وہ میرا بہت اچھا دوست تھا، ہم اکثر گھنٹوں
بیٹھ کر قومی اور بین الاقوامی امور پر گفتگو کیا کرتے تھے، سنجیدگی اور
متانت سے لبریز مدلل اور تحمل آمیز انداز گفتگو ہمیشہ ہی سے اُس کا خاصہ
رہا، لیکن آج بیرونی خطرات اورسنگین اندورنی حالات میں گھرے پاکستان کی
مقروض معیشت، اُس پر حکومتی اراکین کی عیاشیاں، سرکاری خریداری میں کرپشن
اور کمیشن پر وزیر اعظم کی موجودگی میں وفاقی وزراء کے ایک دوسرے پر لوٹ
مار کے الزامات، سرکاری زمینوں پر قبضے اور انتہائی قیمتی اراضی کوڑیوں کی
مول فروخت، آئین، قانون، عدلیہ اور پارلیمنٹ کی بے توقیری اور دیگر معاشرتی
برائیوں کے تذکرے نے جیسے اُس کے ضبط کے سارے بندھن توڑ دیئے، اُس نے طنزیہ
لہجے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، تمہیں معلوم ہے۔ ۔ ۔ ۔ جنوبی کوریا کے
سابق ہر دلعزیز صدر روہمو ہیون جو 2003ء سے 2008ء تک عہدہ صدارت پر فائز
رہے ، نے پہاڑ سے چھلانگ لگا کر خود کشی کیوں کی؟ اُس نے کرکٹ کے چھکے کی
طرح سوال میری جانب اچھال دیا اور گہری نظروں سے میرا جائزہ لینے گا، اِس
سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، وہ خود ہی جواب دیتے ہوئے کہنے لگا، کیونکہ
وہ رشوت کے الزامات کا بوجھ برداشت نہ کرسکا، رشوت کے الزامات۔ ۔ ۔ ۔ میں
نے اُس کی بات دہرائی، ہاں۔ ۔ ۔ ۔ رشوت کے الزامات۔ ۔ ۔ ۔ اُسے ملینز ڈالرز
کی بدعنوانی کے مقدمے میں رشوت ستانی کے الزام کے تحت انکوائری کا سامنا
تھا اور کورین حکام اُس کے خلاف جوتوں کی کمپنی کے ایک دولت مند تاجر کی
جانب سے اُس کی بیوی کو ایک ملین اور بھتیجی کو پانچ ملین ڈالرز دیئے جانے
کے علاوہ ٹیکس چھپانے کے ایک معاملے کی بھی چھان بین کر رہے تھے۔
سابق صدر روہمو ہیون اِن الزامات کا سامنا نہ کرسکا اور اُس نے گھر کے قریب
واقع پہاڑ سے ایک گہری کھائی میں چھلانگ کر خود کشی کرلی، اُس نے سوالیہ
انداز میں مجھ سے پوچھا، کیا پاکستان میں کبھی ایسا ہوا کہ کسی شخص نے
دوران تفتیش یا عدالت سے مجرم ٹہرائے جانے کے بعد اپنے جرم کا کفارہ اِس
طرح ادا کیا ہو؟ یا اُس نے اپنے ضمیر کی خلش اِس طرح دور کی ہو؟۔ ۔ ۔ ۔
مجھے معلوم ہے تمہارا جواب نفی میں ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ کیا پاکستان میں کبھی ایسا
ہوا کہ کوئی وزیر کوئی مشیر، کوئی اعلیٰ سرکاری عہدیدار سرکاری فنڈ کے غلط
استعمال اور اپنے اختیارات سے تجاوز کے الزام میں خود ہی مستعفی ہوا ہو؟۔ ۔
۔ ۔ یا اُسے کسی تادیبی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا ہو؟۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ناں۔ ۔
۔ ۔ لیکن ابھی حال میں برطانیہ کے وزیر انصاف شاہد ملک فنڈز کے غلط استعمال
کے الزامات عائد ہونے کے بعد مستعفی ہوئے اور برطانوی وزیر اعظم گورڈن براﺅن
نے اُن کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیا اور تمہیں معلوم ہے کہ اِس انکشاف
سے قبل برطانوی وزیر اعظم گورڈن براون حکمران لیبر پارٹی کے ایک رکن سابق
وزیر ایلیٹ مورلے کی رکنیت اِس وجہ سے معطل کرچکے تھے کہ مورلے پر الزام
تھا کہ اُس نے پارلیمانی اخراجات کے زمرے میں سولہ ہزار پاونڈ اُس قرضے کے
