ایک ہی راستہ

جمہوریت یا آمریت دوستی

پاکستان مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ایک بار پھر اس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ چلایا جائے، دبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنا ملک دشمنی ہے، مشرف کیخلاف کارروائی کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنا ان کا دفاع کرنے کے برابر ہے، میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ 62 برسوں میں ملک پر 33 سال آمریت کا راج رہا، ہر آمر نے ہمیشہ عدلیہ کو نشانہ بنایا، حکومت آج آمریت کی نشانیاں ختم کرنے کی طرف توجہ دینے کے بجائے ان کو تقویت دی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ 31 جولائی2009 کا دن ہماری تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، جب ایک ڈکٹیٹر کے اقدام کو آئین اور قانون کیخلاف قرار دیا گیا، اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روح کے مطابق عمل کیا گیا تو آمریت کا دروازہ ملک میں ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا، نواز شریف کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود اگر حکومت حرکت میں نہیں آتی اور آئین کا دوبارہ گلا گھونٹنے والے ڈکٹیٹر کو کٹہرے میں نہیں لاتی تو یہ آئین اور جمہوریت سے دشمنی اور آمریت سے دوستی ہوگی۔

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے بھی اسی مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لئے تحریک لائے گی، جس پر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد سامنے لائے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی غریب آدمی کسی معمولی جرم کا مرتکب ہو تو اس کیلئے تو قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے لیکن ایک ایسا ڈکٹیٹر جو آئین توڑ کر اس ملک اور عوام کے مقدر کو اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اسے مکمل پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے اور اسے قرار واقعی سزا دینے میں حکومت متفقہ قرار داد لانے کا مطالبہ کرتی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ 18فروری کے انتخابات نے ایک ایسی پارلیمنٹ کو جنم دیا تھا، جس کے حوالے سے عوام کو امید تھی کہ منتخب نمائندے وہ فیصلے صادر کریں گے، جو ملک کے استحکام اور عوام کی امنگوں کے ترجمان ہوں گے، لیکن بدقسمتی سے حکمران جماعت اپنے اتحادیوں سمیت اب تک پارلیمنٹ کو خود مختار بنانے میں اس وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی کہ آئین میں وہ سابقہ آمرانہ ترامیم اب تک موجود ہیں جن کے سوتے ایوان صدر سے پھوٹتے ہیں اور جن کے سہارے ایک ڈکٹیٹر نے آئین کا حلیہ بگاڑ کر ملک کے آئین کو ایوان صدر کے زیر نگیں کردیا تھا۔

اس وقت پارلیمنٹ میں حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ 17ویں ترمیم اور اٹھاون ٹو بی کا خاتمے کے بغیر جمہوریت کی گاڑی کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہے، لیکن اس حقیقت کے ادراک کے باوجود پونے دو سال گزرنے کے بعد بھی ان آمرانہ ترامیم کا موجود ہونا ایک ایسا سربستہ راز ہے جس کے کھلنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے، جبکہ حکمران جماعت میں وزیراعظم سمیت تمام مقتدر شخصیات بار ہا اس عزم کا اظہار کرچکی ہیں کہ جلد ہی ان ترامیم کا خاتمہ کردیا جائے گا، لیکن افسوس کہ جلد ازجلد ان ترامیم کے خاتمے کیلئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کے بجائے کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے اس اہم کام کو لٹکایا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اب عوام بھی موجودہ حکومت کو گزشتہ حکومت کا تسلسل قرار دینے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔

دوسری طرف پارلیمنٹ کا ہر فیصلے کے لیے بظاہر ایوان صدر کی طرف دیکھنا، جن شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے وہ نہ صرف پارلیمنٹ کے لیے بلکہ ایوان صدر کے لیے بھی کوئی مستحسن عمل نہیں ہے، گزشتہ دنوں حکمران جماعت کی سیکرٹری اطلاعات کا ٹی وی مذاکرے میں یہ بیان بھی جمہوریت پسند حلقوں کیلئے خاصہ حیران کن تھا کہ ہماری جماعت ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر میں اختیارات کا توازن چاہتی ہے، چنانچہ ان حالات میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ان ترامیم کے جلد خاتمے کے لیے مثبت اور ٹھوس منصوبہ بندی کرے کیونکہ پارلیمنٹ میں ان آمرانہ ترامیم کے حمایت میں ایک بھی سیاسی جماعت نظر نہیں آتی۔

اس لیے یہ کہنا کہ شاید اکثریت دستیاب نہیں ہوگی، ایک بے معنی سی بات ہوکر رہ جاتی ہے، صرف دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) ہی اگر ان ترامیم کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کرلے تو جمہوریت کے مستقبل کو مستحکم کرنے والی ان ترامیم کو ختم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کیلئے دفن کرتے ہوئے عدلیہ کے اجلے دامن پر لگے داغوں کو مٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج پاکستان کو 60 سالوں کی صبر آزما آزمائش کے بعد ایسی عدلیہ میسر آئی ہے جس کی بدولت پاکستان دنیا کے سامنے اپنا سر فخر سے بلند کرسکتا ہے، بلاشبہ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے جو اصولی مؤقف اپنایا ہے وہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، کیونکہ انصاف کا تقاضا یہ کہتا ہے کہ انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور انصاف ایسا ہو جو نظر بھی آئے۔

