12 ربیع الاول 2014 کے سلسلے میں
حضور اکرم ﷺ کی مدحت و تعریف کی برسات چہار دانگ عالم میں جاری ہے۔ہر چھوٹا
و بڑا عاقل و بالغ مرد و خواتین اور بچے اپنی اپنی اہلیت و لیاقت ،طاقت
واستطاعت کے مطابق احساسات و جذبات کے دھارے میں اپنا اپنا حصہ ملانے کی
سعی میں مصروف ہے۔یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ دنیا کے بنائے جانے سے لیکر
دنیا کے مٹ جانے تک اور پھر بعد میں بھی آپ ﷺ کا نام نامی زندہ جاوید رہے
گا۔آپؐ کے والد محترم حضرت عبداﷲ کی پیشانی مبارک پر ایک خاص قسم کی چمک
تھی۔ حضرت آمنہ ؓ سے شادی کے بعد ان میں منتقل ہوگئی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ جب
آپؐ ان کے بطن میں ولادت کی منازل طے کررہے تھے تو میرے ساتھ بڑے عجیب و
غریب خوشگوار واقعات رونما ہوتے تھے۔ جب میں پتھریلی زمین پر پاؤں رکھتی تو
مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدموں تلے ریشمی دبیز قالین بچھ گیا ہو۔جب
بازار جاتی تھی تو بادل کاایک ٹکڑا مجھ پر سایہ کئے رکھتا تھا۔ جب میں
تھوکتی تھی تو میرے لعاب سے نہایت ہی مسحورکن خوشبو آتی تھی۔ میرے جسم سے
فرحت بخش مہک اٹھتی تھی۔ میرے گھر والے مجھ سے پوچھتے تھے کہ آمنہؓیہ کونسی
خوشبو ہے۔ ایسی خوشبو نہ کبھی سونگھی نہ سنی۔سبحان اﷲ ! حضرت آمنہ فرماتی
ہیں کہ میں خود اس کا کوئی جواب نہ دے سکتی تھی کہ یہ کون سی خوشبو ہے اور
کہاں سے آتی ہے۔آپؓ فرماتی ہیں کہ رات کو جب میں آسمان کو دیکھتی تو یوں
محسوس ہوتا تھا کہ چاند اور ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔یہ اور اسی طرح کے
بے شمار واقعات سے ہمارے پیارے نبی سید البشر آقائے نامدار ﷺ کی اسوہ حیات
مزین ہے۔ یہ انفرادیت کسی اور نبی کو عطا نہیں کی گئی۔منفرد شان والے ؐ جب
اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو ظلمت کو اپنا منہ چھپانے کی جگہ میسر نہ
تھی۔ اندھیرے چھٹ گئے تھے۔ ہرطرف نور ہی نور کی بارش تھی۔
جہاں نظر نہیں پڑی وہاں ہے رات آج بھی
وہاں وہاں سحر ہوئی جہاں جہاں گزر گئے
قیصر و کسری کے محلات میں زلزلے جاری تھے۔ محلات کے کنگرے زمین بوس ہوچکے
تھے۔کلیوں کی چٹک میں، بلبل کی چہک میں،تاروں کی چمک میں،پھولوں کی مہک
میں،سبزوں کی لہک میں، خاروں کی کٹک میں،پتوں کی کھڑک میں،ذروں کی دمک
میں،بادلوں کی کڑک میں ، برسات کے جھرنوں میں الغرض کوہساروں،صحراؤں،دریاؤں
اور سمندروں میں کون و مکاں میں آپ کے پرچے تھے۔ اماں حلیمہ ؓ جب آپؐ کو لے
کر اپنی اونٹنی پر چلتی ہیں تو وہ اونٹنی جو سب سے کمزور اور سست رو تھی
اسے جب آپؐسردار الانبیاء کی سواری کا شرف حاصل ہوا تو اس کا ہیئت ہی بدل
گئی۔ اس کے پاؤں کو زمین کو جیسے چھوتے ہیں نہ تھے یوں محسوس ہوتا تھاکہ
ہوا سے باتیں کررہی ہو۔اہل قافلہ حیران تھے کہ آج حلیمہؓ کی اونٹنی کو
کیاہوگیا۔گھر پہنچنے پر پلانے کیلئے دودھ نہیں۔ جب بکری کے تھنوں سے دودھ
دوہیا گیا تو گھر کاکوئی برتن ایسا نہ تھا جو خالی رہ گیا ہو۔ سبحان اﷲ۔
وجہ تخلیق کائنات ﷺ کی ہر ہر ادا منفرد اور نرالی تھی۔ دانتوں کی چمک ایسی
تھی کہ دور تک ان کی روشنی محسوس ہوتی ۔ لعاب دہن جن کی آنکھوں پر لگا۔
بینائی واپس آگئی اور تاحیات کبھی آنکھیں خراب نہ ہوئیں۔ جس کنویں میں لعاب
ڈالاگیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے میٹھا ہوگیا۔جس برتن کو چھو لیا وہ کبھی خالی
