اٹارنی جنرل آف پاکستان سردار
لطیف خان کھوسہ نے فرمایا ہے کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) ایک ایسا
باب ہے جو بند ہو چکا ہے اس پر قومی اسمبلی میں بحث نہیں کی جاسکتی۔ انہوں
نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی تقرری کو ناجائز قرار دیا
ہے انکے (اکثر) فیصلوں کو نہیں جس میں این آر او بھی شامل ہے (سپریم کورٹ
بھی اسی بدحال اور بو دیتے معاشرے کے ایسے ہی افراد پر مشتمل ہے جو میٹھا
میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرتی ہے یعنی تنخواہوں میں اور مراعات
میں اضافہ اگر ڈوگر کے وقت میں سپریم کورٹ نے کیا تو وہ تو ہوا صحیح،
انتخابات جو آمر کے زیر حکومت میں ہوئے وہ صحیح اور جو چیز اب اپنے خلاف لگ
رہی ہے وہ ختم)۔
اور کھوسہ صاحب ارشاد فرماتے پائے گئے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا یہ
بیان ذاتی نوعیت کا ہے کہ اگر پارلیمنٹ نے مطالبہ کیا تو مشرف کے خلاف آئین
کی دفعہ ٦ کے تحت مقدمہ چلایا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزرائے
اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے جس میں یہ
مطالبہ کیا گیا تھا کہ سیاسی انتقام کی بنیاد پر قائم کئے گئے مقدمے ختم
کئے جائیں۔ شوکت عزیز کی کابینہ نے بھی ان مقدمات کو ختم کرنیکی منظوری دی
جو سیاسی بنیاد پر قائم کئے گئے تھے اور ١٠ یا ١٢ برسوں سے التوا کا شکار
تھے۔ بالکل اس طرح کابینہ نے این آر او کے مسودے کی منظوری دی۔ |