نہ جانے ہمارے حکمران اور وہ
صحافی،کالم نگار اور سیاستدان کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔جو ہر قیمت پر
ظالمان سے مذاکرات شروع کرنے پر نہ صرف بضد ہیں ،بلکہ وہ پوری قوت اور شد و
مد کے ساتھ انکی پشت پر کھڑے ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں اس سے
زیادہ بے شرمی ،ڈھٹائی اور بے غیرتی کوئی نہیں ہے۔ ڈرون حملے امریکہ کرتا
ہے اور یہ ڈرون کا بدلہ لینے کے لیے اپنے پاکستانیوں کے لہو سے اپنی ہی
سرزمین رنگین کیے جا رہے ہیں۔
کیا تحریک طالبان،القاعدہ ،لشکر جھنگوی کے سرپرست پاکستانی قوم کو بتائیں
گے کہ وہ کب تک اپنے شیر دلیر اور بہادر فوجی اور پولیس افسران کی لاشیں
اٹھاتے رہیں گے؟ یہ لوگ یہ بھی بتائیں کہ کب تک پاکستان کو مفلوج بنانے کا
بزدلانہ کھیل کھیلا جائے گا؟ اور انکے بلوگڑے کب تک سربز اور لہلاتے
پاکستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرتے رہیں گے؟ قوم سید منور حسن،مولانا سمیع
الحق،مولانا فضل الر رحمان ، عمران خان اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز
شریف اور انکے وزیر داخلہ چودہری نثار علی خاں قوم کو یہ بھی بتائیں کہ کیا
وہ پاکستان کی قیمت پر طالبان سے ہمدردی اور مذاکرات کرنے کو کیونکر ترجیح
دے کر ملک کو تماشہ گاہ بنا رکھا ہے؟ کیا چودہری نثار علی خاں بتائیں گے کہ
ہم کب تک چودہری اسلم جیسے نڈر ،بہادر افسروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے؟ اور
کب تک اعتزاز حسن جیسے بہادر نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت اپنی جوانیاں قوم
اور وطن عزیز پر نچھاور کرتے رہیں گے؟
گذشتہ ہفتے میں دہشت گرد تنظیم لشکری جھگوی اور دیگر ظالمان اور سفاک گرہوں
نے ایک ہی روز یعنی 6 جنوری کو ہنگو میں ایک سرکاری سکول پر خود کش حملے
کیا۔جس سے ایک طالب اعتزاز احسن شہید ہوگیا۔بنوں میں گرلز پرائمری سکول کو
بموں سے اڑا دیا۔باڑہ میں بم دھماکے میں ایک خاتون جابحق ہو گئی۔اسی روز
پشاور کے علاقے ریگی میں بم حملے کے نتیجے میں پولیس کا ایک اہلکار شہید
اور دو زخمی ہوئے۔جبکہ پشاور کے علاقے کوہاٹ روڈ پر نامعلوم افراد نے
فائرنگ کرکے ہسپتال کے سکیورٹی گارڈ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور فرار
ہوگے۔یہ سب خبریں ہمارے میڈیا نے ایک اور سطری خبر بناکر شائع کرکے اپنا
فرض ادا کر دیا ہے-
بعد میں آنے والی اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے ہنگو کے ایک بوائیز سکول
پر خود کش حملہ کرنا چاہا لیکن سکول کے ایک بہادر طالب اعتزاز حسن نے خود
کش حملہ آور کو دبوچ لیا جس سے خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا
لیا۔جس سے بہادر طالب علم اعتزاز حسن شہادت کے منسب پر فائز ہوگیا۔ادھر
کراچی میں بھیبڑی دھوم دھام سے کیے جانے والے اپریشن کے باوجود دہشت گردوں
نے کراچی پولیس کے انتہائی بہادر ،جرات مند اور باہمت سی آئی ڈی افسر
چودہری اسلم کو خود کش دھماکے سے اڑا دیا۔ ہماری سول اور فوجی قیادت نے
دونوں وطن پرست شہیدوں کے کردار کو سراہا ہے۔فوج اور پولیس کے دستوں نے
انہیں سلام پیش کرتے ہوئے انہیں سلوٹ کیا۔
کہاجاتا ہے کہ اگ ر ہنگو کا بہادر اعتزاز خود کش بمبار کو نہ قابو کرتا تو
بڑی تعداد میں سکول کے ننھے اور معصوم طلباء شہید ہو جاتے۔بہت تباہی مچتی
……سی آئی ڈی کراچی میں انسداد انتہا پسندی سیل کے انچارج ایس پی چودہری
اسلم کو شہید کرنے اور ہنگو سکول پر بم دھماکے کی ذمہ داری تحریک طالبان
پاکستان اور لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے۔لشکر جھنگوری بھی تحریک طالبان
