از:ڈاکٹر محمد اشرف آصف
جلالی ( بانی ادارہ صراط مستقیم پاکستان)
ہم محفل میلاد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کیوں مناتے ہیں؟ اسکی وجہ یہ ہے
کہ اس محفل میلاد کا انعقاد صحابہ کرام علیھم الرضوان نے کیا، اس محفل کو
پسند رب ذوالجلال نے کیا اور اس محفل پر انعام کی تقسیم حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے کی لہٰذا یہ سبب ہے کہ ہم اس محفل کا انعقاد کرتے ہیں۔
یہ کوئی رسم نہیں، یہ کوئی رواج نہیں، یہ کوئی کسی بادشاہ کا گھڑا ہوا
طریقہ نہیں، یہ بعد کی صدیوں بعد کا بنایا ہوا کوئی فنگشن نہیں، محفل میلاد
وہ تقریب ہے جس کا انعقاد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مدینہ شریف میں کیا۔
سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام علہیم الرضوان کے عمل کی
تصدیق کی اور رب ذوالجلال نے عرش سے اپنی رحمت کا سندیسہ بھیج دیا۔
مسجد نبوی شریف صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم میں محفل میلاد
سید عالم نور مجسم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی شریف میں تشریف لے گئے
تو کیا دیکھتے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایک اجتماع جاری ہے۔ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جب صحابہ کو اکٹھے بیٹھے ہوئے دیکھا حالانکہ ان
کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں ہر وقت کسی نہ کسی غزوہ میں‘ کسی معرکہ میں‘
کسی نئے افق پر دین کی شمع روشن کرنے میں مصروف تھے اس کے باوجود ایک جلسہ
انہوں نے منعقد کر رکھا تھا۔
حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔
طبرانی نے معجم کبیر میں اس حدیث کو روایت کیا اور بہقی نے شعب ایمان میں
اس حدیث کو لکھا ہے، امام مسلم نے صحیح مسلم شریف کی دوسری جلد میں اس حدیث
کو روایت کیا ہے اور صرف ایک حرف کے اختلاف کے ساتھ یعنی طبرانی اور شعب
ایمان میں( من علینا بِکَ )ہے اور مسلم شریف میں(من بہ علینا) ہے مطلب ایک
ہی ہے فرق نہیں ہے کیونکہ بہ میں ضمیر کا مرجع اسلام ہے اور یقینا اسلام کی
وجہ سے احسان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے وسیلہ ہی سے ہوا ہے اور سند
صحیح کے ساتھ یہ مضمون روایت کیا گیاہے کہ جس وقت ہمارے نبی علیہ السلام
وہاں تشریف لے گئے تو سرکار علیہ السلام نے صحابہ کرام سے پوچھ لیا میرے
صحابہ یہ جلسہ کیسا ہے‘ کس محبت نے تمہیں بٹھا رکھا ہے، کیا بیان ہو رہا
ہے۔ (مسلم شریف کتاب الذکر باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن جلد ۲ صفحہ
۳۴۶ قدیمی کتب خانہ)
جو فرش زمین پر بیٹھ کر عرش بریں کی خبریں دیں وہ اپنی مسجد کے جلسہ سے
ناواقف نہیں تھے پوچھنے میں حکمت یہ تھی کہ آج میرے کہنے پر میرے صحابہ جو
جواب دیں گے اور پھر جب میں اسکی تصدیق کر دوں گاتو وہ کل قیامت تک کے آنے
والے میرے غلاموں کا جواب بن جائے گا-
بخاری شریف میں ہے میرے نبی علیہ السلام کے پاس حضرت ام حارثہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا آئیں اور کہنے لگیں یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حارثہ میرا
لاڈلہ بیٹا شہید ہو گیا ہے اگر وہ جنت میں پہنچ گیا ہے پھر تومیں صبر کر
لیتی ہوں اور اگر جنت میں نہیں پہنچا تو پھر مجھے رونے کی تو اجازت دے دو
میں اپنے حارثہ کو رو لو ں۔ تورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں
یہ نہیں فرمایا جو آج کچھ لوگ نبوت کا تعارف کرواتے ہیں کہ وہ ہم جیسے اور
ہم ان جیسے ‘ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ حارثہ کی امی مجھ
سے مسئلہ نماز کا پوچھو ، روزے کی بات پوچھو یہ حارثہ کہاں گیا یہ تو غیب
کی بات ہے اور میں غیب جانتا نہیں ہوں اور جب ہم نے اسے مٹی میں دفن کیا تو
پھر وہ حارثہ اور کہاں گیا ہو گا یہ تبصرہ نہیں کیا بلکہ رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ۔حارثہ کی امی تم ایک جنت کی بات کر تی ہو میرے
رب کی توبہت سی جنتیں ہیں اور میں جانتا ہوں کہ تیرا حارثہ کس جنت میں ہے
آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے ام حارثہ تیرا بیٹا تو سب سے اونچی جنت میں پہنچ
چکا ہے۔ ( صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب من اتاہ سھم غرب جلد نمبر۱
صفحہ نمبر ۳۹۴ قدیمی کتب خانہ کراچی)
سات آسمانوں کے پار جنت ہے تو جو مدینہ شریف میں بیٹھ کر سات آسمانوں کے
اوپر جنت میں کسی کے پہنچنے کی اطلاع دیکھ کر دے سکتے ہیں وہ اپنی مسجد کے
جلسے سے ناواقف ہوں یہ ہو نہیں سکتا تھا۔بلکہ آپ نے امر عظیم کیلئے پوچھا
تا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان جوجواب دیں گے میں اس کی رجسٹریشن کر دوں
گا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس پر انعام اتر جائے گا تو قیامت تک جو میری بزم
سجائیں گے ان کو جو بھی طعنہ دیں گے وہ انہیں اپنا نہیں ہمارا جواب پڑھ کر
سنا دیں گے۔
اب صحابہ کرام علیہم الرضوان کا جواب سنو! صحابہ کیا جواب دیتے ہیں میں اس
واسطے عربی عبارت پڑھ رہا ہوں ایک تو کسی کو شک نہ رہے اوردوسرا یہ ہے کہ
ہم چونکہ اس محفل کی تقلید کر رہے ہیں، اسی محفل کا عکس ہم پیش کر رہے ہیں
تو جن باتوں کی خوشبو وہاں تھی ان کی خوشبو یہاں بھی ہو جائے۔
چونکہ نبی علیہ السلام اور صحابہ کے الفاظ ہمارے لئے بہترین تبرک ہیں اور
محفل کیلئے بہترین مہک ہیں جب نبی علیہ السلام نے پوچھا میرے صحابہ تمہارے
اس جلسے کا عنوان کیا ہے، آج تمہارے اس جلسے کا موضوع کیا ہے تو صحابہ کرام
رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اس کا موضوع بیان کیا عرض کرنے لگے یا رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم۔’’ ہم بیٹھے ہیں،خدا کو یاد کر رہے ہیں اور اس کو پکار
رہے ہیں( جس طرح تم نعرہ تکبیر لگاتے ہو) اوراس کی تعریف کر رہے ہیں سبب
کیا بنا ؟ اس رب نے ہمیں اس دین اور اسلام کی ہدایت دی ہے اور اس رب نے
تجھے بھیج کر ہم پر کرم فرمایا ہے‘‘
(وَمَنَّ عَلَیْنَا) اس نے ہم پہ احسان کیا (بِکَ) تمہارے صدقے ‘تمہاری وجہ
سے، تمہاری آمد سے، تمہاری جلوہ گری سے، تمہاری ولادت سے جو ہم پہ احسان
ہوا ہے ہم اس کا حوالہ دے رہے ہیں، رب کا شکر ادا کر رہے ہیں۔اہل حق مبارک
ہو تمہیں صدیاں گزر گئی ہیں آج بھی تم اس موضوع کا جلسہ بھی منعقد کرتے
ہوجس میں روح یہ ہوتی ہے کہ امت کے افراد با وضو، با ادب بیٹھ کر رب کا شکر
