گلدستہ انوار رہنمائے انسانیت

سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع اہل ایمان پر فرض ہے

سورۃ نساء آئت نمبر ۵۹: اے ایمان والو! حکم مانو اﷲ کا اور حکم مانو رسول کا۔
سورۃ اٰ ل عمران ائت ۳۲: اے محبوب تم فرمادوکہ حکم مانو اﷲ کا اور رسول کا۔
سورۃ آ ل عمران آئت نمبر ۱۳۲: اور اﷲ اور رسول کے فرمانبردار رہواس امید پر کہ تم رحم کیئے جاؤ۔
سورۃ نور آئت نمبر ۵۴: اور اگر رسول کی فرمانبرداری کروگے راہ پاؤگے۔
سورۃ نساء آئت نمبر ۸۰: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اﷲ کا حکم مانا۔
سورۃ حشر آئت نمبر ۷: اور جو کچھ تمہیں رسول عطافرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔
سورۃ النساء آئت نمبر ۶۹: اور جو اﷲ اور اس کے رسول کا حکم مانے تواسے ان کا ساتھ ملے گا۔
سورۃ النساء آئت نمبر ۶۴: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیئے کہ اﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

سیدالمرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت پر لازمی عمل کیا جائے اور کچھ احکامات آپ ﷺ (اوامر و نواہی) لائے ہیں انکے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے۔

سیدالعالمین ﷺ کی نسبی شرافت
طبرانی نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روائت کی کہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اﷲ عزوجل نے اپنی مخلوق میں سے بنی آدم کو پسند فرمایا، پھر بنی آدم میں سے اہل عرب کو، پھر عرب میں سے قریش کو، پھر قریش میں سے بنی ھاشم کو، پھر بنی ھاشم میں مجھ کو پسند فرمایا۔اس لیئے میں بہتروں میں سب سے بہترہمیشہ رہاہوں۔ پس جو اہل عرب سے محبت رکھتا ہے وہ مجھ سے محبت کی بنا پر محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے بغض رکھتا ہے۔ (الشفاء شریف )

آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے بہتر زمانوں میں سب سے بہتر زمانے میں پیدا فرمایا۔ پھر قبیلوں کو پسند کیا تو مجھے سب سے بہتر قبیلے میں کیا۔ پھر گھروں کو پسند کیا تو مجھے سب سے بہتر گھر میں بنایا۔ اس لیئے میں ان کے بہترین افراد اور بہترین گھروں میں سے ہوں (الشفاء شریف)

سیدالعالمین ﷺ کی نظافت و پاکیزگی
حضور ﷺ کے جسم مبارک کی نظافت اور اسکے پسینہ کی خوشبو اور اس کا میل کچیل اور عیوبات جسمانیہ سے پاک و صاف ہونا یہ ہے کہ اس بارے میں بھی اﷲ عزوجل نے آپ ﷺ کو وہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ ﷺ کے سوا کسی میں پائی ہی نہیں جاتی:
حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور پاک ﷺ کے جسم مبارک کی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر ، کستوری اور کسی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روائت ہے کہ خواہ آپ ﷺ نے خوشبو لگائی ہوتی یا نہیں لیکن آپ ﷺ جس سے بھی مصافہ فرماتے تو وہ شخص سارے دن اس کی خوشبو سے معطر رہتا۔ جب حضور ﷺ رفع حاجت کا ارادہ فرماتے تو زمین شق ہوکر آپ ﷺ کا بول وبراز مبارک نگل جاتی صرف وہاں خوشبو ہی خوشبو معلوم ہوتی۔

حضرت مالک بن سنان رضی اﷲ عنہ نے غزوہ احد میں آپ ﷺ کے زخم سے خون چوس لیا تھا اور اسکو حضور ﷺ نے انکے لیئے جائز قرار رکھتے ہوئے فرمایا کہ اس کو آگ ہرگز نہ پہنچے گی۔

