جشن عید میلاد النبی ﷺ سے مراد حضور اکرم حضرت سیدنا محمد
ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ہے ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ
نے قرآن مجید میں اپنے فضل، رحمت اور اپنی نعمتوں پر خوشی و مسرت کا اظہار
کرنے اور شکر ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اور ساتھ ہی حضور ﷺ کی ذات
گرامی کو سراپا رحمت ، نعمت اور فضل عظیم بھی فرمایا۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’(اے محبوب مکرمﷺ) آپ فرما دیجیئے کہ اﷲ تعالیٰ کا وہ فضل جو ان پر ہوا
اور وہ رحمت جو انہیں عطا کی گئی اس کے سبب وہ خوشیاں منائیں۔ یہ ان چیزوں
سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بہتر ہے‘‘۔(سورہ یونس ۱۰۔۵۸)
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشی منانے کا حکم
دیا گیا ہے۔ آیت کریمہ کو سمجھنے کے لیے اور اس پر عمل کرنے کے لیے درج ذیل
سوالات حل طلب ہیں:
(۱) اﷲ تعالیٰ کا فضل کیا ہے؟
(۲) اﷲ تعالیٰ کی رحمت کیا ہے؟
(۳) خوشی کا اظہار کیسے کیا جائے؟
ان سوالات کے جوابات بھی قرآن کریم نے ارشاد فرمادیئے ہیں۔ارشاد ہے :
ـََِ’’اور (اے مسلمانوں) اگر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی توتم
میں سے سوائے چند کے سب شیطان کی پیروی کرتے ‘‘(سورہ نساء آیت نمبر۲)
اس آیت کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے بیان فرمایا ہے کہ یہاں اﷲ تعالیٰ کے
فضل اور رحمت سے مراد حقیقت میں صرف حضوررﷺ کی ذات ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور (اے محبوب ﷺ)آپ پر اﷲ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا
کر‘‘(سورہ انبیاء آیت۱۰۷)
ان آیات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعا لیٰ کا فضل عظیم اور اس کی
رحمت کا ملہ حضور ﷺ کی ذات گرامی ہے اور جب اﷲ تعالیٰ کے عام اور قلیل فضل
اور رحمت پر اظہار مسرت کا حکم ہے تو فضل عظیم اور رحمت کاملہ پر خوشی کا
اظہار کرنے کا کتنا زیادہ مرتبہ اور اجروثواب ہو گا ؟
تیسراسوال یہ ہے کے خوشی کیسے منائی جائے؟ تواس کو اﷲ تعا لیٰ نے مطلق چھوڑ
دیا ہے اب جس انداز اور جس طریقے سے بھی خوشی منائی جا ئے گی اﷲ تعالیٰ کے
حکم پر عمل ہو گا اگروہ انداز یا طریقہ غیر شرعی نہ ہو ۔ یہ نہیں فرمایا کہ
صرف نماز پڑھو ‘ صرف روزہ رکھو ‘صرف صدقات و خیرات دو ،بلکہ مطلق فرما دیا
کہ خوشی کا اظہار کر و چاہے وہ شکرانے کے نوافل کی صورت میں ہویا صدقات و
خیرات کی صورت میں ، ذکر واذکار کی صورت میں ہو یا محفل نعت کی صورت میں ،میلاد
ریلیوں کی صورت میں ہو یا جلسے اور جلوسوں کی صورت میں۔ لیکن جمع کا صیغہ
ذکر فرما کر واضع فرما دیا کہ خوشی کا اظہار اکیلے اکیلے اور انفرادی طور
پر نہ کروبلکہ سب مل کر اجتماعی طور پر کرو۔
آیت کے آخری حصہ میں ارشاد فرمایا کے یہ (یعنی اس کے فضل اور رحمت پر خوشی
کا اظہار کرنا) اس سے کہیں بہتر ہے جو کچھ وہ جمع کررہے ہیں ۔انسان دو قسم
کی اشیاء جمع کرتا ہے (۱) مال ودولت دنیا کے لیے(۲) اعمال صالحہ آخرت کے
لیے تو معلوم ہوا اﷲ کی رحمت اور فضل پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا اور اس
کا شکر بجالانا مال وا سباب اور دیگر اعما ل صالحہ سے اﷲ تعا لیٰ کے ہاں
کہیں زیادہ بہتر عمل ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ہم پر بے شمار اور لا تعداد نعمتیں ہیں جن کو ہم شمار نہیں کر
سکتے۔ مگر ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور افضل ترین نعمت حضور ﷺ کی
ذات گرامی ہے جن کے وسیلہ سے باقی تمام نعمتیں عطا ہوئیں اور صرف اسی نعمت
پر اﷲ نے احسان بھی جتلایا ہے ارشاد ہے۔
