اِک درد سا دل میں ہوتا ہے
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پاکستان کے سابق صدر ، چیف آف
آرمی سٹاف اوربہادر کمانڈو جو ’’ڈرتے ورتے کسی سے نہیں ‘‘کو غداری کیس میں
پیشی کے لیے خصوصی عدالت جانے سے پہلے اچانک دل میں ’’کچھ کچھ ‘‘ ہونے لگا
۔یہ تو طے ہے کہ دل میں اُٹھنے والا یہ درد’’میٹھا میٹھا‘‘ ہر گز نہیں تھا
کیونکہ اِس صورت میں تو مشرف صاحب فوراََ طبلہ ، سارنگی لے کر بیٹھ جاتے
اوراِس درد کا خود ہی علاج کر لیتے ۔یہ یقیناََ معروف معنوں میں ’’ہارٹ ٹیک‘‘
بھی نہیں تھا کیونکہ اِس صورت میں محترمہ صہبا مشرف اپنے ’’سرتاج‘‘ کو یوں
بے یار و مددگار چھوڑ کر دبئی ہر گز نہ جاتیں ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ درد کی
کونسی قسم تھی ؟۔۔۔۔میری پانچ سالہ نواسی جب اپنی ماں کے ساتھ باہر جانے کی
ضد کرتی ہے تو اُسے ٹالنے کے لیے اُس کی ماں جب یہ کہہ دیتی ہے کہ ’’ٹیکہ
لگوانے جا رہے ہیں تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت اُسے باہر جانے پر مجبور نہیں
کر سکتی۔اُس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ’’میں نے ٹیکے والے انکل کے
پاس نہیں جانا‘‘۔ لگتا ہے کہ کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہمارے کمانڈو کو بھی
درپیش تھی اور وہ بھی خصوصی عدالت کو ’’ٹیکے والے انکل‘‘ ہی سمجھ رہے تھے
اسی لیے گاڑی میں بیٹھنے سے گریزاں پرویز مشرف صاحب کا دل ’’دھک دھک کرنے
لگا ‘‘اور جب اُن کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا گیا تو وہ ڈر کر پیچھے ہٹ
گئے اور اِس سے پہلے کہ وہ بھاگ کرگھر میں داخل ہوجاتے ،اُن کی حفاظت پر
مامور کمانڈوز نے اُنہیں گھیرگھار کر گاڑی میں بٹھا دیا لیکن گاڑی میں
بیٹھتے ہی اُنہوں نے دوسری طرف کا دروازہ کھول کر گاڑی سے باہر چھلانگ لگا
دی ۔اخباری اطلاعات کے مطابق اِس شدید ترین سردی میں بھی پرویز مشرف صاحب
کی پیشانی پسینے سے تَر تھی۔تیسری بارشاید وہ اِس شرط پر گاڑی میں بیٹھے کہ
اُنہیں خصوصی عدالت کی بجائے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی
میں لیجایا جائے گا۔ چنانچہ اُن سے کیا گیا وعدہ ایفا ء ہوا اور راول چوک
سے گاڑی اسلام آباد کی بجائے AFICراولپنڈی کی طرف مُڑ گئی جہاں چاک و چوبند
فوجی جوان مشرف صاحب کو حفاظتی حصار میں لینے کے لیے بیتاب تھے ۔ اب وہ فوج
کے حصار میں ہیں اوراُن کے وکلاء سمیت کسی بھی شخص کواُن سے ملنے کی اجازت
نہیں ۔
دروغ بَر گردنِ راویAFIC کے ماہر ترین ڈاکٹرز کا بورڈ مشرف صاحب کے ٹیسٹوں
کو سامنے رکھ کر گھنٹوں حیران و پریشان بیٹھا رہا کیونکہ ٹیسٹوں کے اندر
