پہلے زمانے میں کیا ہوتا تھا اور آئندہ کیا ہوگا ؟

۷۸۶

وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں ہر چیز ایڈوانس ہوتی جارہی ہے اسی طرح بہت سے قدیم نام بھی ایڈوانس یعنی جدید ہوتے جارہے ہیں۔ آج سے سا لوں پہلے کے بچے اپنے باپ کو ابا اور ماں کو اماں کہتے تھے۔ پھر ایک زمانہ آیاکہ ابو اور امی کہا جانے لگا، پھر پاپا، ماما، پھربابا، ماما اور پھر یہ ڈیڈی، ممی اور مام، ڈیڈ ہو گئے ۔ ہم سوچتے ہیں کہ جس تیزی سے یہ نام تبدیل ہو رہے ہیں تو آئندہ دس بیس سال بعد یہ نام مزید مختصر اور جدید ہو کر کہیں پپی ، ممی، بابی، مامی، ڈے، مو،مام، ڈی، ہی نہ ہو جائیں۔

اسی طرح پرانے زمانے میں دولہا گھوڑے پر بیٹھ کر دلہن بیاہنے آتا تھا، اور ڈولی یا تانگے پر دلہن لیکر جاتا تھا ۔ کیا آج کے دور میں ایسا ممکن ہے؟؟۔ پرانے زمانے کی دلہنیں اپنے اصلی شوہر نامدار، مجازی خدا سے بھی عرصہء دراز تک پردہ اور گھونگھٹ کرتی تھیں۔ کیا آجکل ایسے ممکن ہے؟؟۔پرانے زمانے کے عاشق اپنی محبوبہ کو خطوط بھیج کر اسکے جواب میں بوڑھے ہو جاتے تھے۔ جب تلک محبوب کو محبوبہ کا جواب ملتا تھا، محبوبہ کسی اور کو مل جاتی تھی!کیا آجکل موبائل اور ایس ایم ایس کے زمانے میں ایسا ممکن ہے؟ پرانے زمانے کی عورتیں اپنے شوہر کو منے کے ابا۔۔۔ یا فلاں کے ابا کہہ کر پکارتی تھیں، پر آجکل تو بیویاں اپنے شوہروں کو نام کے ساتھ گالی دیکر بلاتی ہیں!۔پرانے زمانے کے ہیرو بالوں میں سرسوں کا تیل چپڑ تے تھے اور ہیروئن چوٹی باندھے ، گجرے لٹکائے، کاجل کے ڈورے مٹکائے ہوتی تھی۔ کیا آجکل کے کنٹیکٹ لینز کے دور میں یہ ممکن ہے؟؟

اسی طرح لوگوں کے پرانے نام بھی وقت کے ساتھ ساتھ جدید ہوتے جارہے ہیں۔ مثلا: پہلے آدمیوں کے نام: اﷲ ڈتہ، اﷲ رکھا، اﷲ وسایا، اﷲ ڈوایا، اسی طرح خواتین کے نام بھی : اﷲ رکھی، اﷲ ڈوائی، اﷲ ڈتی، تاجن بی بی، ظہورن بی بی، صغراں مائی وغیرہ ہوتے تھے۔ مگر آجکل یہ نام بلکل ناپید ہیں اور انکی جگہ نئے ناموں نے لے لی ہے۔ اگر آج کے دور میں آپ کسی خاتون کا نام مذکورہ ناموں پر رکھ دیں، یا پکار لیں تو جوتا لیکر پیچھے پے جا ئے۔ لہذا محتاط رہیے گا۔پرانے زمانے میں کسی آدمی کا نام عمران خان، وسیم اکرم، وقار خان وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہی کوئی پنکی، ڈولی، مانو، وغیرہ پائی جاتی تھیں۔