اعلیٰ عدلیہ نے فیصلوں کے معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کا جو عزم ظاہر کیا ہے، معزز عدلیہ نے اس کام کا آغاز اپنی خود احتسابی سے کیا ہے،76پی سی او ججوں کو فارغ کرنا اور ماتحت عدالتوں کے کرپشن میں ملوث ججوں کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز اس کا بات کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد مشرف کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوتا جارہا ہے، جبکہ لندن میں اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر جرائم جن میں 12مئی، اکبر بگٹی کا قتل اور سانحہ لال مسجد شامل ہیں اور پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کر کے انہیں عقوبت خانوں میں پہنچانے اور عافیہ صدیقی جیسے بے شمار بے گناہوں کو امریکی استعمار کے حوالے کرنے جیسے جرائم کی طویل فہرست ہے، برطانوی عدالتوں میں کیس چلانے کی تیاریاں جاری ہیں، جبکہ حکومت کی طرف سے بھی مشرف کے خلاف آرٹیکل 6اور 244 کے تحت مقدمہ چلانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔

دوسری طرف اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کا بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی سادہ اکثریتی قرارداد سے سابق صدر پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، درحقیقت اس وقت صرف پرویز مشرف کے ٹرائل کا کیس ہی نہیں پارلیمنٹ کے ذمہ سپریم کورٹ نے ایسے 37آرڈیننس بھی لگائے ہیں جن پر پارلیمنٹ کو 120روز میں فیصلہ کرنا ہے یہ تمام آرڈیننس سابق آمرانہ دور کی سیاہ نشانیاں ہیں، حالیہ تاریخی فیصلے کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے جس میں سابق آمر مشرف کے 3نومبر کے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیدیا گیا تھا۔

اب جبکہ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے ایک یادگار تاریخی اور متوازن فیصلہ سنایا اور سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے جنرل پرویز مشرف کے ان اقدامات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو امتحان میں ڈال دیا ہے، سے ثابت ہوتاہے کہ مشرف نے آئین کی پامالی کے مرتکب ہوئے ہیں ، ایسے میں ایک آئین توڑنے والے شخص کو12رکنی سکیورٹی فوجی ٹیم کی فراہمی نہ صرف فوجی قواعد وضوابط کے خلاف ورزی ہے بلکہ قومی خزانے پر بھی بوجھ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قواعد وضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے سابق آمر کو دیا گیا پروٹوکول فی الفور واپس لے ۔

یہ حقیقت ہے کہ 1973 کا آئین جو قوم کے منتخب نمائندوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے تیار کیا تھا، اس آئین میں ترمیم اور اضافے کا اختیار صرف منتخب پارلیمنٹ کو ہے، یہ آئین پارلیمنٹ کے پاس قوم کی ایک مقدس امانت ہے، ایک ایسا شخص جس نے 12 اکتوبر 1999 میں اور پھر 3 نومبر 2007 کو دو دفعہ اس مقدس امانت میں خیانت کی ہو، قوم کے منتخب نمائندوں کی امانت کو دو دفعہ پیروں تلے روندھا ہو، دو دفعہ آئین کی بے حرمتی کی ہو۔

سوال یہ ہے کہ ایسے مجرم کو سزا کون دے گا، جناب وزیر اعظم کے بقول اب پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے گی، کیا واقعی پاکستان کی پارلیمنٹ میں اتنی غیور ہے کہ وہ 17 کروڑ عوام کی امانت میں خیانت کرنے والے شخص کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر سکے گی، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق تو گزر چکے ہیں لیکن 12اکتوبر 1999کا مجرم ابھی زندہ ہے، اگر آج اس کو سزا نہ ملی تو پھر آئندہ کیسے کسی طالع آزما کا راستہ روکا جا سکے گا، عوام حکومتی اقدامات کے منتظر ہیں، آج جب ایک طویل آمریت کے بعد اس ملک کی لاچار عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے منتخب نمائندوں کو پارلیمنٹ میں پہنچا دیا ہے، تو یہ سوال بڑے زور وشور سے اٹھ رہا ہے کہ کیا پارلیمنٹ بااختیار اور آزادانہ فیصلے کرنے کی مجاز ہے ؟اور کیا ہماری جمہوری حکومت ان سنگین جرائم پر سابق آمر کا احتساب کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے؟