نہ ہوا۔
حسن یوسف، دم عیسی ،ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
معزز قارئین کرام!نبی مکرم احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺ کواﷲ تعالی نے جن تحائف
سے نوازا وہ کسی دوسرے نبی رسول یا پیغمبر کو عطا نہیں کئے گئے یہ بھی شان
فردیت ہے ۔ آپؐ کو ’’الحمدﷲ شریف ‘‘دی گئی یہ دنیا کی کسی اور کتاب میں
نہیں اور نہ کسی اور نبی کو عطا کی گئی۔آپؐ فرماتے ہیں کہ اﷲ جل شانہ نے
مجھے’’ آمین ‘‘دی کسی نبی کو نہیں ملی۔ پریشانی اور دکھ کیلئے ’’انا ﷲ وانا
الیہ راجعون ‘‘دی گئی۔کسی نبی و رسول کو نہ دی گئی۔نماز میں’’ رکوع‘‘ دیا
کسی اور کو عطا نہ ہوا۔مٹی کو میرے لئے ’’پاک ‘‘قرار دیا گیا۔ ’’مال غنیمت
‘‘مجھ پر حلال قرار دیا۔کسی پیغمبر کو نہیں کہا گیا۔جمعۃ لمبارک کا بابرکت
دن عطا کیا گیا۔ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے افضل رات دی گئی یہ سعادت و
تحفہ کسی اور نبی کو نہ ودیعت کیا گیا۔ سورج اور چاند گرہن کیلئے صلوۃ قصوہ
دی گئی۔ مزید دیکھئے کہ آقائے نامدار کی انفرادیت و لاثانیت کہ اﷲ تعالی نے
جب بھی اپنے پیغمبروں بنیوں اور رسولوں کو پکارا ان سے مخاطب ہوئے تو ان کے
نام لے کر ان سے خطاب کیا۔کسی کو یا عیسی کہہ کر پکارا کو کسی کو یا موسی
کہا۔ کسی سے یا زکریا سے مخاطب ہوئے تو کسی کو یا ابراہیم فرمایا۔جب حضرت
نوحؑ سے بات کی تو یا نوح اور شعیبؑ کو یاشعیب کہا۔ مگر کملی والے کی شان
ملاحظہ کیجئے کہ اﷲ تعالی نے آپؐ کو کبھی بھی نام لے یا محمد نہیں
پکارا۔کبھی یسین کہا تو کبھی طہ سے مخاطب ہوئے۔ کہیں یا ایھاالمزمل کہا تو
کہیں یا ایھا المدثر کہہ کر بات کی۔
اسی طرح جب سابقہ امتوں نے اپنے نبیوں پر نعوذ باﷲ الزمات و بہتان لگائے تو
ان سے ا ﷲ تبارک تعالی نے ان کے نام لیکر بات کی اور دلچسپ بات یہ کہ جب ان
الزامات کی تردید کی بات ہوئی تو اﷲ تعالی نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور
پیغمبروں کو فرمایا کہ ان کے الزامات اپنی زبان سے زد کریں۔لیکن جب حبیب
کبریا کی بات آئی تو اﷲ تعالی نے خود آپ ؐ کو تسلی دی اور طعنوں اور
الزامات کو رد کیا۔اﷲ تعالی نے دشمنان نبی سے خود بھی بات کرنا گوارا نہ کی
بلکہ آپ ﷺ کو ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مخاطب کرکے ان کو منہ توڑ جوابات دیئے-
تو !اے اہل اسلام اور پاکستان کے مسلمانوں!اس مبارک موقع پرآپ بھی منفرد
ہونے کا ثبوت دیجئے۔ اپنے اندر صبرو تحمل، بردباری،عجز وانکساری پیدا
کیجئے۔ دوران جلوس احترام آدمیت و انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھیئے۔رحمۃ
العالمین کے اسوہ کو زندہ کیجئے۔ کوئی ایسا عمل نہ کیجئے کہ کسی کی دل
آزاری ہو۔ جلوس کے منتظمین کو بھی چاہئے کہ نوجوان نسل کو کہ جن کے جذبات و
احساسات چھلک رہے ہوتے ہیں کو قابو میں رکھنے کی ہدایت کیجئے۔ چھوٹی چھوٹی
باتوں سے صرف نظر کیجئے۔تاکہ ہم منفرد نبی ﷺ کی انفرادیت و فردیت کے طور پر
پہچانے جاسکیں۔ دوسری طرف انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ جلوس کے روٹس کو
secure کریں۔ رکاوٹیں دور کریں۔ بدانتظامی کو ختم کریں اور جتنا ممکن ہوسکے
نبی آخرالزمان محمد مصطفی ﷺکے چاہنے والوں کیلئے آسانیاں اور سہولیات پیدا
کریں۔ تاکہ یہ بابرکت محافل خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جاسکیں- |