پاکستان کے پرچم تلے سرگرعمل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کل رات ( یعنی 10اور
11 جنوری کی درمیانی رات) گیارہ بجے تک نہ تو خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی
سے ضلعی انتظامیہ کے افسر نے ہنگو کے بہادر اعتزاز حسن کے لواحقین سے رابطہ
کرنے کی زخمت نہیں کی تھی اور نہ ہی اس حلقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے
نے انکی اشک شوئی کرنے کی زخمت گوارہ نہیں فرمائی۔ان دونوں ارکان اسمبلی کا
تعلق خیبر پختونخواہ میں برسراقتدار جماعت تحریک انصاف سے ہے۔شہید بہادر
اور جرات مند طالب علم اعتزاز حسن کے بھائی نے ایک مجی ٹی وی کے ٹاک شو میں
بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک صدر مملکت سے لیکر وزیر اعظم سمیت وفاقی
حکومت کے کسی ذمہ دار نے ان سے رابطہ نہیں کیا-
یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف کار دوستوں کا
جنہوں نے اعتزاز حسن جیسے بہادر نوجوان کے لیے آواز بلند کی تو سینٹ سے
وزیر اعظم ہاوس تک میں سوئے ہوئے ارباب اقتدار و اختیار نیند سے بیدار ہوئے
اور بات سینٹ میں قرارداد اور انہیں ستارہ شجاعت دینے کی کاروائی کا آغاز
ممکن ہوا اگر سوشل میڈیا پر مورچہ زن نوجوان اعتزاز حسن کے لیے آواز اٹھاتے
تو اپنی جان کی قربانی دیکر سینکڑوں طلباء کی زندگیاں محفوظ بنانے والے
بہادر اعتزاز حسن کا آج ذکر تک نہ ہوتا ۔جیسے فاٹا کی بہادر بیٹیــ’’ نبیلہ
‘‘ آج کسی کو یاد بھی نہیں ہے۔
میں بھی بات کو کہاں سے کہاں لے گیا ہوں ۔بات کر ہا تھا۔ دہشت گردوں کے پشت
پناہ اور ان سے مذاکرات کرنے کے حامی سیاسی جماعتوں کے راہنماوں،صحافیوں،
اینکر پرسن اور حکمرانوں کی ہٹ دھرمی،ڈھٹائی اور بے شرمی کی۔چاہئے وہ
مولانا فضل الررحمان ہوں ،طالبان کے مائی باپ مولانا سمیع الحق ہوں،جماعت
اسلامی ہو یا عمران خان کی تحریک انصاف ہویا پھر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا
کے اندر بیٹھے ان کے ہمدر تجزیہ نگار ،کالم نگار اور اینکرپرسن ہوں جو
حکومت پر طالبان سے ہر قمیت پر مذاکرات کا آغاز کرنے پر دباو ڈال رہے ہیں۔
ان صاحبان عقل خرد کی خدمت میں عرض ہے ۔کیونکہ ہم عرض ہی کر سکتے ہیں ۔اور
نہ انکی مہربانی ہو گی کہ وہ ہماری عرض پر غور کر لیں۔ اور ذرا غور کریں
اور بتائیں کہ کیا طالبان کے مائی باپ ہونے اور طالبان کو اپنے زیر اثر
کہنے والے ان سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں تو
پھر وہ بے گناہ معصوم بچوں اور شہریوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں۔ان طالبان سے
پوچھیں کہ قران میں اور پیارے نبی کے کس فرمان کے تحت وہ یہ خود کش حملے کر
کے عوام کو مفلوج بنا رہے ہیں۔ اگر طالبان انکی بات نہیں مانتے تو پھر
طالبان پر کنٹرول رکھنے کے دعویدار ابراہیم پراچہ سے مولانا سمیع الحق سمیت
طالبان کے تمام حمایتی عناصر کا فرض بنتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ کے
خلاف سینہ سپر ہو جائیں اور حکومت اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ
کھڑے ہو کر ان خود کش دھماکے کرنے اور خود کش بمبار تیار کرنے والی
فیکٹریاں چلانے والوں کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کا اعلان کریں۔ اور ان
پر واضع کردیں کہ ہم انکا مذید دفاع نہیں کر سکتے۔ کیونکہ دہشت گردی کی جنگ
کو منطقی انجام تک پہنچانے اور دہشت گردوں کے قلع قمع کرنے کے لیے یہ
یکسوئی ضروری ہے اسکے بغیر ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے- |