کائنات عالم میں مبعوث ہونے والے
کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار انبیا و رسل علیہم ا لصلاۃ و السلام کو اﷲ
تعالیٰ عز و جل نے سیکڑوں معجزات اورخوبیوں سے مالا مال فرمایا اور ان گروہ
انبیا و رسل میں حضرت محمد عربی مکی مدنی سرکار ﷺ وہ عظیم ا لشان ارفع و
اعلیٰ شخصیت ہیں جنہیں اﷲ جل مجدہ نے بے شمار انفرادی اور اجتماعی خوبیوں
سے نوازا اور ان میں آپ ﷺ میں منفرد و یکتا بھی نظر آتے ہیں۔ بقول شاعر حسن
یوسف، دم عیسی ،ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ۔سرور کشور
رسالت ،محسن انسانیت، حضرت محمد عربی ﷺنے انسانی معاشرے میں عفو در گزر ،
حلم و برد باری ، لاجواب صبر و استقامت، عدل و انصاف ، اخوت و مساوات اور
اخلاق و کردار ، علم و آگہی ، اخوت و مساوات ، عدل و انصاف ، الفت و مودت ،
اعلیٰ انسانی اقدار و شرافت ، علم دوستی ، اور مکارم اخلاق جیسی گراں قدر
عادات و خصائل کے ذریعے لاثانی اور دائمی اثرات اقوام عالم پر مرتب کئے ان
میں سے آپ ﷺ کے لاجواب اخلاق حسنہ ، عفو در گزر ، حلم و برد باری اور
لاجواب صبر و استقامت کے اثرات آج بھی ہیں جن اثرات سے متاثر ہوکر لوگوں کے
اذہان و قلوب جہاں اﷲ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت و پرستش کی جانب مائل ہوئے ،
جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوکر ’’جنت ا لفردوس‘‘ میں اعلیٰ مقام حاصل کئے
، سرزمین عرب سمیت پوری دنیائے انسانیت میں عظیم دینی ،ملی اور قومی انقلاب
برپاہوا ا ، باہمی حسد اور جلن کی نا بجھنے والی ’’آتش سیال ‘‘ الفت و مودت
کے آب سے سرد ہوکرباہمی اخوت و محبتسے پگھل گئی ،، ماؤں کو عزت ملی ،
بیٹیاں زندہ درگور ہونے سے بچ گئیں ، وہیں آپ ﷺکے اخلاق حسنہ کا اثر ہواکہ
دنیائے انسانیت میں اخوت و بھائی چارگی، اور باہمی اتحاد اتفاق کی تعلیم
عام ہوئی ۔حضرت انسان نے اپنی عظمت ور فعت سے واقفیت پائی کہ ایک انسان کا
خون ناحق دوسرے انسان کے لئے حرام ہے۔انسانی معاشرے میں اس کی عظمت و شرافت
بحال ہوئی۔انسانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی گروہی عصبیت، قبائلی اورنسلی
تفریق ،رنگ و نسل اور زبان و بیان میں ایک دوسرے پر فخر و مباحات سے
روکا۔دولت و غربت کی بنیاد پر فرقہ بندیوں کی مصنوعی (بناؤٹی ) دیواریں
زمیں بوس کردی گئی۔عورت کی عظمت رفتہ کو انسانوں میں قائم کیا ۔اس کو
انسانی سماج میں نہایت ہی بلند و بالا مقام عطا کیا ۔ذیل میں ہم لوگوں کے
اذہان و قلوب میں آپ ﷺ کے اخلاق و کردار سے مرتب ہونے والے عالمی اثرات کا
قدر ذکر کررہے۔بایں امید گرقبول افتد زہے عزو شرف:
محسن انسانیت حضرت محمد عربی ﷺ کی بلند اخلاقی و کردار ی اور ان کے اثرات
کا یہ عالم تھا کہ ایک دن آپ ﷺ اپنے اصحاب رضی ا ﷲ عنہم کی محفل میں جلوہ
فگن تھے کہ ناگہاں (اچانک) ایک یہودی عالم زید بن سمعہ جس نے آپ کی صفات
اور خوبیوں کو توریت میں پڑھ لیا تھا آپ ﷺ کی مجلس سعید میں آیا اور اصحاب
رسول کی صفوں کو چیرتا ہوا آپ ﷺ کے قریب جا پہنچااس نے اچانک حضور ﷺ کے
گریبان کو پکڑ کر سختی سے کھینچا اور درشت اورتیز و تند لہجے میں کہنے لگا
کہ اے محمد (ﷺ)جو قرض تم نے مجھ سے لے رکھا ہے ادا کرو تم بنو ہاشم کے لوگ
