اردو کے ناموراستاد، ادیب و محقق ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا سفرِ آخر
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اتوار ۴ اگست ۲۰۱۳ء کی صبح جنگ
اخبار معمول کے مطابق پڑھنا شروع کیا صفحہ اول پر جوں ہی نظر نیچے گئی
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے کی خبر پڑھ کر دل بیٹھ سا
گیا۔ فوری طور پر احساس ہوا کے ہم اردو اد ب کی ایک اوراہم شخصیت ممتاز
ادیب ،محقق، نقاد ، ماہرِ تعلیم اور استاد الا اساتذہ سے محروم ہوگئے۔ آپ
نے بروزہفتہ۲۵ رمضار المبارک ۱۴۳۴ھ مطابق۳ اگست کو داعی اجل کو لبیک کہا۔اس
روز کراچی میں شدید بارش تھی جس کے باعث تدفین نہ کی جاسکی۔ بارش کے باعث
اس روز اخبار بھی نہ آسکا اگر کسی بھی طرح تدفین کر دی جاتی تو یقینا مجھ
سمیت بے شمار لوگ ڈاکٹر صاحب کے سفرِ آخری میں شرکت سے محروم رہ جاتے۔
ڈاکٹر صاحب کوئی تیس برس جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے منسلک رہے۔آپ کی
تحریر معیار اور تعداد کے اعتبار سے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔پچاس کے
قریب
تصانیف اور بے شمار مضامین شائع ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب سے میرے مراسم ادب اور کتاب کے حوالے سے قدیمی تھے۔ وہ مجھ
پرہمیشہ مہر بان رہے۔ان کی محبت اور شفقت کو کبھی بھلایا نہیں
جاسکتا۔جولائی ۲۰۱۳ء میں میَں اپنی ایک کتاب ’’شیخ محمد ابراہیم آزادؔ
۔شخصیت اور شاعری‘‘ مکمل کرچکا تھا۔ خواہش تھی کہ اس کتاب پر بھی ڈاکٹر
فرمان فتح پوری کا دیباچہ ہو۔ اپنی اس بات کا اظہار اصغر کاظمی صاحب جو
رسالہ ’نگارِ پاکستان ‘کے مدیر ہیں سے کیا ۔ وہ رسالے کے سلسلے میں ہر
اتوار کی صبح ڈاکٹر صاحب کے پاس جایا کرتے تھے۔مجھے اس بات کا علم بھی تھا
کچھ عرصہ قبل میَں ان ہی کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے بھی جاچکا
تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے جو صاحب فراش تھے ،ان کے لیے اٹھنا اور بولنا
بھی مشکل تھا سے اس بات کا اظہار کیا کہ صمدانی صاحب اپنی ایک کتاب پر ان
کے دیباچے کے خواہش مند ہیں ۔ڈاکٹرصاحب کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی
تھی کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ بھی سکیں۔ پھر بھی انہوں نے میری خواہش کو رد نہیں
کیا اور کہا کہ جوں ہی انہوں نے اپنی طبیعت بہتر محسوس کی وہ یہ کام کردیں
گے۔ یہ بات جولائی کے ابتدئی ایام کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بستر پر لیٹے لیٹے
کاظمی صاحب کو دیباچے کے نکات ڈکٹیٹ کرائے اور کاظمی صاحب نے دیباچہ مکمل
کرکے ڈاکٹر صاحب کو پڑھ کا سنایا ۔ ڈاکٹر صاحب نے دیباچے سے بعض جملے
نکالنے اور بعض میں ردو بدل کرنے کی ہدایت کی۔ڈاکٹر صاحب کا تصحیح شدہ
دیباچہ کاظمی صاحب نے مجھے ۱۷ جولائی کو لاکر دیا اس دیباچے پر ۱۱ جولائی
کی تاریخ درج ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کاظمی صاحب کو یہ بھی ہدایت کی کہ
دیباچے کے آخر میں درج تاریخ نہ لکھی جائے۔ غالباً اس کی وجہ یہ رہی ہوگی
کہ ڈاکٹر صاحب دیگر احباب کو اس طرح کے کاموں کے لیے معزرت کرچکے ہوں گے
اور اس پر تاریخ درج ہوجانے سے دیگر مصنفین ان سے دیباچے یا تقریظ کے لیے
رجوع کرسکتے تھے۔ اس طرح مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے
دمِ رخصت آخر میری کتاب کا دیباچہ تحریرفرمایا۔ میَں اس اعزاز پر فخر محسوس
