فضیلت ِشب ِولادت النبی ﷺ

نسبت ایک عظیم حقیقت ،ایک محکم اساس اور مضبوط ستون ہے،اسلام ، اسلامی معاشرہ اور اسلامی تہذیب وتمدن کی عمارت کی مضبوطی میں نسبت کا بڑا عمل دخل ہے۔ اسلامی معاشرہ کا قیام ،استحکام اور بقاء بھی نسبتوں کی فضیلت اورپاسداری پر موقوف ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مناسک حج میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ قربانی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کیا جاتا ہے۔نمازوں میں انبیاء کرام کی سنتوں پرعمل کیاجاتا ہے۔

نسبت کی اہمیت اور فضیلت کیا ہے۔تمام کپڑے روئی اور دھاگوں سے تیار ہوتے ہیں اورکپڑوں کو کوئی فی نفسہٖ کوئی مقام حاصل نہیں لیکن اگرکسی کپڑے سے قرآن پاک اور کعبتہ اﷲ کا غلاف بنایا جائے تو اس کا مقام ومرتبہ بڑھ جاتا ہے۔۔۔ کاغذ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور انہی کاغذوں پر اخبار، ناول،کہانیاں شائع کی جاتی ہیں جس کا کوئی مقام نہیں لیکن جس کاغذ پر آیاتِ قرآن،تفسیرقرآن ، احادیث مبارکہ اور اسمائے مقدسہ لکھ دیئے جائیں تو اس کا مقام ومرتبہ بہت بڑھ جاتا ہے۔لکڑیاں عام درختوں سے حاصل کی جاتی ہیں اور ان سے میز کرسیاں فرنیچر تیار ہوتا ہے جس کا کوئی مقام نہیں ہوتالیکن اگر اسی لکڑی سے قرآن کارحل اور منبر بنایا جائے تو اس کا مقام ومرتبہ بڑھ جاتا ہے۔۔دنیا بھر میں پانی موجود ہے۔ دریا اور سمندر پانی سے بھرے پڑے ہیں لیکن جس پانی کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نسبت ہوگئی تو وہ آبِ زم زم مقدس ومتبرک بن گیا اورکروڑوں اہل ایمان آبِ زم زم کوتبرک کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح تمام ایام اورراتیں برابرہیں لیکن جس دن اور رات کواﷲ تعالیٰ کے محبوب اور محسن کائنات حضرت محمد ﷺکی آمدوبعثت کی نسبت حاصل ہے ،اس کا مقام ومرتبہ اوراس کی عظمت وفضیلت باقی ایام سے کہیں بڑھ کرہے۔

نسبتوں کی عظمت واہمیت
نسبتوں کواہمیت دینااورنسبتوں کی پاسداری کرنے کاسبق ہمیں قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر ملتاہے۔اﷲ تعالیٰ نے نبیوں ، رسولوں، ولیوں اور بزرگوں کے ادب واحترام کی تعلیم دی ہے اور ان سے نسبت رکھنے والے مکان وزماں اوراشیاء کا مقام ومرتبہ بلند فرمایاہے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور سید عالم ﷺکی ولادت اور اقامت والے شہر مکہ مکرمہ کی قسم فرمائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ لَااُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِo وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَالْبَلَدِo ﴾
ترجمہ: ’’میں اس شہر(مکہ) کی قسم کھاتاہوں(اے حبیب مکرمﷺ) اس لیے کہ آپ اس شہر (مکہ مکرمہ)میں تشریف فرما ہیں‘‘۔(سورۃ البلد: آیت۲۔۱)

اﷲ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ سے نسبت رکھنے والے شہر( مکہ مکرمہ) کی قسم اس لیے نہیں فرمائی کہ اس میں بیت اﷲ شریف ہے،اس میں حجراسود اورآبِ زمزم ہے اوریہاں مناسک حج ادا کئے جاتے ہیں بلکہ اس لیے قسم فرمائی کہ اس شہر میں اﷲ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمدمصطفی ﷺبستے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کی نسبت اوربرکت کے حوالے سے اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے:
اِذْہَبُواْ بِقَمِیْصِیْ ہَـذَا فَأَلْقُوہُ عَلَی وَجْہِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیْراً ۔
ترجمہ:’’(یوسف علیہ السلام نے فرمایا)میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے چہرے پرڈال دواُن کی آنکھیں روشن ہوجائیں گی‘‘۔(سورۂ یوسف،آیت93)

اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے مجاہدین اسلام ، جہاد فی سبیل اﷲ اور غازیوں سے نسبت رکھنے والے گھوڑوں کی بھی قسم فر مائی ہے۔ارشادخداوند قدوس ہے:
والعٰدیٰت ضبحاoفالمورےٰت قدحاoفالمغیرات صبحاo
ترجمہ: ’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو ہانپتے ہیں،پھر جو پتھروں پرسُم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں، پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر)اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں‘‘۔(سورۃ العادیات،آیت۱تا۳)

ان آیات مقدسہ سے واضح ہواکہ جس مکان وزمان کو،جس دن اور رات کو،جس ذات کو، جس کتاب کو، جس گھر کو،جس کام کواور جس چیز کوبھی حضور سید عالم ﷺ سے نسبت حاصل ہے، ہمیں ان سب کی تعظیم و تکریم کر نی ہے کیونکہ یہی اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور یہی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کا عمل ہے۔

ربیع الاوّل اورپیرکے دن کی عظمت
حضور سید عالم ﷺ کے ساتھ جس چیز کوبھی نسبت کا شرف حاصل ہوجائے تو اس کی قدرو منزلت اور عظمت کے بارے میں کس کو شک و شبہ ہوسکتا ہے ۔یوں تو تمام مہینوں کو اﷲ تعالیٰ نے تخلیق کیا اور ہر ایک مہینہ کی عظمت و فضیلت اور مقام اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن ماہ ربیع الاول کو یہ عظیم الشان شرف حاصل ہے کہ یہ مہینہ حضور نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہے کیونکہ اسی ماہ مقدس کی بارہ تاریخ کو سید الا نبیا ء والمر سلین ، باعث تخلیق کائنات حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ اس بزمِ عالم میں رونق افروز ہوئے۔

ولادت النبیﷺکی تاریخ کی تحقیق
حضور نبی کریم ﷺکے ولادت باسعادت کے مہینے اور دن پرتو تمام امت ِ مسلمہ کا اجماع ہے کہ حضورنبی کریمﷺماہ ربیع الاول میں پیر کے دن اس دنیا میں رونق افروز ہوئے ،جبکہ تاریخ میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے لیکن مستند علماء کرام، محققین اورنامور مؤرخین کے نزدیک ربیع الاول کی 12 تاریخ ہی مستندومعتبرہے۔

عالم اسلام کے ممتاز اسکالر،فقیہ ملت پروفیسرمفتی منیب الرحمٰن اپنی کتاب ’’تفہیم المسائل‘‘ میں حضور نبی کریمﷺکی تاریخ ولادت کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری اورجسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری کی تحقیقات سے اتفاق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ فخر کائنات سرورِ دوعالم ﷺ کا یومِ میلاد دوشنبہ (پیر ) کا دن تھا،اس پر بھی تمام علمائے امّت کا اتفاق ہے کہ ربیع الاول کا بابرکت مہینہ تھا اورمتقدمین ومتأخرین کا اجماع اسی پر ہے کہ تاریخِ ولادت 12ربیع الاول عام الفیل ہے ۔(تفہیم المسائل:ج4ص481،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنزلاہور)

مشہورمؤرخ امام ابن جریر طبری (متوفی310ھ)لکھتے ہیں :
﴿ ولد رسول ﷺ یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاول ﴾
ترجمہ: ’’رسول کریم ﷺ کی ولادت با سعادت پیر کے دن ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ (تاریخ طبری :جلد 2صفحہ 125)

معروف سیرت نگار علامہ ابن ہشام ( متوفی ۲۱۳ھ) اولین سیر ت نگار امام محمد بن اسحاق کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
﴿ولد رسول ﷺیوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل۔﴾
ترجمہ: رسول کریم ﷺ کی ولادت با سعادت پیر کے دن ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔ ( سیرۃ النبو یہ ، جلد 1صفحہ158،مطبوعہ بیروت لبنان)

