گوجرانوالہ پولیس کے ”شیر جوانوں“،
”معصوموں“ اور اپنے آئی جی کے ”پیاروں“ کا نیا کارنامہ سامنے آیا ہے جو
تمام اخبارات نے شائع کیا ہے کہ باوردی دس پولیس اہلکاروں نے بس سٹاپ پر بس
کے انتظار میں کھڑی خاتون کو اس کے پانچ سالہ بیٹے سمیت اغواء کیا، اسے ایک
ہوٹل میں لیجایا گیا جہاں ہوٹل مالک سمیت تمام پولیس والوں نے اس خاتون کو
رات دو بجے تک اپنی درندگی کا نشانہ بنایا، رات دو بجے کے بعد ایک پولیس
اہلکار اے ایس آئی رانا ادریس اس خاتون کو اپنے ڈیرہ پر لے گیا اور وہاں
مزید پولیس والوں کو دعوت دے کر بلایا اور اس خاتون کو دوبارہ صبح تک
زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ مظلوم خاتون اپنی فریاد لے کر پہلے پولیس کے
پاس گئی جہاں سے اس کو چلتا کر دیا گیا، اسی دوران اس کو کسی نے مشورہ دیا
کہ وہ میڈیا کے پاس جائے، جب پولیس کو اس خاتون کے ایک نجی ٹی وی سے رابطہ
کرنے کا پتہ چلا تو پولیس اہلکاروں سمیت بارہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج
کر لی گئی۔ اے ایس پی کینٹ گوجرانوالہ عصمت اللہ کے مطابق پولیس اہلکاروں
کو معطل کردیا گیا ہے، متاثرہ خاتون کا میڈیکل کرایا جائے گا، اگر زیادتی
ثابت ہوگئی تو سخت کارروائی کی جائے گی، اخباری اطلاعات کے مطابق تین
کانسٹیبلوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ راقم کے گھر کے نزدیک ہی پولیس نے کسی کے
کہنے پر ایک شریف اور معصوم نوجوان کو دن دیہاڑے، بیسویں لوگوں کے سامنے
اندھا دھند فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا اور بعد میں شور مچا دیا کہ
ہم نے ایک ڈاکو مار دیا ہے، جب ارباب اختیار کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی
تو ایک پولیس والے کو گرفتار کر لیا گیا اور بس! راوی نے چین ہی چین لکھنا
شروع کردیا....! ہماری پولیس کی ایسی کارروائیاں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں،
جس پولیس کی تنخواہیں بھی ڈبل سے زیادہ کردی گئی ہیں، جس پولیس کے اے ایس
آئی کی حمایت میں آئی جی صاحب بھی لب کشائی کریں اور جس پولیس کو صوبے کے
چیف جسٹس صاحب بھی ”بلا خوف و خطر کارروائی“ کے لئے فری ہینڈ سے نوازیں، اس
پولیس کے سابقہ کارناموں کی روشنی میں ایسی ہی معرکہ آراء کارروائیوں کی
خبریں ملیں گی۔
جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، صبح سے خبر
پڑھنے کے بعد سے روح پر ایک پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے، دل میں آتا ہے کہ یہ
ملک ہی چھوڑ کر کہیں چلا جاﺅں جہاں ایسے لوگ، ایسے حکمران، ایسی عدالتیں
اور ایسی پولیس کا کوئی وجود نہ ہو، جہاں ایک پانچ سال کے بیٹے کے سامنے اس
کی ماں کے ساتھ ایسی درندگی نہ کی جائے، جہاں قانون کے محافظ، اور جہاں ان
محافظوں کا سپہ سالار کچھ وکلاء کی جانب سے ایک ایسے ہی کردار کے حامل اے
ایس آئی کو چند تھپڑ مارنے پر پریس کانفرنس کرے، جہاں کا میڈیا ایک ظالم،
بدقماش اور اسی طرح ایک لڑکی کو کئی روز تک زیادتی کا نشانہ بنانے والے اے
ایس آئی پر ”بدمعاش“ اور ”غنڈہ“ وکلاء کے ”بہیمانہ“ تشدد کو چالیس پچاس
گھنٹے مسلسل دکھاتا رہے، جہاں کی عوام گونگی اور بہری ہوجائے، جہاں کے
”شریف شہری “ پولیس کے ظلم اس لئے برداشت کر جاتے ہوں کہ وہ پولیس سے دشمنی
مول نہیں لے سکتے، جہاں بزدلی اور شرافت میں کوئی فرق نہ رہ جائے، جہاں کی
سیاسی جماعتیں صرف اپنے ذاتی ایجنڈوں پر کام کریں، وہاں ہم جیسے لوگ دل