ادائے قرض میں بڑی ٹال مٹول سے کام لیتے ہو،آقائے کائنات ﷺ نے اس یہودی سے
چند درہم قرض لئے تھے جس کی ادائیگی کی مدت ابھی باقی تھی یہودی کی اس
گستاخانہ اور بے باکانہ حرکت دیکھ حضرت عمر فاروق اعظم رضی ا ﷲ عنہ سے
برداشت نہ ہو سکا اور طیش میں آکر فوراً اٹھے عرض گزار ہوئے مجھے اجازت
دیجئے میں اس گستاخ کا سر تن سے جدا کردوں ؟ تو نبی اعظم صاحب خلق عظیم نے
فرمایا کہ ائے : عمر تم کو تو اس سے یہ کہنا چاہئے کہ یہ اپنا مطالبہ بہتر
طریقے سے طلب کرے اور مجھے حسن ادائیگی کے لئے کہتے یہ سن کر یہودی عالم آپ
کے اخلاق عالیہ سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا اے محمد ﷺ قسم ہے اس ذات کی
جس نے آپ کو حق کے ساتھ کائنات عالم میں مبعوث کیا میں آپ سے اپنا قرض وصول
نے کے لئے نہیں آیا بلکہ میرے آنے کا مقصد تھا کہ آپ کے اخلاق عالیہ کی
آزمائش (امتحان )لوں ، مجھے بخوبی معلوم ہے کہ ابھی ادائے قرض کا وقت نہیں
آیامیں آپ کے اوصاف جمیلہ کو توریت میں پڑھ چکاہوں اور میں نے اسے آپ کی
سیرت طیبہ میں حرف با حرف صحیح پایا البتہ توریت میں بتائی ہوئی آپ کی دو
صفات کابخوبی تجربہ کرنا تھا ایک تو یہ کہ آپ ﷺ غصہ کے وقت بہت زیادہ حلم و
بر د باری کے پیکر بن جاتے اورآ پ کاعفو در گزر ، حلم و برد باری صبر و
استقامت آپ کے غصہ و غضب پرغالب آجا تا اور دوسرا یہ کہ جو بھی جس قدر آپ
کے ساتھ نادانی اور ظلم و زیادتی کرے گا آپ ﷺ اس کے ساتھ اتنا ہی زیادہ
نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے ان صفات حمیدہ کا بذات خود میں نے بچشم
خودمشاہدہ کرلیا ہے اب میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی
مستحق عبادت نہیں اورآپ ﷺ اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ رسول ہیں(ماخوذ کتب سیرت)
ام ا لمومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ا ﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ اﷲ کے
رسول ﷺ (حق پر ہونے کی صورت میں بھی) اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام (بدلہ)
نہیں لیا، ہاں جب آپ کسی سے اﷲ جل شانہ کی بے حرمتی دیکھتے تو ا ﷲ کی رضا
کے لئے اس سے انتقام لیتے (صحیح ا لبخاری باب صفۃ ا لنبی ﷺ ج 1 ص 503
مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور ) آپ ہی سے عفو در گزر کی ایک دوسری روایت
منقول ہے کہ حضور ﷺ نے کبھی کسی عورت یاخادمہ کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا (
ابوداؤد کتاب اآاداب باب ا لعفو و ا لتجاوز ج 2ص660 مطبوعہ مجلس برکات
مبارکپور ) ۔اعلان نبوت کے دسویں سال آپ ﷺ جب قبیلہ بنو ثقیف کو ایمان کی
دعوت دینے ان کے یہاں گئے تو اس قبیلے کے ذمہ داروں نے آپ کی دعوت ایمان کو
ٹھکراکر آ پ کو اس قدر اذیت دی کہ آپ کے نعلین (جوتے)مبارک خون سے آلودہ
ہوگئے اور اسی حالت میں جب آپ ﷺ وہاں سے واپس ہوئے تو بحکم خداوندی پہاڑوں
کے فرشتے نے خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا اے محمد ﷺ آپ اگر ہمیں حکم
دیں تو ہم اخشبین (وہ دو پہاڑ جو علاقے کے دو نوں جانب تھے ) کو ان پر الٹ
دوں اوروہ تباہ و برباد ہوجائیں اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں
چاہتا کہ وہ ہلاک ہوجائیں بلکہ مجھے اپنے رب تعالی سے امید ہے کہ وہ ان کی
پشتوں (نسلوں) سے ایسے لوگوں کو پیدا کریگا جو صرف خدا کی عبادت کریں گے
اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں گے ( مشکواۃ ا لمصابیح باب ا لبعث و
بد ء ا لوحی مطبوعہ مجلس برکات مبارکپور ) اس کا اثر ہوا کہ آگے چل کر اس
کے قبیلے کے بہت سے افراد اسلام کی آغوش میں پناہ لئے اور دنیا ئے رنگ و بو
میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کو دامن اسلام سے وابستہ ہونے کی دعوت سعید دی۔
ہجرت مکہ سے پہلے کفار و مشرکین نے آپ پر اس قدر ظلم ڈھایا کہ مسلمانوں کے
صبر و ا ستقامت کا پیمانہ چھلک گیا تو صحابی رسول ﷺخباب ابن ا لارث نے
مشرکین کی شدت و سختی دیکھ کر آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں کے خلاف بدعا
کیوں نہیں دے دیتے یہ سن کر آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا
تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لوہے کی کنگھیاں چلائی گئیں جس سے ان کے
گوشت و پوشت سب علاحدہ ہوجاتے ۔ ان کے سر پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو
ٹکڑے کردئے جاتے مگریہ اذیتیں انھیں دین ایمان سے برگشتہ نہیں کر سکیں ا ﷲ
تعالی دین اسلام کو کمال تک پہونچائے گا یہاں تک کہ ایک سوار مقام ’’صنعا
‘‘سے ’’حضر موت ‘‘تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا (صحیح
ا لبخاری باب مالقی ا لنبی ﷺ و اصحابہ من ا لمشرکین ج 1ص 543مطبوعہ مجلس
برکات)مبارکپور ) اور تاریخ عالم نے دیکھا کہ مکہ فتح ہوا اور حضور ﷺ نے
اپنے بد ترین دشمنوں کو معاف فرمایا اور فرمایا کہ’’ الیوم یوم ا لمرحمۃ لا
بیوم ا لمزحمۃ‘‘ (کہ آج رحم و کرم اور معافی کا دن ہے دشمنی اور انتقام
لینے کا دن نہیں ) اور دور فاروقی میں اسلامی سلطنت وسیع ہوئی اور امن و
امان کا وہ ماحول قائم ہوا کہ تنہا ایک عورت بھی اگر اس راستے کا سفر کرتی
تو اسے کسی قسم کی تکلیف کا ندیشہ نہیں ہوتا(کتب سیر)
صحابی رسول ﷺ رافع بن خدیج کہتے ہیں 3ہجری میں’’غزوۂ انمار‘‘ میں ہم رسو ل
اﷲ کے ہم راہ تھے آپ کی آمد کی خبر سن کر اعراب پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے
گئے اور اﷲ کے رسول ﷺ صحابہ کرام سے الگ ہوکر ایک درخت کے نیچے آرام فرمانے
لگے کہ قبیلہ بنو غطفان کے اشارے پر ’’دعثور‘‘ نامی سرداررسول ا ﷲ ﷺ کے
سامنے تلوار کھنچ کر کھڑا ہوگیا آپ ﷺبیدار ہوئے تو وہ کہنے لگا کہ تجھ کو
مجھ سے کون بچا ئے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا مجھے میرا اﷲ بچائے گا اسی اثنا میں
جبرئیل علیہ ا لسلام نے اسے گرادیا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی آپ ﷺ نے
تلوار اٹھا لی اور فرمایا کہ تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟؟ وہ بولا کوئی
نہیں ۔ ایسی بے چارگی میں آپ ﷺ نے اسے معاف کردیا اور اسعفو در گزر رحم و
کرم کا اس کے ذہن و فکر پر ایسا اثر ہوا کہ آپ ﷺ پر ایمان لے آیا( سیرت
رسول عربی مصنفہ مولانا نور بخش توکلی ص279)۔ قبیلہ انصار کا حلیف ایک شخص
فرات بن حیان جو ابو سفیان کی جانب سے مسلمانوں کی جاسوسی پر مامور تھا