ادا کرتے ہیں کہ اے اﷲ تو نے انہیں بھیجا، ہم پر کرم فرمایا ہے، صحابہ کرام
علہم الرضوان کہنے لگے۔ہم یہ بیان کر رہے ہیں کہ اس جلسہ کا موضوع نماز کے
مسائل نہیں ہیں، اس جلسہ کاموضوع روزے کے احکام نہیں ہیں، اس جلسہ کا موضوع
حج کا طریقہ نہیں ۔
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہم سارے بیٹھ کے اس بات کو بیان کر رہے
ہیں کہ ایک وقت تھا ہمیں کوئی جانتا نہیں تھا، ہمیں کوئی پوچھتا نہیں تھا،
ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی، ہم عرب کے وحشی ماحول میں رہنے والے تھے، تہذیب
و تمدن اور سیوی لائزیشن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا، اندھیروں میں ہمارے
بسیرے تھے اور صراط مستقیم سے کوسوں دور ہمارے ڈیرے تھے، آج وقت وہ آیا ہے
تمہاری ولادت اور جلوہ گری سے اتنی عظمت ملی ہے کہ اب بلال اگر زمین پر چلے
تو قدموں کی آہٹ جنت میں سنائی دیتی ہے۔اب فرشتے جھک جھک کے ہمیں سلام کرتے
ہیں‘اب ہمیں ہدایت کا ستارہ کہا جاتا ہے، اب صراط مستقیم کا تعارف ہمارے
ناموں سے ہوتا ہے ‘اب ہم فرش پہ ہوتے ہیں ہمارے چرچے عرش پہ ہوتے ہیں۔
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تمہاری آمد سے جو کانٹے گلاب بن گئے اور
ذرے آفتاب بن گئے ہم اسکا ذکر کر رہے ہیں، رب کا شکر ادا کر رہے ہیں، یہ
جواب صحابہ کرام علیہم الرضوان ں نے جلسہ منعقد کرنے پہ دیاجب نبی علیہ
السلام نے انکایہ جواب سنا تو اس پر کئی تبصرے ہو سکتے تھے جن لوگوں کی آج
یہ رائے ہے کہ یہ ٹائم ضائع کرنے کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں تو نبی علیہ السلام
کے صحابہ کا ٹائم ہم سے کئی ہزار مرتبہ قیمتی تھا۔
ابن ماجہ شریف میں یہ حدیث شریف ہے عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما صحابہ کے
ٹائم کی ویلیو بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اے بعد والو! تم زندگی بھر کی
نمازیں، روزے، حج، زکوٰۃ، جہاد اور تہجد اور سارے اچھے کام ایک پلڑے میں
رکھو اور صحابی کی ایک لمحہ کی نیند دوسرے پلڑے میں ہو تو ان کی نیند والا
پلڑا بھاری ہو جائے گا‘‘(مرقات شرح مشکوۃ جلد نمبر۱۱، صفحہ۲۷۳ مکتبہ
امدادیہ ملتان) کتنا زرخیز وقت ہے صحابہ کرام کا ‘ انہوں نے ٹائم نکالا ہے
اور پھرنبی علیہ السلام نے سن کے یہ نہیں فرمایا کہ میرے صحابہ کتنا
جہادکرناابھی باقی ہے، کتنی تبلیغ ابھی باقی ہے۔ تم بیٹھے جلسے منعقد کر
رہے ہو، ابھی تو لوگوں کو کلمہ پڑھانا ہے میں نے آنا تھا آگیا ہوں، احسان
ہونا تھا ہو گیا ۔ اب اس احسان پر جلسوں کی ضرورت کیا ہے ؟ یہ بھی سرکار
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرما سکتے تھے۔کیونکہ نبی علیہ السلام سے بڑھ کر امت
کے ٹائم کی قیمت کو کون جان سکتا ہے اور کون حفاظت کر سکتا ہے میرے محبوب
علیہ السلام نے نہ غصے کا اظہار کیا، نہ ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی
کوئی ایسا تبصرہ کیا بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ قسم لی اس عمل
کیلئے جس کی کوئی مثال نہیں تھی،
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا
میرے صحابہ اب تم مجھے حلف دو کہ واقعی تم بیٹھے یہ باتیں کر رہے تھے۔
ہزاروں حدیثوں کا ذخیرہ جو میری نظر کے سامنے ہے اس ذخیرہ سے یہ بات کہہ
رہا ہوں کہ نبی علیہ السلام کے سامنے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کس کام
کیلئے کہا ہے کہ ہم یہ کام کر رہے ہیں نبی علیہ السلام نے قسم نہیں مانگی
یہاں با قاعدہ حلف چاہا کہ واقعی تم میری آمد کا ذکر کر کے رب کا شکر ادا
کر رہے ہو۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے باقاعدہ حلف دیا لفظ یہ تھے ،خدا کی
قسم ہے ہمارا اور کوئی مقصد نہیں بس یہ ہی کہہ رہے تھے۔
جب یہ حلف ہو گیا نبی علیہ السلام کی نگاہ چونکہ سارے حالات دیکھ رہی تھی
آج جب ہم نے اس حدیث کو بیان کرنا تھا تو تھرڈ پرسن لو گوں نے یہ سن کر کہا
کہ میلاد کا ثبوت دیتے دیتے مزید پھنس گئے کیسے کہ ادھر تو عقیدہ یہ ہے کہ
پیغمبر دلوں کی باتیں بھی جانتے ہیں اور ادھر حلف کیوں لے رہے ہیں قسم تو
وہ لیتا ہے جس کو پتہ نہیں کہ دل میں کیا ہے تا کہ تاکید ہو جائے حلف وہ
لیتا ہے جو دل سے بے خبر ہے تو اگر دل کی بات جانتے تھے تو قسمیں لینے کی
ضرورت کیا تھی ویسے جب جانتے تھے تو پھر حلف کیوں لیا آج کسی نے اعتراض
کرنا تھا میرے نبی علیہ السلام نے اسی جلسے میں جواب دے دیا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا
صحابہ سنو !میں نے شک کی وجہ سے حلف نہیں لیا مجھے تمہارے کام کے بارے میں
شک نہیں تھا ۔میں نے حلف کیوں لیا ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا تمہارے عمل
کی عظمت کو ظاہر کرنا تھا اورجو تم نے محفل منعقد کی اس کا اعزاز بنانا
تھا۔
میرے صحابہ تم تھے بزم میلاد میں ‘ اورمیں تھا کا شانہ نبوت میں‘ میرے رب
نے مجھے بھی دیکھا تمہیں بھی دیکھاتو رب ذوالجلال نے جبریل علیہ السلام کو
میرے پاس بھیجا ابھی وہ مجھے پیغام دے کے گئے ہیں کہ پیغمبر اپنے صحابہ کو
بتا دو کہ رب یہ فرما رہا ہے کہ اے فرش زمیں پر محفل میلاد منانے والو !
عرش بریں پر رب تمہیں یاد فرما رہا ہے میرے پاس جبریل امیں آئے انہوں نے
مجھے خبر دیبے شک اﷲ تعالی تمہاری وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر کر رہا ہے
رب ذوالجلال فرشتوں کو تمہاری طرف متوجہ کر کے تمہارا جلسہ دکھا کے رب
فرشتوں کو کہتا ہے یہ ہوتے ہیں امتی ‘یہ ہیں میرے محبوب علیہ الصلوۃو
السلام کے غلام‘ یہ احسان فراموش نہیں نکلے کہ پیغمبر سے قرآن تووصول کر
لیں اور ایمان وصول کر لیں لیکن اپنے نبی علیہ السلام کو بھول جائیں ۔
اے میرے فرشتو!آج بھی ان کو دیکھو وہ بیٹھ کر میرا شکر ادا کر رہے ہیں۔ تو
رب ذوالجلال اس بزم کو دیکھ کر آسمان پر فخر فرما رہا تھا فخر ذکر کے بغیر
نہیں ہوتا ہر ایک کا نام لیا ہر ایک کا چرچا ہوا تو محفل میلاد رسم نہیں،
رواج نہیں یہ معمولی کار ثواب نہیں اتنا بڑا کار ثواب ہے کہ اس کا اجتماع
توفرش زمیں پر ہوتا ہے بھائیو حاضری عرش بریں پر لگائی جاتی ہے۔آج کسی کا
نام کوئی تھانے، کچہر ی میں لے لے ‘کسی دفتر میں لے لے تو وہ خوشی سے پھولے
نہیں سماتا میرا نام تھانوں میں چلتا ہے ایوانوں میں گھومتا ہے کہاں کے یہ
ایوان اور کہاں وہ احکم الحٰکمین کی بارگاہ۔