لیے رقم وصول کئے جو وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔
ہہ کہہ کر اُس نے گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا اور پھر بولا، کیا پاکستان
میں ایسا ہوتا ہے؟ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ ۔ ۔ ۔ خاموشی کا وقفہ طویل
ہوتا دیکھ کر میں نے اُس سے پوچھا کیسا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ اُس نے ایک گہری
سانس لی اور پھر گویا ہوا، جیسا چند برس قبل اٹلی کے شہر میلان میں ہوا تھا۔
۔ ۔ ۔ میلان میں کیا ہوا تھا ؟ میں نے متجسس انداز میں اُس سے پوچھا، اُس
نے خلا میں گھورتے ہوئے اپنی یادداشت کو جمع کیا اور بولا۔ ۔ ۔ ۔ یہ کوئی
پانچ برس قبل کی بات ہے، اٹلی کے شہر میلان میں ہسپتال کی ایک عمارت گر گئی،
تحقیقات پر معلوم ہوا کی عمارت کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال ہوا تھا
اور جس کمپنی نے یہ عمارت تعمیر کی تھی اُس کی شہرت بھی اچھی نہیں تھی، اُس
نے ماضی میں جتنی بھی عمارتیں بنائیں، اُن میں تعمیراتی نقص پائے گئے، اِس
صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوا کہ پھر اِس بدنام فرم کو ٹھیکہ کس نے دیا،
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ٹاون میئر اِس ٹھیکے میں ملوث ہیں، چنانچہ مقدمہ
مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا، مجسٹریٹ نے میئر کو طلب کیا، سماعت ہوئی جرم
ثابت ہوگیا اور مجسٹریٹ نے فیصلے کی تاریخ مقرر کردی، اس سے پہلے کہ
مجسٹریٹ اپنا فیصلہ سناتا، مئیر نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے فیصلے سے
پہلے ہی مجسٹریٹ کے تبادلے کے احکامات جاری کروا دیئے، جس کی وجہ سے
مجسٹریٹ کو چارج چھوڑنا پڑا، عوام کو جب اِس صورتحال کی خبر ہوئی تو وہ
سڑکوں پر آگئے اور پورا میلان شہر جام ہوگیا، عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ
مجسٹریٹ کو واپس لایا جائے۔
میلان کے عوام کا خیال تھا کہ جو مجسٹریٹ میئر کو عدالت میں بلا سکتا ہے وہ
یقیناً ایک نڈر، بے باک اور ایماندار جج ہے اور میلان شہر کو ایسا افسر
کھونا نہیں چاہیے، آنے والے دنوں میں عوامی احتجاج اِس قدر شدید ہوگیا کہ
حکومت کو عوامی مطالبہ کے آگے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا، مجسٹریٹ نے دوبارہ
عدالت کا چارج سنبھالا، میئر کا کیس سنا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے
میئر کو سزا سنا دی، اب تم مجھے بتاؤ کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔
کیا انصاف پسند بااصول ججوں کو کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ فیصلے کرنے کا
اختیار ہے ؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا ارباب اختیار عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی
کوشش نہیں کرتے؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہماری عدالت کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی بڑے
صاحب اختیار شخص کو عدالت میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کرسکے ،اُس سے سوال
و جواب کرسکے، اسے قانون کے مطابق مجرم قرار دے سکے؟۔ ۔ ۔ ۔ اور کیا اس عمل