کرتا ہوں۔
مجھ پر ڈاکٹر صاحب کی یہ پہلی عنایت نہیں تھی۔اس سے قبل آپ نے میری
دوکتابوں کی تقریبِ رونمائی میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی ۔ میری کتاب
’یادوں کی مالا‘ پر تبصرہ تحریر فرمایا اور میری شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب’
جھولی میں ہیرے اور موتی‘ جو ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی کا فلیپ بھی ڈاکٹر صاحب
کا تحریر کردہ ہے۔ڈاکٹر صاحب اس قدر جلد چلے جائیں گے اس کا مجھے اندازہ
نہیں تھا۔
ڈاکٹرصاحب مرحوم سے میری تفصیلی ملاقات’ حلقۂ نیاز و نگار‘ کے سالانہ جلسے
منعقدہ دسمبر ۲۰۱۰ء بمقام ڈاکٹر قدیر خان آڈیٹوریم ،وفاقی اردو یونیورسٹی
کے موقع پر ہوئی تھی۔ میَں ان دنوں سرگودھا یونیورسٹی سے منسلک تھا اور
دسمبر کی تعطیلات میں کراچی آیا ہوا تھا۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد شعبہ
اردو کے چیرٔ مین ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب جو اس وقت سرگودھا یونیورسٹی سے
ہی منسلک تھے اس پروگرام میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ ان کا قیام
میرے گھر ہی تھا، تونسوی صاحب سے میرے دوستانہ مراسم ہیں۔ تونسوی صاحب اور
میَں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے جہاں کچھ وقت ان کے ساتھ
گزرا،نیاز و نگار کی اس ادبی کانفرنس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مخصوص احباب کے
لیے جامعہ کراچی کے کیمپس میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ اس ڈنر میں بھی ڈاکٹر
صاحب کے ساتھ کافی وقت گزرا۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب جو اب شیخ
الجامعہ اردو ہیں اُ س وقت جامعہ کراچی کے ڈین آف آرٹس تھے نے اپنی قیام
گاہ پر تکلف دعوت کا اہتمام بھی کیا تھا جس میں تونسوی صاحب کے ساتھ میں
بھی شریک دعوت تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا گھر میری رہائش سے نذدیک ہی ہے۔ میں گلشن اقبال کے بلاک ۶
میں اور ڈاکٹر صاحب کا گھر بلاک ’۱۳ ڈی ون‘ میں ہے۔ نماز جنازہ ظہر کی نماز
کے بعد ڈاکٹر صاحب کے گھر کے نذدیک واقع ’مسجد خلفائے راشدین‘ میں ہونا
تھی۔ میں وقت مقررہ پر ان کے گھر پہنچ گیا۔ بے شمار علمی ادبی ، سیاسی،
سماجی شخصیات کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے خاندان کے احباب خصوصاً بیٹے (انجینئر
سید ابرار علی) موجود تھے۔ میرے ساتھ پہنچنے والوں میں جامعہ کراچی کے سابق
وائس چانسلر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم ، جامعہ اردو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر
اقبال شامل تھے۔ دیگر معروف احباب میں قومی اسمبلی کے رکن متحدہ قومی
موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، رؤف صدیقی، مزمل قریشی، واسیع جلیل،
پروفیسر سحرانصاری، جامعہ سر سید کے چانسلر انجینئر عادل عثمان، جامعہ
کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر، جسٹس ریٹائرڈ قاضی خالد علی،
پروفیسر رئیس علوی، ڈاکٹر بلال علوی،احمد حسین صدیقی، رضوان احمد، یحیٔی
ولی اﷲ،ڈاکٹر یونس حسنی، روزنامہ جنگ کے اختر سعیدی، نوائے وقت کے راشد
نور،ناصر عارف حسین لائبریری کے ناظم اعلیٰ ندیم ہاشمی، ادارہ ادبیاتِ
پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر نور محمد پٹھان ،رسالہ نگارِ
پاکستان کے مدیر سیدمحمد اصغرکاظمی اور دیگر علمی ادبی شخصیات شامل تھیں۔