وزیراعظم نے” متفقہ“ قرار داد کی”پخ “ لگا کر ویسے ہی اس کام کو ناممکنات کی جانب دھکیل دیا ہے کیونکہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم مشرف کے خلاف کسی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرچکی ہیں، جس کی وجہ سے مشرف کیخلاف کاروائی بظاہر مشکل نظر آرہی ہے، لیکن اگر عوام سے رائے لی جائے تو عوام کی ایک بڑی اکثریت مشرف کو کٹہرے میں لانے کی حامی ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے ساری جمہوری قوتیں سابق آمر کو کڑے احتساب سے گزارنے کی تگ و دو کریں تاکہ آئندہ کوئی ڈکٹیٹر اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے باز رہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بنیادی مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ جب کوئی بڑا قانون کو توڑتا ہے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے لیکن جب کوئی عام آدمی قانون توڑتا ہے تو اسے سزا دی جاتی ہے، جنرل پرویز مشرف ایک قومی مجرم ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ حکومت ایک آمر کو اسکے گناہوں کی سزا دینے سے گریز کر رہی ہے، اور ہمارے حکمران آئین کے آرٹیکل نمبر 6 پر بھی عمل کرنے کو تیار نظر نہیں آتے، جبکہ اس کے برخلاف آمروں کو جب بھی موقع ملا انہوں نے مقبول لیڈروں کو ملک بدر کرنے، پھانسی دینے اور شہید کرنے سے گریز نہیں کیا، پیپلز پارٹی ایک جمہوری، نظریاتی اور ایک انقلابی جماعت ہے جس نے اس قوم کو پہلا متفقہ آئین دیا، پیپلز پارٹی کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی اس بات کی متقاضی ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کو اسکے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کیونکہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہے، فیصلہ حکومت نے نہیں بلکہ عدالت نے دینا ہے پھر بھی حکومت پس و پیش کا شکار ہے، جس کی وجہ وہ شخص ہے جس نے پاکستان اور اس کے عوام کو تباہی و بربادی کے کنارے تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، آزادانہ سابق صدر کے مکمل پروٹوکول کے ساتھ باہر ملکوں میں گھوم کر ہماری بے چارگی اور بے بسی کا مذاق اڑا رہا ہے۔

جبکہ عوام کی تائید و حمایت سے منتخب پارلیمنٹ ابھی تک اس بحث میں پھنسی ہوئی ہے کہ اس کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے یا نہیں، اس حالات میں میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر پارلیمنٹ یہ کام نہ کرسکی تو پھر کوئی اور کرے گا، مارشل لاء آتے رہیں گے اور عوام یونہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے، آج اگر پارلیمنٹ کو یہ زعم ہے کہ وہ ربر سٹیمپ نہیں بلکہ ایک سپریم ادارہ ہے تو مشرف کے بارے میں فوری فیصلہ کرے ورنہ اس کے سپریم اور بالادست ہونے کے تمام دعوے ہواﺅں میں بکھر جائیں گے اور موجودہ پارلیمنٹ بھی ماضی کا حصہ بن جائے گی۔

اس وقت عوام کی نظریں اپنے منتخب نمائندوں پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کب انہیں اندھیروں اور تباہی کے راستے پر ڈالنے اور امریکی خوشنودی کی خاطر ملک کو دہشتگردی کی نام نہاد جنگ میں جھونکنے والے آمر پرویز مشرف کا محاسبہ کرتے ہیں، عوام کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ قومی مجرم کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں، اس صورتحال میں کہ جبکہ اعلیٰ عدلیہ اس کے جاری کردہ آرڈیننسوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے پر ٹائم فریم دے چکی ہے اور وقت کو متعین کرتے ہی الٹی گنتی شروع ہو جاتی ہے، اب عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کے علاوہ پارلیمنٹ کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں۔

حالات بتارہے ہیں کہ پرویز مشرف کیلئے پاکستان اور برطانیہ دونوں ممالک میں برا وقت شروع ہوچکا ہے، اس بار اگر ہماری پارلیمنٹ ایک طالع آزما کو انجام سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر آمریت کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا، ورنہ چوہدری شجاعت کے بقول مارشل لاء کے لیے ایک جیپ اور دو ٹرکوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اگر جمہوری ادارے ٹھان لیں تو پھر آمریت کا راستہ ہمیشہ کے لیے روکا جا سکتا ہے، اگر اٹلی اور برطانیہ کے آمروں کو قبروں سے نکال کر نشان عبرت بنایا جاسکتا ہے، تو پھر پاکستان میں کیا امر مانع ہے کہ ایک آمر اور قومی مجرم کو نشان عبرت نہ بنایا جاسکے ؟

چنانچہ موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران جماعت شہیدوں کے مشن کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ آمروں کے احتساب میں بھی سنجیدگی اختیار کرے، اور ان عناصر کے خلاف بھی سخت کاروائی کرے جو آمریت کی باقیات اور جمہوریت کیلئے سنگین خطرہ ہیں، یاد رکھئے آج ملک میں جمہوریت کا استحکام اور جمہوری اداروں کی مضبوطی اور مستقبل میں جمہوری اداروں کو طالع آزماؤں کی مہم جوئی سے بچانے کیلئے عزم، حوصلہ اور جرات مندی کی شدید ضرورت ہے، اس وقت پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ عوام کی عدالت میں کھڑی ہے عوام اسکی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ جمہوریت اور آمریت دوستی میں سے کس راستے کا انتخاب کرتی ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358565 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More