اسٹینڈ اپ کامیڈی کرتے کرتے سلیم آفریدی کو ایک زمانہ بیت
گیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس دوران اُن پر اور کامیڈی پر کئی زمانے بیت
گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ’’رات کی چائے پر‘‘ ملاقات ہوئی تو بھائی سلیم خاصے
افسردہ دکھائی دیئے۔
آپ ’’رات کی چائے پر‘‘ سے حیران ہوئے ہوں گے کہ اِس سے کیا مراد ہے۔ کسی سے
شام کی چائے پر تو ملاقات ہوسکتی ہے اور ہوتی ہی ہے، مگر یہ رات کی چائے چہ
معنی دارد؟ بات یہ ہے صاحب کہ اخبارات سے تعلق رکھنے والے ’’رات کے راہی‘‘
(رات کی ڈیوٹی کرنے والے) جب گھر پہنچتے ہیں تو ساڑھے تین چار بج چکے ہوتے
ہیں۔ ایسے میں گھر کے نیچے ہوٹل پر ملاقات رات کی چائے پر ملاقات ہی تو
کہلائے گی! تب تک رات بھی ڈھل چکی ہوتی ہے اور بھائی سلیم بھی مختلف فنکشنز
میں لوگوں کو ہنسا ہنساکر خاصے ڈھل چکے ہوتے ہیں۔
کِسی کامیڈین کو سنجیدہ اور افسردہ دیکھ کر ہنسی زیادہ تیزی سے چُھوٹتی ہے۔
خیر، ہم نے بھائی سلیم سے افسردگی کا سبب پوچھا۔ خاصے دل گرفتہ لہجے میں
کہنے لگے۔ ’’جب خشکی کے جانور اور پرندے بھی تیرنے پر تُل جائیں تو مچھلی
کہاں جائے، کِن پانیوں میں تیرے؟‘‘
ہم نے وضاحت چاہی تو بولے۔ ’’ایک زمانہ تھا جب ہم تھوڑی بہت کامیڈی کرکے
اچھی طرح جی لیا کرتے تھے۔ زمانہ ایسا بدلا ہے کہ ہم سے بدلہ لینے پر تُل
گیا ہے۔ ہر چیز میں کامیڈی ایسی گُھسی ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کامیڈی کے اِس سمندر میں ہم تیریں تو کِس طرح؟ کِس
طرح اپنی بقاء ممکن بنائیں، کِس کِس سے بَیر نہ لیں؟‘‘
ہم نے یہ کہتے ہوئے بھائی سلیم کا حوصلہ بڑھایا کہ یہی تو آپ کی آزمائش ہے۔
جب سبھی کھلاڑی بننے پر تُلے ہوں تو مسابقت بڑھ جاتی ہے۔ تب انسان کو اپنے
جوہر دکھانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بقول برج نارائن چکبستؔ
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کُھلتے ہیں
مبارک بُزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا!
ہماری بات سُن کر بھائی سلیم کے چہرے پر اُمید کی تھوڑی سی چمک پیدا ہوئی
مگر پھر اُن کا چہرہ اچانک اُسی طرح بُجھ گیا جس طرح بجٹ تقریر سُننے کے
بعد غریبوں کے چہرے فیوز ہو جایا کرتے ہیں! بھائی سلیم بُجھے اور تھکے ہوئے
لہجے میں بولے۔ ’’سوال صرف ہماری صلاحیتوں کا نہیں۔ پبلک بھی تو پریشان ہے۔
ہم تو جیسے تیسے کامیڈی کر ہی لیں گے۔ ہم سے بُرا حال تو لوگوں کا ہے۔ اُن
کے سامنے آپشنز کا ڈھیر لگا ہے۔ مارکیٹ میں کامیڈی کے اِتنے ورژن ہیں اور
کامیڈین اِتنے زیادہ ہیں کہ لوگ بھی چکراکر رہ گئے ہیں کہ کِس کی کِس کِس
بات پر ہنسیں۔‘‘
کِسی زمانے میں ہر ہیرو کے ساتھ ایک کامیڈین ہوا کرتا تھا جو تھوڑے تھوڑے
وقفے سے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے شائقین کو ہنسایا کرتا تھا۔ کہانی جہاں بھی
بیزاری پیدا کرنے لگتی تھی، کامیڈین اچانک نمودار ہوکر لوگوں کو دوبارہ فلم
کی طرف لاتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ہیرو ہی کامیڈی بھی کرنے لگا۔ اِس تبدیلی
کے بطن سے یہ ٹریجڈی برآمد ہوئی کہ کامیڈینز کی چُھٹّی ہوگئی! اور ہمارے
ہاں تو یہ بھی ہوا کہ ہیرو اپنا کردار اور اداکاری بھول بھال کر پوری فلم
میں کامیڈی ہی کرنے لگے! یہ کیفیت پنپتے پنپتے مُتعدّی مرض کی طرح اب پورے
معاشرے پر مُحیط ہوگئی ہے۔ جسے دیکھیے وہ لوگوں کو ہنسا ہنساکر بے دم کرنے
پر کمر بستہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر سیاست دان روزانہ ہنسانے والی باتیں کرتا
ہے۔ اخبار پڑھنے کے بعد لوگ مزید ہنسنے اور اِس کے لیے ٹی وی دیکھنے کی کچھ
خاص ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ایسے میں سلیم آفریدی جیسے روایتی کامیڈینز
آنسو نہ بہائیں تو کیا کریں؟ اُن کی اسٹینڈ اپ کامیڈی کھڑی کی کھڑی رہ گئی
ہے اور شائقین کِسی اور طرف نکل گئے ہیں!