’’بے شک تحقیق اﷲ تعا لیٰ نے مومنین پر احسان فرمایا جب ان میں اپنا
(معززومحترم ) رسول مبعوث فرمایا ‘‘(آل عمران آیت ۱۴۶)
اس آیت کریمہ سے ظاہر ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے بے شمار و لا تعداد نعمتوں میں
سے صرف ایک ہی نعمت پر احسان جتلایا ہے جو کہ نعمت عظمیٰ اور احسان عظیم ہے
اور وہ جناب رسالت مآبﷺ کی اس کائنات تشریف آوری ہے۔
اور پھراپنی نعمتوں کا ذکر کرنے اور چرچا کرنے اور بیان کرنے کا حکم بھی
فرمادیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’اور یاد کرو اﷲ کی نعمت کو جو تم پر کی گئی ہے کہ جب تم آپس میں دشمن تھے
اس نے تمہارے قلوب میں الفت و محبت ڈال دی پس تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی
بن گئے‘‘(سورہ آل عمران آیت ۱۰۳)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا ۔
’’اور آپ کے رب نے جو نعمت عطا فرمائی ہے اس کا خوب چرچا کرتے رہیں ‘‘(سورہ
والضحیٰ آیت ۱۱)
ایک آیت میں ارشاد فرمایا:
ــ’’پس کھاؤ اس سے جو رزق دیا ہے تمہیں اﷲ نے جو حلال اور طیب ہے۔ اور شکر
ادا کرو اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو‘‘(سورہ النحل:آیت
۱۱۴)
ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا:
’’پس طلب کیا کرو اﷲ تعالیٰ سے رزقکو اور اس کی عبادت کیا کرو اور اس کا
شکر ادا کیا کرو اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے‘‘ (سورہ العنکبوت:آیت ۱۷)
تو معلوم ہوا کہ جب عام سی نعمت کا ذکر کرنے اوراس کا چرچا کرنے کا حکم ہے
تو جو سب سے بڑی نعمت اور جس نعمت پر احسان جتلایا گیا ہے اس کا ذکر کرنا
اور اس کا چرچا کرنا تو بدرجہ اولیٰ مطلوب و مقصود ہے۔
اسلام میں اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے اور خوشی کا اظہار کرنے کا
بہترین طریقہ عید منانا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل پر اظہار مسرت
کے لیے عید الفطر اور حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے امتحان میں
کامیابی پر عید الضحیٰ منائی جاتی ہے۔سابقہ امتیں بھی نعمت کے حصول کے دن
عید منایا کرتی تھیں۔جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دعا
فرمائی :
’’اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے خوان نعمت نازل فرما تا کہ وہ دن یوم عید ہو
ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ‘‘(سورہ المائدہ :آیت۱۱۴)
اسی لیے عیسائی آج بھی اتوار کو عید کے طور پر مناتے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ
جب عام سی نعمت پر بطور خوشی و مسرت اور بطور اظہار تشکر عید منانے کا حکم
ہے تو وہ نعمت جو تمام نعمتوں کی اصل ہے اور جس کے صدقہ اور وسیلہ سے تمام
نعمتیں عطا ہوئیں اس کی آمد کی خوشی میں اظہار تشکر کرتے ہوئے عید منانا
کتنا ارفع و اعلیٰ عمل ہو گا؟
مذکورہ بالا آیات طیبات کے علاوہ قرآن کریم کی دیگر متعدد آیات کریمہ سے
ہمین حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی ومسرت کا اظہار کرنے کا
ثبوت ملتا ہے اور کئی آیات میں آپ ﷺ کو اس کائنات بھیجے جانے کا ذکر موجود
ہے۔جس کی کثیر آئمہ مفسرین اورعلمائے سلف نے تصریح فرمائی ہے۔ جو در حقیقت
حضور اکرم ﷺ کا ذکر میلاد ہی ہے جس کو خود اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم
میں نازل فرما کر نہ صرف خود ذکر میلاد مصطفیٰﷺ کیا بلکہ اس کو ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے لا فانی و لازوال قرار دیا۔ ان شاء اﷲ آئندہ سطور میں احادیث نبوی ﷺ
سے میلاد پاک کا ثبوت پیش کیا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق
عطا فرمائے ۔آمین |