کے بعد کوئی جج اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔
کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے جیسا سوئیڈن کے بادشاہ کے ساتھ ہوا، میں نے
چونک کے اس کی طرف دیکھا لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی وہ کہہ رہا تھا کہ
”ایک مرتبہ سوئیڈن کے شاہ اپنے چند سالہ پوتے کے ہمراہ لانگ ڈرائیو پر نکلا،
راستے میں پوتے نے دادا کی گود میں بیٹھنے کی خواہش کی، جس پر دادا نے اُسے
اپنی گود میں بیٹھا لیا، بادشاہ کی یہ حرکت ایک ٹریفک سارجنٹ دیکھ رہا تھا
اُس نے بادشاہ کی گاڑی رکوائی اور پوتے کو بادشاہ کی گود سے اٹھا کر پچھلی
سیٹ پر بیٹھاتے ہوئے ادب سے سر جھکا کر بادشاہ کو مخاطب کیا ”ہز ایکسی
لینسی، قانون توڑنا مجرموں کا کام ہوتا ہے، بادشاہوں اور حکمرانوں کا نہیں
“ اور شاہ کا چالان کاٹ کر اُن کے ہاتھ میں پکڑا دیا، تم بتاؤ کیا پاکستان
میں ایسا ہوتا ہے؟ کیا ہمارے کسی ٹریفک سارجنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ
قانون کی خلاف ورزی پر وہ کسی وزیر، کسی مشیر، کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار یا
کسی صدر اور کسی وزیر اعظم کی گاڑی روک سکے، انہیں قانون کے احترام کا درس
دے سکے اور ان کا چالان کرسکے؟۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ناں۔ ۔ ۔ ۔ اُس نے میرے چہرے پر
نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔
کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے جیسا ایران میں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں معلوم ہے
کیا ہوا تھا؟ اس نے میری طرف دیکھا اور بولا، موسیٰ حسین ایران کا ایک تاجر
تھا جو اکثر کاروبار کے سلسلے میں دبئی کے راستے نیویارک جاتا رہتا تھا،
ایک بار نیویارک کے ہوائی اڈے پر امریکی سیکورٹی ایجنسی کے لوگوں نے اس کے
ساتھ نہایت ہتک آمیز سلوک کیا، اُس کو برہنہ کر کے جامہ تلاشی لی گئی، پوچھ
گچھ کے نام پر کئی گھنٹے زیر حراست رکھ کر سخت ناروا سلوک کیا گیا، بلڈ
پریشر اور شوگر کے مریض ہونے کی وجہ سے اُس کی طبیعت خراب ہوگئی اور اسے
چار دن ہسپتال میں گزارنے پڑے، ایران واپسی پر اُس نے اپنے ساتھ شرمناک
امریکی سلوک کی روداد مقامی اخبارات میں اس مطالبے کے ساتھ شائع کرادی کہ
”اگر امریکی ادارے امریکہ میں ایرانیوں کی تلاشی لے سکتے ہیں اور اگر
امریکہ میں ایرانیوں کے فنگر پرنٹس لازمی ہیں تو ایران میں ایسا کیوں نہیں
ہوسکتا“، موسیٰ حسین کا مطالبہ اخبارات سے نکل کر پارلیمنٹ پہنچ گیا اور
بالآخر بحث و مباحثہ کے بعد انیس نومبر 2006ءکو ایک قانون کہ”2007ء سے
ایران کی حدود میں داخل ہونے والے تمام امریکی شہریوں کے فنگر پرنٹس لئے
جائیں گے“کی شکل اختیار کرگیا، گو کہ ایرانی پارلیمنٹ اِس قانون کو منظور
کرچکی تھی لیکن ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے اس پر کچھ تحفظات تھے، ان
کا خیال تھا کہ ایران کے اختلافات امریکی حکومت سے ہیں امریکی عوام سے نہیں،
اس قانون سے مسافروں اور سیاحوں کو تکلیف ہوگی، جس سے ایران اور امریکہ کے
سفارتی تعلقات خراب ہوجائیں گے، اُن کا خیال تھا کہ اس قانون سے امریکی