جلانے کے علاوہ، لہو پینے کے علاوہ، کڑھنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں؟
میں سوچتا ہوں کہ جب پولیس کے وہ درندے اس خاتوں کو نوچ رہے ہوں گے اور وہ
چیخ رہی ہوگی، دہائیاں دے رہی ہوگی، آج کے کسی محمد بن قاسم کو صدائیں دے
رہی ہوگی اور اس کا معصوم پانچ سالہ بچہ اس کی چیخیں سن رہا ہوگا، اس معصوم
کو تو علم بھی نہ ہوگا کہ اس کی ماں، جس کے قدموں میں اس کی جنت ہے، اس کا
حال ”عوام کی خادم“ پولیس کیا کررہی ہے؟اور جناب ”خادم پنجاب “ صاحب کیا
کررہے ہیں؟ آئی جی پنجاب کو پتہ تو چل ہی گیا ہوگا کہ مذکورہ خاتون کی
درخواست اور دہائی سچ ہے یا جھوٹ، اگر سچ ہے تو کیا پولیس مقابلے صرف
”سول“ڈکیتوں اور زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کے لئے رہ گئے ہیں؟ کیا
اس طرح کے پولیس والوں کے خلاف مقدمات کا ایک روز میں فیصلہ نہیں ہوجانا
چاہئے؟ کیا اس قماش کے پولیس اہلکاروں کو سرعام چوراہوں میں اس وقت تک نہیں
لٹکانا چاہئے جب تک کتے اور چیلیں ان کا گوشت نہ نوچ لیں، کیا ان کو عبرت
کا نشان نہیں بننا چاہئے؟ اور اب ہمارا میڈیا کہاں ہے؟ وہ میڈیا جو ایک بے
غیرت، بے حمیت اور زیادتی کا ارتکاب کرنے والے پولیس اہلکار کو راتوں رات
ہیرو بنانے کی کوشش کرے، اب ان پولیس والوں کے اس مشترکہ جرم کی بابت کیوں
بار بار خبر نشر نہیں کررہا؟
آزاد عدلیہ اگر جاگ رہی ہے؟ اگر اسے PCO اور دیگر معاملات سے کچھ فرصت ملے
تو خدارا اس طرف بھی توجہ دے! خواجہ شریف صاحب بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ
پولیس کے کالے کرتوت کس حد تک بڑھ چکے ہیں۔ وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں
اور چند منٹ میں صحیح رائے بھی قائم کرسکتے ہیں کہ واقعتاً پولیس اہلکاروں
نے ایسا کیا یا نہیں، اگر سب کچھ سچ ہے، اگر ایسا ہوا ہے تو انہیں حکومت سے
جواب طلب کرنا چاہئے کہ کہاں ہے ”گڈ گورننس“، آئی جی صاحب سے بھی جواب طلبی
کرنا چاہئے، اور اگر عزت اور غیرت کا پاس ہو تو آئی جی کو تو آج ہی استعفیٰ
دیدینا چاہئے، وہ ایک اے ایس آئی پر وکلاء کے3/4 تھپڑ برداشت نہ کرنے والا،
سلیم طبع آئی جی یہ واقعہ کیسے برداشت کرپائے گا؟ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ
وہ معصوم پانچ سالہ بچہ جب لڑکپن میں جائے گا، جب جوان ہوگا تو اپنی ماں کی
چیخیں اس کی عمر کے ساتھ ساتھ سفر کریں گی، ہر وقت اس کا پیچھا کریں گی،
اگر اس کو انصاف نہ ملا تو کیا وہ خود انصاف نہیں کرے گا؟ اور اگر وہ خود
اپنی عدالت لگا کر، اپنا انصاف کا پیمانہ لے کر بیٹھ گیا، اگر خود ہی وکیل،
خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن گیا تو اس پہلے سے مسائل میں گھرے ہوئے
معاشرے کا کیا ہوگا؟ کیا آئی جی صاحب سوچنا پسند کریں گے؟ کیا ”خادم پنجاب“
توجہ دیں گے؟ کیا چیف جسٹس صاحب میڈیا وکلاء معاملہ میں وکلاء کی وردیوں کی
بجائے بربریت کا مظاہرہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کی چمڑیاں اتارنے پر توجہ
دیں گے، سو موٹو ایکشن لیں گے؟ یا ایک اور مظلوم کی فریاد، اس کی پکار، اس
کی چیخیں، اس کی دہائیاں فضاء میں پھیل جائیں گی؟ ہوا میں گھومتی رہیں گی؟
اور عرش بریں جا پہنچیں گی، اور میرا اللہ کسی کی فریاد کو رائیگاں نہیں
جانے دیتا، مظلوم کی دہائی براہ راست اس تک پہنچ جاتی ہے اور جب میرا اللہ
انصاف کرے گا پھیر کسی کے پاس وقت نہیں بچے گا.... |