حضرت برکہ رضی اﷲ عنہا نے آپ ﷺ کا بول مبارک پی لیا تھا اس پر آپ ﷺنے انسے فرمایا کہ تجھ کو کبھی پیٹ کی بیماری نہ ہوگی۔
(کتاب الشفاء شریف)

سرور کون و مکاں ﷺ کا حلم اور عفو
غزوہ احد میں سیدالکونین ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے اور چہرے پر کافی خون دیکھ کر بعض صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم نے عرض کیا کہ حضور ﷺ کفار کے حق میں بددعا فرمائیں جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے کی تھی ۔ مگر آپ ﷺ نے فرمایا میں لعن کرنے والا نہیں بھیجا گیا لیکن مجھ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف بلانے والااور رحمت فرمانے والا بھیجا گیا ہے۔ اے اﷲ میری قوم کو ہدائت دے ، وہ مجھے نہیں جانتے۔ایک شخص نے کہا کہ انصاف فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے اگر میں انصاف نہیں کروں گاتو کون کرے گا۔ اگر میں نے ہی انصاف نہ کیا تو میں ناکام و ناقص رہوں گا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسے قتل کرنا چاہتے تھے مگر حضور ﷺ نے انہیں منع فرمادیا۔ ایک شخص غوث بن حارث نے آپ ﷺ کی تلوار لے لی جبکہ آپ ﷺ آرام فرمارہے تھے اور کہا کہ آپ کو اب مجھ سے کون بچائے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا اﷲ۔ اسکے ہاتھ سے تلوار گرگئی جو آپ ﷺ نے اٹھا لی اور فرمایا کہ میرے اﷲ نے مجھے تو بچا لیا اب تمہیں کون بچائے گا۔ اس نے کہا کہ آپ اچھے پکڑنے والے بنیں تو آپ ﷺ نے اسے معاف کردیا۔ جو مسلمان ہوگیا۔ اور اپنی قوم کو جاکر کہا کہ میں ایسے شخص کو مل کر آیا ہوں جوتمام لوگوں سے بہتر ہے۔اس طرح آپ ﷺ نے زہر کھلانے والی یہودی عورت کو معاف کردیا۔ لبید بن عاصم یہودی جادوگر کو معاف کردیا۔ بدترین دشمن ابوسفیان، اسکی بیوی ہندہ ، حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور بے شمار لوگوں کو معاف فرمایا۔ جس کا نظارہ فتح مکہ کے موقع پر دریائے رحمت بیکراں ہوا۔ (الشفاء شریف)

جودو کرم اور سخاوت
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ سے جب کبھی کوئی سوال کرتا تو آپ ﷺ لا یعنی نہیں فرماتے تھے(بخاری و مسلم شریف)حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سب لوگوں میں سب بڑے سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے اور جب حضرت جبریل علیہ السلام حاضر بارگاہ رسال میں ہوتے تو آپ ﷺ تیز ہوا سے زیادہ بھلائی میں سخاوت فرماتے۔ (بخاری و مسلم شریف)حضور ﷺ جو آتا وہ لٹا دیتے اور کل کے لیئے جمع نہ رکھتے ۔ بے شمار لوگوں کو سو سو اونٹ دیئے۔ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کو ایک دفعہ اتنا سونا دیاکہ وہ اٹھا نہ سکتے تھے۔ ایک دفعہ نوے ہزار درہم آئے آپ ﷺ نے وہیں کھڑے کھڑے سب تقسیم کردیئے۔(الشفاء شریف)

