ماہ ربیع الاوّل گزر رہا ہے، ہر
طرف ہرے ہرے جھنڈے اور جھنڈیاں نظر آرہی ہیں اور مسجدوں سے مرحبا یا رسول
اللہ (ص) کے نعروں کی آوازیں مسلسل گونج رہی ہیں۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے لئے
بیش بہا خوشیاں لے کر آتا ہے کیونکہ اس مہینے میں رحمت للعالمین حضورؐ دو
عالم کی ولادت باسعادت ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو سچا عاشق رسولؐ ثابت کرنے کی
کوشش کرتا ہے اور اپنی طرف سے جو کچھ بھی بن پڑتا ہے کرتا ہے، ولادت کے دن
مختلف جلوس نکالے جاتے ہیں جو مختلف مقامات پر ختم ہوتے ہیں، کوئی سڑک ایسی
نہیں ہوتی جس میں شمع رسالت کے پروانے حضورؐ کی یاد منانے نہ نکلتے ہوں،
جگہ جگہ پانی اور شربت کی سبیلیں جلوس کے شرکاء کی پیاس بجھانے کے لئے
لگائی جاتی ہیں۔ بڑے بڑے عالم دین اور مفکر اسلام اپنے اپنے علم کے مطابق
رسولؐ کے اسوۂ حسنہ پر روشنی ڈالتے ہیں اور ممتاز نعت خواں حضورؐ کی شان
میں مدح سرائی کرتے ہیں لیکن یہاں پہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سب چیزوں
کو انجام دینے کے بعد کیا ہمارا فریضہ ختم ہوجاتا ہے، کیا رسولؐ کو ہم سے
صرف اتنے ہی سے کاموں کی اُمید تھی؟ کیا ماہ ربیع الاول ہی صرف اور صرف
اسلام کی پہچان کا مہینہ ہے اور باقی گیارہ مہینے ہم لوگوں کے درمیان اسلام
موجود ہوتا ہے یا نہیں! یا صرف نعت اور قصیدوں کی کیسٹ کے ساتھ ساتھ اسلام
بھی ایک جگہ رکھ دیا جاتا ہے؟!
اگر اس طرح ہے تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ استعمار نے ہمیں کہاں تک
محدود کر دیا ہے! یہ آج کل جو ہم اسلام کے پیروکار بنے ہوئے ہیں یہ کون سا
اسلام ہے؟ کیا یہی اصل اسلام ہے جس کی ترویج رسول مکرم اسلام ؐ نے کی تھی
یا دشمن کے ہاتھوں تحریف شدہ یہ کوئی دوسرا نام نہاد اسلام ہے جس کے اصولوں
پر ہم گامزن ہیں!
کیا ایسا تو نہیں ہے کہ لوگوں نے اپنی آسائشات اور سہولت کو دیکھتے ہوئے
اسلام کو اپنے لحاظ سے تبدیل کرلیا ہے!اگر ہم سب واقعی اسلام کے صحیح اور
سچے پیروکار ہیں تو ہمارے پیارے ملک پاکستان میں یہ فرقہ واریت روز بروز
کیوں پنپ رہی ہے، اِسی فرقہ واریت کے نام پر کتنے ہی بڑے بڑے دانشور اور
علماء دین کو شہید کر دیا جاتا ہے … کیا یہی ایک اسلامی مملکت کے تقاضے ہیں
کہ جو کچھ بھی چاہیں کریں انہیں کوئی روکنے والا نہیں؟ یا ہماری حکومت ہی
خود یہ سب کچھ چاہتی ہے کیونکہ اِسے بھی حکام بالا کے سامنے جواب دینا ہوتا
ہے … ! جب فرقہ واریت کے خاتمہ کے لیے اتحاد بین المسلمین کو قائم کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے تو یہ بات بھی اسلام دشمن عناصر کی آنکھوں میں کھٹکنے لگ
جاتی ہے اور پھر اُن کے مخصوص خدمتگذار… چند سکوں کے عوض بکے ہوئے درباری
ملا … اپنی چرب زبانی کے ذریعے اِس کام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور
جب بھی اُن کا یہ حربہ ناکام ہوتا ہےتو پھر وہ لوگ اُمت کے دلسوز اور
بہترین افراد پر عرصہ حیات تنگ کرکے اُمت کو بہترین سرمائے سے محروم کر
دیتے ہیں… افسوس اِس بات کا ہے کہ ہماری قوم کے افراد بھی خواب غفلت کے مزے
لے رہے ہیں… اِس فرقہ واریت کی آگ میں کبھی اہل سنت کے مفتیوں کو نشانہ
بنایا جاتا ہے تو کبھی اہل تشیع کے علماء کو ہدف قرار دیا جاتا ہے… اے
مسلمانو! کب تمہاری آنکھیں کھلیں گی جب کہ تمہارے اپنے سروں پر ننگی
تلواریں لٹک رہی ہیں۔
اب بھی وقت ہے ہم رسولؐ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے اپنے اپنے کاموں کو
صحیح طریقہ سے سمجھ کر انہیں بنحو احسن انجام دیں، صرف نعروں کی حدتک ہی
نہیں بلکہ ہم اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کریں کہ ہم واقعی حضرت محمد مصطفیٰ
(ص) کے چاہنے والے ہیں … ہم عاشقان رسول ہیں، جس طرح ہمارے نبی پاکؐ نے
اپنے کردار، افکار کے ساتھ اسلام کی ترویج کی اسی طرح ہم بھی ان کے اسوہ کو
سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کل کوئی بھی اسلام
حقیقی کا نام لیوا اور سچا عاشق بھی نہ بچے اور دشمن اپنے مذموم ارادوں میں
کامیاب ہوکر جشن مشرت مناتا رہے… اگر ہر مسلمان رسالتمعآبؐ کی حیات طیبہ
کو اپنا نمونہ بنانے اور ان کے کردار کو اپنانے کی کوشش کریں تو مسلمانوں
کو کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ |