ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی، معاشرتی اور تعلیمی
بدحالی کیلئے جس طرح حکومت ذمہ دار ہے اس سے کم ذمہ دار کسی طرح مسلم لیڈر
شپ اور مسلم تنظیمیں نہیں ہیں۔ مسلم لیڈر اور بعض مسلم علما کا معراج لال
بتی والی گاڑی اورسرکاری سیکورٹی ہے ۔ یہ ملنے کے بعد وہ سب کچھ بھول جاتے
ہیں کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے؟، کس کی نمائندگی کرتے ہیں، کس کے بل بوتے پر
انہیں لال بتی والی گاڑی ملی ہے ۔مسلم لیڈر شپ نے کبھی مسلمانوں کے مسائل
کو حل کرنے کے لئے موثر ڈھنگ سے دباؤ ڈالنے کی پالیسی نہیں اپنائی۔ کبھی
بھی حکمرانوں کے سامنے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب بھی کبھی کسی وزیر سے
ملے تو اپنی بات دلائل کے ساتھ کہنے کے بجائے دوسروں کی برائی کرنے پر
زیادہ توجہ دی۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی حیثیت ، وقار اور قوت حکمراں طبقہ
کے سامنے دو کوڑی کی رہ گئی۔اس کا مظاہرہ ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔
مسلمانوں کی کم وقعتی کی اس سے بڑھ اور کیا دلیل ہوگی کہ بابری مسجد کے
معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ مسلسل دھوکہ کیا جاتا رہا۔ مسلمان سمجھ بوجھ
کر بھی کچھ کرنے سے معذور رہے۔ حکومت، عدلیہ، مقننہ اور میڈیا کی دہشت گردی
کے سامنے ہمیشہ خود کو بے بس اور مجبور پایا۔ ممبئی فسادات میں ڈھائی ہزار
مسلمانوں کے قتل متیاز نہیں عام اورڈھائی ہزارکروڑ روپے کے نقصان کی تلافی
حکومت سے کرانے میں ناکام رہے۔ جو حکومت بمبئی دھماکے کے قصورواروں کو تھوک
کے حساب سے 117 سے زائد لوگوں کومختلف سزائیں دی ہیں جن میں تاحیات عمر قید
بھی شامل ہے ، اسی حکومت سے مسلمان ایک فسادی کو سزا دلانے میں ناکام رہے۔
اس حکومت سے مسلمانوں نے کبھی یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ میمن برا دران اور
داؤ د ابراہیم کے بھائیوں اور دیگر ملزموں کو جس طرح سزا دلانے میں مستعدی
کا مظاہرہ کیا اسی طرح اس نے سری کرشنا کمیشن کو نافذ کرنے میں دلچسپی کیوں
نہیں دکھائی۔کیا ملک میں ہندو اور مسلمان کے لئے الگ الگ قانون ہے اگر ایسا
نہیں ہے تو ممبئی فسادات سمیت ملک میں ہونے والے فسادات کے خاطیوں کو سزا
کیوں نہیں ملی۔ مہاراشٹر حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں شری کرشنا کمیشن
کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا کیا مسلم لیڈروں نے اسے نافذ کرانے کیلئے
موثر ڈھنگ سے دباؤ ڈالا؟۔ مرکزی اور ریاستی حکومت داؤد ابراہیم سے بڑا مجرم
کسی کو ہندوستان میں نہیں تسلیم کر رہی ہے۔ اس کے لئے امریکہ سمیت پوری
دنیا ں سے رابطہ قائم کررہی ہے لیکن ڈھائی ہزارمسلمانوں کے قاتل کو سزا
دینے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں لی یہ امتیاز نہیں تو کیاہے؟۔ اس کا مطلب
صاف ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کا قتل کوئی جرم نہیں ہے۔ مسلم خواتین کی
آبروریزی کوئی جرم نہیں ہے۔ مسلمانوں کا جو جنتا بڑا مجرم ہوتاہے وہ یہاں