شجاعت و بہادری
جنگوں میں بڑے مشکل مراحل آئے مگر آپ ﷺ نے قدم آگے بڑھایا۔ بے پناہ طاقت تھی کہ غزوہ خندق کے موقع پر ایک چٹان جو کسی سے نہ ٹوٹی آپ ﷺ نے اسکے پرخچے اڑادیئے۔ غزوہ حنین کے موقع پر سب لوگ بھاگ گیئے مگر حضور ﷺ اپنے دراز گوش پر سوار آگے بڑھ رہے تھے اور آپ یہ رجز پڑھ رہے تھے : میں وہ نبی ہوں جو جھوٹا نہیں اور اولاد عبدالمطلب سے ہوں۔اس وقت آپ ﷺ کے چچا سیدنا حضرت عباس رضی اﷲ عنہ آپکے ساتھ تھے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار کرجاتی اور آنکھیں سرخ ہوجاتیں تو ہم رسول اﷲ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے۔ لیکن آپ ﷺ سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔بدر کے دن بے شک تم نے مجھے دیکھا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی پناہ میں تھے اورآپ ﷺ ہم سے آگے دشمن کے قریب تھے اور اس دن سب سے بڑھ کر آپ ﷺ لڑائی میں تھے اور فرمایا کہ بہادر وہی گنا جاتا ہے جو دشمن کے قریب ہونے کے وقت رسول اﷲ ﷺ سے زیادہ نزدیک ہوتا تھا کیونکہ آپ ﷺ دشمن کے قریب ہوتے تھے۔ یوم احد کو ابی بن خلف کی بڑھک پر اسے قتل کیا۔ حارث بن صمہ کافر کو نیزے کی معمولی انی ماری وہ اس قدر تکلیف میں تھا کہتا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ حضرت محمد ﷺ اگر مجھ پر تھوک دیتے تو میں مرجاتا ۔ پھر وہ مرگیا۔(الشفاء شریف)

حضور ﷺ کی حیاوچشم پوشی
حضور ﷺ کے حیا کی تعریف اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کردی۔ فرمایا بے شک اس میں نبی کوایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے(سورۃ احزاب ۔۵۳)حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ پردہ نشیں کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نہ فحش گو تھے اور نہ عمدا فحش بات کہتے اور نہ بازاروں میں چلا چلا کر باتیں کرتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ۔بلکہ اس کو معاف کردیتے اور درگزر فرماتے ۔ پھر آپ فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر مبارک نہیں دیکھا (شمائل ترمذی ۔الشفاء شریف)

حضور ﷺ کا حسن اخلاق
اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اخلاق کے سب سے اعلیٰ درجات عطا فرمائے اور خود قرآن پاک میں تعریف فرمائی۔ سورۃ آل عمران آئت نمبر ۱۵۹ میں فرمایا تو کیسی کچھ اﷲ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب ﷺ تم ان کے لیئے نرم دل ہوئے اور تند مزاج ،سخت دل ہوتے تو بے شک وہ تمہارے گرد سے پریشان ہوتے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں ؛ اخلاق میں حضور ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص نہ تھااور آپ ﷺ کے صحابہ یا گھر والوں میں سے کوئی حضور ﷺ کو بلاتا تو آپ ﷺ لبیک ہی فرماتے۔ حضور ﷺ اپنے صحابہ کرام سے خوش کلامی بھی فرماتے اور ان سے مل کر بیٹھتے اور ان سے باتیں کرتے اور انکے بچوں کو پیار کرتے، گود میں بٹھاتے اور آزاد مرد، غلام ، باندی اور غریب کی دعوت قبول فرماتے اور عیادت شہر کے آخری کونے تک جا کر کرتے اور کسی معذور کا عذر قبول فرماتے۔(الشفاء شریف)

صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی کنیت مقرر فرماتے۔انہیں اچھے ناموں سے مخاطب فرماتے۔ اگر کوئی شخص اس حالت میں آیا کہ آپ ﷺ نماز ادافرمارہے ہیں تو آپ ﷺ نماز کو مختصر فرماکر اس سے آنے کا مطلب دریافت فرماتے اور پھر نماز شروع کردیتے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ دفرماتے ہیں کہ نماز فجر کے بعد مدینہ منورہ کی باندیاں پانی بھرا برتن لاتیں اور حضور ﷺ ہر ایک برتن میں اپنا دست مبارک ڈال دیتے اور بسا اوقات سردی کا موسم بھی ہوتا تھااور اس سے لوگ تبرک حاصل کرتے تھے(مسلم و بخاری شریف۔الشفاء شریف)
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140635 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More