آیات قرآنیہ ، احادیث نبویہ اور اقوال سلف صالحین کی
روشنی میں ایک نہایت ہی جامع اور مدلل تحریر
ہم اپنے رب عز و جل کا بے پایاں شکر و احسان اداکرتے ہیں کہ اس نے ہمیں
اتنی نعمتوں سے نوازا کہ ہم ان کو شمار نہیں کر سکتے ( ابراہیم آیت :
34)اور بقول صوفیا کرام اگر بندہ اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ہر ہر سانس پر
ادا کرنا چاہے جب بھی وہ کما حقہ اس کا شکر ادا نہیں کر سکتالیکن اس کی
عظمت و کبریائی کے جلوے تو دیکھئے کہ اس ذات والا ستودہ صفات نے اس خاکدان
گیتی پر اپنی سب سے عظیم نعمت محمد عربی ﷺ کی شکل میں جلوہ گر کرکے ہی صرف
اہل ایمان پر احسان جتایا ( آل عمران آیت :164)اور کیوں نہ احسان جتائے جب
کہ آ پ ﷺ کائنات عالم کی بو قلمونیوں میں رحمت ا للعالمین بن کر ( (
الانبیا ء آیت : 107) )بقول جمہور علماء اسلام اصحاب فیل کے واقعہ کے 55دن
بعد 15اپریل571ء 12/ بارہ ربیع الاول (ا لنور) بروز دوشنبہ (پیر)بوقت صبح
صادق ( ماہنامہ اشرفیہ شمارہ فروری2011ء ) تشریف لائے ۔
آپ ہی وجہ تخلیق کائنات ہیں سب کا سب آپ ہی کے صدقہ میں رب تعالی نے وجود
بخشا( اخرجہ ا لحاکم فی ا لمستدرک : / 2 615) آپ ہی کے صدقے میں تمام
انبیاء کو نبوت ملی اور ان انبیاء کرام علیہم الصلواۃ و السلام سے سر کا ر
ﷺ کی نصرت و اعانت کا وعدہ اﷲ جل مجدہ نے عالم ارواح میں لیا( آل عمران آیت
:81) آپ کی آمد کے لئے ابراہیم خلیل ا ﷲ علیہ ا لسلام نے دعا کی ( البقرۃ
آیت : 129 ) آپ کی بشار ت حضرت عیسیٰ مسیح ا ﷲ علیہ ا لسلام نے دی (الصف
آیت 6 )آآپ کی بعثت کا مقصد قرآن پاک جیسی عظیم کتاب کی تلاوت کرنا، لوگوں
کو کفر و شرک کی آلائشوں سے صاف ستھرا کرنا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم
دینا تھا ( آل عمران آیت :164 ) آپ اتنے مہربان کہ آپ کے قلب ناز پر اہل
ایمان کا مشقت میں پڑنا بہت گراں گزرتا، لوگوں کی ہدایت کے ہمیشہ طالب رہتے
اورمومنین پر نہایت شفیق اور حد درجہ مہربانی فرمانے والے ہیں ( التوبہ آیت
: 128)۔
رب تعالی عز وجل کی جانب سے آپ جیسے خاتم ا لنبیےن ( آخری نبی) ( الاحزاب :
آیت 40) کی تشریف آوری کی خوشی میں ماضی بعید اور قریب کی طرح آج بھی پورا
عالم اسلام سرکار ﷺ کی ولادت طیبہ پر خوشی و مسرت کا اظہار کرتا ، اپنے
گھروں میں چراغاں کرتا ، جگہ جگہ سرکا ر ﷺ کے ذکر جمیل کے لئے محفل کا
انعقاد کرتا ، غرباء و مساکین کی امداد و اعانت کرتا اس کے علاوہ اﷲ پاک
جسے جو توفیق دیتا وہ اپنی خوشی و مسرت کے اظہار کے لئے اپنا نے کی کوشش کر
تا لیکن آج کے اس پرفتن دور میں جب کہ پوری دنیا اپنے بزرگوں کی عظمت اجاگر
کرنے میں لگی ہوئی ہے بعض شرک و بدعت کے دلدادہ ا فراد کو اس خوشی و مسرت
میں بھی شرک و بدعت (سےۂ) کا پہلو نظرآنے لگتا ہے اور اسے ــ’’ معاذ اﷲ
’’ہندوؤں کے دیوتا کنہیا کے جنم دن سے تشبیہ دے کر‘‘ آیاتِ قرآنیہ، احادیث