بات پرانے زمانے کی اور چیزوں کی ہو رہی ہے تو پہلے زمانے میں ایک ہاتھ والا پنکھا بڑے سے موٹے کپڑے کی شکل میں ایک بانس میں لگا چھت میں لٹکا ہوتا تھا جسے پورے ہاتھ میں رسی پکڑ کر چلایا اور ہلایا جاتا تھااور یہ پورے کمرے میں ہوا دیتا تھا۔ آجکل کے لوڈ شیڈنگ کے زمانے میں اگر اسطرح کا ایک پنکھا ایک کمرے میں لگا لیا جائے تو کمرے بھر کے لیے کا فی ہے۔ اسکے چلانے کا طریقہ واردات ایسا ہوتا تھا کہ اسکی رسی کو پکڑ کر ہلاتے رہیں، سوتے رہیں اور سوتے میں بھی رسی ہاتھ میں پکڑکر سویا جاتا تھا اور وہ دری ٹائپ کا کپڑا ہل ہل کرپورے کمرے میں ہوا دے رہا ہوتا تھا۔ذرا آنے والی گرمیوں میں یہ طریقہ آزما کر تو دیکھیں!

اسی طرح کچن آئٹم کی ایک ضروری چیزپھکنی ہوتی تھی، جس سے لکڑیوں کے چولھے میں ہوا دینے، بادام توڑنے، میاں کا سر پھوڑنے ، یا بیگم کا بازو توڑنے کا کام لیا جاتا تھا۔ مگر یہ اوزار صرف لکڑیوں والے چولھے پر کام کرتا تھا، اب گیس والے چولھے آنے سے ا سکے منفی اور مثبت دونوں کردار ختم ہو چکے ہیں۔ شاید کسی بندے نے اس چیز کو انٹیق کے طور پر رکھا ہو تو پتہ نہیں۔ اسی طرح ایک شے لوہے کا ایک بالٹی ٹائپ امام دستا بھی ہوتا تھااور ساتھ میں اسکا ہتھوڑا ٹائپ ڈنڈا کوٹنے کے لیے۔ گھنٹوں کچن آئیٹم کو کوٹتے کوٹتے محلے والے بھی اسکی ٹک ٹک سے تنگ آ کر تھانے میں شکایت درج کرا دیتے تھے۔ آجکل اسکی جگہ گرائنڈر نے لے لی ہے اور منٹوں میں چیزوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔اسلیے اب اسکی اہمیت نہیں رہی۔ ہاں البتہ پرانے دیگیں پکانے والے نائی حضرات ابھی بھی لہسن ادرک اور دیگر مصالحہ جات وغیرہ کوٹنے کے لیے اسی انٹیق شے کا استعمال کرتے ہیں ، کہ اسکے کٹے مصالحوں کا ذائقہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ ویسے اسکا دستہ ایمرجنسی میں کہیں لڑائی ، مار کٹائی میں بھی کام آ سکتا ہے۔ بیگم کا سر پھو ڑتے خیال رہے کہ خون نہ نکلے کہ دفعہ 302 بھی لگ سکتی ہے!۔

پرانے زمانے میں خواتین رنگ برنگی چوٹیوں کا بھر پور استعمال کرتی تھیں جسے پراندہ اور گت بھی کہا جاتا تھا۔ روزانہ بالوں کو سنوارنا اور اسکی چوٹی بنانا یا بنوانا، سرسوں کا تیل چپڑنا بھی ایک ضروری کام میں شامل ہوتا تھا۔ اسوقت اگر میاں بیوی کی ناراضگی ہوتی تھی تو وہ بچے گھر میں رکھ کر بیوی کو چوٹی سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیتا تھا۔ مگر آجکل ہاتھ سے پکڑ کر یا دھکے دیکر نکالا جاتا ہے کیونکہ آجکل کی پر کٹی لڑکیا ان چوٹی سی چیزوں سے نا بلد ہیں اور انکے اتنے بال ہی نہیں ہوتے کہ انہیں چوٹی کی جائے، نہ ہی اتنے ہوتے ہیں کہ انہیں ہاتھ میں پکڑا جائے۔ ان مٹھی بھر بالوں میں تو پونی بھی مشکل سے لگتی ہے۔پچھلے زمانے میں بیوی بیچاری کو سجنے سنورنے کے لیے ایک تبت کریم ہی کافی ہوتی تھی۔ آج کے زمانے کی عورت پوری میک اپ کٹ منہ پر تھوپے تو تب جاکر کہیں دیکھنے والی شکل نکلتی ہے!