اتنا ہی بڑا ہیرو ہوتاہے۔ ہندوستان میں جتنے بھی ہیروں ہیں ان کا ہاتھ اتنے
ہی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مسلم لیڈروں نے سرکاری سہولت کے چھن
جانے کے خوف کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ غداری اور سودے بازی کی ہے۔
اگر وہ سودے بازی نہ کرتے آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ہندوستان میں
فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے کہ 1984میں سکھ مخالف
فسادات کے بعد سکھوں کے ساتھ دوبارہ قتل کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ کیا
مسلمانوں نے کبھی اس پرغورکرنے کی کوشش کی یا زحمت کی۔سال 2013میں ہی
اترپردیش میں ایک درجن سے زائد بڑے فسادات ہوچکے تھے اس کے باوجود مسلمانوں
اور یامسلم رہنماؤں نے حکومت کوسخت وارننگ دینے کے بارے میں کبھی سوچا۔
اکھلیش حکومت میں 45مسلم ارکان اسمبلی ہیں کیا ان اراکین نے کبھی اس کے
خلاف حکومت کے سامنے احتجاج کیا۔ احتجاج تودورکی بات ہے لب کشائی کی بھی
زحمت نہیں کی۔ سکھوں یا دیگر طبقوں کے ساتھ ایسا ہوسکتا تھا؟۔ سابق وزیر
داخلہ بوٹا سنگھ نے سکھوں کے خلاف کچھ بیان دیا تھا تو انہیں تنخواہیا قرار
دیا گیا اور سکھ سماج میں واپس آنے کیلئے انہیں گرودوارے میں جوتے چپل صاف
اور جھوٹے برتن دھونے پڑے تھے۔ سکھ تمام جماعتی وابستگی سے اوپر اٹھ ایک
ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ گولڈن ٹمپل اور سکھ فسادات کو اب تک سکھ فرقہ نے
فراموش نہیں کیا ہے حالانکہ اس کے بعدسابق آرمی چیف، کئی جنرل، کئی سیاست
داں، وزیر اعظم اندرا گاندھی سمیت کئی اہم لوگوں کی جان جاچکی ہے لیکن ان
لوگوں کا درد کم نہیں ہوا۔ گاندھی خاندان کو لاحق خطرہ برقرار ہے۔ کانگریس
نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دو میعادکے لئے وزیر اعظم بناکر اس درد کو کم کرنے
کی کوشش کی لیکن سکھوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اگر مسلمان کو کوئی
چھوٹا موٹا عہدہ مل جاتا ہے تو وہ تمام مسلمانوں کا سودا کرنے پر آمادہ
ہوجاتا ہے۔ اس فرق کو سمجھے بغیر مستقبل کا کوئی بھیْ حکمت عملی اور لائحہ
عمل تیار نہیں ہوسکتا اور میڈیا کے مظفر نگر فسادات کوریج، فسادات کے بعد
فسادمتاثرین کے کیمپوں کی بدحالی،سردی سے تین درجن سے زائد بچوں کی موت،
کڑاکے کی سردی میں کیمپوں کو ضلع انتظامیہ کے ذریعہ اجاڑا جانا،بازآبادکاری
کے نام متاثرین کو لالی پاپ تھمانا، مظفر نگر میں اب تک خوف و ہراس کا
ماحول برقرار ہنا، متاثرین کے گاؤں کی واپسی پر قتل، متاثرین کو گاؤں واپس
نہ آنے کی دھمکی دینا، کیمپوں میں مقیم خواتین کی آبروریزی اور ان رویوں کے
خلاف مسلم لیڈر شپ، مسلم علما اور مسلم فرقے کی سرد مہری ایسے سوال ہیں جس
کا جواب تلاش کئے بغیر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی باتیں کرنابے معنی ہے۔
مظفر نگر فسادات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور آگے بھی لکھا جاتا رہے
گا۔ملائم سنگھ اور اکھلیش یاود حکومت اس فساد کا گجرات سے موازنہ کرنے سے