غزوۂ خندق 5ہجری میں وہ پکڑا گیا تو حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا مگر
بعد میں وہ آپ ﷺ کے اخلاق و کردار اور دعوت دین سے متاثر ہوئے اورایمان لے
آئے اور آپ نے ان کی غلطی معاف کردی اور مزید اخلاق حسنہ کا ثبوت پیش کرتے
ہوئے ’’یمامہ‘‘ میں ایک قطعہ زمین عطا فرمائی جس کی آمدنی چار ہزار دوسو
تھی(ابوداؤد کتاب ا لجہاد ۔ باب فی ا لجاسوس الذمی ج، 2ص 359 مطبوعہ مجلس
برکات مبارکپور )
اہل یمامہ کا سردار ثمامہ بن آثال الیمانی حضور ﷺ کو قتل کرنا چاہتا تھا آپ
ﷺنے دعا فرمائی کہ الٰہی اسے میرے قابو میں کردے چنانچہ بارگاہ رب ا لعزت
میں آپ کی دعا قبول ہوئی اور ایک دستہ نجد کی طرف بھیجا گیا اور بنو حنیفہ
میں سے ایک شخص نے اسے گرفتار کر کے بارگاہ رسالت میں حاضر کردیا اور اسے
مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا حضور ﷺ اس کے قریب سے گزرے تو آپ نے پوچھا
کہ ثمامہ کیا کہتے ہو ؟ عرض کیا یا محمد اگر آپ مجھے قتل کردیں گے تو ایک
خونی کو قتل کریں گے اور اگر احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں
گے اگر آپ ﷺ زر فدیہ چاہتے ہیں تو جس قدر چاہیں دے دونگا آپ نے خاموشی
اختیار کی اور اسی طرح سوال و جواب کا سلسلہ تین دن تک جاری رہا اور تیسرے
روز آپ نے ثمامہ کی باتیں سن کر انھیں کھول نے کا حکم دیا آپ کی عنایت و
کرم عفو در گزر ، اعلیٰ اخلاقی نمونہ نے ایسا اثر دیکھایا کہ بارگاہ رسالت
میں آکر وہ مسلمان ہوگئے اور عرض کرنے لگے یارسول ا ﷲ میرے نزدیک آپ سے
زیادہ کوئی چہرہ مبغوض و نا پسندیدہ نہ تھا اب وہی چہرہ میرے نزدیک سب سے
زیادہ محبوب ہے ،میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ دین آپ کا دین تھا اور سب سے
زیادہ محبوب دین آپ کا دین دین اسلام ہے ۔ میرے قریب سب سے مبغوض شہر آپ کا
شہر تھا اور اب سب سے پیارا شہر آپ کا شہر ہے (صحیح ا لبخاری کتاب ا لمغازی
باب وفد بنی حنیفہ مطبوعہ مجلس برکات)
جس وقت ابولعاص بن ربیع آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ڑضی ا ﷲ عنہا کو مکہ سے
مدینہ لے جارہے تھے اسی اثنا میں ہبار بن اسود قریشی اسدی نے حضرت زینب کو
اونٹ سے گرادیا اور آپ کا حمل ساقط ہوگیا اور اسی چوٹ میں آپ کا انتقال
ہوگیا آقا ﷺ نے ہبار بن اسود قریشی کے قتل کا حکم دیا او ر فتح مکہ کے دن
ہبار بن اسود قریشی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ میں نے
ارادہ کیا کہ یہاں سے ایران چلا جاؤں مگر مجھے آپ کی نفع رسانی ، صلہ رحمی
اور عفو درگزر یاد آئے مجھے اپنے گناہ کا اعتراف ہے آپ درگزر فرمائے ‘‘ یہ
سن کر آپ ﷺ نے معاف فرمادیا (صحیح ا لبخاری باب وفد غزوۃ ا لطائف مطبوعہ
مجلس برکات) او اس کا اثر ہوا کہ آپ ﷺ کے جان نثاروں میں شامل ہوئے ۔حضور ﷺ
کے چچا حضرت امیر حمزہ رضی ا ﷲ عنہ کے قاتل وحشی حبشی غلام سفیان بن حرب’’
جنگ احد‘‘ کے بعد مکہ میں رہتا تھا اور فتح مکہ کے بعد مختلف علاقوں میں
گزر بسر کرتا ہوا ۔بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے آپ ﷺ نے
انھیں بخش دیا اور صرف اتنا کہا کہ مجھے اپنا چہرہ نہ دیکھایا کرو(صحیح ا
لبخاری کتاباب قتل ا لحمزہ مطبوعہ مجلس برکات) ۔ اور اس کے بعد وہ آپ کے
تادم حیات مطیع و فرمانبردار بن کر رہے اور دعوائے نبوت کے جھوٹے دعوے دار
