یقین نہیں آتا کہ چشتی صاحب ہم سے جدا ہو گئے ہیں۔ وہ
راولپنڈی میں ایک کار سوار کی ٹکر سے زخمی ہوئے اور ہفتہ بھر علاج کے بعد
داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مرحوم کو مظفرآباد میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
تحریکِ آزادیٔ کشمیر میری خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے۔ تحریک سے تعلق رکھنے
والے ہر فرد سے گہرا تعلق میرا سرمایۂ افتخار ہے۔ میرے لیے تحریکِ آزادیٔ
کشمیر سے تعلق رکھنے والے تمام افراد گہرے احترام و تکریم کے حق دار ہیں
چاہے ان کا تعلق کسی بھی گروپ یا کسی بھی نظریے سے ہو۔ اگر وہ کشمیر کی
آزادی کے لیے کام کر رہے ہیں تو میرے لیے ہی نہیں ہر محب وطن کے لیے بھی
قابلِ احترام ہونے چاہییں۔
تحریک آزای ٔ کشمیر کے اسی قافلے کے ایک فرد چشتی صاحب حال ہی میں ہم سے
جدا ہو گئے۔ مرحوم کا تعلق سری نگر سے تھا اور ان کا خاندان ہجرت کے بعد
مظفرآباد میں مقیم تھا۔ ان کے بھائی اور دیگر اقرباء زندگی کے مختلف
میدانوں میں آگے بڑھے لیکن چشتی صاحب نے تحریکِ آزادی ٔ کشمیر کے لیے اپنی
زندگی کو وقف کر دیا۔ مرحوم جس سوچ سے وابستہ تھے اسے ریاست کے دونوں طرف
لمبے عرصے تک پذیرائی حاصل نہ ہو سکی دونوں جانب الحاق اور اٹوٹ انگ کی بحث
جاری رہی لیکن مرحوم کی یہ سوچ تھی کہ کشمیر کو یکجا کر کے ایک مستقل ریاست
کی صورت دے کر ہی برصغیر میں امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
لوگ تحریک کے نام کو بیچ کر کہیں سے کہیں پہنچ گئے مگر مرحوم چشتی صاحب ان
لوگوں میں سے تھے جنہوں نے رزقِ حلال کی خاطر خود محنت کی اور جو کمایا وہ
تحریک پر لگا دیا۔ قارئین کے لیے یہ بات ایک عجوبہ ہو گی کہ مرحوم چشتی
صاحب کاٹھ کباڑ جمع کر کے بیچتے تھے، کسی پر بوجھ نہ بنتے تھے ۔ حتیٰ کہ
اپنے بھائیوں پر بھی نہیں۔ جو کماتے تھے اس میں سے اپنے جسم و جان پر نہایت
محدود حصہ صرف کر کے باقی تحریکِ آزادی اورکشمیری مجاہدین پر لگا دیا کرتے
تھے ۔ مرحوم کی موت بھی ایسے ہی ہوئی۔ وہ راولپنڈی میں ردی کا ایک بھاری
تھیلا اٹھائے ہوئے سڑک عبور کر رہے تھے کہ کار سوار نے انہیں ٹکر مار دی
اور فرار ہو گیا۔ مرحوم کی وفات پر تحریکِ آزادی سے حقیقی تعلق رکھنے والا
ہر فرد اشک بار ہو گیا۔ کشمیر کی تحریک میں بطور علامت اور استعارہ معروف
شخصیت امان اللہ خان ان لوگوں میں شامل تھے۔ چشتی صاحب کا اصل نام خواجہ
مقبول احمد تھا۔ انہیں مر کر بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کی نمازِ جنازہ
میں اقتداری سیاست میں مصروف لوگوں میں سے کوئی بھی شریک نہ ہوا بلکہ انہیں
نوجوانوں نے لحد میں اتارا وہ نوجوان جو اقتداری سیاست سے بیزار ہیں۔ چشتی
صاحب کی روح خوش ہو گی کہ وہ دمِ واپسی بھی سرخرو رہے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
|