محفل میلاد میں آنے والو! یہاں بڑے مقدر والا کوئی آتا ہے ایک سادہ بندہ
جسے محلے میں بھی کوئی جانتا نہ ہو۔ اس بزم کا کمال ہے کہ جب وہ اس محفل
میلاد میں آ بیٹھتا ہے تو اس وقت وہ بیٹھا تو فرش زمیں پر ہے لیکن اس کا
چرچا عرش پہ ہو گیا ہے بات سوچنے کی ہے جن کا نام سننے سے اتنا کام بنتا ہو
ان کی ذات کے فیض کا عالم کیا ہو گا کہاں تک انسان کو پہنچایا گیا اس کی
عظمت کتنی بڑی ہے ۔ رب ذوالجلال نے نام لیا فرشتو فلاں بھی بیٹھا ہے فلاں
بھی بیٹھا ہے فلاں بھی آگیا ہے رب ذوالجلال تذکرہ بھی کر رہا ہے اور ساتھ
اپنے بندوں کی وجہ سے فرشتوں کے سامنے فخر فرما رہا ہے۔
صحابہ کرام کا عمل اور جشن میلاد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم
جس وقت عرش سے یہ پیغام آیا ایگزیکٹ اس ٹائم صحابہ کا عمل کیا تھا؟ کیا
میدان بدر میں تھے؟ یا احد میں تھے؟ وہ خندق میں تھے یا حنین میں تھے ؟وہ
کعبہ شریف کا طواف کر رہے تھے یا عرفات میں وقوف کر رہے تھے؟ وہ حالت رکوع
میں تھے یا حالت سجود میں تھے۔ کیا عمل تھا ان کا؟ رب کعبہ کی قسم ہے یہ
کام سب انہوں نے کیے بارہا کیے مگر جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت
صحابہ کرام علیہم الرضوان نہ بدر میں تھے ،نہ احد میں تھے، نہ خندق میں تھے
،نہ حنین میں تھے، نہ یرموک میں تھے، نہ تبوک میں تھے ،نہ حالت طواف میں
تھے، نہ حالت سجود میں تھے، نہ حالت وقوف میں تھے ،نہ حالت رکوع میں تھے،
نہ حالت سجود میں تھے، نہ حالت جہادمیں تھے بلکہ وہ تو محفل میلاد میں تھے
۔ انہوں نے ثابت کیا بعدوالو ! سوچنا ہم سے بڑا متقی کون ہو سکتا ہے اور ہم
سے بڑا ٹائم کی اہمیت کو جاننے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
ہم بدر میں بھی جاتے ہیں، احد میں بھی جاتے ہیں، خندق میں بھی جاتے ہیں،
حنین میں بھی جاتے ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، حج بھی
بڑا ضروری ہے ،جہاد بھی ضروری ہے مگر بیٹھ کے کچھ وقت محبوب کی یاد بھی
ضروری ہے۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کا جو یہ مقدس عمل تھا اس کو رب ذوالجلال نے پسند
بھی کیا اور فرشتوں کے سامنے ان پر فخر بھی کیا ۔ آج بھی ہمیں امید ہے کہ
کوئی شخص ریا کے بغیر آداب کے ساتھ ایسی محفل میں آجاتا ہے اس پر بھی ابر
کرم برسنے کی قوی امید ہے اﷲ کے فضل سے اس واسطے کہ ایسے اعزاز امت کیلئے
عام ہوتے ہیں ۔
حدیث صحیح میں ہے کہ میرے نبی علیہ السلام میدان عرفات میں ہیں حج کا موقع
ہے شام کا وقت ہو گیا حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے کہا کہ بلال لوگوں سے کہو کہ
چپ ہو جائیں میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں جب
کچھ دھیمی ہوتیں ہیں تو میرے نبی علیہ السلام کی آواز گونجتی ہے عرفات والو
!خوش ہو جاؤ عرش سے رب نے تمہیں سلام بھیجا ہے۔ صحابہ کی حیرت اور خوشی کی
کوئی حد نہ رہی ۔
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تمہاری غلامی ہمیں میسر نہ آتی تو ہمیں
کون عرش سے سلام بھیجتا۔ ہمیں محلے میں کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ عرش سے
سلام آیا ہے سب بڑے خوش ہیں۔ صائب فکر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے اور
ہماری نمائندگی بھی کر دی پوچھنے لگے یا رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم یہ
جو ہمیں سلام آیا ہے یہ ہمارے ساتھ ہی خاص ہے یا بعد والوں کو بھی آیا کرے
گا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے اس سوال سے بھی پتہ چل رہا ہے کہ ان کا نبوت کے
بارے میں یقین کیا ہے وہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کو یہ نہیں سمجھتے کہ
پیغمبر کو تو( معاذاﷲ) کل کی بھی خبر نہیں اگر یہ عقیدہ ہوتا تو قیامت تک
کی خبرنہ پوچھتے لیکن انہوں نے پوچھا ہے یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کیا
بعد والوں کو بھی یہ سلام آیا کرے گا تو میرے نبی علیہ السلام نے بھی فوراً
جواب دیا عمر سن لو آج تمہیں بھی یہ سلام آیا ہے اور قیامت تک جو بھی میرا
امتی اس وقت یہاں ہو گا اس کو بھی رب کا سلام آئے گا تو پتہ چلا قیامت تک
جب سلام آئے گا تو پھر جو بزم وہاں سجی تھی اس پہ جو انعام آیا ہے وہ بھی
قیامت تک آئے گا جو اس پیٹرن پر اس موضوع پر آداب پر آداب کے ساتھ جشن
منائے گا بزم سجائے گا رب ذوالجلال کی طرف سے اس پر فضل ہو گا اور پھر اس
لحاظ سے اس وقت تو ولادت کو ابھی اتنے سال نہیں ہوئے تھے یہ جو صدیوں بعد
بھی بھولنے والے نہیں ہیں تو رب ذوالجلال ان پر بھی ضرور ابر کرم برسائے
گا۔
یہ ہے اصل محفل کی جو میلاد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے منعقد کی اب اس پر
کچھ یہ بھی تبصرہ ہے لوگ کہتے ہیں یہ تم جھنڈیاں لگاتے ہو ، صحابہ جھنڈیاں
نہیں لگاتے تھے، تم دیگیں پکاتے ہو وہ دیگیں نہیں پکاتے تھے، تم بینر لگاتے
ہو وہ بینر نہیں لگاتے تھے یہ چیزیں ثابت کرو تو پھر ہم سمجھیں گے کہ جائز
ہے۔ اصل محفل میلاد کی جو روح ہے وہ میں نے تمہارے سامنے حدیث پیش کی ایک
نہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ بھی متعدد دلائل ہیں چونکہ رب ذوالجلال جب قرآن
میں کہہ رہا ہے۔
’’تم فرماؤ ا ﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں
وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے‘‘ (پارہ ۱۱ سورۃ یونس آیت ۵۸)
اﷲ کے فضل اور رحمت کے حصول پر اظہار خوشی کیا جائے تو صحابہ اس پر عمل کر
رہے تھے تواگر فضل صرف ان پر ہوتا ہے تو خوشی صرف وہ کرتے اور اگر ایمان
ہمارے کلیجوں میں بھی ہے تو فضل ہم پر بھی ہوا ہے جیسے ان کا خوشی کا انداز
تھا ہم پر بھی خوشی کا منانا لازم ہو گیا ہے یہ جو فرق ہے اگر جھنڈیاں
دکھاؤ توپھر ہم میلاد منائیں گے۔ میں اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور ان
لوگوں کو ٹھنڈے دل سے دعوت فکردینا چاہتا ہوں کہ ہمارے حالات اور ہیں اور
ہماری مصروفیات اور ہیں ہمارے احوال اور ہیں بعد والوں کو ہر بات میں صحابہ
کیساتھ ملایا نہیں جا سکتا اور اگر کوئی شخص ایسا کر سکتا ہے تو پھر اس کو
اس محفل میلاد کے علاوہ بھی کچھ سوچنا چاہیے ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی کا گھر ظاہر میں آج کے بنگلوں جیسا
نہیں تھا ایک صحابی نے جب گھر اونچا بنایا دوسرے دن نبی علیہ السلام وہاں