نبویہ اور اقوال سلف صالحین کے موقف ( ولادتِ نبوی کے موقع سے خوشی منا نا
جائزہے) سے انحراف کر جاتے ہیں اور جمہور امت مسلمہ کے اس موقف کی نمائندگی
کرنے پر وہ جماعت اہل سنت پر چراغ پا ہوجاتے اور اسے گمراہی کا راستہ قرار
دیتے ۔
اس لئے ایک عام آدمی کے ذہن و فکرمیں بسا اوقات یہ خیال آتا ہے کہ کیا رسول
ا ﷲ کے یوم پیدائش پر ازروئے قرآن و حدیث خوشی اور مسر ت کا اظہار کرنا
جائز ہے یا ناجائز؟ ؟ کیاجشن آمد رسول ﷺ کا ثبوت شریعت اسلامیہ میں ملتا ہے
یا نہیں ؟؟کیا سلف صالحین سے رسول ا ﷲ کی یاد میں ایسی محفل کاانعقاد کرنا
ثابت ہے جس میں منقول روایات کا تذکرہ کیا جائے ، ولادت مبارکہ کے معجزات
اور خارق ا لعادات واقعات بیان کرنے پر ثواب کی بشارت بھی ہو ؟ اس لئے ذیل
میں انہیں سوال اور اعتراض سے متعلق گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ
حقائق سے شکوک و شبہات کی ردائے دبیز ہمیشہ کے لئے اپنے قارئین کے ذہن و
فکر سے ہٹ جائے( آمین ) ۔
( 1) آیات قرآنیہ سے یوم ولادت مصطفی ﷺ کے موقع سے جشن منانے کا ثبوت : اﷲ
جل مجدہ اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے ’’ اور تم اپنے رب کی نعمتوں
کا خوب چرچا کرو ( الضحیٰ : آیت 11) دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’ اور تم اﷲ
کی نعمتوں کو یاد کروں ( المائدہ :آیت :7)اور ایک موقع سے ارشاد ہوا کہ ’’
اور تم فرماؤ کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوب خوشیاں مناؤ ‘‘( یونس :
آیت 58) ۔ ان آیات بینات میں اﷲ رب ا لعزت اپنی نعمتوں کے چرچا کرنے ،
انہیں یاد کرنے اور ان پر خوب خوب خوشیاں منانے کا حکم دے رہا ہے او رارباب
علم و دانش جانتے ہیں کہ مدنی سرکار ﷺ ہی سب سے بڑی رب تعالی کی نعمت اور
اس کے فضل و رحمت کے مظہر کامل ہیں جن کی بعثت پر اﷲ پاک نے اہل ایمان پرا
حسان جتایا ( آل عمران آیت :164) لہذا آپ ﷺ کی پیدائش پر خوشی و مسرت کا
اظہار کرنا اور جشن منانا کیا حکم قرآنی کے مطابق نہیں ؟؟
(2)سرکار ﷺ کی بعثت سے پہلے انبیاء کرام نے بھی اپنی خوشی اور مسرت کا
اظہار کیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے آپ کی آمد سے پیشتر آپ
کی ولادت کی دعاء کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت رب کی بارگاہ میں
ایک نبی برحق کے آنے کی دعا کی جو لوگوں کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک و
صاف رکھے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے ( البقرۃ ْ: آیت: 129 ) ۔ حضرت
عیسیٰ مسیح ا ﷲ نے آپ ﷺ کی بشارت کی خوشخبری 570ء سال پہلے دیتے ہوئے
فرمایا کہ ’ ’ میں ایسے رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آنے والا ہے جن
کا نام پاک ( آسمانوں میں) احمد ہوگا ( الصف : آیت : 6) کیا ان آیات سے یہ
پتہ نہیں چلتا کہ سرکار ﷺ کی ولادت پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا صرف ہم
مسلمانوں کا ہی طریقہ نہیں بلکہ سنت انبیاء بھی ہے؟ ۔
(3)حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام نے اپنے عقیدت مندوں کی خواہش پر آسمان سے دستر
خوان نازل ہونے کی دعا کی تاکہ وہ اس دن خوشیاں منائیں جیسا کہ قرآن فرماتا
ہے ’’ اے ہمارے رب ہم پر آسمان سے دسترخون نازل فرما تاکہ وہ ہمارے اگلوں
اور پچھلوں کے لئے تری جانب سے (عید))خوشی کا سامان ہوجائے ( المائدہ :آیت
: 114) دستر خوان نازل ہونے سے اب تک عیسائی قوم یکشنبہ ( اتوار) کو جشن
مناتے ہیں تو کیا قوم مسلم اپنے نبی کی تعظیم و توقیر کرنے کی عیسائیوں سے
زیادہ مستحق نہیں؟ کیا رسول ا ﷲ کی تشریف آوری اس دستر خوان سے بڑی نعمت
نہیں ہے جس پر خوشی منا یا جائے ؟ ؟
احادیث نبویہ سے میلاد کا ثبوت :خود سرکار ﷺ نے اپنی میلاد ( پیدائش) کا
ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ بے شک میں اﷲ کے یہاں ام ا لکتاب میں اس وقت
بھی خاتم ا لنبیےن تھا جب آدم علیہ السلام مٹی کے گارے میں تھے ۔۔میں دعائے
ابراہیمی اور اپنے بھائی عیسیٰ کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت ہوں اور اپنی
والدہ ماجدہ کا وہ نظارہ ہوں جو میری پیدائش کے وقت انہوں نے ایک نور کی
شکل میں دیکھا تھا جس کی روشنی سے شام کے محلات چمک اٹھے (صحیح ابن حبان ج:
8ص :/106مشکواۃ ا لمصابیح ج: 2ص:513مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور) ۔ایک موقع
سے جب حضور ﷺ کو اپنے نسب میں طعن کی خبر پہونچی تو سرکار ﷺ نے منبر پرکھڑے
ہوکر فرمایا بتاؤں میں کون ہوں ؟ سب نے عرض کیا آپ رسول ا ﷲ ہیں فرمایا میں
محمد بن عبد ا لمطلب ہوں اﷲ نے مجھے بہترین مخلوق سے پیدا کیا ، مخلوق کو
عرب اور عجم میں تقسیم کیاتو مجھے عرب سے پیدا کیا عرب کے چند قبائل بنائے
تو مجھے ان میں سب سے بہتر ( قریش) سے بنایا قریش کو چند خاندانوں میں
بانٹا تو مجھے بہتر خاندان بنو ہاشم سے بنایا‘‘( ماخذ سابق) ایک موقع سے آپ
ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں ( ماخذ سابق )اور
آپ نے مزید فرمایا کہ اﷲ کے نزدیک اولین و آخرین میں سب سے زیادہ معزز ہوں
لیکن میں اس پر فخر نہیں کرتا(مشکواۃ ا لمصابیح ج: 2ص : 514مطبوعہ مجلس
برکات مبارکپور)۔مندرجہ بالا احادیث اور اس کے علاوہ صحاح ستہ کی کئی دیگر
احادیث سے کیا پتہ نہیں چلتا کہ سرکار ﷺ کا جشن ولادت منانا خود سنت مصطفوی
ہے ؟؟ لہذا کیاہم مسلمانوں کو جشن ولادت رسول منانا بلاشبہ جائز نہیں ہے ؟؟
دلیل عقلی سے میلاد کا ثبوت : آج ہمارے سماج اور معاشرے میں اگر کسی کے
یہاں فرزند پیدا ہو یا کسی کو حکومت و سیادت ملے تو وہ ہر سال اس تاریخ پر
جشن منا تا ہے تو کیا جس تاریخ میں کائنات عالم کی سب سے انمول شئی محمد
عربی ﷺکی شکل میں جلوہ گر ہوئی اس تاریخ کو اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار
کرنا کیوں کر ناجائز ہوسکتا ہے ؟؟مندرجہ بالا آیات قرآنیہ احادیث نبویہ سے