ظہر کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ اداکی گئی اور ڈاکٹر صاحب اپنے عزیز رشتہ
داروں، خاندان کے احباب، علمی و ادبی شخصیات کے قافلے کے ہمراہ سفرِ آخر پر
روانہ ہوئے۔ ان کی آخری منزل جامعہ کراچی کا قبرستان تھی۔دو بسوں اور بے
شمار کاروں کا یہ قافلہ صمدانی اسپتال کے سامنے سے گلشن چورنگی ، ڈسکو
بیکری کے سامنے سے ہوتا ہوا ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع جامعہ کے آئی بی
اے گیٹ سے جامعہ کی حدود میں داخل ہوا اور جامعہ کی خاموش فضاؤں میں منزل
مقصود پر پہنچاجہاں پر جامعہ کراچی کے قبرستان میں لحدِ فرمان اپنے ساکِن
کے انتظار میں اپنا دامن واہ کیے ہوئے تھی۔
اتوار کی وجہ سے جامعہ بند تھی،سٹرکیں ویران فضاء غَمگِین، نَم اور سوگوار
تھی۔سڑکوں کے دونوں جانب کھڑے گُم صُم اور ششدر درختوں نے ڈاکٹر صاحب کو
خوش آمدید تو کہا مگر حزیں اور دل گرفتگی کے ساتھ،ٹہنیاں جُھک جُھک گئیں ،
غنچے سہم کر پتوں کی اوٹ میں چھپ گئے ،جامعہ کی عمارتیں بھی ملول تھیں ان
پرسیاہ بادلوں نے اداسی کی چادر بچھائی ہوئی تھی۔شعبہ اردو نے اپنے محبوب
سربراہ کو قافلے کے ہمراہ دور سے آخری منزل کی جانب رواں دواں دیکھا تو وہ
بھی اپنے باغ باں کا سامنا نہ کرسکا رنج و الم میں ڈوب گیا۔کچھ ہی دیر میں
قافلہ قبرستان پہنچ گیا۔یہ ایک ایسا دارالمقابر ہے جہاں ایک خاص نظم و ضبط
ہے، کوئی مکین اپنی حد سے تجاوذ نہیں کرتایعنی انکروچمنٹ نہیں ہوتی، یہ تو
ہم انسانوں کی بستیاں ہیں جہاں کا ہر رہائشی اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا
بس چلے تو اپنے گھر کے سامنے کی گلی یا سڑک کو بھی اپنے گھر میں شامل
کرلے۔کاش ہم شہر خاموشاں کے مکینوں سے ہی کچھ سبق سیکھیں۔ اب وقت ِآخر تھا۔
سب لوگ سر جھکائے لحدِ فرمان کے گرد جمع تھے۔ نم آنکھوں،افسردہ اور بوجھل
دل کے ساتھ اپنے ہر دلعزیز استاد، ادب کے قیمتی سرمایے اور ایک شفیق و مہر
بان بزرگ کے جسد خاکی کو اپنے ہاتھوں آغوش لحد کے سپرد کیا ،ڈاکٹر صاحب کی
لحد کے بائیں جانب شعبہ سیاسیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رضوان احمد آرام
فرماہیں ، تھوڑے ہی فاصلے پر آپ نیچے کی طرف آپ کے ساتھی اور دوست پروفیسر
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی آرام فرما ہیں۔غم و حُزن
کی اس کیفیت میں سوچ کا مہور وہ قدآور علمی وادبی شخصیات تھیں جو اس
قبرستان میں ابدی نیند سو رہی ہیں ۔ ایک ایک کر کے سب نظروں کے سامنے تھے۔
بارش کے باعث قبرستان میں چلنا مشکل ہورہا تھا لیکن ہمت کرکے میں بعض
شخصیات کی لحد تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیا ان میں پروفیسر ڈاکٹرابو
الخیر کشفی، طاہرہ کشفی،پروفیسر ڈاکٹر عبد المعید ،ڈاکٹر سید شاہد علی
رضوی، پروفیسر ڈاکٹر افضال حسین قادری، پروفیسر ڈاکٹر نسیمہ ترمذی، پروفیسر
مولانا منتخب الحق قادری، پروفیسر ڈاکٹر سیدحامد محمود، پروفیسر ڈاکٹر ریاض
السلام شامل تھے۔ ان سب کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ جامعہ کراچی میں زمین کایہ
چھوٹا سا قطعہ زمین کس قدر مردم خیزہے کہ جس میں بے شمار اہل دانش
،علماء،شعرا، ادبا، صوفیہ، حکماء آسودہ ٔ خاک ہیں۔مجھے تو اس زمین کے اس
مختصر سے ٹکڑے پررشک آرہا تھا کہ اس زمین نے کیسی کیسی علمی و ادبی شخصیتیں
پیدا کیں ۔ کلام مجید کی سورۃ ’طٰہٰ ‘ کی آیت ۵۵ میں اﷲ تعالیٰ نے کہا ہے