’’گوڈے گوڈے‘‘ اُترنے کے باوجود اُنہیں اندر سے ’’کَکھ‘‘ نہیں ملااسی لیے
مشرف صاحب کی اینجیوگرافی کرنے کی بجائے یہ طے کیا گیا کہ مزید تسلی کے لیے
مشرف صاحب کی میڈیکل رپورٹس غیر ملکی آقاؤں کے پاس انگلینڈ بھیج دی جائیں ۔
شنید ہے کہ رپورٹس دیکھنے کے بعد اُنہوں نے مشرف صاحب کو کسی صحت افزاء
مقام پر جانے کا مشورہ دیا ہے ۔اگرمہربان ’’میاں برادران‘‘ چاہیں تو مشرف
صاحب کومری میں موجود اپنے محل نما گھر میں ٹھہرسکتے ۔مشرف صاحب ہمارے سابق
صدر اورسپہ سالار ہیں اور بقول چوہدری شجاعت حسین ’’سپہ سالارآئین شکن تو
ہو سکتا ہے ، غدار نہیں‘‘ ۔جب مشرف صاحب غدار ہی نہیں تو کیا اُن کا اتنا
بھی حق نہیں بنتا کہ چلیئے وزیرِ اعظم ہاؤس پر نہ سہی میاں برادران کے گھر
پر ہی قابض ہو سکیں؟۔
بوستانِ سیاست کے گُلِ نوخیز جناب بلاول زرداری کہتے ہیں کہ ’’یقین نہیں
آتا بُزدل مشرف نے کبھی بہادر فوج کی وردی پہنی ہوگی ۔یہ بیماری محض ڈرامہ
ہے ، حقیقت جاننے کے لیے غیر جانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے ‘‘ ۔بلاول
زرداری کے اِس بیان نے یہ راز بھی افشاء کر دیا کہ پرویز مشرف کی اِس
’’بیماریٔ دِل‘‘ نے متحدہ قومی موومنٹ کو کتنا بے چین کیا ہے۔اب یہ کوئی
راز نہیں رہا کہ ایم۔کیو۔ایم کے نہاں خانۂ دِل میں اب بھی مشرف صاحب کے لیے
کچھ ’’یوں یوں‘‘ ہوتا ہے ۔ ایم۔کیو۔ایم کی رابطہ کمیٹی کے رُکن محمد انور
نے کہا کہ بلاول کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کے والد آصف زرداری نے سوئس
عدالتوں میں حاضری سے بچنے کے لئے پاگل پَن کاسرٹیفیکیٹ عدالت میں جمع
کروایا تھا ۔گویا ایم۔کیو۔ایم نے یہ تسلیم کر لیا کہ ماضی میں جنابِ آصف
زرداری نے ڈرامہ کیا تھااور اب پرویز مشرف بھی ڈرامہ ہی کر رہے ہیں ۔اِس کے
باوجود بھی ہم سمجھتے ہیں کہ متحدہ کے اربابِ اختیار کو یہ یاد رکھنا ہو گا
کہ مشرف ایک آمرتھا اور پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی
جماعت ہے ۔ پیپلز پارٹی کی اچھی یا بُری حکمرانی سے قطع نظر جمہوریت کا
آمریت سے موازنہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں لیکن چونکہ متحدہ قومی موومنٹ
میں آمریت ہی آمریت ہے اور آمرِ مطلق باہربیٹھ کر پوری پارٹی کو اپنی مرضی
سے چلا رہا ہے اِس لیے متحدہ کو ہمیشہ آمریت ہی راس آتی ہے۔
ہمارے مہاجر بھائی الطاف حسین فرماتے ہیں کہ مشرف کی تذلیل اُن کے مہاجر
ہونے کی بنا پر کی جا رہی ہے جو کہ تین کروڑ مہاجروں کی تضحیک و تذلیل کے
مترادف ہے ۔الطاف بھائی کی باتوں پر لوگ زیادہ دھیان نہیں دیتے کیونکہ وہ