مشہورمؤرخ علامہ ابنِ خلدون (متوفی 808ھ)جو فلسفہ اور علم تاریخ کے امام اور موجدتسلیم کئے جاتے ہیں ، وہ نبی کریم ﷺ کی تاریخ ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں:
﴿ ولد رسول اﷲ ﷺعام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاول لا ربعین سنۃ من ملک کسری نو شیروان۔﴾
ترجمہ: ’’رسول کریم ﷺ کی ولادت باسعادت عام الفیل میں ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی جبکہ نوشیروان کی حکمرانی کا چالیسواں سال تھا۔
(تاریخ ابن خلدون : جلد۲ صفحہ ۷۱۰،مطبوعہ بیروت)

عصر حاضر کے سیرت نگار محمد صادق ابراہیم عرجون ، جو جامعہ ازہر مصر کے کلیہ’’ اصول الدین‘‘ کے مدیر رہے ہیں،اپنی تصنیف ’’محمد رسول اﷲ ‘‘میں لکھتے ہیں:
وقد صح من طرق کثیرۃ انّّ محمدا علیہ السلام ولد یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شہر ربیع الاول عام الفیل فی زمن کسریٰ نوشیروان ویقول اصحاب التوفیقات التّاریخیۃ انّ ذالک یوافق الیوم المکمل للعشرین من شھر اغسطس ۵۷۰م بعد میلاد المسیح علیہ السلام ۔
ترجمہ:’’بکثرت طُرقِ روایت سے یہ بات صحیح ثابت ہوچکی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ عام الفیل اور کسریٰ نوشیرواں کے زمانے میں بروز دو شنبہ (پیر) بارہ ربیع الاول کوپیدا ہوئے اورایسے علماء جوشمسی اور قمری تاریخوں میں مطابقت کرتے ہیں، نے کہا ہے کہ اس دن شمسی تاریخ 20اگست 570ء بنتی ہے‘‘۔
(محمد رسول اﷲ ،جلد 1،ص:102،مطبوعہ : دارالقلم ،دمشق )

مفتی محمد شفیع دیوبندی (متوفی ۱۳۶۹ھ)’’سیرتِ خاتم الانبیاء‘‘میں رقمطراز ہیں……’’ الغرض جس سال اصحابِ فیل کا حملہ ہوا،اس کے ماہِ ربیع الاوّل کی بارہویں تاریخ کے روزِ دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد،لیل ونہارکے انقلاب کی اصلی غرض، آدم اوراولادِ آدم کا فخر، کشتیٔ نوح کی حفاظت کاراز، ابراہیم کی دعا، موسیٰ وعیسیٰ کی پیش گوئیوں کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدارمحمد رسول اﷲ ﷺرونق افزائے عالم ہوتے ہیں‘‘۔
(سیرت خاتم الانبیاء: ص20،مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

اس موضوع پر تحقیقی اور مدلل بحث رقم کرتے ہوئے اپنے وقت کے ممتاز عالم دین پیر محمد کرم شاہ الازہری اپنی مایہ نازتصنیف’’ضیاء النبی ﷺ میں لکھتے ہیں :
ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہی تاریخ روایت کی ہے ،چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں:
رواہ ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن عفّان عن سعید بن میناء عن جابرٍ وابن عباس انّہما قالا ولد رسول اﷲ ﷺ عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول وفیہ بُعثَ وفیہ عُرجَ بہٖ الی السمآء وفیہ ہاجر وفیہ مات وھذا ھو المشہور عند الجمہور۔
ترجمہ:’’حضرت جابر اور ابن عباس رضی اﷲ عنہمابیان کرتے ہیں: ’’رسول اﷲ ﷺ عام الفیل روز دوشنبہ (پیر) بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے، اسی روز آپ ﷺ کی بعثت ہوئی،اسی روزآ پ کو معراج عطا ہوئی ،اسی روزآپ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت کی اورآ پ ﷺ کے وصال مبارک کادن بھی یہی ہے،جمہورِ امت کے نزدیک یہی تاریخ (بارہ ربیع الاول) مشہور ہے ‘‘۔

