
۲……ایضاً، ص : ۸۲ ۳……ایضاً، ص : ۸۲(زیر حاشیہ)
۴……ایضاً، ص : ۸۲ ۵……ایضاً، ص : ۸۲(زیر حاشیہ)
۶……شیخ عبد الحق محدث دہلوی ، جذب القلوب الیٰ دیا ر المحبوب ، مطبوعہ
کراچی، ص: ۲۶۹
۷……امام اہل سنت امام احمد رضا بریلوی ، حدائق بخشش ، حصہ اول، مطبوعہ
لاہور ، ص: ۸۲ از |