یہ ثابت ہوگیا کہ عید میلاد ا لنبی ﷺ منانا نہ صرف جائز بلکہ فرمان خدا
وندی کے عین مطابق اور سنت انبیا اور خود سنت مصطفی ٰ بھی ہے لیکن ہم یہ
بھی جانتے چلیں کہ فقہا و محدثین جنہوں نے قرآن و حدیث کو ہم لوگوں سے
زیادہ سمجھا ان پاکیزہ لوگوں کا مولدا لنبی ﷺ کے تعلق سے کیا نظریہ ہے ؟؟
کیا وہ اسے جائز سمجھتے ہیں یا نا جائز ؟ اگر جائز اور باعث ثواب ہے تو اس
سے روکنا یاکیاکچھ لوگوں کی اختراع پردازی ہے ؟
عظیم محدث امام نوی علیہ ا لرحمہ کے شیخ امام ابو شامہ ( 665/599ھ)میلاد
رحمت ا للعالمین کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اﷲ شہر
’’اربل‘‘ کو حفظ و امان عطا کرے کہ اس بابرکت شہر میں ہرسال میلاد ا لنبی ﷺ
کے موقع پر اظہار فرحت و سرور کے لئے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دئے
جاتے ہیں یہ ایک حسین طریقہ ہے اگرچہ نو ایجاد ہے مگر اس کے حسین ہونے میں
کوئی کلام نہیں کیوں کہ اس میں محبت نبی کا پہلو نکلتا ہے ( الباعث علی ا
نکار ا لبدع و ا لحوادث ص: 13 )۔امام جلال ا لدین ا لسیوطی علیہ ا لرحمۃ
(911/849ھ)اپنی کتاب ’’ حسن ا لمقصد فی عمل ا لمولد ‘‘ میں فرماتے ہیں
سرکار ﷺ کا یوم ولادت اصل میں خوشی اور مسرت کا ایک ایسا موقع ہے جس میں
لوگ جمع ہوکر آپ کے بارے میں منقول روایات کا تذکرہ کرتے اور ولادت مبارکہ
کے معجزات اور خارق ا لعادات واقعات کا بیان کرتے ۔۔۔جس پر ثواب سے نوازا
جاتا ہے‘‘ ۔ مشہورمحدث امام ابن جوزی ( 579/510 ھ)اپنے زمانے کے حالات نقل
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمام بلاد عرب کے باشندے میلاد ا لنبی ﷺ کے محفل
منعقد کرتے ہیں جب ربیع ا لاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ
رہتی (ا لمیلاد ا لنبی ص 58)۔امام شمس ا لدین السخاوی ( 902/831 ھ) محفل
میلاد میں شرکت کو موجب خیر و برکت اور باعث ثواب سمجھتے ہیں ۔ ( المورد ا
لروی فی المو لد ا لنبی: ص:13/12) امام قسطلانی (1 923/85ھ)محفل میلاد کے
فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ یہ تجربہ ہے کہ جس سال محفل میلاد
منایا جاتا ہے وہ سال پر امن گزرتا ہے( قسطلانی : المواہب اللدنیہ ص:
147/1) ۔
امام ابن حجر مکی ( 973/909 ھ )محفل میلاد کی حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ ’’ ہمارے یہاں میلاد کی جو محفلیں ہوتی ہے وہ زیادہ تر بھلے کاموں مثلاً
حضور ﷺ پو درود و سلام پڑھنا ،غربا اور مساکین کی امداد و اعانت کرنے پر
مشتمل ہوتی ہے ( فتاویٰ حدیثیہ ص 129 )۔امام زرقانی ( 1122/1055 ھ)
عیدمیلاد ا لنبی ﷺکی حمایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اہل اسلام ابتدائی تین
ادوار (خیر ا لقرون) کے بعد سے ہمیشہ محفل میلاد ا لنبی ﷺ منعقد کرتے چلے
آرہے ہیں یہ عمل’’ بدعت‘‘ ہے مگر ’’بدعت حسنہ ‘‘ ہے( شرح المواہب اللدنیہ