اس روایت کے پہلے راوی ابو بکر بن ابی شیبہ ہیں ،اُن کے بارے میں ابو زرعہ رازی (متوفیٰ 264 ھ) کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن ابی شیبہ سے بڑھ کر حافظِ حدیث نہیں دیکھا ۔ محدث ابن حبان فرماتے ہیں کہ ابو بکر عظیم حافظِ حدیث تھے ۔ دوسرے راوی عفان ہیں، اُن کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ عفان ایک بلند پایہ امام، ثقہ اور صاحبِ ضبط واتقان ہیں۔ تیسرے راوی سعید بن میناء ہیں، اُن کا شمار بھی ثقہ راویوں میں ہوتا ہے ۔ یہ صحیح الاسناد روایت دو جلیل القدر صحابہ حضرت جابر بن عبداﷲ اور حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہم سے مروی ہے۔
(تفہیم المسائل،بحوالہ ضیاء النبی :ج۲ ،ص۳۳تا۳۹،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، لاہور )

علومِ قرآن وسنت اورسیرت وتاریخ کے ان مستند ومعتبرعلماء کرام، محققین اور مؤرخین کے ان حوالوں کے علاوہ سیرت اور تاریخ کی سینکڑوں کتابوں میں نبی کریم ﷺ کی تاریخ ِ ولادت 12ربیع الاول لکھی گئی ہے۔ مضمون کی طوالت کی وجہ سے صرف انہی حوالہ جات پر اکتفاء کیاجاتا ہے۔
فضیلت ِصبح عید ِبہاراں(ولادت النبی ﷺ)

حضور سید عالم ﷺ اس بزم جہاں میں ’’پیر‘‘ کے دن تشریف لائے، اس لیے آپ ﷺ اپنایومِ میلاد منانے اوراپنی ولادت پراﷲ تعالیٰ کاشکر اداکرنے کے لیے ہر ’’پیر‘‘ کے دن روزہ رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو قتا دہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یارسول اﷲﷺ،آپ ہر پیر کے دن روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:
﴿ ذاک یوم ولدت فیہ ﴾
ترجمہ: ’’یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی ہے۔‘‘(صحیح مسلم ،کتاب الصیام)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ ہر پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ نیز یہ کہ آپ ﷺ نے خود اپنے یوم میلاد کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا اور اﷲ تعالیٰ کی اس نعمت کو ظاہر کر تے ہوئے تحدیث نعمت کے طور پر اﷲ تعالیٰ کا (روزے کی صورت میں) شکربھی اد اکیا۔

فضیلت شب ولادت النبی ﷺ(بارہ ربیع الاوّل) کے حوالے سے علامہ احمد قسطلانی (متوفی911ھ)اپنی مایہ نازتصنیف ’’المواہب اللد نیہ‘‘ میں ایک بڑا ایمان افروز اور روح پرورنکتہ بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی شب ولادت (بارہ ربیع الاول) شب قدر سے افضل و اعلیٰ ہے ۔ آپ فر ماتے ہیں کہ اس کی تین وجوہ ہیں۔
1﴾ پہلی وجہ یہ ہے کہ شب ولادت آپ ﷺ کی ذات گرامی کے ظہور کی رات ہے اور شب قدر آپ ﷺ کو عطا کی گئی ہے اور اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اس لحاظ سے شب ولادت ، شب قدر سے افضل وا علیٰ ہے۔
2﴾ دوسری وجہ یہ ہے کہ شب قدر، نزولِ ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہے اورشب ولادت بہ نفس نفیس آپ ﷺ کے ظہور کی وجہ سے شرف یاب ہے اور وہ ذات جس کی وجہ سے شب ولادت کو عظمت و فضیلت دی گئی ہے، یقینا ان صفات سے افضل ہے جن کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت دی گئی ہے، لہٰذا شب ولادت ،شب قدر سے افضل واقع ہوئی۔
3﴾ تیسری وجہ یہ ہے کہ لیلتہ القدر میں صرف امت مصطفوی ﷺ پر فضل و انعام واقع ہو تا ہے اور شب ولادت النبی ﷺمیں تمام مخلوقات پر اﷲ تعالیٰ کا فضل عظیم ہوا ہے۔(وَمَااَرْسَلْٰنکَ اِلَّارَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ) اﷲ تبارک وتعا لیٰ نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں (کی مخلوقات) کے لیے سر اپا رحمت (رحم کر نے والا) بنا کر بھیجا ہے ، جس کی بدولت تمام مخلوقات عالم پر اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں اور رحمتیں عام ہوئی ہیں، چنانچہ اس لحاظ سے بھی شب ولادت النبیﷺ کا نفع بہت زیادہ ہے اور یہی افضل وا علیٰ ہے۔
(المواھب اللدنیہ: جلد1صفحہ77،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،لبنان)