سے گزرے صحابی جب ملنے آئے تو سرکار نے چہرہ مبارک پھیر لیا سلام نہیں لیا
۔اب صحابی کو جب ایسی صورت حا ل نظرآئی کہ سب کچھ جنہوں نے سرکار کیلئے
چھوڑ ا ہوا تھا ان سے یہ کیسے برداشت ہو سکتا تھا کہ محبوب علیہ الصلاۃو
السلام مجھ سے ناراض رہیں ۔ لہٰذا وہ صحابی دوستوں سے پوچھنے لگے ۔ کیا ہوا
میرے نبی علیہ السلام ناراض کیوں ہو گئے ہیں تو دوستوں نے کہا کہ کل تیرے
مکان کے پاس سے گزرے تھے توتیرا اونچا گھر دیکھاتو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و
سلم نے پوچھا تھا کہ یہ گھر کس کا ہے تو ہم نے بتایا تھا ۔اس وقت سے وہ
ناراض ہیں صحابی اٹھے اپنا گھر گرایا اور کہنے لگے محبوب جس گھر کو دیکھ کر
تم ناراض ہوجاؤ ہمیں چین کیسے آئے گا ۔
اب ذرا غور کریں کہ اس وقت صحابی تین منزلہ بھی نہ بنائے اور آج کا امتی دس
منزلہ بنا لے اس وقت یاد نہ آئے کہ صحابی کاعمل کیا تھا اور محفل میلاد میں
کہے کہ جیسے ان کاعمل تھا ایسے ہی ہو نا چاہیے ۔وہ صحابہ جو صفَّہ پر
بیٹھنے والے ہیں ایک کپڑا ہے جو زیب تن کیا ہوا ہے اوپرلینے کیلئے کسی کو
چادر نہیں ملتی ،کسی کو قیمص نہیں ملتی۔ اس و قت ان کا یہ زندگی گزارنے کا
طریقہ تھا ۔
آج اگر کوئی دھوتی پہ گزار ا کرتا ہے تو وہ ہم سے مطالبہ کر لے اور اگر بیس
بیس سوٹ پہنتا ہے تو پھر وہاں بھی صحابہ کا طرز عمل یاد آنا چاہیے صحابہ
آدھی کھجور پر ہفتہ گزارا کریں اور یہ ایک وقت کھانے میں دس ڈشیں استعمال
کرے اور اس کو دین سمجھے اور کہے کہ یہ جائز ہے اس واسطے رب ذوالجلال کے
محبوب علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جس کے پاس نعمتیں ہوں اس کو نعمت کا
اظہار بھی کرنا چاہیے۔تو میں کہتا ہوں اگر کپڑے پہنتے وقت نعمت کا اظہار
شریعت ہے تو میلاد مناتے وقت بھی جشن کا اظہار شریعت ہے صورت حال کو ٹھنڈے
دل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان دین کی اصل ہیں اور بعد والے فرع ہیں ۔اصل جڑکو
کہتے ہیں اور فرع ٹہنی کو کہتے ہیں صحابہ جڑ ہیں بعد والے ٹہنی ہیں صحابہ
جڑیں اور کتنی گہری جڑیں۔ صدیاں گزر گئیں آج تک اس درخت کو کوئی ہٹا نہیں
سکا۔ صحابہ جڑ ہیں ہم ٹہنی ہیں اس میں کسی کواختلاف نہیں ہم اصل نہیں بلکہ
ہم جڑہیں۔ جڑتوصدیق اکبرہیں ،جڑ عمر فاروق ہیں، جڑ حضرت عثمان ہیں، جڑ حضرت
علی رضی اﷲ تعالی عنہم ہیں۔ وہ جڑ ہیں بعد میں کوئی غوث ہو،قطب ہو جو کچھ
بھی ہوجتنا بڑا رتبہ ہو وہ ٹہنی ہے ،وہ جڑ نہیں ہے۔
جڑکااور ٹہنی کا مسلک ایک ہوتا ہے مشن ایک ہوتا ہے مگرخوشبو ٹہنی کے پھول
سے آتی ہے سوز جڑ میں ہوتا ہے مگر پھل ٹہنی سے ملتا ہے سایہ زمانے کو ٹہنی
سے ملتا ہے جڑ اصل پاور ہے ٹہنی اس کا ایک رکن ہے۔ جڑ کی ڈیوٹی ٹہنی دے رہی
ہے۔ مشن ایک ،مسلک ایک، ضابطہ، حیثیات بھی ایک لیکن فرق بھی ہے۔ اگرچہ جڑ
اور ٹہنی کا مشن ایک ہے مگر فرق بھی واضح ہے کہ جڑ پر کوئی پتہ نہیں ہوتا
ٹہنی پتوں سے خالی نہیں ہوتی۔ جڑ پر پھول نہیں ہوتے ٹہنی پر پھول ہوتے ہے
،جڑ نیچے جاتی ہے اور ٹہنی اوپر آتی ہے جڑ دبی ہوئی ہوتی ہے ٹہنی ننگی ہوتی
ہے، جڑ جمی ہوتی ہے ٹہنی وجد بھی کرتی ہے-
اب اگر کوئی دنیا کا دانشور کسی ٹہنی کو پکڑ کر بیٹھ جائے اور اسے طعنے دے
روزانہ کہے ٹہنی تو بدعتی ہو گئی اس ٹہنی نے کہاکہ تجھے کیا ہوا آگے وہ
کہتا ہے کہ تم نے تو جڑ والا مسلک ہی بدل لیا تیری جڑ کا مسلک اور تھا اور
تیرا اور ہو گیا تو ٹہنی نے کہا کہ ثبوت پیش کرو تو وہ کہتا ہے کہ یہ پتے
ہیں تجھ پر جبکہ تیری جڑ پر تو کوئی پتا نہیں تھا اگر تو جڑ والی ہے جڑ کے
مسلک والی ہے تو تجھ پر بھی پتے نہیں ہونے چاہیے تھے تو ٹہنی نے سر ہلا کر
کہا زمانے کے بے وقوف میرے پتوں کو تو نے بدعت بنایا ہے جسکی جڑ ہوتی ہے۔
اسکے پتے ضرور ہوتے ہیں جڑ نہ ہو تو پتے نہیں ہوتے جڑ ہو تو پتے ہوتے ہیں
اب جڑ اور ٹہنی کا مسلک ایک ہے مگر فرق ہے جڑ کے جڑ ہونے کا لحاظ ہے اور
ٹہنی کے ٹہنی ہونے کا لحاظ ہے۔ اب مشن ایک مقصد ایک مگر پھر بھی فرق ہے
ٹہنی کو جڑ نہیں بنایا جا سکتا جڑ کو ٹہنی نہیں بنایا جا سکتا ۔
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم کا اور ہمارا مسلک ایک ہے
لہٰذا ہمارا اصول ایک ہے صحابہ کے ساتھ، ہمارا مسلک ایک ،ہمارا دین ایک مگر
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے احوال کے مطابق اپنی بزم سجائی ہے اور
بعد والوں نے اپنے شوق سے محفل منائی ہے اب دیکھو ناں! بات کرنی آسان ہے جب
حضرت امام بخاری رحمہ اﷲ تعالیٰ بخاری لکھنے لگے تھے تو یہ ہی اعتراض ان پر
بھی تھا کہ بخاری جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ نے دوجلدوں میں
کتاب نہیں لکھی تو تم کیوں لکھتے ہو ، اے امام مسلم تم مسلم شریف کیوں
لکھتے ہیں جب حضرت عمر فارو ق ر ضی اﷲ تعالی عنہ نے نہیں لکھی۔ تو کیا امام
بخاری نے ان لوگوں کی فکر کو قبول کیا؟نہیں بلکہ انہوں نے کتابیں لکھیں اور
بتایا وہ جڑ ہیں ہم ٹہنی ہیں۔ جڑ نے جڑ والے کام کیے اور ٹہنی نے ٹہنی والے
کام کیے۔ کیوں کہ ہمیں ہزار کتاب پڑھنے سے بھی وہ علم نہیں آتا جو صحابہ
ایک نگاہ دیکھتے تھے توپڑھ جاتے تھے اب بعد والے کتابیں بھی نہ لکھیں اور
وہ نگاہ بھی نہ ملے تو جائیں گے کہاں۔
میرے بھائیو ہم دس گھنٹے کی محفل میلاد منائیں اور سارے خیالات ذہن سے نکال
دیں اور گنبد خضریٰ کی طرف متوجے رہیں ،حلیہ مبارک سنتے رہیں، درود و سلام
پڑھتے رہیں، سیرت طبیہ کے فضائل کا بیان ہوتا رہے تو دس گھنٹے میں بھی ہمیں
وہ لذت نہیں آسکتی جو صحابہ کو ایک سیکنڈ میں آجاتی تھی ۔تو جب ان کا مرتبہ
یہ ہے تو ہمیں کیسے ان کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے۔ اب امام بخاری نے بخاری
لکھ کر کہا مجھ پہ کوئی اعتراض نہ کرے وہ جڑ کا اپنا گزارا تھا، ہم ٹہنیوں
کا اپنا گزارا ہے ہم ضرور لکھیں گے کیوں کہ اصل موجود ہے کہ سرکار سے دو
صفحے لکھوانا جب حدیث سے ثابت ہے تو پھر دو جلدیں ثابت ہوجائیں گی۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے جب بیٹھ کر بزم سجائی ہے تو اس بزم کی پیٹھ پر
آج کا یہ پورا گلشن آباد ہو چکا ہے۔ صحابہ جڑ ہیں بخاری و مسلم ٹہنی ہیں یہ
سارے مدارس ٹہنیاں ہیں، یہ آج کے دور کی مساجد ٹہنیاں ہیں۔ اس وقت تو پکی
مسجد نہیں ہوتی تھی اس وقت دیر تک فتویٰ رہا کہ مسجدیں جو ہیں انکو پختہ نہ
بنایا جائے۔ چونا گچ نہ کیا جائے یہی امت میں رائج رہا اور پھر دیکھئے تصوف
