کل شام سے میرے پاس ایسے بے شمار
ایس ایم ایس آ رہے ہیں جس میں ١٢ ربیع الاول کے حوالے سے اپنی منطق کے لحاظ
سے اس روز خوشی منانے یا ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ڈھکے چھپے
الفاظ میں روکا ہی جا رہا ہے۔مجھے اس بات کی سمجھ نہیں ہم جتنے بھی گناہ
گارہوں ہمیں اس ہستی کا ذکر ضرور کرنا چاہیے جو آخرت میں ہماری شفاعت کا
سبب بنے گی۔کافی عرصہ سے مسلمان آپس میں ہی دست و گربیان ہیں کسی کو محرم
کے جلوسوں اور اعزداری پر اعتراض ہے تو کسی کو میلاد کے منانے پر رنج ہوتا
ہے۔
اگر کوئی غلط کام کر رہا ہے تو اس کو ضرور روکنا چاہیے مگر افسوس ناک بات
ہے کہ اگر ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کی خاطر چاہے ہم
کتنے ہی بد کردار کیوں نہ ہوں کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ اس معاملے
میں دخل اندازی کرے۔ یہاں لوگ کسی عام شخص کی محبت میں گرفتار ہو کر جان تک
دیتے ہیں تو کیا ہم اپنے بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بھی نہیں کر
سکتے ہیں جو کہ رحمت اللعالمین ہیں۔
جو لوگ خود دوسروں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں،حالات سے ڈر کر حوصلہ ہار
جاتے ہیں اور کسی کو درد میں مبتلا کرتے ہیں، جو اپنے آپ کے ساتھ مخلص نہیں
ہوتے ہیں وہ لوگ ہی ایسے ہی باتیں کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا چھوڑ دیں تاکہ ہم نہ تو دنیا کے رہیں اور نہ
ہی آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔
جن لوگوں کی عادت محض سن کر دوسروں کو قائل کرنے کا شوق ہوتا ہے وہ پہلے
خود ایسی باتوں کی اچھی طرح سے تصدیق کر لیا کریں تو انکو شرمساری نہ
ہوں،اگر ہم بغور اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو بہت سے معاملات میں ہمیں
گنجائش دی گئی ہے مگر ہم تحقیق کی بجائے لوگوں کی دل آزاری کرنا زیادہ پسند
کرتے ہیں
کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی شخصیت کو ٹھیک سے جان نہیں سکتا ہے بہت سے گناہ
گار لوگ بھی نیکی کرتے رہتے ہیں مگر ہم مجموعی طور پر انکو برا ہی سمجھتے
ہیں۔صرف ایسی باتیں ÷ معلومات ہی دوسروں تک بھییں جو کہ مصدقہ ہوں کل کلاں
کو آپ بھی اس کے جواب دہ ہونگے؟
خدارا اسلام کی تعلیمات کی اصل روح کو سمجھیں اور پھر اپنے نظریات تھونپے
کی کوشش کریں،حق حق کی بات کرنے والوں میں سے اکثر خود حق ادا کرنے والے
نہیں ہوتے ہیں بہت سے معاملات میں وہ خود جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہوتے
ہیں۔
اس کی واضح مثال آپ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی سے لگا سکتے ہیں کہ ہر
فقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور اگر کوئی اختلافی مسئلہ ہے بھی تو اسے
دلائل سے قائل کرنے کی بجائے گولی کا سہارا لے کر حل کرنے کی کوشش کی جارہی
ہے جو کہ ایک خطرناک طرز عمل ہے اس معاملے میں علما کرام کو مل بیٹھ کر
سوچنا ہوگا جب تک ایسا نہیں ہوگا،یہ دہشت گردی کا بازار گرم رہے گا۔ |