پہلے زمانے میں فریج وغیرہ نہیں تھے اور لوگ مٹی کے کورے گھڑے گھروں میں رکھ کر انکا ٹھنڈا پانی پیتے تھے اور صحتمند رہتے تھے۔ بلکہ پہلے زمانے میں تو لوگوں نے لیٹرینوں میں بھی یہی کچے گھڑے رکھے ہوتے تھے کہ حسبِ ضرورت پانی لو اور استعمال کرو۔ آجکل اسکی جگہ فریج اور ڈیپ فریزر نے لے لی ہے۔ اب کسی کو گھڑے کا پانی استعمال کرنے کا کہوتو ڈنڈا اٹھا کر پیچھے لگ جائے۔ حالانکہ سائنس نے اسکی افادیت ثابت کر دی ہے، مگر پھر بھی لوگ فریج کی جان نہیں چھوڑتے۔ باسی کھاتے پیتے اور بیمار شیمار رہتے ہیں۔پرانے زمانے کی ایک بات اور یاد آئی کہ اس زمانے میں لیٹرینیں گھر سے کوسوں دور بنائی جاتی تھیں اور رفع حاجت کے لیے ہر کوئی لوٹا اٹھائے پیٹ پر ہاتھ رکھے کھیتوں کی طرف بھاگ رہا ہوتا تھا۔ پھر یہ لیٹرین گھر کے قریب ہوتی ہوتی، قریب کے خالی پلاٹ میں آگئی، پھر گھر میں داخل ہوئی اور اسے چھت پر بنادیا گیا، پھر گھر کی چار دیواری میں کسی کونے کھدرے میں آئی، نکاسئی آب کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے جمعدار یا بھنگی دن بھر کا مال مواد۔۔۔۔۔ کسی ٹوکرے میں ڈال کر سر پراٹھا لیجاتا تھا۔۔ کیسا!۔۔ چھی چھی چھی۔۔۔ پھر جدید دور آیا اور انگریزوں کی دیکھا دیکھی یہی لیٹرین گٹر سسٹم کے ساتھ اٹیچ باتھ کی شکل میں بیڈروم کے ساتھ ہی چپک گئی۔

پہلے زمانے کے کھیلوں میں گولیاں کھیلنا جسے چیدے بھی کہتے تھے ، بہت کھیلے جاتے تھے۔ اسکے علاوہ لٹو چلانا اور انکا مقابلہ کرنا، بندر کِلا،پٹھو گرم،چور سپاہی، چھپن چھپائی، پرانی سگریٹ اور ماچس کی ڈبیوں کے تاش بناکر انسے کھیلنا بھی پرانے لوگوں کے مشاغل میں شامل تھا۔ اسکے علاوہ لڈو اور جہاں بیٹھے وہیں لکیریں ڈال کر نو گوٹی یا بارہ گوٹی کھیلنا بھی انکے مشاغل میں شامل ہوتا تھا، یہ کھیل شطرنج سے ملتا جلتا ہو تا تھا۔ مذکورہ کھیل پر شرطیں اور پیسے بھی لگائے جاتے تھے۔ اسی طرح پرانے زمانے میں بچے کچی مٹی کے گھروندے بنا کر بھی کھیلتے تھے ، پر آجکل کے بچے موبائل یا ریوالور سے کھیلتے اور بات کر تے ہیں۔

پرانے زمانے میں آٹا ہاتھ والی چکی پر گھر میں پیساجاتا تھا۔ پانی کے لیے خواتین بیچاری نلکا گیڑ گیڑ تھک جاتی تھیں یا کنوؤں سے بھر کر لاتی تھیں ۔ برتن اور کپڑے ہاتھ سے نلکے پر یا کنوے پر دھلتے تھے۔روٹی ، ہانڈی لکڑیوں والے چولہے یا اوپلوں پر ہوتی تھی، خواتین کام کر کرکے سمارٹ اور صحت مند رہتی تھیں۔ آجکل آسائشوں کا دور ہے، خواتین محنت کر تی نہیں۔ ہر چیز آٹو میٹک۔ اوین میں چیزرکھی منٹوں میں تیار بیکنگ مشین میں آٹا ڈالا روٹی پک کر تیار۔ پر ہڈ حرامی کی وجہ سے خاتونِ خانہ خود کئی بیماریوں کا شکار ۔غرضیکہ پرانی تو بہت سی باتیں اور چیزیں کہ لکھنے پر آئیں تو ہزاروں صفحات بھر جائیں۔ میرا خیال ہے کہ بس اتنا ہی کافی ہے۔

