وہ ایک اونٹ تھا ۔بے زبان۔اس پراس کے مالک
نے بے تحاشامظالم کیے تھے مگر اسے پتا تھا کہ اب دنیامیں انصاف کا بول بالا
ہو گیا ہے ۔اب کوئی کسی کا حق نہیں مارسکتا ۔اب دنیا ایک ایسے شخص کے
وجودسے منورہے جس نے دشمنوں سے بھی انتقام نہیں لیا۔ وہ درانہ وار دوڑتا
ہوا اس دربار میں جا پہنچا جہاں سب کو انصاف ملتا تھا ۔جس دربا میں کسی پر
بھی دستور زباں بندی عاید نہیں تھا اور نہ ہی فریاد رسی کے لیے وکیلوں کی
ضرورت تھی۔مدعی خود دعوا دائر اور کرتا اور مدعا علیہ کو خود ہی عدالت میں
حاضر ہونا پڑتا تھا ۔اونٹ کی بے زبانی یہاں بات کر نے کو بے قرار ہوگئی۔ اس
نے کہا :
’’رسول خدا !(صلی اﷲ علیہ وسلم)مجھ پر میرے مالک نے مظالم کے پہاڑ تو ڑے
ہیں ۔میں آپ کے دربار سے انصاف مانگنے آیاہوں ․․․․․‘‘اونٹ کے زخم اس کی
داستان زار سنارہے تھے۔
اس واقعے کو امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں اس طرح بیان کیا ہے:
’’ایک بار حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف
لے گئے وہاں ایک اونٹ کھڑا ہوا زور زور سے چلا رہا تھا۔ جب اس نے آپ کو
دیکھا تو ایک دم بلبلانے لگا اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریب جا کر اس کے سر اور کنپٹی پر اپنا دست
شفقت پھیرا تو وہ تسلی پا کر بالکل خاموش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے ایک
انصاری کا نام بتایا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فوراً ان کو بلوایا
اور فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر ان کو
تمہارا محکوم بنا دیا ہے لہٰذا تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم ان جانوروں پر
رحم کیا کرو تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو
بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے کر اس کو تکلیف دیتے
ہو۔ (سنن ابو داود جلد1 ص253طبع مجتبائی)
رسول اعظم و اخرصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مہربانیوں کی یہ توہلکی سی جھلک
ہے ورنہ آپ کی سیرت مطہرہ کا ایک ایک ورق خلق خدا پر آپ کی
مہربانیوں،عنایات اور نوازشوں کی داستان سناتا ہے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کاینات کے لیے سراپا رحمت تھے۔دشمن بھی آپ کی پنا ہ میں آکر دائمی
سلامتی محسوس کرتے تھے پھر ایک وقت وہ آتا کہ ان کے دل نورودحدت اور محبت
رسول سے لبریز ہوجاتے تھے۔اس طرح کل کے دشمن آج جاں نثا ر بن جاتے تھے۔
خلق خدا پر مہرابانی شفقت اورعنایت کی خوبی ہر دو را ور ہر انسان میں مطلوب
رہی ہے مگر افسوس طاقت اور دولت کے نشے میں انسان خود کو کائنات اور اپنے
جیسے انسانوں سے بلند اور بڑا سمجھنے لگتا ہے اور ان پر مظالم کر نے لگتا
ہے۔رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ سنت مبارکہ ایسے انسانوں کے
لیے ایک آئینہ ہے جس میں وہ اپنے سراپے کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ جب آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم اقتدار میں آئے اور آپ کے پیچھے دس ہزار فوجیوں کا عظیم لشکر
تھا اس وقت بھی آپ نے مکہ مکرمہ میں کشت و خون نہیں کیا ،کسی پر ظلم نہیں
کیا ،کسی سے انتقام نہیں لیا ۔حالانکہ اس وقت مکہ میں وہ تمام مجرمین موجود
تھے جنھوں نے گذشتہ ایام میں اسلام ،مسلمانوں اورخود آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم پر زمین تنگ کر دی تھی ۔مکہ کے دوران قیام انھوں نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھائے ، پیٹھ پر اوجھڑی ڈالی اورپتھرچلائے
تھے۔
آپ انھیں سرکاری مجرم بنا کر بھی سزائیں دے سکتے تھے ۔ان پر مقدمے چلوا
سکتے تھے ۔اس وقت دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مجرمین کے خلاف کارروائی سے
روکنے والی نہیں تھی مگر آپ نے عام پروانہ معافی عطا کرکے اپنی اعلا
ظرفی،عظمت اور انسانیت پر مہربانی کا ثبوت دیا ۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت
کاواحد واقعہ ہے ورنہ سلاطین دنیا اور اقتدار پانے والی حکومتیں کشت و خون
کے واقعات سے لبریز ہیں۔
تاریخ انسانیت کا یہ واقعہ وہ ہے جسے بار بار سنایا اور بتایاجاتا ہے ۔ہر
دور میں یہ دہرایا جاتا رہے گا اور جب جب طاقت ور ممالک ،قومیں ،انسان اور
لوگ طاقت و وجاہت کے نشے میں انسانیت پر مظالم کر یں گے یہ واقعہ نئی آب
وتاب کے ساتھ سامنے آئے گا۔
طائف میں سنگ باری کاافسوس ناک مرحلہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
انسانیت کی بقا کی خاطرخندہ پیشانی سے بر داشت کیا ۔کیا کوئی بتا سکتا ہے
کہ آپ کا قصور کیا تھا جو طائف کے اوباشوں نے آپ پر پتھر چلائے ․․․․․جن کے
نتیجے میں آپ لہو لہان ہو گئے ۔عالم یہ ہو گیا کہ پہاڑوں ،ہواؤں کے اور
دیگر امور پر مامور فرشتوں نے طائف کے گستاخوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے
لیے آپ سے اجازت طلب کی مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انسانیت اور
کاینات پر رحم کر تے ہو ئے انھیں اس طرح کے اقدام کی اجازت نہیں دی۔زید بن
حارثہ کے مطالبے کے جوا ب میں آپ نے حفیظ جالندھری کے الفاظ میں اس طرح
فرمایا:
میں ان کے حق میں کیوں قہر الٰہی کی دعا مانگوں
بشر ہیں ،بے خبر ہیں کیوں تباہی کی دعامانگوں
اسی پر بس نہیں بلکہ آپ نے ان حیوان نما انسانوں کے لیے دعائے خیبر و
آبادبھی فرمائی ۔حفیظ جالندھری کہتے ہیں :
یہ فرما کر نبی نے ہاتھ اٹھا کر اک دعا مانگی
خدا کا فضل کا مانگا، خوئے تسلیم و رضا مانگی
دعا مانگی الٰہی! قوم کو چشم بصیرت دے
الٰہی! رحم کر ان پر انھیں نور ہدایت دے
جہالت ہی نے رکھا ہے صداقت کے خلاف ان کو
بچارے بے خبر انجان ہیں کر دے معاف ان کو
فراخی ہمتوں کو روشنی دے ان کے سینوں کو
کنارے پر لگادے ڈوبنے والے سفینے کو
الٰہی! رحم کر کہسار طائف کے مکینوں پر
الٰہی! پھول برسا پتھروں والی زمینوں پر
دشمنوں ،قاتلوں ،رسوا کر نے والوں اور پتھر برسانے والوں کو یہ دعائیں وہی
دے سکتا ہے جسے انسانیت سے پیار ہو۔جسے انسانیت سے محبت ہو اور جو تمام
انسانیت کو یکساں طور پر دیکھتا ہو۔جس کی نظر میں خلق خدا پر مہربانی سب سے
بڑی نیکی اور عبادت ہواور جو خدا کی مخلوق کے ستم یہ کہہ کر سہہ جاتا ہو
کہ’بشر ہیں بے خبر ہیں۔‘‘ یہ بات تو دشمن بھی جانتے ہیں کہ رسول اعظم و اخر
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ انسانیت سے محبت کر نے والا اور انسانیت
سے پیار کر نے والا کوئی نہیں ہے۔
آپ کی مہربانیوں اور کر م فرمائیوں سے آپ کے دور مبارک میں بھی خلق خدا کو
زندگی ملی اور آج بھی مل سکتی ہے ۔امیر اس ادائے رسول اکرم سے آج بھی سبق
لے سکتے ہیں ۔وہ آج بھی اس آئینے میں اپنا منہ دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے سب
سے بڑے انسان حضرت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کاینات پر مہربانی اور
کرم فرمائیوں کو عملی طور پر کر کے دکھایا نیز احکامات بھی دیے۔کتب حدیث
میں وہ آج بھی آبگینوں کی ماننددمکتی ہوئی دکھائیں دیں گے۔مخلوقات اور
انسانوں پر کرم فرمائیاں اور مہربانیاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ
کے وہ پہلو ہیں جن کی بد ولت اسلامی تاریخ تابندہ ہے۔
احساس
طائف میں سنگ باری کاافسوس ناک مرحلہ بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
انسانیت کی بقا کی خاطرخندہ پیشانی سے بر داشت کیا ۔کیا کوئی بتا سکتا ہے
کہ آپ کا قصور کیا تھا جو طائف کے اوباشوں نے آپ پر پتھر چلائے ․․․․․جن کے
نتیجے میں آپ لہو لہان ہو گئے ۔عالم یہ ہو گیا کہ پہاڑوں ،ہواؤں کے اور
دیگر امور پر مامور فرشتوں نے طائف کے گستاخوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کے
لیے آپ سے اجازت طلب کی مگر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انسانیت اور
کاینات پر رحم کر تے ہو ئے انھیں اس طرح کے اقدام کی اجازت نہیں دی۔
|