محب وطن کون ۔۔۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ملک ہے ، اس ملک کی کثیر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، یہ وطن چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو وجود میں آیا۔پاکستان کا پہلا آئین انیس سو چھپن میں بنا دوسرا آئین انیس سو تریسٹھ بنا جبکہ چودہ اگست انیس سو تہتر کوتیسرا آئین ملک میں نافذ ہوا اس کے بعد تیسرے آئین میں ترامیم ہوتی رہیں اور اب بیسویں ترامیم بھی ہوچکی ہے۔ تیسراے آئین کی چند اہم ترین خصوصیات میں درج باتیں ہیں ۔۔پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہو گا وزیراعظم حکومت کا سربراہ ہوگا اور اسے اکثریتی جماعت منتخب کرے گی۔اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا ضروری ہے۔اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔اگر صرف ان پانچ اہم خصوصیات کو دیکھیں تو یقینا ان احکامات پر شائد ہی کوئی ممبر اسمبلی قائم ہو کیونکہ گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ میں چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی عیسائی وزیر اعظم ہو؟؟یہ بھول گئے کہ یہ تیسرا آئین ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہی بناتھا ایک طرف انھوں نے آئین کی روگردانی کی دوسری طرف اپنے ہی نانا کی تذلیل بھی۔بالغ ہونے کے باوجود نابلدگی کا اظہار تعجب میں ڈال دیتا ہے اور حیرت تو یہ ہے کہ پارٹی کے کارکنان و عہدیداران نے مذمت کے بجائے ان کے تحفظ میں دلائل دینے شروع کردیئے۔کیا بلاول اپنی اس سوچ سے ظاہر کررہے ہیں کہ انہیں نہ پاکستان، پاکستانی آئین اور عوام کے جذبات اور عزت کا پاس ہے اور نہ وہ محب وطن کے لفظ سے بھی واقف ہیں اور خواب دیکھنا چاہتے ہیں پاکستان کے وزیر اعظم کا۔ہماری عوام اس قدر بے حس اور خود غرض ہوچکی ہے کہ ایسی پارٹی جو اب صرف عوام کا خون چوسنے پر قادر ہے اسے کیا آئندہ بھی ملا دیا جائیگا؟؟ یقینا عوام غدار کو مسترد کردیں گے۔ دوسری جانب پاکستانی افواج کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی اور ان کے مورل کو نقصان پہنچانا کہاں کی حب الوطنی ہے،ایک طرف تو پاکستانی افواج کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے فخر کرتے ہیں کہ دنیا کی بہترین افواج ہے اورزمینی حقائق کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ پاکستانی بارڈر کی جس قدر جانفشانی سے پاکستانی افواج نہ صرف تحفظ کررہی ہیں بلکہ اندرون حملہ کا منہ توٹ جواب بھی دے رہی ہیں ، پاکستان کئی سالوں سے بیرونی طاقتوں کا سامنا کررہا ہے جس میں ہمسائے ممالک بھارت اور افغانستان کی جانب سے شرپسندوں کی مسلسل کاروائیاں شامل ہیں ، ان کی روک تھام میں ہزاروں پاکستانی فوجی شہید ہورہے ہیں۔ پاکستانی افواج نے سولین کے معاملہ میں مداخلت کرنے سے معزوری کرلی ہے کیونکہ جب بھی فوجی قیادت ریاست کو سنبھالتی ہے سولین ان سے شدید نفرت کر بیٹھتے ہیں ، اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سابق جنرل ضیاءالحق نے غیر کی جنگ کو اپنے وطن میں سمیٹ لیا بلکہ آمریت کی حد تو یہ کردی کہ افغانستانیوں کو کسی بھی چیک آف بیلنس کے بغیر پاکستان میں آباد ہونے کی اجازت دے دی تھی ، ان افغانستانیوں کی آمد سے کلاشنکوف، ہیروئن اور دیگر منشیات فروشی کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوا،وہ امریکہ جو انتہائی خود غرض اور شریف لبادہ میں بھیڑیا ہے اسے نہ پاکستان سے کوئی لگاو ¿ ہے اور نہ پاکستانیوں سے۔ دوسری جانب ضیاءکے دور کے بعد جہوری حکومت جب جب قدم رکھا اس قوم کو دیوالیہ کردیا کوئی عوامی فلاحی امور نظر نہ آئے، دنیا کی تاریخ میں ایک آمر جو فوجی افسر تھا اس نے اُس وقت کے وزیر اعظم کی انتہائی خطرناک ترین غلطی پر نکال باہر کیا جو اس سے نا تلافیپاکستان کو نقصان سے دوچار کیا تھا اُس وقت کے جمہوری وزیر اعظم نے گیاری سیکٹر پر پاکستانی افواج کی بہترین کامیابی کو نہ صرف انتہائی نا کامی سے دوچار کیا بلکہ سرینڈر کی وجہ سے ہزاروں فوجی شہید ہوگئے اس جمہوری وزیر اعظم نے جب دیکھا کہ پاک فوج کامیابی سے ہمکنار ہوگئی ہے اور عنقریب مقبوضہ کشمیر پر بھارت سے سودی بازی ہونے جارہی ہے یہ وزیر اعظم فوراً امریکہ پہنچ کر مائی باپ سے اُس وقت کے جنرل کے خلاف کاروائی کرنے کو کہا اور چند سیکنڈوں میں افواج پاکستان میں بغاوت پیدا کرکے نیا جنرل نامزد کردیا گیا لیکن یہ بھول گئے تھے کہ پاکستانی افواج بہت مضبوط اور متحدہے یہ اپنے اندر کوئی سیاست یا بغاوت پیدا ہونے نہیں دے سکتی بحرحال دنیا نے دیکھا یہ وہ جمہوری وزیر اعظم نے اپنی اس غداری کی سزا پائی لیکن پھر ایک معاہدہ کے ذریعے اس وطن میں سیاست کرنے کیلئے عرب ممالک کی مدد حاصل کی اور آج اسی فوجی جنرل کو غدار کہنے والے پہلے اپنے گریبان میں دیکھیں کہ جمہوریت کے نام پر عوام کو مسلسل بے وقف بنایا ، پاکستانی کے انتہائی خفیہ راز فاش کیئے۔جس نے وطن کی حفاظت میں اپنے پوری زندگی صرف کردی اور ان کی زندگی مین کارناموں کی بڑی فہرست اور میڈلز ہیں جنہیں افواج پاکستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ دنیا بھر کے کئی ممالک نے نوازا۔رہی بات عدلیہ کی تو معزرت کیساتھ آج تک عدلیہ میں انصاف نہیں بلکہ تاریخ پر تاریخ کے نام پر نیچے سے لیکر رشوت اوربخشش کا عمل چلا آرہا ہے سابقہ چیف جسٹس جو خود این آر او سے آئے تھے اور این آر او کی مخالفت میں از خود نوٹس لیتے ہوئے خود کو ہیرو بنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ، آج تک عدلیہ میں آئین کے تحت انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا اگر چند سپریم کورٹ یا چند ایک کورٹ چند کیسس پر فوری انصاف بہم کردیں تو یہ انصاف نہ ہوگا آج بھی غریب عوام انصاف کیلئے ماری ماری پھرتی ہے آخر عدلیہ کے نظام کو مکمل کمپیوٹرائز کیوں نہیں کیا جاتا ، سول کورٹ ہو یا سیشن کورٹ اگر ان عدالتوں میں کرپٹ لوگ بس گئے ہیں تو ان کے خلاف الیکشن نہ کرنا کیا حب الوطنی کے زمرے میںآئیگا۔یوں تو عدلیہ انتظامیہ اور پولیس پر آئے روز برہم ہوتی نظر آئی ہے کہ پولیس صحیح طریقہ سے کام کرے اور ایف آئی آر درج کرے اور مجرموں کی پشت پناہی سے باز آجائے !! کیا عدلیہ انتظامیہ اور پولیس کے محکمہ کو درست کرپائی ہر گز نہیں کیونکہ برسوں پرانا یہ مرض جو عدالتوں میں وائرس کی طرح پھیلا ہوا ہے کرپشن، رشوت ستانی کا اسی لیئے یہ ادارے بھی عدلیہ کے احکامات کو مٹی کی دھول سمجھ کر اڑادیتے ہیں۔عدلیہ کو اس ضمن میں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا پڑیگا اورحب وطنی کی خاطر نظام کی درستگی میں اپنا مثبت کردار ادا کرکے اپنے منصب سے انصاف برتنا ہوگا۔سوچئے اور سمجھئے ہر وہ شخص غدار ہے جو وطن عزیز پاکستان اور عوام کیلئے ناسور بنا پھرتاہے جن کے اعمال سے ریاست، نظام اور حکومت کو نقصان پہنچ رہا ہے ان میںبجلی و گیس چور، ٹیکس چور،ذخیرہ اندوز، ملاوٹ کنندہ، رشوت خور،جرائم و کرائم میں ملوث،عدم عدل وانصاف، منشیات اور زنا کا کاروبار اور قومی خذانے کی لوٹ مار۔۔۔ کیا یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی غداری نہیں تو کیا ہے؟؟ اب فیصلہ عوام ہی کرے کہ کون حب الوطن ہیں اور کون غداری کی زمرے میں آتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس گلشن کے کانٹوں کو عوام نے ہی کاٹنا ہے ، وطن عزیز کے مخلصوں کی قدر کرنی ہے، اپنی افواج کی عزت و تعظیم کیساتھ ساتھ نوجوانوں کو سیاست سے نہیں بلکہ بہتر تعلیم سے سوارنا ہے، انتخابات کے عمل کو جدید خطوط کیساتھ اسکینگ سے مروج کرنے کا مطالبہ کرنا ہے تاکہ آئندہ ایوانوں میں آئین کے تحت اور شفاف لوگ منتخب ہوسکیں۔ یہ ملک خاندانوں کی میراث نہیں کہ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی ریاست کی حاکم بنے۔ اللہ اس وطن عزیز کی حفاظت رکھے آمین ثما آمین۔
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 245947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.