ہو فقہ ہو اصول حدیث ہو صرف و نحو ہو یہ سب کچھ یہ ٹہنیاں ہیں ان میں سے
کوئی چیز بھی صحابہ کے زمانے میں موجود نہیں تھی سبب یہ تھا کہ ان کو کچھ
کرنے کیلئے سارے فنون کی ضرورت نہیں تھی ان کیلئے نگاہ مصطفی علیہ السلام
کافی تھی اب دیکھنا جڑ کیلئے جو انداز ہے یقینا ٹہنی کیلئے نہیں ہاں مسلک
ایک ہے مشن ایک ہے اصول ،ضابطہ ایک ہے قرآن و سنت میں سے مخالفت کسی چیز کی
نہیں ہو گی ہاں فرق جو ہے وہ بنتا جائے گا۔
صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنہم کے جھنڈیاں نہ لگانے کی وجہ
پہلی وجہ:۔ اب دیکھو جس زمانے میں قرآن لکھنے کیلئے کاغذ نہ ملتا ہو اور
قرآن لکھا جائے ہڈیوں پر ، قرآن لکھا جائے پتوں پر ، قرآن لکھا جائے پتھروں
پر تو اس زمانے میں بارہ ربیع الاول شریف کی جھنڈیوں کو ڈھونڈنا یہ حماقت
نہیں تو اور کیا ہے۔
دوسری وجہ:۔ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اﷲ عنہ احد میں شہید ہو گئے کفن
کیلئے کپڑا نہیں تھا وہی دھوتی جو انہوں نے باندھی ہوئی تھی شہادت کے بعد
وہی اوپر دی گئی ہے اور پھر کیا ہوا کہ سر پر ڈالتے تھے تو قدم ننگے ہو
جاتے تھے قدموں پر ڈالتے تھے تو سر ننگا ہو جاتا تھا کتنی چھوٹی دھوتی تھی
حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ تعالی عنہسید الشہداء ہیں ہمارے نبی علیہ السلام کے
چچا ہیں مگر کفن کیلئے کپڑا نہیں مل رہا۔ میرے محبوب علیہ السلام فرمانے
لگے میرے صحابہ میرے چچا کے سر پر کپڑا ڈال دو قدموں پر اس کے گھاس ڈال دو
اب جب حضرت سید الشہداء رضی اﷲ عنہ کی تدفین کے وقت کفن کا کپڑا نہ ملتا ہو
تو اس زمانے کی بارہ ربیع الاول میں بینر کا کپڑا کہاں سے آئے۔
سوچو! بات سوچنے والی ہے تبوک کی طرف قافلہ جا رہا تھا صحیح مسلم (کتاب
الایمان) میں موجود ہے میرے نبی علیہ السلام کا کاروان جب جا رہا تھا رستے
میں چونکہ سب سے لمبا سفر تبوک والا ہی تھا رستے میں راشن ختم ہو گیا۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے تجاویز پیش کیں ۔کہنے لگے یا رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم اونٹ ذبح کر لیں زندگی تو بچائیں تو میرے نبی علیہ السلام
کے پاس حضرت عمر رضی اﷲ عنہ آ گئے کہنے لگے میرے محبوب میری تجویز بھی سن
لو ۔میں اونٹ کو ذبح کرنے کے حق میں بھی ہوں پھر ہم ذبح کیسے کریں گے ۔میں
یہ کہتا ہوں جس کے پاس جو بچا ہوا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے ۔آپ اس پر ختم
پڑھ دیں، دعا مانگ دیں سب کی بوریاں بھر جائیں گی ۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی تجویز مان لی گئی اعلان ہو گیا جو کچھ کسی کے پاس
ہے وہ لے آئے ڈھیر کر دے اب سارا لشکر ہزاروں پر جو مشتمل ہے ان کے توشتہ
دان کی تلاشی لی گئی سب نے جو کچھ تھا جھاڑا، اکٹھا کیا کھانے والی چیزیں
روٹی کا ٹکڑا کھجور آدھی اور کھجوروں کی گٹھلیاں سب کچھ جمع کر کے لے آئے۔
تووہ کتناڈھیربنا ۔جتنا بیٹھی ہوئی بکری کا جسم ہوتا ہے ۔اور اس میں واضح
تعداد گٹھلیوں کی تھی میرے نبی علیہ السلام نے دعا مانگ دی آج کی پلیٹ پہ
دعا مانگے تو شرک کے فتوؤں کی زد میں آ جاتا ہے۔
میرے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے پورے ڈھیر پر دعا مانگ کے قیامت تک کی
فتوؤں کے بیج بو دیے وہی ہوا جو حضرت عمررضی اﷲ تعالی عنہ کہتے تھے سب کی
بوریاں بھر گئیں ساری کمی دور ہو گئی۔ محدثین نے یہاں پربحث کی ہے کہ اعلان
تویہ ہوا تھا کہ کھانے والی چیزیں لائی جائیں تو گٹھلیاں کیوں لے آئے ؟ڈھیر
میں ایک تعداد تو گٹھلیوں کی تھی۔ حالانکہ کھجور تو کھائی جاتی ہے گٹھلی
پھینک دی جاتی ہے گٹھلیاں کیوں سٹور کرتے تھے؟ محدثین کہتے ہیں لوگو اعتراض
نہ کرو تمہیں پتہ نہیں کہ وہ زمانہ کیسا تھا جب صحابہ جہاد کر رہے تھے
کھجور کھا کے گٹھلی نہیں پھینکتے تھے بلکہ سنبھال کے رکھتے تھے اس لئے جب
کچھ بھی نہیں ملے گا منہ میں دو گٹھلیاں رکھیں گے ساتھ پانی پئیں گے توکچھ
نہ کچھ پانی میٹھا ہو جائے گا کچھ نہ کچھ غذائیت مل جائے گی۔
اب سوچو جس زمانے میں گٹھلیوں سے یوں غذائیت حاصل کی جاتی ہو اس زمانے کے
بارہ ربیع الاول شریف میں میلاد کے لنگر کی دیگیں ڈھونڈنا یہ بھی کوئی عقل
کی بات ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اپنا انداز تھا اس کے مطابق بھر پور
طریقے سے انہوں نے بزم کو سجایا اور آج کے احوال کے مطابق بعد میں آنے والی
امت نے اپنے اندازمیں میلاد منایا ہے۔
صحابہ کرام کا ہر لمحہ ہی محفل میلاد میں
پھر اس سے بھی اگلا مسئلہ ہے اس کو بھی سوچنا چاہیے صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے اپنی زندگی میں کسی گستاخ کو سر نہیں اٹھانے دیا۔ ان کی چمکتی
تلواریں میلاد منا رہی ہیں بدر میں، احد میں، خندق میں، یہ ا ن کی غیرت ہے
اور ہر منٹ ان کا میلاد کا ہے لہٰذا صحابہ کرام کے لئے یہ کہنا کہ سال کے
بعد میلاد مناتے تھے یہ تو بڑی دور کی بات ہے وہ تو جس وقت محبوب علیہ
السلام کو دیکھتے تھے، درود و سلام پڑھتے تھے اور ہر وقت یہ پیش نظر تھا کہ
اگر یہ محبوب علیہ الصلوۃوالسلام نہ ہوتے توہم کہاں ہوتے ۔یہ محبوب علیہ
الصلوۃوالسلام آئے ہیں تو ہمارے سر پر امامت کے تاج سج گئے، ہر لمحہ ان کا
تومیلاد کی محفل میں گزرتا تھا-
جبکہ ہماری صورت حال ان سے مختلف ہے وہ اس طرح کہ ہماری فضاؤں میں گستاخی
کا دھواں ہے اور ہم سے وہ ختم نہیں ہوا ڈنمارک میں خاکے بنے گستاخی ہوئی
اور آج اس ملک پاکستان میں نجمہ ہاؤس کے اندرڈنمارک سے ایک بہت بڑی گستاخی
کی گئی اور یہ بھی انہی لوگوں نے کی جنہوں نے ڈنمارک والی گستاخی کروائی
تھی اور وہ کون لوگ ہیں اس عبارت کو پڑھ لیجئے تو پتا چل جائے گا۔
’’نجمہ ہاؤس کراچی سے جو رسالہ چھپاہے اس میں کلمۂ اسلام کی تصویریں بنا کر
تشریح کی گئی مثلاً اشھد کیلئے ہتھوڑی سندان پر مار کر یہ اشھد کا ترجمہ
ہے‘‘
اب دیکھنا میرے نبی علیہ الصلوۃ و السلام کی افضلیت کہ بتاؤ ہمارے نبی علیہ
الصلوۃ و السلام کیسے تھے تو یہ سند میں پڑھ رہا ہوں۔
زہری سالم سے اورسالم ابن عمر سے روایت کرتے ہیں۔جتنی بھی اصول حدیث کی
کتابیں ہیں ان سب میں اس سند کو صحیح ترین سندوں میں شمار کیا گیا ہے حضرت
عبد اﷲ بن عمر عظیم صحابی ہیں وہ کہتے ہیں ۔اپنی دونوں آنکھوں کی طرف اشارہ
کر کے کہتے ہیں میں نے نبی علیہ السلام کو ان دو آنکھوں سے دیکھا آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کیسے ہیں کہتے ہیں ۔آپ نور ہیں۔آپ کے ہونٹ مبارک نور ہیں یا