سیاسی سرگرمیوں اور جمہوریت کے نام پر لاجواب کامیڈی نے ہمیں دو عشروں کے
دوران اِتنا ہنسایا ہے کہ اب اچھی خاصی کامیڈی فلمیں بھی پھیکی سی لگنے لگی
ہیں۔ منتخب ایوانوں کی کارروائی میں فلم کے تمام شعبے جلوہ گر اور فعال
دکھائی دیتے ہیں۔ اسمبلی اگر سیشن میں ہو تو لوگ ڈرامے دیکھنا چھوڑ دیتے
ہیں کہ چینلز پر اور اخبارات میں جب کارروائی بیان کی جائے گی تو جُگتوِں،
بڑھکوں، جذبات کی بلندی، افسردگی کی پستی، کلائمیکس، اینٹی کلائمیکس سبھی
چیزوں کا بھرپور لطف پا ہی لیں گے!
1981 میں پی ٹی وی کا ڈراما ’’وارث‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ اِس میں محبوب
عالم نے چوہدری حشمت کا کردار ادا کیا تھا جو اُنہیں اَمر کرگیا۔ چوہدری
حشمت کا للکارتا ہوا لہجہ بچے بچے کی زبان پر تھا۔ امجد اسلام امجد کا لکھا
ہوا ’’وارث‘‘ آج ہماری سیاست ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے پر مُنطبق ہوچکا ہے۔
فرق صرف اِتنا ہے کہ ’’وارث‘‘ میں ایک چوہدری حشمت تھا اور معاشرے میں اب
ہر بندہ چوہدری حشمت بننے پر تُلا ہوا ہے، اُدھار کھائے بیٹھا ہے!
ہم نے بھائی سلیم سے پوچھا کہ آپ اِتنے دل برداشتہ کیوں ہیں؟ ایک وقت آئے
گا جب قوم سیاسی کامیڈی سے تنگ آکر پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوگی۔ اِس پر
بھائی سلیم بولے۔ ’’اُمید پر دنیا قائم ہے۔ مجھے بھی یقین ہے کہ ایک دن
پولیٹیکل اور سوشل کامیڈی کا زور ٹوٹے گا۔ مگر تب تک تو پوری قوم کے اعصاب
اور قوتِ برداشت کا زور بھی ٹوٹ چکا ہوگا! ہر معاملے میں کامیڈی کا گراف
جتنی تیزی سے ’’بلند‘‘ ہو رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ بہت
جلد لوگ کِسی بھی بات اور کِسی بھی چیز سے محظوظ ہونے کے قابل نہ رہیں گے!
جب لوگ کامیڈی کی اوور ڈوز کا شکار ہوکر سینس آف ہیومر ہی سے محروم ہوچکے
ہوں گے تو ہم پیش کیا کریں گے؟‘‘
بھائی سلیم جیسے پروفیشنل کامیڈینز کا پریشان ہونا غیر فطری اور حیرت انگیز
نہیں۔ حالات ہمیں اُس موڑ پر لے آئے ہیں جہاں ہر چیز ہنسا ہنساکر بے دَم
کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ کِسی بھی معاملے کو کھنگالیے تو مضحکہ خیز معاملات
اُبھرتے ہیں۔ جب کوئی قوم پوری دُنیا کے لیے ’’لافنگ اسٹاک‘‘ میں تبدیل
ہوجائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہر معاملے سے لُطف کشید کرنے کی روش ایسے
ہی گُل کھلایا کرتی ہے۔ انتہائی سنجیدگی کے متقاضی معاملات کو بھی ہنسی
ہنسی میں اُڑایا جارہا ہے۔ سیاست کے نام پر عوام کے مفادات سے کِھلواڑ جاری
ہے۔ اور بے چارے عوام میں یہ تماشا دیکھ کر ہنسنے کی بھی تاب نہیں رہی۔
حکمرانی کے نام پر ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکتیں کی جارہی ہیں کہ دُنیا غور
کرنے پر آئے تو حیرت کے سمندر میں غرق ہو جائے! سرکاری مشینری کی حرکتیں
ایسی ہیں کہ جنہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے وہ تو سلامت ہیں، اُن کے کرتوت
دیکھنے والے البتہ اپنے آپ سے شرمسار ہوئے جاتے ہیں! اوور آل کامیڈی کا یہ
سلسلہ کب ختم ہوگا، کسی کو نہیں معلوم۔
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ |