قیامت کے احوال، قرآن کی روشنی میں

جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کی طرف لے جائیں گے مہمان بناکر۔ اور مجرموں کو جہنّم کی طرف ہانکیں گے پیاسے۔ لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وہی جنہوں نے رحمٰن کے پاس قرارکر رکھا ہے۔ (مریم ٨٥ تا ٨٧)۔

بیشک قیامت آنے والی ہے قریب تھا کہ میں اسے سب سے چُھپاؤں کہ ہر جان اپنی کوشش کا بدلہ پائے۔ (طٰہ ١٥)

جس دن صُور پھونکا جائے گا اور ہم اس دن مجرموں کو اٹھائیں گے نیلی آنکھیں۔ آپس میں چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ تم دنیا میں نہ رہے مگر دس رات۔ (طٰہ ١٠٢،١٠٣)

اور ہم عدل کی ترازوئیں رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو۔ (الانبیاء ٤٧)

جس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ نامہ اعمال کو لپیٹتا ہے ہم نے جیسے پہلے اسے بنایا تھا ویسے ہی پھر کردیں گے یہ وعدہ ہے ہمارے ذمہ ہم کو اس کا ضرور کرنا۔ (الانبیاء ١٠٤)

اے لوگو اپنے رب سے ڈرو بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی اور ہر گابھنی (یعنی حمل والی ) اپنا گابھ ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشہ میں ہیں اور نشہ میں نہ ہوں گے مگر ہے یہ کہ اللہ کی مار کڑی ہے۔ (الحج ١،٢)

ہرگز کام نہ آئیں گے تمہیں تمہارے رشتے اور نہ تمہاری اولاد قیامت کے دن تمہیں ان سے الگ کردے گا اور اﷲ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (الممتحنھ ٣)

روز قیامت کی قسم یاد فرماتا ہوں۔ اور اس جان کی قسم جو اپنے اوپر بہت ملامت کرے۔ کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہم ہر گز اس کی ہڈیا ں جمع نہ فرمائیں گے۔ کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے پور ٹھیک بنا دیں۔ بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ اس کی نگاہ کے سامنے بدی کرے۔ پوچھتا ہے قیامت کا دن کب ہوگا۔ پھر جس دن آنکھ چوندھیائے گی۔ اور چاند گہے گا۔ اور سورج اور چاند ملا دیئے جائیں گے۔ اس دن آدمی کہے گا کدھر بھاگ کر جاؤں۔ ہر گز نہیں کوئی پناہ نہیں۔ اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا کر ٹھہرنا ہے ۔ اس دن آدمی کو اس کا سب اگلا پچھلا جتا دیا جائے گا۔ (القیمھ ١ تا ١٣)

تفسیر (القیمھ ١ تا ١٣)

(آیت ٣) یہاں آدمی سے مراد کافر منکِرِ بعث ہے۔
شانِ نزول : یہ آیت عدی بن ربیعہ کے حق میں نازل ہوئی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا تھا کہ اگر میں قیامت کا دن دیکھ بھی لوں جب بھی نہ مانوں اور آپ پر ایمان نہ لاؤں کیا اللہ تعالٰی بکھری ہوئی ہڈیاں جمع کردے گا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ کیا اس کافر کا یہ گمان ہے کہ ہڈیاں بکھرنے اور گلنے اور ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں ملنے اور ہواؤں کے ساتھ اڑ کر دور دراز مقامات میں منتشر ہوجانے سے ایسی ہوجاتی ہیں کہ ان کا جمع کرنا کافر ہماری قدرت سے باہر سمجھتا ہے؟ یہ خیالِ فاسد اس کے دل میں کیوں آیا اوراس نے کیوں نہیں جانا کہ جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے وہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے؟

(آیت ٤) یعنی اس کی انگلیاں جیسی تھیں بغیرفرق کے ویسی ہی کردیں اور ان کی ہڈیاں ان کے موقع پر پہنچا دیں ، جب چھوٹی چھوٹی ہڈیاں اس طرح ترتیب دے دی جائیں تو بڑی کا کیا کہنا ۔

(آیت ٥) انسان کا انکارِ بعث اشتباہ اور عدمِ دلیل کے باعث نہیں ہے بلکہ حال یہ ہے کہ وہ بحالِ سوال بھی اپنے فجور پر قائم رہنا چاہتا ہے کہ بطریقِ استہزاء پوچھتا ہے، قیامت کا دن کب ہوگا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس آیت کے معنٰی میں فرمایا کہ آدمی بعث و حساب کو جھٹلاتا ہے جو اس کے سامنے ہے ۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ آدمی گناہ کو مقدّم کرتا ہے اور توبہ کو مؤخر، یہی کہتا رہتا ہے اب توبہ کروں گا، اب عمل کروں گا، یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور وہ اپنی بدیوں میں مبتلا ہوتا ہے ۔

(آیت ١٢)تمام خَلق اس کے حضور حاضر ہوگی، حساب کیا جائے گا، جزا دی جائے گی، جسے چاہے گا اپنی رحمت سے جنّت میں داخل کرے گا، جسے چاہے گا اپنے عدل سے جہنّم میں ڈالے گا۔

کہ کافروں پر ضرور عذاب ہوگا جس دن تھرتھرائے گی تھرتھرانے والی۔ اس کے پیچھے آئے گی پیچھے آنے والی۔ کتنے دل اس دن دھڑکتے ہوں گے۔ آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے۔ (النازعات ٦ تا ٩)

پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑ۔ اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی۔ اور ماں اور باپ۔ اور جورو اور بیٹوں سے۔ ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک فکر ہے کہ وہی اسے بس ہے۔ کتنے منھ اس دن روشن ہوں گے۔ ہنستے خوشیاں مناتے۔ اور کتنے مونھوں پر اس دن گرد پڑی ہوگی۔ ان پر سیاہی چڑھ رہی ہے۔ یہ وہی ہیں کافر بدکار۔ (عبس ٣٣ تا ٤٢)

جب زمین تھرتھرادی جائے(ف۲) جیسا اس کا تھرتھرانا ٹھہرا ہے۔ اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے۔ اور آدمی کہے اسے کیا ہوا۔ اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔ اس لئے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔ اس دن لوگ اپنے رب کی طرف پھریں گے (ف۸) کئی راہ ہو کر (ف۹) تاکہ اپنا کیا (ف۱۰) دکھائے جائیں۔ تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرّہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ (الزلزال ١ تا ٨)

تفسیر (الزلزال ١ تا ٨)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ ہر مومن و کافر کو روزِ قیامت اس کے نیک و بداعمال دکھائے جائیں گے مومن کو اس کی نیکیاں اور بدیاں دکھا کر اللہ تعالٰی بدیاں بخش دے گا اور نیکیوں پر ثواب عطا فرمائے گا اور کافر کی نیکیاں رد کردی جائیں گی کیونکہ کفر کے سبب اکارت ہوچکیں اور بدیوں پر اس کو عذاب کیا جائے گا۔ محمّد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ کافر نے ذرّہ بھر نیکی کی ہوگی تو وہ اس کی جزا دنیا ہی میں دیکھ لے گا یہاں تک کہ جب دنیا سے نکلے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی اور مومن اپنی بدیوں کی سز ا دنیا میں پائے گا تو آخرت میں اس کے ساتھ کوئی بدی نہ ہوگی۔ اس آیت میں ترغیب ہے کہ نیکی تھوڑی سی بھی کارآمد ہے اور ترہیب ہے کہ گناہ چھوٹا سا بھی وبال ہے۔ بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ پہلی آیت مومنین کے حق میں ہے اور پچھلی کفّار کے۔

دل دہلانے والی۔ کیا وہ دہلانے والی۔ اور تو نے کیا جانا کیا ہے دہلانے والی۔ جس دن آدمی ہوں گے جیسے پھیلے پتنگے۔ اور پہاڑ ہوں گے جیسے دھنکی اون۔ تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں۔ وہ تو من مانتے عیش میں ہیں ۔ اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں۔ وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے۔ اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی۔ ایک آ گ شعلے مارتی۔ (القارعھ ١ تا ١١)

تفسیر (القارعھ)
یعنی جنّت میں مومن کی نیکیاں اچھی صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی تو اگر وہ غالب ہوئیں تو اس کے لئے جنّت ہے اور کافر کی برائیاں بدترین صورت میں لا کر میزان میں رکھی جائیں گی اور تول ہلکی پڑے گی کیونکہ کفّار کے اعمال باطل ہیں ان کا کچھ وزن نہیں تو انہیں جہنّم میں داخل کیا جائے گا۔
Haris Khalid
About the Author: Haris Khalid Read More Articles by Haris Khalid: 30 Articles with 64739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.