رخسار مبارک نور ہیں کہتے ہیں ۔سر کی چوٹی سے لے کر قدم کے ناخن تک نور
ہیں۔ بلکہ آگے کہتے ہیں ۔ وہ عام سا نور نہیں بلکہ اﷲ کے نور سے نور ہیں۔یہ
درود تاج میں جوہم (نور من نور اﷲ) پڑھتے ہیں یہ ہم نے گھڑا نہیں ہے یہ تو
صحابہ کے الفاظ ہیں۔ عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں لوگو! ہمارے نبی
علیہ السلام کل نور ہیں اور اﷲ کے نور میں سے نور ہیں ۔یہ ہے ہمارے محبوب
علیہ السلام کی افضلیت ہم جو نور کا لفظ بھی بولتے ہیں تو اس سے مرادکوئی
نارمل سا نور نہیں ہوتا وہ نارمل نور تو ہمارے نبی علیہ السلام کے کھلونوں
کا بھی ہے۔
اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔ رب نے سورج کو ضیاء بنایا قمر کو نور بنایا ۔(
پارہ ۱۱ سورۃ یونس آیت ۵)
اور پھر حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں۔ میں نے تجھے پنگوڑے میں دیکھا تھا
جب تم چاند سے باتیں کرتے تھے ۔جدھر تمہارا اشارہ ہوتا تھا ادھر چاند جھک
جاتا تھا (دلائل النبوۃ للبیھقی باب ما جاء فی حفظ اﷲ تعالی رسولہ صلی اﷲ
علیہ وسلم)
قرآن مجید میں لفظ نور دس معانی پر بولا گیا ہے اور مخلوق انوار میں سے جو
پہلے نمبر کانور ہے وہ ہمارے نبی علیہ السلام کے نور کی کوالٹی ہے وہ کیسی
ہے جبریل علیہ السلام کو سب نور مانتے ہیں مگر معراج کی رات جس وقت سدرہ پر
پہنچے تھے کہنے لگے۔
محبوب اگر ایک پُورے برابربھی میں آگے گیا تو میں جل جاؤں گا کیوں کہ اﷲ کا
نور مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اﷲ تعالی کا اتنا پاور فل نور ہے
اگرچہ میں بھی نور ہوں مگر مجھ سے برداشت نہیں ہو سکے گا ۔( تفسیر کبیر
سورۃ النجم زیر آیت ۱۳ )(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح باب بدء الخلق)
انہوں نے معذرت پیش کردی کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم میرا جی نہیں
چاہتا کہ آپ کو مکہ شریف سے یہاں لا کر اکیلا چھوڑ دوں۔ حق تو یہ بنتا ہے
کہ ساتھ جاؤں مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میں ساتھ جا نہیں سکتا میں آگے
بڑھاتو پھر بھی آپ کو تنہا ہی جانا پڑے گاکیونکہ اﷲ تعالی کے نور سے جل
جاؤں گااور آپ پھر تنہا ہو جاؤ گے تو اسی میں اچھائی ہے کہ آپ چلے جائیں
اور میں پیچھے رہ جاؤں اس لئے کہ اگرمیں پُورے برابربھی آگے گیا تو میں جل
کے راکھ ہو جاؤں گا یہ جبریل علیہ السلام کا نور ہے۔
جس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ سنا تو کیا میرے نبی علیہ السلام نے
کیا یہ فیصلہ کیا تھاکہ جبریل جب تم نہیں بچ سکتے تو میں کیسے بچ سکتا ہوں
میں بھی واپس جاتا ہوں۔ کیا آقا علیہ الصلوۃ و السلام واپس آ گئے تھے ؟
نہیں آگے بڑھے اور کہاں تک گئے۔
’’پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اُتر آیا تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو
ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم ‘‘ ( پارہ ۲۷ سورۃ النجم آیت ۸ )
سر کی آنکھوں سے رب کا دیدار
کمان کے د و( ۲)سروں سے قریب ہو کر جب رب کی ذات کو دیکھا تو کیا بدن جل کے
راکھ ہو گیا ؟ نہیں اﷲ نے اپنے نور کا وہ جلوہ محبوب علیہ الصلوۃ و السلام
کو دیا تھا کہ جب میری ذات کا جلوہ تمہارے نور میں پڑے گا تو جبریل تو جل
سکتے ہیں محبوب علیہ الصلوۃ و السلام تم نہیں جل سکو گے ۔جبریل کو خطرہ ہے
کہ میں جل جاؤں گا سرکار نے یہ نہیں کہا کہ جبریل تم جلو گے تو میں کیسے بچ
سکوں گا۔ واپس چلتا ہوں نہیں۔’’ میں آگے بڑھا ستر ہزار پردے میرے بدن سے لگ
کر پھٹ گئے میں نے کمان کے دوسروں سے قریب ہو کر اپنے رب کی ذات کو
دیکھا‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی)
لذت کی بات یہ ہے جہاں جبریل علیہ السلام کو اپنے جلنے کا خطرہ تھا۔ وہاں
میرے نبی علیہ السلام کے سر پر عمامہ شریف بھی سلامت تھا۔ بدن پر کپڑا بھی
سلامت رہا۔وہ کیسا نور ہے کہ جس کے نور نے کپڑے کو بھی طاقت دے دی ہے ۔رب
کی ذات کے جلوے پڑتے رہے مگر پھر بھی وہ محبوب علیہ الصلوۃ و السلام جنکا
نور کا مل ہے گھبرائے نہیں بے ہوش نہیں ہوئے قرآن کہتا ہے۔
’’آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی ‘‘ ۔( پارہ ۲۷ سورۃ النجم آیت
۱۷)ٹکٹکی لگا کے نظریں جما کے رب کو دیکھتے رہے۔
بات بڑی قابل غور ہے میں کوئی مجنوں لیلیٰ کی داستان تمہارے سامنے بیان
نہیں کررہا۔ میں تو رب کا قرآن بیان کررہا ہوں۔
کلیم اﷲ علیہ السلام کو رب کے دیدار کی چاہت
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیدار چاہاتو اسکا انکار ہو گیا اﷲ تعالیٰ نے
فرمایا۔
’’ تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ
پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا ‘‘ ۔(پارہ ۹ سورۃ الاعراف آیت
۱۴۳)پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا اسے پاش پاش کردیا اور
موسٰی گرا بے ہوش۔
اﷲ نے طور( پہاڑ) پراپنی صفت کا جلوہ پھینکا، تو کیا ہوا طور ریزہ ریزہ ہو
گیا اور انڈریکٹ جو کلیم نے جلوہ دیکھا تو ہوش نہ رہ سکے بے ہوش ہو گئے اب
جس رب کی صفت کی ایک جھلک طور پر آگرے تو طور طور نہ رہ سکے ۔کیا یہ ممکن
ہے کہ ہڈیوں اور گوشت کا بندہ عرش پہ چلا جائے اور رب کے پاس سے ہو کر بھی
سلامت لوٹ آئے ۔
اب قرآن نے کہا کہ جلوہ طور پر گرا تو طور ریزہ ریزہ ہوا اور جس رب کے جلوے
کا جلال طور کو پگھلا دے اس رب کے پاس عرش پہ جا کے کوئی بندہ ہڈیوں اور
گوشت والا ہم جیسا بچ کے آ سکتا تھا نہیں توماننا پڑے گا ہم جیسے وہ نہیں
انکو رب نے وہ نور دیا ہے کہ جب وہاں سے ہو کے صحیح سلامت واپس آ گئے تھے
تو دنیا کو بتایا جا رہا تھا کہ طور کا معاملہ اور ہے حضورصلی اﷲ علیہ
وآلہٖ وسلم کا معاملہ اور ہے جو بدن رب کی تجلیوں کی گرمی کے سامنے پگھل نہ
سکا برقرا رہا آخر وہ افضلیت ہماری عقل کے ترازو پر تولی نہیں جا سکتی لیکن
ان احمقوں نے جو رسالہ چھاپہ کراچی سے اس میں کیا لکھا ہے عبد کی تفسیر
کرتے ہوئے (معاذ اﷲ ) ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بنایا گیا یورپ کے وہ خاکے اور
یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ جیسے یہ بجلی کے پولوں پہ خطرے کی علامت ہوتی ہے ایک
ڈراؤنی سے شکل معاذ اﷲ ایسی کھوپڑی اور پورا ڈھانچہ اور ساتھ ٹوٹا ہوا ایک
قدم رکھا ہے۔