139/1: ) ۔ عظیم محدث علامہ جزری محفل میلاد کے قیام کو شیطان کی تذلیل اور
اہل اسلام کی مسرت کا سبب قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ عیسائی جب اپنے
نبی کی پیدائش پر جشن مناتے ہیں تو اہل اسلام آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے
زیادہ مستحق ہیں کہ آ پ کے یوم ولادت پر خوشی اور مسرت کا اظہار کریں ۔شیخ
عبد ا لحق محدث دہلوی ( 1052/958 ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ ہمیشہ سے مسلمانوں کا
یہ دستور رہاہے کہ وہ ربیع ا لاول میں محفل میلادمنعقد کرکے خوشی و مسرت کا
اظہار کرتے ہیں ( ماثبت من ا لسنۃ ص : 60) حاجی امدا د ا ﷲ مہاجر مکی (
1317/1233 ھ ) فرماتے ہیں کہ فقیر کا مشرب یہ ہے محفل میلاد میں شریک ہوتا
ہے بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام ( کھڑے
ہوکر سلام پڑھنے )میں لطف و لذت پاتا ہوں ( فیصلہ ہفت مسئلہ ص : 9 ) (
تفصیل کے لئے دیکھیں المولد ا لنبی عند ا لائمۃ وا لمحدثین: از پروفیسر
طاہر ا لقادری) مندرجہ بالااقوال سلف صالحین سے کیا رحمت عالم کے یوم میلاد
پاک پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ثابت نہیں ہو تا ؟؟ اگر ثابت ہو تا ہے تو
پھرقرآن و حدیث اور اقول سلف صالحین کے فرمودات کی مخالفت کرکے امت مسلمہ
کو اختلاف و انتشار کی بھٹی میں دانستہ کیو ں جھوکا جارہاہے ؟؟
مذکورہ بالا دلائل و براہین کے باوجود بعض لوگ کچھ چیزوں کو بنیاد بنا کر
یوم ولادت مصطفی پر خوشی و مسرت کے اظہار کو ناجائز گردانتے ہیں اور اعتراض
کرتے ہیں کہ اس محفل پاک میں کچھ لوگ خرافات مچاتے ہیں اس لئے یہ محفل نا
جائز ہونی چاہئے اور اسی دن سرکار ﷺکا وصال پر ملال ہو ا لہذا غم منا نا
چاہئے نہ کہ خوشی( اسی لئے یہ لوگ بارہ ربیع ا لاول کو بارہ وفات کہتے ہیں
) پہلے کا الزامی جواب یہ ہے کہ جناب آپ کے سر اقدس میں اگر درد ہو تو اس
درد کا علاج کریں گے ؟ یا سر کاٹ کر پھینک دیں گے ؟ یونہی اگرآپ کی ناک
شریف پر گندگی لگ جائے یا مکھی بیٹھ جائے تو کیااس گندگی اور مکھی کو
ہٹائیں گے؟ یا سرے سے آپ اپنی ناک ہی کٹوا لیں گے ؟؟اور تحقیقی جواب یہ ہے
کہ اگر کوئی بے و ضو نماز پڑھے یا حالت حدث میں خانہ کعبہ کا طواف کرے یا
قرآن پا ک کو بغیر غلاف کے چھوئے تو کیا اسے ہمیشہ کے لئے نماز پڑھنے، خانہ
کعبہ کا طواف کرنے سے او سرے سے قرآن چھونے ہی سے منع کردیا جائے گا؟؟ یا
پھر اسے با وضو یہ کرنے کو کہا جائے گا؟ اگر معاملہ ایسا ہی ہے ؟تو پھر کچھ
چیزوں کو بنیاد بنا کر یوم ولادت مصطفی ﷺ کے موقع پر خوشی و مسرت کے اظہار
کوسرے سے ناجائز گرداننے کا آخر کیا سبب ہے ؟؟ ۔
اور ثانی کا جواب یہ ہے کہ مصائب و آلام ( مصیبتوں)کا سامنا صبر و تحمل ا
ور برد باری سے کرنا چاہئے ( یو سف : آیت 18 ) اور اﷲ کے انعام و اکرام پر
ہدیہ تشکر بجا لانا چاہئے ( ابراہیم :آیت : 7) مثلاً بچے کی پیدائش پر بطور