مسیلمہ کذاب کو قتل کیا اور حضرت وحشی کہتے کہ میں نے زندگی میں ایک کام
بہت برا کیا اور دوسرا کام بہت اچھا (کتب سیر ) ۔ماہ محرم ا لحرام سنہ
7؍ہجری میں غزوۂ خیبر سے آپ ﷺ کے واپسی پر سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ زینب
بنت حارث نے بکری کاگوشت بھون کر زہر آلودہ کرکے خدمت اقدس میں کھانے کے
لئے پیش کیا آپﷺ اور آپ کے کچھ صحابیوں نے اسے تناول فرمالیا جس سے زہر ان
کے بدن میں سرایت کرگیاجب عقدہ (راز)کھلا تو اس یہودیہ عورت نے معافی چاہی
اور آپ ﷺ نے اسے معاف کردیا لیکن جب ایک صحابی زہر آلود کھانے کے سبب
انتقال کرگئے تو بطور قصاص اسے بھی قتل کردیا گیا ( سیرت رسول عربی ص
273بحوالہ وفاء ا لوفا جز اول ص 225 )۔ ایک موقع سے لبید بن اعصم یہودی
منافق نے آپ ﷺ پر جادو کردیا معلوم ہونے پر آپ ﷺ نے اس سے کچھ بھی تعرض
نہیں کیا ( صحیح ا لبخاری کتاب باب کتاب ا لطب باب ہل یستخرج ا لسحر مطبوعہ
مجلس برکات ) جس سے اسلام دشمن یہود بھی اپنی بدباطنی اوربغض و عناد کے
باوجود وہ آ پ ﷺ کے اخلاق و کردار سے متاثر تھے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مندرجہ بالا احادیث کی مشہور کتابوں کی روشنی میں رسول
گرامی وقار ﷺ کے عفو درگزر کے چند نمونے آقا ﷺ کے کردارو عمل اور عفو در
گزر کی بہترین مثال ہیں جو آپ کے غصہ و غضب پر غالب آگیا جن اخلاق عالیہ کی
کرشمہ سازی نے اقوام عالم کے دلوں کو اپنی جانب منعطف کیا۔آپ کی قدرو منزلت
کو اقوام عالم کے دلوں کو اپنی پرکشش شخصیت کا احسا دلاتی ہے۔ جو ایک طرف
امت مسلمہ سمیت اقوام عالم کو جہاں اپنانے کی دعوت دیتی ہے وہیں دوسری جانب
آپ ﷺ کے فضائل و کمالات کی منھ بولتی تصویر بھی ہے جو آ ۔آپ ﷺ کے عفو در
گزر ، حلم و برد باری اور لاجواب صبر و استقامت ، ، عدل و انصاف ، اخوت و
مساوات اور اخلاق و کردار ، علم و آگہی ،سیاسی ، سماجی، مذہبی قومی اور
عالمی سطح پر عظیم انقلاب اور کامیاب زندگی کے ساتھ اقوام و ملل پر مرتب
ہونے والے عالمی اثرات ہیں اجو ایک طرف امت مسلمہ سمیت اقوام عالم کو آپ ﷺ
کے’’ نقوش سرمدی‘‘ اپنانے کی دعوت سعید دیتی ہے تو وہیں دوسری جانب آپ ﷺ کے
فضائل و کمالات کی منھ بولتی تصویر بھی ہے جو آپ کی قدرو منزلت کو اقوام
عالم کے دلوں کو اپنی پرکشش شخصیت کا احساس دلاتی ہے ۔ آپ ﷺ کی ذات والا
ستودہ صفات میں رب کی عطا اور اس کی بخشش سے جہاں ایک طرف اعلیٰ انسانی
اقدار و شرافت اور اخلاق و کردار کا درس حیات ملتا ہے تو دوسری طرف امن و
آشتی اور عدل و انصاف کا وہ گراں قدر پیام نوع انسانی کو ملتا ہے کہ اگر
حضرت انسان وہ لافانی اور ابدی پیغام کو اختیار کرلے تو دنیا کے مسائل حل
ہوجائیں ، دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے دنیا میں بسنے والی دیگر
مخلوقوں کی جانیں تباہ و برباد ہونے سے محفوظ رہے اور امت مسلمہ کو آپ ﷺ کے
عفو در گزر انسانی سماج اور معاشرے میں خصوصا اسلام دشمن عناصر کے سامنے
عام و تام کرنے کی کوشش کرنا چاہے اور آقا ﷺ کے عفو در گزر کی اسلامی
تعلیمات سے انہیں واقف کرائیں اور خود بھی ان کو اپنانے کی ہم سعی کریں
تاکہ اسلام کے آفاقی پیغام کی کرنوں سے ساری دنیا کے لوگ فیضیاب ہوں ۔ |