جس پہ پٹی لپٹی ہوئی ہے اور نیچے لکھا ہوا ہے قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ
مِّثْلُکُمْ یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اتنی بڑی گستاخی وہ بھی نہ کر سکے یہ بننے والے مثل کی عادتیں ہم نے کئی
سال پہلے کہا تھا۔ کہ وہ ہمارا بھی عقیدہ ہے ان آیات کو پڑھنے کا ہم بشر
مانتے ہیں مگر پس منظر دیکھ کے بیان کرو کہ وہ بشریت ہم جیسی نہیں وہ بشریت
بھی سب سے اعلیٰ ہے۔ مگر اب وہ گند باہر نکل آیا جس نے غیروں کو یہ جرأت
اور جسارت دی کہ وہ خاکے بنا رہے ہیں کہ خود آیات لکھ کے محبوب علیہ السلام
کی کتنی توہین کی جا رہی ہے تو
دور حاضر میں محفل میلادکی ضرورت
میرے بھائیو! جس ماحول میں اتنا زہر اگلا جا رہا ہو تو ہم اس ماحول میں اگر
محبت کا چھڑکاؤ نہیں کریں گے تو ایمان بچے گا کیسے۔ صحابہ کرام علیہم
الرضوان کا اندازہ اور تھا انہوں نے گستاخی کے سارے دھوئیں ختم کر دیئے تھے
ہم سے اگر وہ نہ ہو سکے ۔توکم از کم یہ تو ہم ضرور کریں گے اور یہ جائز ہی
نہیں بلکہ محفل میلاد واجب ہو گئی ہے کہ دنیا کو بتایا جائے ہمارے نبی علیہ
الصلوۃ و السلام وہ نہیں کہ جن کے یہ ڈھانچے بنائے جا رہے ہیں ہمارے محبوب
علیہ الصلوۃ و السلا م تو وہ ہیں جو اﷲ کے خاص جلوؤں کی ایک تجلی ہیں۔
اس بات کو سمجھنے کیلئے اصول ذہن میں رکھنا چاہیے فاضل بریلوی رحمتہ اﷲ
علیہ نے مسئلہ اصول کا یوں سمجھایاکہ ایک شخص کے گھر میں آگ لگ گئی ہم یہ
بتانا چاہتے ہیں کہ وقت وقت سے حکم بدل جاتا ہے اصل ایک قرآن مجید کی آیت
کی مخالفت نہیں ہو گی۔ حدیث کی مخالفت نہیں ہو گی۔ مگر مسئلہ صورت حال کو
دیکھ کر بتایا جائے گا۔
مثلاً ایک شخص کے گھر میں آگ لگ گئی اندر کمرے میں دو چیزیں پڑی تھیں ایک
پیسوں سے بھری بوری پڑی تھی اور دوسری کرسی بطور مثال، جب آگ لگی تو ٹائم
اتنا تھا کہ صرف ایک چیز کو اٹھایا جا سکتا تھا ایک چیز دوسری کے اٹھاتے جل
جائے گی ۔وہ عقل مند تھا اس نے فیصلہ کیاکہ یہ بوری پیسوں کی زیادہ قیمتی
ہے جس سے ہزاروں کرسیاں آ جائیں گی کرسی اٹھاؤں گا بوری جل جائے گی تو پھر
نقصان زیادہ ہو گا لہٰذا اس نے بوری اٹھائی واپس آنے تک کرسی جل گئی باہر
تماشاؤں کا رش تھا سارے دیکھ رہے تھے کہ دو چیزیں تھیں اس نے کیا اٹھائی یہ
دیکھنے کے بعد سارے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔
چند دنوں کے بعد ان تماشیوں میں سے ایک بندے کے گھر ہفتہ بعد آگ لگ گئی اب
اس کے گھر جب آگ لگی تو اس کے کمرے میں بھی دوچیزیں تھیں ایک اس کادو سالہ
بیٹا تھا اور دوسر پیسوں سے بھرا تھیلا تھا۔ اب وقت اتنا ہے کہ صرف ایک ہی
اٹھا سکتا ہے۔ اب یہ ہے مکھی پر مکھی مارنا اور یہ ہے تدبر کے بغیر دین کی
بات کرنا ، یہ بغیر فقاہت کے دین کو گھڑ لینا اب جس وقت اس نے سوچا تو کہنے
لگا وہ بندہ جس کو سارے عقل مند کہتے تھے اس کے گھر آگ لگی تھی تو اس نے
بھی پیسوں والا تھیلا اٹھا یا تھا تو مجھے بھی یہ کام کرنا چاہیے لہٰذا گیا
پیسوں والا تھیلا اٹھایا واپس لوٹا تو بیٹا جل چکا تھا لوگوں نے کہا کتنا
بے وقوف ہے تو۔ تو نے بیٹا کیوں نہیں اٹھایا یہ ہزار تھیلا بھی تو دے دے
بیٹا تجھے نہیں ملے گا تو نے بیٹا اٹھانا تھا۔ تو سب کو کہتا ہے کہ مجھے تم
بے وقوف کہتے ہو کل جس نے تھیلا اٹھایا تھا اسے تم عقل مند کہتے ہو اگر وہ
عقلمند ہے تو میں بھی عقلمند ہوں لوگوں نے کہا نہیں اس کو عقلمند اس لیے
کہا تھا کہ جب اس نے تھیلہ اٹھایا تھا تو اس کا بیٹا اندر نہیں تھا ۔تیرا
بیٹا توہزار مرتبہ تھیلے سے قیمتی تھا تجھے اپنی صورت حال کے مطابق فیصلہ
کرنا چاہیے تھا تجھے مکھی پہ مکھی نہیں مارنی چاہیے تھی۔
لہٰذا ہم ان دونوں کو دعوت فکر دیتے ہیں جو آج ٹہنی کو جڑ کے دعوے کر کے
ٹہنی کو جڑ کا پابند کرنا چاہتے ہم بتاتے ہیں کہ جب گستاخیوں کا دھوواں ابل
رہا ہو اس وقت محفل میلاد کا یہ پروگرام نفلی نہیں واجب ہو جاتا ہے۔
اب دیکھئے کہ جس وقت لوگوں کو مقام نبوت کی شناخت معاشرے میں یوں کرائی
جائے پھر کتابوں میں اور سیرت النبی علیہ السلام کے جلسے کر کے یہ سمجھایا
جائے کہ وہ (معاذاﷲ) ڈاکیے کی طرح تھے ڈاک دے کر چکے گئے ہم میں اور ان میں
کوئی فرق نہیں ہاں یہ ہے کہ ان پر وحی اترتی ہے ہم پرنہیں اترتی یہ بھی بڑی
مشکل سے فرق مانتے ہیں۔ اوریہ کہتے ہیں کہ نبی کو بڑا مانوتوصرف اتنا جتنا
بڑا بھائی ہوتا ہے اور جتنا گاؤں کا چوہدری ہوتا ہے یہ ہے تبلیغ اور یہ ہے
ان کی سیرت تو ہم اس وقت یہ بتانا چاہتے ہیں۔کہ ان کا پیکر تو پیکر رہا
جہاں ان کے قدم لگ جائیں وہ زمین بھی آسمان بن جاتی ہے-
بخاری شریف میں ہے حدیبیہ کے مقام پر حضرت عروہ بن مسعود رضی اﷲ تعالی عنہ
قریش کے سفیر بن کر آئے جب انہوں نے وہاں کا منظر دیکھا تو سب کچھ بھول گئے
واپس قریش کے پاس جا کر کہنے لگے۔’’جس دن سے مدینہ دیکھ لیا ہم ساری بہاریں
بھول گئے‘‘
اے قریش مکہ میں قیصر کے پاس گیا، میں کسری کے پاس گیا، میں نجاشی کے پاس
گیا، مجھے رب کعبہ کی قسم ہے میں نے وہ چمک کہیں نہیں دیکھی جو میں حدیبیہ
میں دیکھ کے آیا ہوں۔ قریش نے کہا عروہ بتا تم نے کیا دیکھا قیصر کی سونے
کی کرسیوں سے تجھے کچھ نہیں ہوا اورحدیبیہ میں تو پتوں کے بچھاؤنے تھے تو
کیا دیکھ کے آگیا ہے تو کہنے لگے۔(صحیح البخاری کتاب الشروط باب الشروط فی
الجہاد جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۷۹ قدیمی کتب خانہ کراچی)
میں نے دنیا میں کسی بادشاہ کی وہ تعظیم نہیں دیکھی جو تعظیم انکے صحابہ
اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی کرتے ہیں آج تعظیم نبی صلی اﷲ علیہ
وآلہٖ وسلم میں شرک کے فتوے لگتے ہیں مگر یہ جس وقت آیاتو مشرک تھا اوروہ
اتنا بڑا ان کا لیڈر تھا کہ نبوت کا کینیڈیٹ انہوں نے بنایاہوا تھا قرآن
میں ذکر ہے
’’اور بولے کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر ‘‘
پارہ ۲۵ سورۃ الزخرف آیت ۳۱
وہ مشرکین کہتے تھے کہ رب کو یا تو قرآن عروہ پر اتارنا تھا یا ولید پر
اتارنا تھالیکن یا اﷲ تو نے قرآن کہاں اتار دیا وہ عروہ جس وقت صحابہ کی
تعظیم کو دیکھتے ہیں تو شرک مٹتا ہے ایمان آجاتا ہے اب کیا دیکھا کہنے لگے
میں نے دنیا میں کسی بادشاہ کی وہ تعظیم نہیں دیکھی جو تعظیم صحابہ اپنے
نبی علیہ السلام کی کرتے ہیں وہ تعظیم کیا تھی پانچ باتیں انہوں نے بیا ن
کیں۔ وہ پانچوں کی پانچوں اس وقت سنی کے سینے میں موجود ہیں ان میں سے پہلی
کیا تھی کہنے لگے۔