علامہ ابن الحاج(متوفی 737ھ) ماہ ربیع الاول اور پیر کے دن کی عظمت واہمیت کے سلسلے میں ایک نہایت ایمان افروز اور روح پر ورنکتہ بیان فر ماتے ہیں کہ …… اگر یہ سوال کیا جائے کہ رسول اﷲ ﷺکی ولادت ماہ ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی، ماہ رمضان میں نہیں ہوئی کہ جس میں قرآن نازل ہوا،نہ لیلتہ القدر میں ہوئی، نہ شعبان کی پندر ہویں شب (شب برأت)میں ہوئی، نہ جمعہ کے دن اور نہ اس کی شب میں ہوئی، اس میں کیا حکمت ہے؟۔

علامہ ابن الحاج فر ماتے ہیں کہ اس کا جواب چار طریقوں سے ہے:
الاول ……پہلا طریقہ یوں ہے کہ درخت اور پھل وغیرہ پیر کے دن پیدا کئے گئے اور اس میں یہ خاص نکتہ اوراشارہ ہے کہ جس طرح انسان کی مادی حیات کے اسباب پیر کے دن بنائے گئے، اسی طرح اس کی روحانی حیات کا سبب کا مل (یعنی حضورنبی کریم ﷺکی ذات مبارکہ کو)بھی پیر کے دن پیدا کیا گیا۔
الثانی……دوسرا طریقہ یوں ہے کہ ’’ربیع‘‘ کے معنی ہیں ’’بہار‘‘ اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسانیت کا گلشن یوں تو صدیوں سے آباد تھا لیکن اس میں بہار اس وقت آئی جب حضور سید عالم ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی۔
الثالث……تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جس طرح ’’فصل ربیع‘‘ تمام فصلوں سے افضل و ا علیٰ ہوتی ہے، اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ کی شریعت بھی تمام شریعتوں سے افضل واعلیٰ ہے۔
الرا بع…… چو تھا طریقہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اگر رمضان المبارک ، لیلتہ القدر ، جمعہ کی شب کو پیدا ہوتے تو ان اوقات سے آ پ ﷺ کو فضیلت ملتی اور جب آپ ﷺ ماہ ربیع الاول میں پیر کے دن پیدا ہوئے تو اس ماہ اور اس دن کو آپ ﷺ کی بدولت عظمت و فضیلت ملی ہے۔ اور امر واقعہ بھی یہ ہے کہ آپ ﷺ کسی سے فضیلت نہیں پاتے بلکہ کائنات میں جو بھی فضیلت پاتا ہے وہ آپ ﷺکی (نسبت کی وجہ) سے ہی فضیلت پاتا ہے۔(المدخل: جلد1صفحہ26-29، دارالکتب العلمیہ بیروت)

محقق علی الاطلاق حضرت سیدنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ:
’’بے شک حضور سرورعالم ﷺکی شب ولادت،شب قدر سے بھی افضل ہے ، کیونکہ شب ولادت حضو رنبی کریم ﷺکے اس دنیا میں جلوہ گر ہونے کی رات ہے، جب کہ لیلتہ القدر حضو رنبی کریمﷺکو عطاکردہ شب ہے اور جو رات ظہورِ ذاتِ سرورِ کائنات ﷺکی وجہ سے مشرف ہو ، وہ اُس رات سے زیادہ شرف وعزت والی ہے جو ملائکہ کے نزول کی بنیاد پر مشرف ہے‘‘۔(ماثبت بالسنۃ، صفحہ289، مطبوعہ کراچی)

