اور یتیموں کو اُن کے مال دو
(ف۵) اور ستھرے (ف۶) کے بدلے گندا نہ لو (ف۷) اور ان کے مال اپنے مالوں میں
ملا کر نہ کھا جاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے- (النساء ٢ )
شان نزول: ایک شخص کی نگرانی میں اُس کے یتیم بھتیجے کا کثیر مال تھا جب وہ
یتیم بالغ ہوا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا
اِس پر یہ آیت نازل ہوئی اِس کو سن کر اُس شخص نے یتیم کا مال اُس کے حوالہ
کیا اور کہا کہ ہم اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔
یعنی اپنے حلال مال۔
یتیم کا مال جو تمہارے لئے حرام ہے اس کو اچھا سمجھ کر اپنے ردّی مال سے نہ
بدلو کیونکہ وہ ردّی تمہارے لئے حلال و طیّب ہے اور یہ حرام و خبیث۔
اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان
کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں سپرد کردو اور انہیں نہ کھاؤ حد سے
بڑھ کر اور اس جلدی میں کہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں اور جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا
رہے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے پھر جب تم ان کے مال انہیں
سپرد کرو تو ان پر گواہ کرلو اور اﷲ کافی ہے حساب لینے کو (النساء ٦)
وہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ تو اپنے پیٹ میں نِری آگ بھرتے
ہیں(ف۲۴) اور کوئی دام جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے میں جائیں گے۔ (النساء ١٠)
یعنی یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ وہ سبب ہے عذاب کا۔
حدیث شریف میں ہے روزِ قیامت یتیموں کا مال کھانے والے اِس طرح اُٹھائے
جائیں گے کہ اُن کی قبروں سے اور اُن کے منہ سے اور اُنکے کانوں سے دھواں
نکلتا ہوگا تو لوگ پہچانیں گے کہ یہ یتیم کا مال کھانے والا ہے ۔
اور جو اﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اسکی کل حدوں سے بڑھ جائے
اللہ اُسے آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے خواری کا
عذاب ہے۔ (النساء ١٤)
الله تعالٰی ہم سب کو دین کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
آمین |