کہ ’’اسی زمیں میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی زمین میں پھر واپس
لوٹائیں گئے اور اسی سے پھر دوبارہ تمہیں نکال کھڑا کریں گئے‘‘۔اسی حوالے
سے کہاوت مشہور ہے کہ ـپہنچی وہی پے خاک جہاں کا خمیر تھا‘۔ بیشک ہمیں واپس
لوٹ کر جانا ہے۔یہ شعر اس وقت کی صورت حال کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے
ہجوم سلسلۂ رفتگان دکھائی دیا
زمین پر ہی مجھے آسماں دکھائی دیا
میں دوسری باراس قبرستان میں آیا تھا اس سے قبل اپنے محترم استاد پروفیسر
ڈاکٹر عبد المعید صاحب کی تدفین کے موقع پر جن کا انتقال ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء کو
ہوا تھا۔ آج ان کی یاد بھی اود کرآئی، ان کی قبر پر بھی دعا کی۔ قبرستان
میں اپنے بچپن کے دوستوں سید جمال احمد اور سید سبطین رضوی سے بھی ملاقات
ہوگئی ۔ معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے عزیزوں میں سے ہیں۔ جتنی دیر ڈاکٹر
صاحب کی تدفین ہوئی جمال صاحب اور سبطین سے گفتگو ہوتی رہی۔ قبر کی تاریکی
، خوف اور دیگر باتیں اپنی جگہ لیکن اس وقت ڈاکٹر صاحب کی لحد ان کے مزاج
کے عین مطابق صاف ستھری، کشادہ، روشن اور سادہ سی لگی لیکن کچھ دیر بعد جب
اس لحد کے اندرونی منظر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا جائے گا اور
دنیاوی روشنی سے تعلق نہ رہے گا یقینا خدا کی رحمت کی روشنی اُسے منور رکھے
گی۔کچھ ہی دیر میں لحد کو اوپر سے ٹاپ دیا گیا ، احباب نے لحد پر مٹی ڈال
کر اہل قبر سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے
ڈاکٹر صاحب کا جسد خاکی منوں مٹی تلے چلا گیا۔یوں ہندوستان کے شہر ’’فتح
پور‘‘ سے ۲۶ جنوری ۱۹۲۶ء میں شروع ہونے والی زندگی کا اختتام پاکستان کے
ایک بڑے صنعتی شہر کراچی میں۴ اگست ۲۰۱۳ء میں
۸۷ سال کی عمر میں ہوا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق استاد ڈاکٹر اسلم
فرخی کا یہ شعر حسب حال ہے
آج اپنے ہی ہاتھوں تجھے مٹی میں دباآئے
کل تک تیرے جینے کی دعا مانگ رہے تھے
ادارہ ادبیاتِ پاکستان کے ریجنل ڈائریکٹر نور محمد پٹھان نے پاکستان کے
ادیبوں کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کی لحد پر پھولوں کی چادر چڑھائی ، قبر کے
گرد کھڑے احباب نے فاتح پڑھی اور ڈاکٹر صاحب کے لیے مغفرت کی دعا کی ،واپسی
شروع ہوئی ،میَں اپنی کار میں بیٹھا تو ڈاکٹر صاحب کی قبر نظر آرہی تھی دل
ہی دل میں اُن کے لیے ایک بار پھر دعا کی اور خدا حافظ کہا۔ ایسا محسوس ہوا
کہ جیسے وہ استاد
قمر جلالوی کے اس شعر کے ذریعہ کہہ رہے ہوں
شکریہ اے قبر تک پہچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
کہتے ہیں کہ موت العالِم موت العالَم کے مصداق ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اس دنیا
سے چلے جانا، دنیا سے ایک عالِم کا چلے جانا ہے ۔ عالِم مشکل سے پیدا ہوا
کرتے ہیں۔ یہ یقینا نقصانِ عظیم ہے۔ علامہ اقبال کیا خوب بات کہی ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا
موت بر حق ہے ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے رخصت ضرور ہوگئے لیکن وہ ہمیشہ ہماری
یادوں میں رہیں گئے۔ ان کے علمی و ادبی کارنامے اس دنیا میں رہتی دنیا تک
لوگوں کو فیض پہنچاتے رہیں گے۔اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے اور
انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔ثمہ آمین۔
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں |
|