سمجھتے ہیں کہ الطاف بھائی ہمیشہ ’’حالتِ جذب‘‘ میں رہتے ہیں اوراسی بنا پر
وہ ہر روز اپنا بیان بدلتے رہتے ہیں ۔پہلے اُنہوں نے فرمایا کہ سندھ کا
شہری اور دیہی بجٹ ففٹی ففٹی یا پھر الگ مہاجر صوبہ اور اگر اُ ن کی بات نہ
مانی گئی تو پھر’’ الگ ملک ‘‘۔جب اُن کی اِس ’’افلاطونی‘‘ تقریر پر چاروں
طرف سے مذمتی بیان جاری ہونے لگے تو اُنہوں نے صرف ایک دن کے وقفے کے بعد
اپنا بیان بدلتے ہوئے فرمایا کہ سندھ میری ماں ہے اور کوئی اپنی ماں کے
ٹکڑے نہیں کرتا ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ’’ سندھ نمبر وَن ‘‘سندھی
لے لیں اور ’’سندھ نمبر ٹُو‘‘ مہاجروں کو دے دیں ۔ماں نمبر وَن اور ماں
نمبر ٹو کا یہ انوکھا اور نرالا تصور پیش کرکے الطاف بھائی نے ہماری نظروں
میں اپنا قد بہت اونچا کر لیا ہے کیونکہ ہم خود بھی مہاجر ہیں اور مہاجر تو
مہاجر ہوتا ہے خواہ وہ اُردو بولنے والا ہو یا پنجابی بولنے والا۔ہم نے تو
بہت چاہا کہ پنجاب میں بسنے والے لَگ بھَگ پانچ کروڑ پنجابی مہاجرین اکٹھے
ہو کر آدھے پنجاب کا الگ صوبہ بنا لیں لیکن ہمارے پاس ’’الطاف بھائی‘‘ جیسا
کوئی لیڈر نہیں ۔ہمارا ’’مَتھا‘‘تو میاں برادران سے لگا ہے جو ہیں تو
’’مہاجر ‘‘ ہی لیکن نئے صوبے کی بات سُنتے ہی بھڑک اُٹھتے ہیں ۔
آمدم بَر سرِ مطلب ، ہم نہیں جانتے کہ مشرف صاحب واقعی بیمار تھے یا پھر یہ
سب کچھ محض ڈرامہ تھا ۔اگر وہ بیمار ہیں تو اﷲ تعالےٰ اُنہیں صحتِ کاملہ
عطا کرے تاکہ وہ عدالتوں کا سامنا کرکے نشانِ عبرت بن سکیں اور اگر وہ
بیمار نہیں ہیں تو پھر وہ اِس ’’فلاپ‘‘ ڈرامے کے مصنف اورہدایت کار کو
’’کوسنے‘‘ دیں جِنہوں نے ایسابیکار ڈرامہ سٹیج کرکے ہمارا وقت ضائع کیا
۔اِس سے ہزار گُنا بہتر توسٹار پلس کے ڈرامے ہوتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ
دُنیا میں اُس شخص سے زیادہ بد نصیب کوئی نہیں ہو گا جس کی بیماری کو بھی
لوگ ڈرامہ سمجھیں ۔اپنے آپ کو ’’قومی ہیرو‘‘ قرار دینے والے پرویز مشرف
صاحب کو اب تو ادراک ہو جانا چاہیے کہ وہ مقبولیت کے کس درجے پر فائز ہیں
۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ سارا ڈرامہ مشرف صاحب کو باہر کھسکا نے کے لیے رچایا
جا رہا ہے۔لیکن ہمارے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہو گاکیونکہ اب گیند عدلیہ
کی کورٹ میں ہے جہاں مشرف صاحب کی تقدیر کا فیصلہ ہو گا اور سزا کی صورت
میں حکومتِ وقت اُن کی سزا معاف کرکے ملک سے باہر بھجوانے کا رِسک کبھی
نہیں لے گی کیونکہ ایک تو یہ صریحاََ سیاسی خود کشی ہو گی اور دوسرے اگر
مشرف کو معاف کیا گیا تو پھر بلوچستان کو پاکستان سے الگ ہی سمجھیں ۔ |
|