مہمانوں کے میزبانوں کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے اس قانون
سے پرہیز کیا جائے۔
چنانچہ انہوں نے اس قانون کے خلاف گارڈین کونسل( جو کہ ایرانی دستور کے
مطابق چھ سیاسی لیڈر اور چھ عدالتی ارکان پر مشتمل ایک ایسا ادارہ ہے جو
کسی بھی قانون کو ویٹو کرسکتا ہے ) میں اپیل کردی، گارڈین کونسل کے ارکان
نے صدر کی اپیل کا جائزہ لیا اور اتفاق رائے سے صدر کی درخواست مسترد کرتے
ہوئے کہا کہ”امریکہ میں ایرانیوں سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو روز شرمندگی
ہوتی ہے، اگر امریکی اس شرمندگی کا تھوڑا سا حصہ لے لیں تو قیامت نہیں
آجائے گی، چونکہ ایرانی پارلیمنٹ قانون پاس کرچکی ہے، لہٰذا کوئی امریکی
شہری اب اِس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا“میں تم سے پھر وہی پوچھوں گا کہ کیا
پاکستان میں ایسا ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہماری پارلیمنٹ ایسی ہے
کہ کوئی بل، کوئی قرار داد، کوئی قانون پاس کردے تو صدر مملکت سمیت تمام
حکومتی عہدیدار اُس کا احترام کریں، اُس پر نہ صرف خود بلکہ تمام انتظامی
محکموں کو بھی عمل درآمد کا حکم دیں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، ہماری
پارلیمنٹ آزاد ہے نہ سپریم ہے، نہ ہی وہ خود کوئی فیصلہ کرسکتی ہے اور نہ
ہی کبھی اُس کے کئے گئے؟ فیصلوں پر حکومت وقت نے خوشدلی سے عمل کیا۔
بدقسمتی سے آج تک ایسا نہیں ہوا۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا، میں نے
خاموشی سے اُس کے چہرے کا جائزہ لیا، جس پر کرب، اذیت، مایوسی، محرومی اور
حسرت و یاس کے سائے بکھرے تھے، اُس نے ایک بار پھر چبھتی ہوئی نگاہیں میرے
چہرے پر گاڑتے ہوئے سوال کیا، کیا پاکستان میں ایسا ہوتا جیسا عالم اسلام
کے دشمن اسرائیل میں ہوتا ہے، کہ جہاں ایک یہودی خاتون سے جنسی زیادتی کی
شکایت پر پولیس اسرائیلی صدر موشے کاتساو کے دفتر پر ریڈ کرتی ہے، تفتیش
کیلئے صدر کے کاغذات اور کمپیوٹر کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے، صدر پر
الزامات کاجائزہ لینے کیلئے اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا آغاز ہوتا ہے، اس
دوران ،سات ستمبر 2006ء کو صدر موشے کاتساو کو نئے الیکشن کمشنر سے ایوان
صدر میں حلف لینا تھا لیکن چونکہ اُس دن تفتیش تھی اور اسرائیلی قانون کے
مطابق کوئی زیر تفتیش ملزم پولیس کی اجازت کے بغیر تفتیش سے غیر حاضر نہیں
ہوسکتا، پولیس کے مطابق جب تک یہ تفتیش جاری رہے گی اُس وقت تک صدر موشے
کاتساو کی تمام سرکاری مصروفیات معطل رہیں گی اور وہ پولیس کی اجازت کے
بغیر کسی جگہ نہ جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی تقریب میں شرکت کرسکتے ہیں،لہٰذا
صدر تقریب حلف برداری میں شرکت سے معذور تھے، انہوں نے پولیس چیف سے تقریب
میں شرکت کی اجازت چاہی لیکن پولیس چیف نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔
چنانچہ صدر نے پارلیمنٹ سے معذرت طلب کی اور اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار
حلف برداری کی یہ تقریب ایوان صدر کے بجائے پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی اور