ولادتِ نبوی ﷺکے انعامات
ولادتِ مصطفویﷺ تمام کائنات کیلیے بالعموم اورانسانیت کے لیے بالخصوص ابدی مسرتوں، حقیقی کامیابیوں اوراخروی فلاح ونجات کی پیغامبر بن کرآئی تھی جس سے کائنات کی ہر شے خوشیاں منارہی تھی اور مسرتوں کا اظہا ر کررہی تھی۔ فرشتے بھی اس نعمت خداوندی پراﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لا رہے تھے۔انبیاء سابقین نے آپ ﷺکی آمد مبارکہ کی خوشخبریاں دیں۔ عرش اور فرش میں جشن اور بہار کا سماں تھا لیکن ایک ذات ایسی بھی تھی جو کہ فریادکناں اورچیخ وچلا رہی تھی ،جسے ولادت نبویﷺکی خوشی نہیں تھی اور وہ ملعون ابلیس کی ذات تھی اور سب سے پہلے حضور اکرم ﷺکی ولادت مبارک پر شیطانیت غمگین ہوئی تھی۔

چنانچہ علامہ ابوالقاسم عبدالرحمٰن السہیلی (متوفی 581ھ)اپنی کتاب ’’الروض الانف‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ابلیس ملعون زندگی میں چار مرتبہ چیخیں مارکررویاہے۔ پہلی مرتبہ جب اس کو ملعون (مردود)قراردیا گیا۔دوسری مرتبہ جب اسے بلندی سے پستی کی طرف دھکیلا گیا۔ تیسری مرتبہ جب حضور نبی کریم ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی اور چوتھی مرتبہ جب اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ کو نازل فرمایا‘‘۔
(الروض الانف: جلد 1صفحہ181،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

حاصل یہ ہے کہ حضور رحمت دوعالمﷺ کے میلاد شریف کی برکت سے نہ صرف حضرت ثویبہ کو غلامی سے آزادی ملی بلکہ لاتعداد غلاموں کونعمت ِ آزادی ملی․․․․․ ابو لہب ایسے کافر کو عذاب ِ دوزخ میں تخفیف ملی ․․․․․اہل ِکفر کوایمان کی دولت ملی․․․․․ اہل ضلالت کو رشد وہدایت کی سعادت ملی․․․․․ تمام مخلوقات کو رحمت ِ مصطفویﷺ میسر آئی․․․․․ اہلِ قرن (زمانہ)کو افضل ترین زمانہ ملا․․․․․بے زبانوں اور بے جانوں کو بھی سلام وکلام اور کلمہ پڑھنے کا شرف ملا․․․․․ اہل لسان کو فصاحت و بلاغت کا عظیم شاہکار ملا․․․․ اہل ایمان صحبت یافتہ کو ’’صحابیت‘‘ ایسی انمول ترین نعمت وسعادت حاصل ہوئی …… اور ان شاء اﷲ! میلادُ النبی ﷺ کی برکت سے تمام صاحبان ایمان کو دنیوی اور اُخروی نعمتیں، سعادتیں، جنت الفردوس کی اعلیٰ ترین دولت، رفاقت مصطفوی ﷺ اور دیدار ِ خداوندی ایسی لازوال اورعظیم الشان نعمتیں ملیں گی، جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں ماہ ربیع الاوّل میں محافل میلادکا انعقاد اور خوشی ومسرت کا اظہار کرنا،انواع واقسام کے صدقہ وخیرات کرنااور دعوت طعام کا اہتمام کرناوغیرہ ہمیشہ سے مسلمانوں کا محبوب طرزِعمل رہاہے اور میلاد شریف کے خواص میں سے یہ ہے کہ میلاد شریف کی برکت سے اس سال اﷲ تعالیٰ کاخاص فضل وکرم ہوتا ہے۔
وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں
جو سرورِ عالم کا میلاد مناتے ہیں
آقا کی ثناء خوانی دراصل عبادت ہے
ہم نعت کی صورت میں قرآن سناتے ہیں

عالم اسلام کے تمام مسلمان بارہ ربیع الاوّل کو یہ عظیم الشان اور ایمان افروز تہوار جشن عید میلادُ النبیﷺ ہمیشہ سے مناتے چلے آرہے ہیں اور جب تک یہ دنیا قائم ودائم ہے اور ایک بھی مسلمان روئے زمین پرباقی ہے، یہ جشن عید میلادُ النبیﷺ اسی طرح عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت اورپوری آب وتاب کے ساتھ منایاجاتا رہے گا اور اہل ایمان میلاد شریف کی برکتوں، رحمتوں اور دنیوی واُخروی سعادتوں سے فیض یاب ہوتے رہیں گے۔
Mounlana Nasir Khan Chishti
About the Author: Mounlana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Mounlana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 195490 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.