خفا ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ اسے بڑھا چڑھاکر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن حقیقت
یہی ہے کہ یہ فساد کئی معنوں میں گجرات سے بھیانک اور بدترین ہے۔ کیمپوں کے
بارے میں حکومت اترپردیش کا جو رویہ رہا ہے اسے کسی طرح سے جائز قرار نہیں
دیا جاسکتا۔ فسادات کے متاثرین سخت سردی سے تڑپتے رہے اور ان کے بچے مرتے
رہے اور ملائم اوِر اکھلیش یادو حکومت کروڑ روپے خرچ کرکے سیفئی فیسٹول میں
رقص و موسیقی کا لطف لیتے رہے۔ نہ صرف ملائم سنگھ یادو، بلکہ وزیر اعلی
اکھلیش یادوحتی کہ ان کی حکومت کے سکریٹریوں نے جس طرح انسانیت سے عاری
بیان دیا ہے وہ نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ اس سے حکومت کے رویےے کا پتہ
چلتا ہے۔ گجرات میں بھی اس طرح کا سلوک نہیں کیاگیا تھا۔ خاص طور پر قتل
کرنے کا جو رویہ اپنایا گیا وہ ممبئی ، سورت اور گجرات فسادات کا توسیع
تھا۔ سورت فسادات کے بعد جس طرح مسلم خواتین کی آبروریزی، انہیں برہنہ کرکے
ویڈیو گرافی کی گئی تھی اسی طرح مظفر نگر فسادات کے دوران کیا گیاتھا۔
مظفرنگر فسادات کے دوران بڑے پیمانے پر اجتماعی آبروریزی کے واقعات سامنے
آئے ہیں۔ اس ضمن میں تین درجن سے زائد متاثرین کی شناخت ہوچکی ہے۔ درجنوں
ایسی خواتین تھیں جنیں آبروریزی کا شکار بناکر انہیں قتل کردیاگیا اور
انہیں جلاکر ثبوت کو تلف کردیاگیا۔گجرات کے فسادیوں سے سبق سیکھتے ہوئے
مظفر نگر میں فسادیوں نے مسلمانوں کا قتل کرکے ٹکڑے کرکے جگہ جگہ زمین میں
گاڑ دیا اور کچھ لاشوں کو جلاکر تالابوں اور نہروں میں بہا دیا گیا۔سب سے
بھیانک واقعہ خواتین اور کمسن لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا ہے۔ اس
سے محسوس ہوتا ہے انسان کس قدر حیوان وحشی اور شیطان بن سکتا ہے۔ ایک لڑکی
نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح جاٹوں نے انہیں گاؤں میں
یرغمال بناکر اس کے ساتھ آبروریزی کی اور غیر فطری عمل کیا۔ ایک کے بعد
دیگر جاٹ کے حوالے کرتے رہے۔اسی پر بس نہیں کیا بلکہ برہنہ کرکے اس متاثرہ
لڑکی کو رقص کرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کی ویڈیو گرافی کرائی گئی۔ایک
دیگر آبروریزی کے واقعہ میں دو لڑکی جو ایک نند اور بھابھی ہے (نند کی عمر
صرف 14 سال ہے) جب وہ اپنی جان بچانے کے لئے گاؤں سے بھاگ رہی تھیں توانہیں
گاؤں کے جاٹوں نے پکڑ لیااور کئی دن تک ان کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی
گئی۔ وہ دونوں کسی طرح ان کے چنگل سے بھاگیں تو دوسرے گاؤں کے جاٹ نے انہیں
پکڑ لیا اور کئی دنوں تک ان کے ساتھ اجتماعی آبروریز کا عمل دہرایاگیا۔اس
کے بعد وہ کسی ان کے چنگل سے نکل کر گنے کے کھیت میں پناہ لی تو وہاں بھی
ان کے ساتھ یہی عمل ہوا۔ گجرات میں فسادیوں نے اجتماعی آبروریزی کو ہتھیار
بنایا تھا اور مظفر نگر میں بھی بڑے پیمانے پر یہی ہوا ۔ فسادات سے پہلے
افواہوں کا بازار گرم کیا گیا اس افواہ میں ہندو لڑکی کی آبروریزی کی بات
کہی گئی تھی اور اس کے بعد منظم منصوبے کے تحت مسلم لڑکیوں اور خواتین کو
اس کا نشانہ بنایاگیا۔ فسادات کے دوران مسلم خواتین کی آبروریزی کو ایک بڑے
ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا چلن عام ہوگیا ہے اور اس کے عام ہونے کی
واحد وجہ سے خاطیوں کے خلاف شکایت درج کرانے کے باوجود کوئی کارروائی نہ
کرنا ہے۔
مظفر نگر فسادات کے بارے میں ابتد ا سے اترپردیش حکومت جھوٹ بولتی رہی ہے۔
حالات سے آگاہی کے باوجود اس نے حکومت نے فساد روکنے کے لئے کوئی کوشش نہیں
کی۔ جو فسادات کو کنٹرول کرسکتے تھے ان افسران کا تبادلہ کردیاگیااس کی جگہ
ایسے افسران لایا گیا جو فسادیوں کی ہمت افزائی کرسکتے تھے۔جو معاوضہ دیا
گیا ہے اس سے وہ زمین بھی نہیں خرید سکتے گھر بنانا تو دور کی بات ہے۔نقصان
کے حساب سے معاوضہ نہیں دیا گیا ہے جس سے وہ ضروریات زندگی پوری
کرسکیں۔جہاں وہ اپنے مکان، زمین جائداد چھوڑ کر آئے وہاں جا ہیں سکتے۔اس
لئے کیمپ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت بھی ہزاروں کی تعداد میں فساد
متاثرین کیمپ میں مقیم ہیں لیکن حکومت اپنے ریکارڈ میں کیمپوں کو خالی
کرانا چاہتی ہے تاکہ اس پر دباؤ کم رہے۔ شاملی کے ملک پور میں آٹھ ہزار
افراد مقیم ہیں، مورگان میں 1700افرادہیں، بھورا کلاں منصورہ میں174کیمپ
ہیں جن میں 668بچے ہیں۔ برمالی کیمپ میں 650خاندان تقریباً ڈھائی ہزار
امتاثرین ہیں۔ سنہیٹی کیمپ میں ایک ہزار افراد ہیں۔ اکبر پور سنہیٹی کیمپ
جسے مدرسہ کیمپ بھی کہا جاتا ہے 700متاثرین ہیں۔ یہاں سات بچوں کی موت ہوئی
ہے۔ ڈیہرہ خوردمدرسہ والا کیمپ 325متاثرین ہیں یہاں بھی پانچ بچوں کی موت
ہوئی ہے۔کاندھلہ عیدگاہ کیمپ 105کیمپ میں 580 متاثرین رہتے ہیں۔ کاندھلہ کے
دیگر کیمپوں میں ہزاروں افراد مقیم ہیں۔ مدرسہ بدرالعلوم گڑھی دولت 750
متاثرین ہیں۔اس کے علاوہ جولا کیمپ میں 1600 متاثرین ہیں۔ یہاں بھی ضلع
انتظامیہ کیمپ خالی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ضلع انتظامیہ نے دھمکی دی ہے کہ
اگر کیمپوں کو خالی نہیں کیا گیا تو ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں گے
اور ضلع انتظامیہ نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سو سے زائدمتاثرین
پر سرکاری زمین پر قبضے کرنے کا مقدمہ بھی قائم کردیا ہے۔ کیمپ کے منتظمین
نے بتایا کہ انہیں ضلع انتظامیہ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہے وہ کیمپ خالی
کروائے ورنہ ان کے خلاف ایسا مقدمات قائم کیا جائے گا کہ وہ زندگی بھر جیل
میں سڑتے رہیں گے۔ کیمپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان میں اتنی طاقت نہیں ہے
کہ وہ حکومت کا مقابلہ کرسکیں اس کے علاوہ یہاں کوئی مسلم وزیر، ممبر ان
پارلیمنٹ یا یا ممبران اسمبلی ان کی سدھ لینے نہیں آرہے ہیں جس سے انتظامیہ
پر دباؤ پڑے۔ جو گیا کھیڑا دو ہزار پناہ گزیں ہیں۔ روٹن میں 1250افراد، بی
بی پورٹیا میں 1500 افراد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کیمپوں میں متاثرین
مقیم ہیں۔ جو کیمپ چل رہے ہیں ضلع انتظامیہ نے کیمپ چلانے والوں کوجھوٹے
مقدمات میں پھنسانے کی دھمکی دی ہے۔ ساتھ اس نے کہا کہ مظفر نگر فسادات اور
اس کے بعد کے واقعات نے مسلم قیادت کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے انہوں نے اس