الیکشن کمشنر سے صدر کے بجائے پارلیمنٹ نے حلف لیا، تمہیں معلوم ہے۔ ۔ ۔ ۔
اُس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولا، اُس دن پولیس نے اسرائیل
صدر موشے کاتساو سے نو گھنٹے تفتیش کی اور پولیس کی یہ تفتیش صبح دس بجے سے
شام سات بجے تک جاری رہی، کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے کہ پولیس کسی برسر
اقتدار صدر کے خلاف مقدمہ درج کرسکتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ گورنر، وزیر اعلیٰ ہاوس،
ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں تفتیش کیلئے داخل ہوسکتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ وہ
گورنر، وزیر اعلیٰ، صدر اور وزیر اعظم کے کاغذات اور کمپیوٹرز تفتیش کیلئے
اپنے قبضے میں لے سکتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ ملک کے صدر یا دیگر اعلیٰ سرکاری
عہدیداروں سے نو نو گھنٹے تفتیش کرسکتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ کیا دوران تفتیش ہمارا
صدر اور دیگر عہدیدار سرکاری تقریب میں شرکت کیلئے پولیس چیف کی اجازت کے
محتاج ہیں اور کیا ہماری پولیس کو یہ اختیار ہے کہ وہ اگر چاہے تو صدر یا
کسی بھی زیر تفتیش سرکاری افسر کو اجازت دینے سے انکار کردے؟۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً
اس بار بھی تمہارا جواب نفی میں ہوگا، کیونکہ حقیقت یہی ہے، میرے دوست ۔ ۔
۔ ۔ میں تمہیں دنیا کے غیر اسلامی ملکوں سے ایسی بے شمار مثالیں دے سکتا
ہوں، لیکن تم مجھے اپنے دیس کی شاید ہی کوئی ایک مثال دے پاؤ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں صرف وہی قومیں قائم و دائم رہتی ہیں جو
اپنی آزادی کا تحفظ کرنا جانتی ہیں اور ایمان و یقین کے ساتھ دنیا میں سر
اٹھا کر جیتی ہیں، اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، کیا تم جانتے
ہو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے کہ ہم نے اپنی قومی
غیرت، اپنی آزادی اور اپنی خود مختاری غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ دی ہے، اُس
کا سودا کردیا ہے اوراپنی سالمیت اور خود مختاری پر سودے بازی کرنے والوں
کو دنیا جوتے کی نوک پر رکھتی ہے، آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے
حکمران امریکہ کے کاسہ لیس اور غلام ہیں اور غلام اور بھکاری”Baggers are
not choosers“ کا اختیار نہیں رکھتے، تم خود ہی بتاؤ۔ ۔ ۔ ۔ وہ قوم ۔ ۔ ۔ ۔
اور۔ ۔ ۔ ۔ وہ حکمران۔ ۔ ۔ ۔ جو محض چند ڈالروں کے عوض اپنے ضمیر، اپنی
انا، اپنی قومی و ملی اقدار کا سودا کردیں اور اپنی عزت نفس کو غیروں کے
ہاتھوں گروی رکھ دیں، کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ اُس نے جواب طلب نظروں سے
میری طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میرے پاس سوائے نفی میں سر ہلانے کے۔ ۔ ۔ ۔
کوئی جواب نہیں تھا، اُس لمحے بس دل و دماغ میں ایک ہی سوال گردش کر کے روح
کو کچوکے لگار ہا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ کاش پاکستان میں بھی ایسا ہوتا،کاش۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان میں بھی ایسا ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ! |