مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق پاکستان اور بھارت کا اتفاق

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن پھر پاکستان میں مشرف حکومت کے عدم استحکام کی وجہ سے اس معاملے میں پیش رفت نہ ہو سکی۔وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ ’جہاں تک میرے لیے ممکن تھا میں نے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مرحلے پر ایسا لگ رہا تھا کہ باہمی تعلقات میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے، لیکن پاکستان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے، مثال کے طور پر جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا، کہ یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن میں اب بھی مانتا ہوں کہ اگر غربت، جہالت اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو ضروری ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات اچھے ہوں۔میری بہت خواہش ہے کہ میں پاکستان جاؤں، میں وہاں پیدا ہوا تھا، لیکن بحیثیت وزیراعظم میں اسی صورت میں جاسکتا ہوں جب کسی ٹھوس پیش رفت کے لیے حالات سازگار ہوں۔“

بھارتی وزیر اعظم کے اس اہم بیان کے بعد سابق صدر پرویز مشرف حکومت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ صرف کشمیر کا معاہدہ نہیں ،ایک کمپوزٹ معاہدہ جس میں پاک بھارت تمام تنازعات کا حل موجود تھا۔خورشید قصوری کا کہنا ہے کہ سر کریک پر سب کچھ طے ہو گیا تھا، صرف دستخط کرنا باقی تھے، سیاچین سے دونوں طرف کی افواج کے انخلا پر بھی اتفاق رائے ہو گیا تھا۔من موہن سنگھ کے الفاظ تھے کہ اب یہ علاقہ امن کا پہاڑ Mountain of Peace کہلائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے لئے دونوں ملکوں کو اتفاق رائے پیدا کرنے میں تین سال لگ گئے، بہت مشکل مسئلہ تھا ، ایک طرف بھارت اسے اپنے آئین کی رو سے اٹوٹ انگ قراردے چکا تھا، دوسری طرف پاکستان کا روائتی موقف تھا کہ اس پر استصواب کروایا جائے تا کہ کشمیری اپنی مرضی سے پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کر سکیں اور تیسری طرف خود کشمیری تھے جن کے گھروں کی دہلیزوں اور دکانوں کے شٹروں کے سامنے بھارتی پولیس پہرے پر مامور تھی۔اور چوتھی طرف کشمیری خاندان لائن آف کنٹرول کے آر پار تقسیم تھے۔خورشید قصوری نے بتایا کہ انہوںنے حریت راہنماﺅں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں ، ان کا ایک ہی کہنا تھا کہ کسی طرح بھارتی فوج کو کشمیر سے واپس بھجوائیں، اس نے تو ہماری آبادی کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے، خواتین گھروں میں بھی محفوظ نہیں ، ان کی اجتماعی آبرو ریزی کی جاتی ہے، نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں اٹھاکر غائب کر دیاجاتا ہے اور زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ پاکستان اور بھارت طویل سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ (1)بھارت اپنی افواج کو شہری علاقوں سے نکال لے گا،2))مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے مابین کوئی لائن آف کنٹرول نہیںہو گی (3) دونوں طرف کے کشمیریوں کو ایک جیسا شناختی کارڈ جاری کیا جائے گا جس پر ان کی سکونت ریاست جموں وکشمیر ظاہر کی جائے گی اور(4) وہ اس شناختی کارڈ پر وادی میںہر جگہ آ جا سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوںنے کشمیر پر جوائنٹ کنٹرول کا فارمولہ سوچا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے مطابق دونوں ملک کشمیر پر چار نکاتی سمجھوتے کو حتمی شکل دینے والے تھے جس میں کشمیر سے فوجوں کو ہٹانا اور لوگوں کو لائن آف کنٹرول کے آر پار آزادی کے ساتھ آنے جانے کی اجازت دینا شامل تھا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مبینہ سمجھوتے کی تفصیلات امریکہ کے نیویارکر میگزین نے بھی شائع کی تھیں۔ میگزین سے وابستہ صحافی سٹوین کول کے مطابق مذاکرات کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا تھا اور فریقین سمجھوتے کے بہت قریب تھے لیکن یہ عمل 2007 میں تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔سٹیون کول کے مطابق اس سمجھوتے کے تحت دونوں ملک کشمیر سے بتدریج اپنے فوجیں ہٹانے اور لائن آف کنٹرول کے راستے کھلی تجارت اور عام لوگوں کی آمد ورفت کی اجازت دینے پر رضامند تھے لیکن پھر جنرل مشرف سیاسی مشکلات میں گھر گئے اور معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