مصیبت کی گھڑی میں فسادات متاثرین کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔کیمپوں میں
مقیم متاثرین کا خیال ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں فوٹو کھینچوانے میں زیادہ
دلچسپی رکھتی ہیں۔ راحتی اشیا ان تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔ متاثرین کی حالت
زار دیکھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ راحتی رقم لوگ دے رہے ہیں وہ ان تک
نہیں پہنچ رہی ہے البتہ کیمپ کے منتظمین اور اس سے وابستہ دیگر افراد کی
جیبیں گرم ہورہی ہیں۔
سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں، مسلم تنظیموں ،مسلم لیڈر شپ
یہاں تک مسلم علماء کا رویہ فسادمتاثرین کے تئیں انتہائی مایوس کن ہے۔
کیمپوں کو اجاڑنے کے لئے حکومت اترپردیش علماء کا استعمال کر رہی ہے اور
علماء چند سکو ں ، کچھ سہولتوں یا عہدے کے وعدے پر ہی حکومت اترپردیش کے
زرخرید غلام بنے ہوئے ہیں۔ انہیں فسادات متاثرین کا درد محسوس نہیں ہورہا
ہے۔ مظفر نگر فسادات کے متاثرین کو حکومت کے ظلم و ستم کے سہارے میں چھوڑ
دیا گیا ہے اور وہاں سے بغیر بازآبادکاری کے متاثرین کے کیمپوں کو جبراً
اجاڑا جارہا ہے لیکن مسلم قوم اور مسلم لیڈر شپ پر بے حسی طاری ہے۔ فسادات
متاثرین میں خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ خواتین رفع حاجت کے لئے تسلہ کا
استعمال کرتی ہیں۔ رات میں ضرورت پیش آتی ہے تو وہ تسلہ میں رفع حاجت کرتی
ہیں اور دن میں اسے باہر پھینک آتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
خوف و دہشت کا کس قدر ماحول ہے۔ حکومت اترپردیش فسادات کے خاطیوں اور
قصوروار کو اب تک گرفتار نہیں کیا ہے وہ نہ صرف کھلے عام گھوم رہے ہیں بلکہ
متاثرین کو دھمکیاں دے رہے ہیں وہ مقدمہ واپس لے ورنہ ان کے ساتھ بھی یہی
سلوک کیا جائے گاجوانہوں نے ان کے رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہے۔ اتردیش میں
مسلم ارکان اسمبلی کی تعداد 69 ہے اور صرف سماج وادی حکومت میں بھی 45مسلم
ممبران اسمبلی ہیں اگر وہ حکومت پر دباؤ ڈالتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ
حکومت سخت قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوتی۔ اگر یہ ممبران حکومت کی حمایت کرنا
ترک کردیں تو حکومت اگلے ہی ڈھرام سے گرجائے گی۔لیکن افسوس کا مقام ہے اس
طرح کا کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے ان لوگوں نے فسازدہ علاقوں کا
دورہ تک نہیں کیا ہے۔بلکہ کچھ مسلم لیڈر جیسے کہ بکل نواب حکومت کی چمچہ
گیری کرتے ہوئے فسادات متاثرین کے کیمپ ہونے سے ہی انکار کردیا۔ ہندوستان
کی کوئی خواتین تنظیم اجتماعی آبروریزی کی شکار ان مسلم خواتین کے آنسو
پوچھنے کے لئے آگے نہیں آرہی ہیں جو گزشتہ 16 دسمبر کے روح فرسا واقعہ کے
بعد ہفتوں انڈیا گیٹ میں ڈتی رہی تھیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہاں
کی حکومت ہی نہیں بلکہ سماجی تنظیمیں بھی مسلم خواتین کے ساتھ جرائم کو
جرائم کے زمرے میں شمار نہیں کرتیں۔ |