سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیر
معمولی سکون یا ٹھہراؤ کا سامنا ہے یا آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ
سورج سو رہا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کے لیے یہ صورت حال انتہائی حیران
کن ہے اور وہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ سورج پر آنے والے شمسی طوفانوں میں
کمی کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند
یا کم ہو جاتے ہیں دنیا سردی کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔
|
|
اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کا زمین کی سطح یا ’گلوبل
وارمنگ‘ پر کیا اثر ہو گا اس کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔
بی بی سی کی سائنس کی نامہ نگار ربیکا مورل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے
کہ ’شمالی روشنیاں‘ دنیا اور سورج کے درمیان انتہائی قریبی تعلق کی یادہانی
کراتی رہتی ہیں۔
سورج کی شعائیں یا جنھیں ’سولر ونڈز‘ بھی کہا جاتا ہے جب زمین کے اردگرد کے
ماحول سے ٹکراتی ہیں تو شمالی روشنایاں یا ’آرورا بوری ایلس‘ بنتا ہے۔
لیکن خدشہ ہے کہ جلد ہی یہ دلکش اور حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں
گے۔
یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس کی
سطح پر شمسی طوفان تیزی سے تھم رہے ہیں۔
ردر فورڈ اپلیٹن لیباٹری کے پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ جو کچھ
بھی کر لیں ’سولر پیکس‘ میں کمی واقع ہو رہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند
ہونے والے شعلوں سے یہ بات بالکل واضح ہے۔
یونیورسٹی کالج آف لندن کی ڈاکٹر لوسی گرین نے اس صورت حال پر بات کرتے
ہوئے کہا کہ شمسی طوفانوں کے دورانیوں میں کمی ہو رہی ہے اور اس کا مطلب ہے
سورج کی سطح پر جو ارتعاش ہے وہ بھی کم ہو رہا۔
سورج پر ہونے والی حرکت یا ایک مستقل طوفان کی سی کیفیت کی بہت مختلف
نوعیتیں ہوتی ہیں۔ سورج پر پائے جانے والے دھبے بہت زیادہ مقناطیسیت کے
حامل ہوتے ہیں جو زمین سے دیکھیں تو سیاہ دھبوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
سورج کی شعائیں یا بنفشی شعاعیں زمین کی طرف منعکس ہوتی ہیں اور سورج کی
سطح سے اٹھنے والے شعلے اربوں ٹن ’چارج پارٹیکلز‘ یا برقی ذرات خلاء میں
بکھیر دیتے ہیں۔
سورج پر ہونے والا یہ ارتعاش ہر گیارہ برس میں کم اور زیادہ ہوتا ہے۔ یہ
سورج پر ارتعاش کی انتہا یا عروج کا زمانہ ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ’سولر
میکسیمم‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت سورج پر غیر معمولی ٹھراؤ ہے اور وہ
سرگرمی نہیں ہے جو عام طور پر ہونی چاہیے تھی۔
|
|
پروفیسر رچرڈ ہیرسن نے جو تیس سال سے سولر سائنسدان ہیں بتایا کہ انھوں نے
اپنی زندگی میں ایسی صورت حال یا سورج کی سطح پر ٹھہراؤ نہیں دیکھا۔ اگر آپ
ماضی پر نظر ڈالیں تو سو سال قبل اس طرح کی صورت حال پیش آئی تھی۔ انھوں نے
مزید کہا کہ ان سے پہلی کی دو چار نسلوں نے اس طرح کی صورت حال نہیں دیکھی
ہو گی۔
سورج کی سطح پر دھبوں کی تعداد سائنسدانوں کی توقعات سے انتہائی کم ہے اور
سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلے متوقع تعداد سے آدھے ہیں۔
پروفیسر رچرڈ کا کہنا ہے کہ سترہویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح پر
پیدا ہونے والے دھبے غائب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے کرۂ شمالی میں شدید سردی
ہوگئی تھی اور لندن کا دریائے ٹیمز منجمد ہو گیا تھا۔
ربیکا مورل کے مطابق سترہیوں کے اس دور کی پیٹنگز سے پتہ چلتا ہے کہ منجمد
دریائے ٹیمز پر ’سرمائی بازار‘ لگا کرتے ہیں۔ سنہ سولہ سو چوراسی کے معروف
’گریٹ فروسٹ‘ میں دریا دو ماہ تک مسلسل منجمد رہا تھا اور اس پر ایک فٹ
دبیز برف کی تہہ جمی رہی تھی۔
یورپ کی تاریخ کے اس سرد ترین دور کو ’مونڈر منیمیم‘ کا نام اس سائنسدان کے
نام پر دیا گیا تھا جس سے سورج پر ہونے والی سرگرمی میں کمی کا مشاہدہ کیا
تھا۔
مونڈر منیمیم کے دوران صرف دریائے ٹیمز ہی منجمد نہیں ہو گیا تھا بلکہ
بحیرہ بالٹک بھی جم گیا تھا۔ شمالی یورپ میں فصلیں تباہ ہونے لگی تھی اور
قحط آنا شروع ہو گئے تھے۔
سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے آنے والی کئی دہائیوں میں زمین انتہائی
سرد ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر لوسی گرین نے بتایا کہ سنہ 1609 کے بعد سے مستقل سورج کے دھبوں یا اس
پر اٹھنے والے شعلوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور دنیا کے پاس چار سو سال
کے مشاہدات کا ذخیرہ موجود ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سورج کی اس وقت کیفیت اُس ہی قسم کی ہے جو مونڈرم
مینیمم آنے سے پہلے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ سورج پر سرگرمی آہستہ آہستہ کم
ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر لوسی گرین اس بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ اس صورت
حال کا زمین کے موسم پر کس قسم کا اثر پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا سورج سے آنے والے
شعائیں جن میں مختلف قسم کی شعائیں ہوتی ہیں ان کا زمین کے اردگر کے ماحول
پر کیا اثر پڑتا ہے سائنس ابھی اس کا پوری طرح ادراک نہیں کرسکی ہے۔
کچھ سائنسدان تحقیق کی جستجو میں کئی ہزار سال پیچھے چلے گئے ہیں اور انھوں
نے برف کی تہہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں
پائے جاتے تھے۔ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار چڑہاو کا
اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور سائنسدان مائک لویکورتھ جنھوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے ان کا کہنا
ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو
رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ برف کی تہہ اور سورج پر سرگرمی میں واقع ہونے والی کمی کا
مشاہدہ کیا جائے تو بیس سے تیس فیصد تک اس بات کا امکان موجود ہے کہ آئندہ
چالیس برس میں دنیا مونڈر مینیمم کے حالات کا شکار ہو جائے گی۔
سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے کہ سورج سے دنیا پر آنے والی بنفشی
شعائووں میں کمی اور اس وجہ سے ’جیٹ سٹریم‘ متاثر ہو سکتی ہے۔
مائک لویکورتھ کا کہنا ہے کہ جیٹ اسٹریم میں تبدیلی سے شمالی یورپ کو آنے
والی گرم ہوائیں بند ہو سکتی ہیں۔ |