شکریہ عقیقہ کرنے کا حکم دیا گیا (صحیح ا لبخاری ، کتاب ا لعقیقہ : ج 3 :ص:
547) ) اورانتقال پر قربانی کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آہ و فغاں سے بھی منع
کردیا گیا اور صبر کی تعلیم دی گئی ( سنن ابن ماجہ با ب ماجاء فی ا
لجنائز266/2) علی ہذا القیاس رسول اعظم کے یوم پیدائش پر خوشی اور مسرت کے
اظہار کا حکم دیاگیا ( یونس : آیت58 )اور آپ کے وصال پر غم منا نے کا حکم
نہیں دیا گیا بلکہ کسی کے وصال کے تین دن بعد سوگ منانے سے بھی شریعت نے
منع کیا( البتہ عورت شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی) ( صحیح
ا لبخاری ، کتاب ا لجنائز 432/1 ) اور اس لئے بھی کہ اﷲ اور اس کے رسول نے
انبیا کرام کے مصائب و آلام پر اور ان کی وفات پر غم منانے سے منع کیا لہذ
سرکار ﷺ کے ولادت کے موقع سے خوشیاں نا منا کر غم منانے کا آخرکیا جواز ہے
؟؟
اعتراض : سورہ یونس آیت 58 ’’تم فرماؤ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشیاں
مناؤ‘‘ کی تفسیر میں ابن عباس، حسن اور قتادہ رضی اﷲ عنہم کے قول میں اﷲ کے
فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے اس لئے اس سے سرکار ﷺ کی ذات
مراد لینا اور عید میلادا لنبی ﷺ کی صحت پر استدلال قائم کرنا صحیح نہیں ۔
جواب: ایسے صاحب : ذرا ذہن پر زور دیں کہ جب قرآن اور اسلام جیسی عظیم
چیزوں پر خوشی منانے کا حکم ہے تو بھلا جس کے صدقے میں ہمیں قرآن اور اسلام
ملا اگراس کی جلوہ گری نہ ہوتی توہم ان دونوں خوبیوں سے بہرہ ورنہ ہوتے
کیونکہ’’ ہم توہلاکت و بر بادی کے دہانے پر تھے تو اس نے( اپنا محبوب بھیج
کر)ہمیں بچا لیا" ( آل عمران:آیت : 103 ) اور جس کے صدقے میں کائنات کی
تخلیق ہوئی کیوں کہ حدیث قدسی میں حضرت آدم علیہ السلام کو خطاب کر تے ہوئے
فرمایا گیا ’’لو لا محمد ما خلقتک ـ ‘‘ ترجمہ : اے آدم اگر محمد (عربی) نہ
ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کر تا۔( اخرجہ الحاکم فی المستدرک 615/2) جس
کے صدقے میں تمام انبیاء کو نبوت ملی اور ان سے حضور کی نصرت و حمایت کا
عہد و پیما ن لیا گیا۔(ملخص ازآلِ عمران آیت81) بلکہ ایسی ذات جس کی بعثت
پر اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان پر احسان جتا یا ۔(آل عمران163) اسکی ولادت پر
خوشی اور مسرت کا اظہار کیوں ناجائز ہو گا ؟ اور دلالۃ النص کے طریقہ پر
خوشیوں کا اظہار کیوں ثابت نہیں ہے؟
پھر یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ قرآن پاک کی تفسیر میں میں سب سے بلند
پایامقام تفسیر قرآن بالقرآن (قرآن کی تفسیرقرآن سے )ہے لہذا سورہ یونس آیت
58 ’’ تم فر ماؤں اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوشیاں مناؤں‘‘ میں فضل
خداوندی اور اس کے رحمت سے کیا مراد ہے ؟تو فضل خداوندی کی تفسیر دوسری آیت
کریمہ ’’وکان فضل اﷲ علیک عظیما ً‘‘ تر جمہ اور ( اے محبوب ) تم پر اﷲ کا
