قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدّ سے اجالا کر دے
ربیع الاول کی وہ مبارک سعادتیں جب خالق کائنات نے بنی نوع انسانیت پر
احسان عظیم کیا تو زمین وآسمان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور بجا
طور پر وہ اس بات پر خوشیاں منا سکتے تھے کیونکہ یہ اس ہستی کی آمد تھی
جسکے لیئے یہ کائنات بنائی گئی تھی اور جسکی بعثت کو خالق کائنات نے احسان
کرنے کے بعد جتلایا بھی ہے۔وہ ہستی جسکا کھانا پینا ، سونا جاگنا ، اٹھنا
بیٹھنا ہمارے لیئے بہترین مشعل راہ قرار دیا گیا وہ ہستی جس نے کبھی مشکل
وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سےنہ چھوڑا اور اپنی اتباع کرنے والوں کو بھی اسی
کی تلقین کی ۔ وہ ہستی جسکے اخلاق اور سچائی کی گواہی اسکے دشمن بھی دیتے
تھے۔ وہ ہستی جسکو اپنی امت کی اس حد تک فکر تھی کہ راتوں کو اٹھ کر گڑ گڑا
کر اسکی بخشش کے لیئے دعا کی جاتی۔ اس ہستی کی تعریف میں اگر دنیا کے سارے
وسائل جمع کر لیئے جائیں اور اسکی تعریف کی جائے تو پھر بھی تعریف کاحق ادا
نہ ہو سکے گا لیکن آج ہمیں ربیع الاول کی یہی مبارک سعادتیں کچھ سوچنے پر
مجبور کرتی ہیں کیا ہم نے دین کو صحیح طرح سمجھ لیا ہے ؟ کیا ہم نے اپنی
مرضی کا دین اپنے اوپر نافذ نہیں کر رکھا ؟ کیا ہم اتفاق و اتحاد کی زبردست
تلقین کے باوجود بھی فرقوں اور مسالک میں بٹے ہوئے نہیں ؟ کیا ہم اپنے طرز
عمل سے یہ بات ثابت نہیں کر رہے کہ نبی کریم ّ صرف ہمارے ہی نبی ہیں اور
صرف ہمارے ہی لیئے رحمت ہیں جبکہ جن کے تمام عالمین کے لیئے رحمت ہونے کی
گواہی تمام عالمین کے خالق نے دی ہے۔ کیا اس ہستی نے جس اجتماعیت کا درس
ہمیں دیا وہ ہم میں موجود ہے ؟ صبر و برداشت کے پیکر کی امت اس قدر بے صبری
ہو کہ ٹریفک سگنل تک کی پاسداری نہ کر سکے اور کسی کی نادانستہ کوتاہی کو
دانستہ طور پر اپنی انا کا مسئلہ بنا لے ۔ ہمیشہ حلال کمانے اور حلال
کھلانے کی تلقین کرنے والے نبی کی امت میں موجود ارض پاک کے باسی کیا حلفا
کہ سکتے ہیں کہ وہ حلال ذرائع سے کماتے اور اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتے
ہیں ؟ ہمیشہ دلائل اور تبلیغ سے دین کی دعوت دینے والے نبی کی امت آج اگر
ان دونوں وصائف سے کوسوں دور ہے تو اسکی کیا وجہ ہے ؟ وہ نبی جس نے حصول
تعلیم کو لازم قرار دیا اور اسکے لیئے جنگ بدر میں قید کفار مکہ کے پڑھے
لکھے لوگوں کو اس شرط پر معاف کیا کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیں گے ان کی
امت کی آج یہ حالت ہے کہ دنیا کہ پہلی دو سو بہترین جامعات میں انکی کوئی
جامعہ شامل نہیں اس نبی کے ماننے والوں کی اکثریت تعلیم کو اپنی بقا کا
مسئلہ ماننے سے عملا انکاری کیوں ہے ؟ مزدور کی مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے
سے پہلے دے دو کا حکم ہونے کے باوجود بھی کتنے لوگ ہیں جو اس پر عمل کرتے