وزیر اعظم نواز شریف کے خصوصی ایلچی برائے بھارت شہریار خان نے بھی انکشاف کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان اس حدتک تنازعہ کشمیر پر سمجھوتہ کرنے کے قریب تر پہنچ چکے تھے کہ دونوں ملک اپنے اپنے کچھ علاقے ایک دوسرے کو دینے کے لئے بھی تیار ہوگئے تھے۔ شہریار خان نے کہا ہے کہ یہ سمجھوتہ چناب فارمولہ کی طرز پر طے ہونے والا تھا اور آج حال یہ ہے کہ کوئی اس کی تصدیق کرنے کیلئے تیار نہیں۔ شہر یار خان نے ایک انٹرویو کے دوران ا ±س سمجھوتے کے کچھ خدوخال بیان کئے جو کشمیر سے متعلق تھا اور اس پر نئی دلی اور اسلام آباد نے اتفاق بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر دومرتبہ حل کے قریب تر پہنچ چکا تھا ، ایک بار اٹل بہاری کے دور میں اور دوسری مرتبہ موجودہ وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور کے دوران۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان بات چیت کے دوران ہی ایک دوسرے کو علاقائی رعایت دینے کے سوالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شہریا ر خان نے کہا کہ ” سمجھوتے کے تحت دونوں ملکوں کے کچھ علاقوں کی ادلا بدلی ہونی تھی، ا سے چناب فارمولہ کہا جاتا تھا اور اس کے مطابق دریائے چناب کو بھارت اور پاکستان کے مابین سرحد تصور کیا جاتا“۔ پاکستانی وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی نے چناب فارمولے کے بارے میں مزید بتایا ”اگر یہ سمجھوتہ ہوتا تو سرینگر بھارت کے ساتھ ہی رہتا ، البتہ چناب کے مغرب کا کچھ علاقہ ہمیں مل جاتا اور اسی طرح ہمارا کچھ حصہ بھارت کے پاس جاتا لیکن اس پر حتمی دستخط نہیں ہوئے اور آج کوئی بھی اس کی تصدیق کرنے کیلئے تیار نہیں“۔ایک سوال کے جواب میں شہریار خان نے کہا ”اس معاملے کو لیکر اب بھی بھارت کے کچھ تحفظات ہیں، ہم ان کو دور کرکے ان کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں، میں اس پوزیشن میں نہیں کہ اس کے لئے ایک ٹائم فریم مقرر کروں لیکن ایسا جلد ہونا چاہئے“۔ مستقبل میں مسئلہ کشمیر کے حل کی امید ظاہر کرتے ہوئے شہریار خان نے کہا ”جو کچھ میں نے میڈیا میں پڑھا ہے، چناب فارمولہ چا ر وسیع معاملات پر مبنی ہے ، کشمیر میں نرم سرحدیں ،آر پار مشترکہ میکانزم ، فوجی انخلاءاور مقامی تجارت “۔

پاکستان اور بھارت کی طرف سے دو مرتبہ مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب آ جانے کی ان اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے واقعی کام کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی دونوں ملکوں میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس عمل کو تعطل کا شکار کراتے ہوئے رکوا دیتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے امکانات سے متعلق ماضی کی یہ خبریں کشمیریوں کے لئے نئی نہیں ہیں۔جنرل اکبر خان اپنی کتاب” کشمیر کے حملہ آور“ میں 1947-48ءکی جنگ کشمیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت قبائلیوں کو دو دن بارہمولہ میں روکے رکھا گیا۔پھر جب انڈین آرمی طیاروں کے ذریعے سرینگر پہنچ گئی اور قبائلیوں کو سرینگر داخل ہونے میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ دو بکتر بند گاڑیاں لینے کے لئے ہنگامی طور پر راولپنڈی پہنچے لیکن کشمیر کی آزادی کے لئے دو بکتر بند گاڑیاں نہ مل سکیں۔اس پر جنرل اکبر خان لکھتے ہیں کہ دو بکتر بند گاڑیوں کی وجہ سے کشمیر آزاد نہ کرایا جا سکا۔پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے 1965ءمیں” آپریشن جبرالٹر “ کیا گیا لیکن جب آپریشن جبرالٹر کی تفصیلات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے تمام عوامل پورے کئے گئے اور اس کا مخفی مقصد داخلی سیاست پر مبنی تھا۔ایک موقع وہ تھا کہ جب 1992-93ءمیں کشمیری حریت پسندوں کی شدید مزاحمت کے پیش نظر بھارت سنجیدگی سے کشمیر سے انخلاءکے بارے میں سوچنے لگا تھا اور ایک موقع وہ تھا کہ جب 2010ءمیں کشمیری نوجوانوں کی بھارتی فورسز سے پتھروں کی جنگ کی دوران بھارت نے کشمیر سے علیحدگی کا سوچا۔

دریائے چناب کی بنیاد پر تقسیم سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی تجویز کو” ڈکسن پلان “کہا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے کشمیر کے بارے میں خصوصی نمائندے سر اوون ڈکسن نے پیش کی تھی۔ڈکسن پلان میں دریائے چناب کو تقسیم کی حد قرار دینے کی تجویز دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی گئی تھی۔ہماچل پردیش سے نکلنے والا دریائے چناب جموں میں داخل ہو نے کے بعد پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔بھارت نے دریائے چناب پر بجلی پیدا کرنے کے متعدد پراجیکٹ قائم کئے ہیں اوربھارت متنازعہ بھگلیار ڈیم بھی اسی دریا پہ تعمیر کر رہا ہے۔چنابب فارمولے کی بنیاد کشمیر کو مسلم اور غیر مسلم آبادیوں کی بنیاد پر تقسیم کرنا تھا۔دریائے جناب ہماچل پردیش سے جموں کے علاقے میں داخل ہو کر کشتواڑ سے ہوتا ہوا بٹوٹی،رام بن،ریاسی سے ہوتا ہوا اکھنور اور جموں شہر کے درمیانی علاقے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔پاکستان کی کئی اہم شخصیات دریائے چناب کے محل و وقوع سے بخوبی آگاہ معلوم نہیں ہوتیںاور اسی بنیاد پر وہ چناب کی بنیاد پر تقسیم میں آنے والے علاقوں کے محل و وقوع سے بے خبر نظر آتی ہیں۔”ڈکسن پلان“ کے چناب فامولے اور سابق صدر مشرف کے دور کے چار نکاتی پروگرام میں بہت فرق ہے مشرف دورمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان اتفاق کردہ کشمیر فارمولے کو چناب فامولا نہیں کہا جا سکتا۔

پاکستان میں مشرف کے خلاف عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے وقت بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مزاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سمجھوتے،معاہدے حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود جاری رہے ہیں۔بجا طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر سمیت تمام دیرینہ سنگین مسائل میں پیش رفت انہی خطوط پر ہو نے کے امکانات ہیں جن پر ماضی میں بات چیت کے دوران اتفاق کیا جا چکا ہے۔ دونوں ملکوں میں علاقائی و باہمی سنگین تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے معاشی ترقی کے خواہاں اور دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کے چلن کو جاری و ساری رکھنے کے عناصر کے درمیان کھینچا تانی بھی جاری ہے۔مختصر یہ کہ ایک بار پھر اس حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ جنو بی ایشیا ءمیں امن و ترقی کا راز مسئلہ کشمیر کے حل میں ہی پوشیدہ ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699023 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More