بڑا فضل ہے ۔ (النساء آیت113 ) اور رحمت خداوندی کی تفسیر آیت کریمہ ’’ وما
ارسلنٰک الا رحمتہ العلمین‘‘ اے محبوب ہم نے آپ کو ساری کائنات کیلئے سراپا
رحمت بنا کر بھیجا(الا نبیاء :آیت 107) ہے۔
اب آپ ہی بتائیں کہ تفسیر قرآن بالقرآن کی روشنی میں فضل خداوندی اور رحمت
الہی سے مراد کیا سرکار ﷺ کی ذات نہیں ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو کیار
حمت عالم ﷺ کی ولادت جو سرا پا کائنات کیلئے رحمت ہے اس پر خوشیوں کا اظہار
کر نا کیاقر آنی حکم کے مطابق نہیں ہے؟ اور کیا تفسیر قر آن بالقرآن کے
مقابل تفسیر قرآن بخبر احاد استدلال کرنا زیادہ قوی ہے؟ اگر جواب نفی میں
ہے توایسے لوگوں نے آیت کریمہ کے مقابل ابن عباس وغیرہ رضی ا ﷲ عنہم اجمعین
کے قول کو کیوں ترجیح دی؟اور اگر اگر ان لوگوں نے اصول تفسیر کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے ا ن کے قول کو تفسیر قرآن با لقران پر ترجیح ہی دے دی تو اس سے
خوشیاں نہ منانے کا حکم ان لوگوں نے کہاں سے اخذکرلیا؟کیوں کہ’’کوئی چیز
ناجائز اور ممنوع اس وقت ہوتی ہے جب اسے ترک کردینے اور نہ کرنے کا حکم
صریح آیاہو‘‘(المستصفی للغزالی:45/1)ناجائز و حرام وہ فعل ہے شرعاًجس کے
فاعل کی مذمت کی گئی ہو ( شرح علی المنھاج للا سنوی : 60/1) ناجائز و حرام
وہ فعل ہے جس کے فاعل کی مذمت اور تارک کی تعریف کی گئی ہو ( ارشادالفحول
للشوکانی : ۱؍۲۴) (بحوالہ الحکم الشرعی : ص194 از پروفیسر طاہر القادری)
اسی وجہ سے جمہور فقہاء اسلام نے کہا کے’’ اشیاء میں اصل اباحت ہے‘‘ (بخاری
، کشف الاسرار95/3)اب عید میلاد ا لنبی کے منکرین بتائیں کہ عید میلادالنبی
ﷺ کے موقع سے خوشیوں کا اظہار نہ کر نے پر کو نسی نص (دلیل)رکھتے ہیں؟ جس
کی بنیاد پر وہ ولادت نبوی کے موقع سے خوشیوں کے اظہار کو ناجائز بتاتے ہیں
؟باوجود کہ وہ سلف صالحین کے نزدیک جائز ہی نہیں بلکہ امر مباح اور باعث
ثواب ہے ۔
بعض لوگ ا پنے دعویٰ ( ولادت مصطفوی ﷺ کے موقع سے خوشی منانا نا جائز ہے)
کے اثبات میں آیت کریمہ ’’ وما ارسلنٰک الا رحمتہ العلمین‘‘ (انبیاء :
۱۰۷)کے ضمن میں تفسیر خزائن العرفان سے ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا وہ
قول ذکر کرتے ہیں جس میں حضور ﷺ کو ساری کائنات کیلئے عام رحمت بتایا گیا
اور ایک روایت میں رحمت سے مراد ذات رسول ﷺ بتائی گئی لہذا ۔ایسے صاحب ذرا
بتائیں کہ ایک شکر گزار بندہ عام رحمت الہی پا کر خوش ہو تا ہے یا نہیں؟
اور اس پر خوش ہونا صحیح ہے یا نہیں؟اگرجواب اثبات میں ہے تو بھلاایسی ذات
جو ساری نعمتوں اور رحمتوں سے بڑ ہ کر سراپا رحمت بن کر کائنات عالم میں
جلوہ فگن ہوئی اس کی ولادت پر خوشی منانا کیوں ناجائز ہوگا؟
اعتراض :سورہ یونس آیت’’ قل بفضل ا ﷲ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ‘‘ سے عید
میلا د ا لنبی ﷺ پر خوشیاں منانے کے لئے دلیل قائم کرنا درست نہیں کیوں کہ
