حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے
کہ: ”جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادہ سے (گھر سے) نکلا اور پھر راستے
میں ہی اسے موت آگئی تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے وہی اجر و ثواب لکھ دیا
جاتا ہے جو جہاد، حج اور عمرہ کرنے والوں کے لیے مقرر ہے”۔ (بیہقی)
فائدہ:۔ صدق دل سے جب انسان اللہ تعالٰی کی راہ میں نکل پڑا تو وہ اس عمل
کے اجر کا مستحق ہوگیا، خواہ گھر سے نکلتے ہی موت اس سے وقت عمل چھین لے
اور اسے اس عمل کا موقع نہ دے، بجائے عمل کے اس کا اخلاص ہی اس کے لیے کافی
ہوگیا، اللہ تعالٰی تو لوگوں کے ارادوں اور دلوں کو دیکھتا ہے۔ اس کے یہاں
تو قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے:۔ اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کی نیت سے نکل پڑے، پھر اس کی (راستے میں)
موت آجائے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمہ ہوگیا اور اللہ بڑا بخشنے والا اور
مہربان ہے”۔ (النساء۔100)۔ اس آیت سے بھی اللہ تعالٰی کے کریمانہ دستور و
قانون کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے یہاں نیت کے مطابق اجر و ثواب
ملنے کا یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل
کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ امتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا
واقعہ حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لیے نیکیوں کی ایک بستی
میں جا رہا تھا کہ اسے راستے میں موت آگئی۔ اللہ تعالٰی نے نیکیوں کی بستی
کو بہ نسبت دوسری بستی کے قریب تر کردیا جس کی وجہ سے رحمت کے فرشتے اسے
اپنے ساتھ لے گئے۔ (بخاری)۔
اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے اور راستے میں ہی اسے موت آجائے
تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ضرور ملے گا۔ گو ابھی وہ ہجرت کو پایہ
تکمیل تک بھی نہ پہنچا سکا تھا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا فرمان ہے: ”عملوں کا دارومدار نیت پر ہے اور آدمی کے لیے وہی ہے جس کی
اس نے نیت کی”۔ (بخاری و مسلم)۔ اللہ تعالٰی کا یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر
کام کے لیے ہے۔ یعنی جس کام کو کرتے ہوئے اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی وہ
اگرچہ پایہ تکمیل کو بھی نہ پہنچے لیکن اس کا مقرر کردہ اجر اس بندے کو مل
جائے گا۔ اس کے برعکس اگرچہ کوئی عمل مکمل ہی کرلیا جائے۔ لیکن اس میں اللہ
تعالٰی کی رضا پیش نظر نہ ہو بلکہ نمودونمائش یا کسی بندے کو دکھانا مطلوب
ہو تو وہ اللہ تعالٰی کے ہاں عذاب کا باعث بنے گا۔ ایک اور حدیث میں قیامت
کے دن کا عام اصول یہ بتایا گیا ہے کہ: ”جس شخص کو جس چیز اور جس عمل پر
موت آئے گی وہ قیامت کے دن وہی کرتا ہوا اٹھے گا”۔ (مسند احمد) ایک اور
حدیث میں کچھ اس طرح آتا ہے کہ: ”جو کوئی احرام کی حالت میں انتقال کر جائے
گا تو قیامت کے دن اسی حالت میں تلبیہ کہتا ہوا اٹھایا جائے گا”۔ اس لیے
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو کوئی نیک عمل کرتے ہوئے دنیا سے چلے جائیں۔ اللہ
تعالٰی تمام مسلمانوں کو حسن خاتمہ نصیب فرمائے۔ آمین۔ |