کہتے ہیں اور تو اور رہا ان کے نبی علیہ السلام اگر تھوک مبارک اپنے ہونٹوں
سے جدا کریں ان کے صحابہ کرام زمین پر نہیں گرنے دیتے ہاتھوں پہ سجاتے ہیں
اور ہاتھوں پہ لے کے کپڑوں سے صاف نہیں کرتے۔(صحیح البخاری کتاب الشروط باب
الشروط فی الجہاد جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۷۹ قدیمی کتب خانہ کراچی)
جسکو ملے وہ ماتھے پہ لگاتا ہے ۔اس بات کو دیکھ کے کافر کا کفر مٹا ،اس بات
کو دیکھاتو اسے پتہ چلا کہ رب ایک ہے۔
سرکارصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق سے پتہ چلا کہ رب ایک ہے اور پھر ان کے
دل میں توحید آئی تو سبب کیا تھا ؟کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی علیہ
السلام کے تھوک مبارک کا جو ادب کیا اور یہ تھوک کا لفظ مجھے پسند نہیں صرف
ترجمے کیلئے بول رہا ہوں۔
لعاب دہن کی برکت
میرے نبی علیہ السلام کا لعاب دہن وہ کوئی تھوک تو نہیں وہ تو لوح محفوظ کا
شبنم ہے ،وہ تو وحی الٰہی کی خوشبو ہے ،وہ تو سوز یقیں ہے، وہ منبع ایمان
ہے، وہ تو چشم رحمت کی جھاگ ہے ،جب گل قدس کی پتیوں سے وہ جھاگ جدا ہوتا ہے
صحابہ نیچے نہیں گرنے دیتے ماتھوں پہ لگاتے ہیں اور دنیا والوں کو بتاتے
ہیں جن کے لعاب کی مثال نہ ہو رسالت مآبصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال
کہاں سے آئے گی ۔
یہ وہ دین ہے کہ جس میں انہوں نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ ادب ،یہ
انداز دیکھا تو پرانا کفر ٹوٹ گیالہٰذا اس ماحول میں یہ ہم توبیان کر سکتے
ہیں۔ لیکن دوسرے کیمپ والے بیان نہیں کر سکتے تجربہ کر کے دیکھ لو۔ ایک طرف
کا ایک ان پڑھ کسان کھڑا کر لو اور دوسری طرف اس کیمپ کا شیخ الحدیث کھڑا
کر لو اور دونوں سے پوچھو نبی علیہ السلام کے لعاب کی ویلیو کیا ہے ۔؟ اگر
تمھیں مل جائے تو کیا دو گے ۔ تو جو ذات کی برابری کرے وہ لعاب کی عظمت کیا
بیان کرے گا۔ مگر اس سنی سے پوچھو جو شیخ طریقت نہیں، عالم دین نہیں ان پڑھ
ہے مگر وہ کہے گا جان دے دوں گا لعاب دہن لے لوں گا ۔اس طرف بھی آدمی ہے اس
طرف بھی آدمی ہے مگر فرق اتنا ہے کہ ان کے بوٹوں پہ چمک ہے ان کے چہرے پر
نہیں ۔لیکن ادھر ان پڑھ کسان کے چہرے پر اپنے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی
محبت کی چمک موجود رہتی ہے ۔
اس واسطے کہ رب ذوالجلال نے وہ صحابہ والی چمک ہمیں عطا فرمائی ہے اب قول
فیصل یہ ہے کہ دنیا کے کسی چوک میں کھڑے ہو جاؤ فیصلہ کروا کے دیکھ لو میں
نے درجنوں ممالک کے نمائندہ اجتماعات میں اپنے دلائل پیش کیے ہیں آج تک
کوئی جواب نہیں دے سکا۔
صحابہ کرام تھرمامیٹر ہیں ایمان چک کرنے کا۔ ایک طرف نبوت کا یہ بیان کیا
جا رہا ہے تھا کہ گاؤں کا چوہدری مانو، بڑابھائی مانو اور دوسری طرف ہم ہیں
اور فیصلہ صحابہ سے کروانا ہے۔اب میرے بھائیو بتاؤ جو سرکارصلی اﷲ علیہ
وآلہٖ وسلم کے لعاب دہن ماتھے پہ لگا رہے تھے تو وہ کیا بتا رہے تھے کہ
بعدوالو ! ہوش سے بولنا بڑے بھائی کا تھوک کون ماتھے پہ لگاتا ہے گاؤں کے
چوہدری اور ڈاکیے کا تھوک کون دیکھتا ہے۔
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ …………کون روتا ہے لپٹ کے درو دیوار کے
ساتھ
یہ تو سرکارصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا لعاب دہن ہے۔
لہٰذا حدیبیہ کا فیصلہ یہ ہے کہ اے اہل حق! نبوت کو یوں مانو جیسے حدیبیہ
والوں نے مانا ہے اور حدیبیہ والوں نے یوں مانا ہے کہ جن کے لعاب کی مثال
نہ ہو رسالت مآبصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال کہاں سے آئے گی اور یہ
حدیبیہ میں بیٹھنے والے کوئی بدو تو نہیں تھے، ان پڑھ تو نہیں تھے، ملنگ تو
نہیں تھے، توہم پرست تو نہیں تھے ۔بھائیو! ہوش سے بولنا یہ تو صدیق و عمر
تھے، طلحہ و زبیر تھے، سعد و سعید تھے رضوان اﷲ علیہم اجمعین۔
نبی علیہ السلام کا لعاب دہن ماتھے پہ لگایا ہے اور دنیا والوں کو بتایا ہے
کہ یہ وہ محبوب ہیں کہ جو چیزیں اوروں کی مرکز نفرت ہوتی ہیں ہمارے محبوب
صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی و ہ چیزیں بھی سر چشمہ محبت ہوتی ہیں اس واسطے
اب یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم تو بیان کر سکتے ہیں دوسرا کون بیان کرے گا۔
تو اس واسطے گستاخوں کے دور میں حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اﷲ تعالی نے
مکتوبات شریف میں لکھا ہے کہ ہم گائے ذبح کریں یا بھینس برابر کا مسئلہ ہے
لیکن جب ہندوستان متحد تھا اس وقت ہندوؤں کی تحریک (گاؤ کے تقدس) کی چلی
اور گاؤ کے بارے میں مجدد سے کہنے لگے وہ گائے ذبح نہیں کر سکتے جزیہ دینا
قبول کر لیں گے تو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اﷲ تعالی کہنے لگے
’’ذبح بقرہ درہندوستان از اعظم شعار اسلام است‘‘(مکتوبات امام ربانی دفتر
اول حصہ دوم مکتوب نمبر ۸۱ )
ہندوستان میں گائے کی قربانی اسلام کے بڑے شعار سے ہے ۔
مسلمانو! اب گائے کو ذبح کرنا صرف جائز ہی نہیں رہا بلکہ اب تم پر گائے کو
ذبح کرنا واجب ہو گیا ہے ۔تا کہ جنہوں نے اس کو الٰہ بنا رکھا ہے ان کے
سامنے شوکت اسلام کا اظہار کیا جائے میرے بھائیو! وقت وقت سے حکم بدل جاتا
ہے جب گستاخیوں سے فضا زہریلی ہو رہی ہوتواس وقت محفل میلاد جائز ہی نہیں
بلکہ واجب ہو جاتی ہے۔
دبئی کے سابق وزیر اوقاف شیخ محمد عیسی مانع حمیری سے کسی نے پوچھاکیا محفل
میلاد منائیں تو وہ کہتے ہیں ۔ہاں ہم وَ فِیْ کُلِّ یَوْم ہر دن میں وَ
فِیْ کُلِّ سَاعَۃٍ ہر گھنٹے میں،ہر آن میں میلاد مصطفے صلی اﷲ علیہ و سلم
مناتے ہیں
اس واسطے کے ان کا لایا ہوا نور اور ایمان جب ہر آن میں ہمارے اندر موجود
ہے تو پھر خوشی کا اظہار بھی ہر وقت ہونا چاہیے۔
میں اپنی بات کو اس پہ ختم کرتا ہوں کہ آج جس ماحول میں ہم ہیں محفل میلاد
منعقد کرنے کا ہم سے یہ تقاضا ہے ہم اپنی بیٹری چارج کریں اور اندھیروں میں
چراغاں کریں صرف بیٹری چارج کر کے پھر سو جانا یہ کوئی مقصد پورا نہیں
ہوتا۔ بیٹری چارج کرو اپنی دکان میں، چراغاں کرو اپنے محلے میں ،چراغاں کرو
اپنی فیکٹری میں، چراغاں کرو جس ماحول میں رہتے ہو ، نماز بتاؤ، روزہ بتاؤ،
حج بتاؤ، لوگوں کو مسجد کی طرف لاؤ، نام نہاد روشن خیالی کا بھی مقابلہ کرو
اور بد عقیدگی کا بھی مقابلہ کرو یہ ہمارے پاس بیٹری ہے جو ان باتوں سے
چارج ہوتی ہے لہٰذا چارج کر کے چراغاں کرنا یہ سب سے بڑا اس محفل میلاد کا
تقاضا ہے۔ |