ہیں ؟ شادی کو آسان اور زنا کو مشکل بنانے والے قوانین ہونے کے باوجود ہمیں
اپنے معاشرے میں اسکے بالکل برعکس نظر آتا ہے کیوں ؟ سودی کاروبار اور اس
سے حاصل شدہ آمدنی کو صریحا حرام قرار دینے کے باوجود بھی پوری معیشت اسی
نظام پر مبنی ہے اور اب تو مضاربت نام کے کچھ ایسے طریقے بھی ایجاد کر لیئے
گئے ہیں جنکو حلال قرار دے دیا گیا باوجود اسکے کہ اس پر اختلاف ہے ۔ ہمیشہ
سچ کے ساتھ کھڑا رہنے کا حکم ہونے کے باوجود بھی چند روپوں کی خاطر جھوٹی
گواہی دینے والے لوگ کیا آسانی کے ساتھ نہیں مل جاتے جبکہ ظالم کے خلاف سچی
گواہی دینے والے بہت کم ملیں گے ۔ خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے اور
بیٹیوں کو رحمت قرار دینے کے باوجود بھی نہ تو انکو جائیداد میں حصہ دیا
جاتا ہے اور نہ ہی رحمت سمجھا جاتا ہے اسکے برعکس ان کے حقوق بھی سلب کر
لیئے جاتے ہیں اور ایسا کرنے والے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی رکھے جاتے ہیں
۔ رحمت دو جہاں کی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے باوجود بھی کیا ہم اس
قابل ہیں کہ ربیع الاول کی خوشیاں منا سکیں ؟ ہمارا ملک آج جن حالات سے
دوچار ہے کیا ہمیں سڑکوں پر جلوس نکال کر اور اس جلوس سے لوگوں کو تکلیف دے
کر یہ ساعتیں گزارنی چاہیئں یا ذکر اذکار کی محفلیں سجا کر اور مساجد کو
آباد کر کے یہ دن گزارنے چاہیئں۔ یاد رکھیئے نبی سے محبت کا اظہار انکی
تعلیمات کو اپنانے سے ہوگا نہ کہ خالی عشق کے نعرے لگانے سے ۔ کیوں نہ ایک
نئی شروعات کریں اور وہ پیسے جو ہم گلیوں محلوں، مساجد اور عمارتوں کی
سجاوٹ پر خرچ کرتے ہیں اس سے ایک فنڈ قائم کریں اور ان پیسوں کو وہ غریب
بچیاں جنکے والدین کے پاس انکی شادی کے لیئے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے
کنواری رہ جاتی ہیں کی شادی پر خرچ کریں ۔ توانائی بحران جسکا ہم شکار ہیں
عمارتوں پر برقی قمقمے سجانے کی بجائے ایک قوم کی طرح سوچیں اور دنیا کو
بتائیں کہ ہم ان بحرانوں کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں اس سے ایک تو بجلی کی
بچت بھی ہوگی اور کفایت شعاری بھی ہمارے اندر آجائے گی جسکا کہ پیارے نبی
نے حکم دیا ہے ۔ جتنے پیسے اس طرح کے مواقع پر خرچ کیئے جاتے ہیں ان پیسوں
سے فری میڈیکل کیمپ لگا کر ان ہزاروں لوگوں کا علاج ہو سکتا ہے جنکے پاس
وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انکا علاج ممکن نہیں ہو تا ۔ بہت سے لوگوں کی
آنکھوں کا مفت علاج ہو سکتا ہے ۔ ملازموں کی تنخواہوں کا خیال روزانہ خیرات
کی دیگیں بانٹنے سے ذیادہ رکھیں ۔ عوام و خواص سچ بولیں کیونکہ جھوٹ بول کر
ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ہم اگر سچے عاشق رسولّ ہیں تو پھر ہمیں
اپنے پیارے نبی کی تعلیمات کو اپنے رسوم و رواج پر ترجیح دینا ہوگی۔ اسی
میں ہماری بقا ہے
کی محمدّ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم ترے ہیں
|