’’فرح ‘‘ فعل متعدی نہیں بلکہ فعل لازم ہے جس کا معنیٰ خوش ہونا ہے اس لئے
خوشیاں منانے کا اس سے ثبوت نہیں حالانکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کیوں کہ
عربی گرامر کا مبتدی طا لب علم بھی جانتا ہے کہ فعل لازم کو متعدی کبھی
باتعدیہ کے ذریعہ بنایا جاتا ہے اس لئے کہ حرف با دیگر معانی کے ساتھ تعدیہ
کے لئے بھی آتاہے جیسا کہ شیخ سرا ج ا لدین عثمانی اودھی (م:758ھ) اپنی’’
کتاب ہدایۃ ا لنحو‘‘ص:103 پر اور علا مہ عبد ا لرحمٰن جامی (817ھ
۔898ھ)اپنی مشہور زمانہ کتاب’’ شرح ماتہ عامل‘‘ ص : ۳۰ پر فرماتے ہیں
ک’’الباء ــــــــــــ ۔ ــ للتعدیۃ‘‘ یعنی حرف بافعل لازم کو متعدی بنانے
کے لئے بھی آتا ہے لہذا اس ضابطہ کی روشنی میں فرح بمعنیٰ ’’خوش ہو نا‘‘اگر
چہ فعل لازم ہے مگربفضل ا ﷲ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا میں حرف با نے لازم کو
متعدی بنادیا اور ا س کا معنیٰ ’’خوشیاں منانا‘‘ بلاشبہ درست ہے مگر اس پر
ــ طرہ یہ کہ اسکو دیانت کے خلاف بتایا جاتا ۔ اوراز روئے ترکیب’’ بفضل ا ﷲ
و برحمتہ فبذلک‘‘ کو چاہیں مذکور کا متعلق بنائیں یا محذوف کا دونو ں ہی
صورت میں وہ فلیفرحو اکا متعلق ہے جیساکہ تفسیر جلالین ص: 125اور حاشیہ
نمبر :18 پر محذوف کو متعلق قرار دیا گیا ہے’’ قل بفضل ا ﷲ و برحمتہ متعلق
محذوف دل علیہ مابعد وا لاصل فلیفرحوا بفضل اﷲ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ‘‘
ہے ورنہ ’’اورتم فر ماؤں اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوجاؤ ‘‘
والاترجمہ کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے ؟ اور اگر یہ حقیقت جان نے کے باوجود اس
سے صرف نظر کیا جائے توکیا یہ دیانت داری کے خلاف نہیں؟ ۔
اعتراضـ: اسلام سادگی کا مذہب ہے س لئے شرعی دائرے میں بھی خوشی اور جشن
منا نا جائز نہیں جب کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں پر خوش ہو کر
خوشی منا نے کا حکم سورہ یونس آیت نمبر ۵۸’’ اور تم فر ماؤں کہ اﷲ کے فضل
اور اس کی رحمت پر خوشیاں مناؤں ‘‘میں واضح طور پر دیاہے، آیت کریمہ کی غلط
توجیح کر کے قر آن مخالف اپنے نظر یات کو ثابت کر نے کی کوشش کرنا امانت
داری کی خلاف ورزی اور امت کو گمراہ کر نے کی کوشش نہیں ہے؟ ؟ یہاں یہ بھی
واضح کردوں خو شی کی ضد غم ہے اور سر کار ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں غم منا
نا شیطان لعین کا طریقہ کار ہے۔ دیکھئے (شرح شیخ زادہ علی ھوامش عصیدۃ
الشہداء ص : 111)
آخر میں ہم فیصلہ ولادت مصطفوی ﷺ کے موقع سے جشن کی مخالفت کرنے والوں پر
چھوڑ تے ہیں کہ وہ رب کے حکم (ولادت مصطفوی ﷺ کے موقع سے خوشی منانا جائز
ہے) پر چلنا پسند کر یں گے یا شیطان لعین کے (ولادت مصطفوی ﷺ کے موقع سے غم
منانے کے )طریقہ کار پر ؟ اﷲ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے
نبی سے سچی محبت کی توفیق دے ( آمین) |