اب میرے ساتھ ساتھ آپ بھی آئندہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچیں کہ جب ، اب کی ہر شے پرانی ہو جائیگی اور اس موبائل فون، ہوائی جہاز ، خلائی شٹل اور کمپیو ٹر وغیرہ کو لوگ حقارت کی نظر سے دیکھ کرانہیں پرانے زمانے کی چیز کہا کریں گے۔ تو سوچیے آئندہ آنے والا زمانہ کیسا ہوگاکہ جب ہوائی جہاز کی بجائے لیزر کی شعاؤں سے انسان سیکنڈوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جایا کریگا ۔ چاند پر جانے کے لیے ہر ملک سے ہر گھنٹے بعد فلائٹ ملیگی اور لوگ پکنک منانے اور چھٹیاں گزارنے چاند پر جایا کریں گے۔ کئی دوسری دنیائیں دریافت ہو چکی ہونگی اور وہاں سے پیاری پیاری سی چھوکریاں امپورٹ ہو رہی ہونگی۔ انکی زبان سکھانے والے ادارے کھل چکے ہونگے۔ ا نسانوں کی فوٹو اسٹیٹ کاپی بازار میں عام ہوگی اور بے اولاد جوڑے آلو پیاز ٹماٹر کی طرح بازار سے اپنی پسند اور نسل کے بچے بآسانی خریدا کریں گے۔بلکہ شاہ رخ خان اور گوری کی طرح ، نو ماہ کی شدید تکلیف بھگتنے کی بجائے شاید بیگمات بچے جننا بلکل ہی چھوڑ دیں، دوسروں کی کوکھ میں پلے پلائے بچے خریدنے کا رحجان عام ہو چکا ہوگا۔دوزخ میں موجود بیوی موبائل فون پر رو رو کر زمین پر موجود شوہر کو اپنا حال سنا رہی ہوگی۔ٹی وی چینلز کو دوزخ سے خواتین کی آہو بکا کی لائیو کوریج کی اجازت ہوگی۔ انسانی جسم کے سپیئر پارٹس یعنی ہر حصہ تبدیل ہونے کے لیے بازار میں عام دستیاب ہوگا۔انسان کی خوراک سمٹ کر ایک وٹامن کی گولی میں تبدیل ہو جائیگی۔شوہر اپنی بیوی کو اپنی پسندیدہ شخصیت، یعنی کسی بھی اداکارہ ، گلوکارہ وغیرہ کی شکل میں بآسانی تبدیل کر کے مزے لوٹا کریگا۔بیس بیس سال پڑھ لکھ کرڈاکٹر ، انجینئر بننے کی بجائے تمام مواد ایک چپ کی صورت میں انسانی دماغ میں لگا دیا جائیگا اور ڈاکٹر ، انجینئر تیار۔ خون کے ایک ٹیسٹ سے تمام بیماریوں کا پتہ لگ جایا کریگا۔ اور سب سے بڑی ایجاد یہ کہ عورت کے دماغ کو درست رکھنے اور اسے انگلیوں پر نچانے والا آلہ بھی ایجاد ہو چکا ہوگا!مگر ٹھہریے! یہ آخری ایجاد مجھے کچھ خام خیالی سی لگتی ہے کہ انسان کے ارتقاء سے اب تلک تو اس مخلوق کے دماغی توازن کو درست رکھنے کی کوئی چیز ایجاد نہ ہوئی، تو کیا آئندہ یہ ممکن ہے؟؟؟؟ بتایئے گا ضرور۔۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234181 views self motivated, self made persons.. View More