سانحہ گوجرہ : اصل حقائق

اکتیس جولائی کو صوبہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ کے علاقے کوریاں میں چک پچانوے میں ہونے والے فسادات نے خونی رنگ اختیار کرلیا۔ اور اس افسوسناک واقعے میں آٹھ انسانی جانیں ضائع ہوئیں، اور تیس کے قریب گھروں کو نذر آتش کردیا گیا۔ تمام ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے ان واقعات کی مذمت کی ہے اور ان فسادات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

لیکن اس واقعہ کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس واقعے کی آڑ کی میں توہین رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کو ختم کرنے کی یا اس میں ترمیم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑی افسوس ناک بات ہے کہ تمام ہی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے فسادات میں ملوث افراد کو تو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس واقعہ کے مرکزی کرداروں یا فساد کی جڑ کی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ ہمارا اشارہ اس طرف ہے کہ اصل مجرمان جنہوں نے توہین قرآن کی تھی ان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہوں یا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ رحمان ملک ہوں یا قمر زمان کائرہ، یا سیاسی و مذہبی تنظیموں کے سربراہان، سب کی تان اس بات پر ٹوٹی ہے کہ “ اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور مجرمان کو کڑی سزا دی جائے۔ “ دیکھیں اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جن لوگوں نے بھی انسانی جان لی ہے ان کو سزا دی جانی چاہئے وہ کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ لیکن توہین قرآن مجرم کہاں گئے؟

ہوا یہ کہ اس سارے ہنگامے، سارے ہائو ہو میں اصل بات دبا دی گئی اور یہاں تک کہا گیا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ جبکہ عینی شاہدین کے مطابق “ چک پچانوے ج ب کے رہائشی طاب مسیح کے بیٹی کی شادی کے سلسلے میں مہندی کی تقریب جاری تھی اس میں لوگ باگ نوٹ نچھاور کررہے تھے۔ اس دوران طالب مسیح کے بارہ سالہ بیٹے نے پانج پانج کے نوٹ لٹانا شروع کیے تو ان نوٹوں کے درمیان کچھ کاغذات بھی تھے جن پر عربی میں کچھ لکھا ہوا تھا، جب وہاں موجود مسلمان بچوں کی ان کاغذ کے ٹکڑوں پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ تو قرآن پاک کے اوراق ہیں، اور ان بچوں نے اس جانب دوسرے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی، جس کے بعد وہاں جھگڑا شروع ہوگیا اور عیسائی افراد نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف انتہائی سخت اور توہین آمیز زبان استعمال کی۔ بچوں نے یہ بات دیگر لوگوں کو جاکر بتائی تو ماحول میں کشیدگی پھیل گئی اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا گیا۔ لیکن پولیس نے بروقت مداخلت کر کے معاملہ سنبھال لیا۔ اس دوران اعلان کیا گیا کہ اگلے روز یعنی ہفتے کو ہڑتال کی جائے گی۔ ہڑتال والے روز سنی تحریک نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا اور جلسے کے بعد احتجاجی جلوس نکالا گیا یہ جلوس جب ریلوے لائن کے قریب واقع عیسائی آبادی کے پاس پہنچا تو کرسچن بستی کی جانب سے اس جلوس پر فائرنگ کی گی۔ جس میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ جس کے بعد یہ علاقہ میدان جنگ بن گیا اور بعد میں یہ تصادم خونی فسادات میں تبدیل ہوا۔ جس میں مسلمانوں کی جانب سے عیسائی آبادی کے گھر جلائے گئے اور ان کے افراد کو قتل کیا گیا۔

یہ اس واقعہ کا پس منظر ہے، اس کا جائزہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اول تو توہین قرآن کا واقعہ حقیقتاً پیش آیا، اور دوسرا یہ کہ تصادم کا آغاز مسلمانوں کے بجائے عیسائی بھائیوں کی جانب سے ہوا۔ کہا یہ گیا کہ توہین قرآن کا واقعہ پیش ہی نہیں آیا بلکہ اس کی جھوٹی افواہ پھیلائی گئی تھی۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ثناء نیوز کے مطابق اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی انیجئر شہزاد نے تسلیم کیا کہ گوجرہ میں قرآن پاک کے مقدس اوراق کاٹے گئے ہیں“ یعنی یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ توہین قرآن کا واقعہ واقعی پیش آیا تھا، اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔

اب اس سارے واقعہ کا مجموعی جائزہ لیے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے واقعہ کو بنیاد بنا کر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قانون کو ختم کرنے کی یا اس میں ترامیم کرنے کی جو باتیں کی جارہی ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں، اور ان فسادات سے اس قانون کا کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔ مجھے بتایا جائے کہ اس پورے واقعہ میں کہیں اس بات کا کوئی اشارہ بھی ملتا ہے کہ کسی مقامی عدالت نے، کسی وکیل نے، یا مقامی تھانے نے اس قانون کو بنیاد بنا کر لوگوں کو اکسایا ہو کہ جا کر عیسائی آبادی پر حملے کرو، اور نہ ہی اس قانون کی کسی بھی شق میں یہ لکھا ہوا کہ ایسے کسی بھی واقعے میں لوگ خود ہی مجرموں کو سزا دیدیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک مشتعل ہجوم کی کاروائی تھی جو کہ انہوں نے جذبات سے مغلوب ہوکر کی تھی جبکہ پہل بھی فریق مخالف کی جانب سے ہوئی تھی۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسے تمام لوگوں کو سزا ملنی چاہیے جنہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور معصوم انسانی خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔

جو لوگ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں تو ان سے ہمارا یہ سوال ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر افراد ٹریفک سگنلز کی پابندی نہیں کرتے ہیں تو کیا اس بات کو بنیاد بنا کر ٹریفک کے تمام سگنلز کو اور ٹریفک قوانین کو ختم کردینا چاہیے؟ ہمارے اس معاشرے میں اکثر لوگ جب کسی چور کو پکڑتے ہیں تو عموماً اس کو موقع پر ہی سزا دیتے ہیں کہ اور گزشتہ سالوں میں تو ایسی متعدد واقعات پیش آئے ہیں کہ لوگوں نے چوروں اور ڈکیتوں کو جب پکڑا تو موقع پر ہی مار مار کر ان کو ہلاک کردیا۔ کیا ان واقعات ک بنیاد بنا کر چوروں اور ڈکیتوں کے خلاف قانون اور سزاؤں کو ختم کردینا چاہیے؟ یقیناً ہر باشعور فرد یہی کہے گا کہ نہیں ایسا نہیں بلکہ لوگوں جو لوگ بھی قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں ان کو سزا ملنی چاہیے۔ اور یہ بات ہم بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ بھی کسی کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں ان کے خلاف کاروائی ہونی چایے نہ کہ اس قانون ہی کو ختم کردیا جانا چاہیے۔

یہودیوں نے اپنے ہٹلر کے مظالم اور اپنی مظلومیت کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا اور اتنا زیادہ پروپگینڈا کیا کہ انہوں نے ایک فرضی ہولو کاسٹ تخلیق کرلیا کہ گیس چیمبر میں لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ح الانکہ کئی مؤرخین اور صحافیوں نے ثابت کیا کہ یہ واقعہ جھوٹا اور فرضی ہے اور اتنے بڑے پیمانے پر یہودیوں کا کوئی قتل عام نہیں ہوا۔ لیکن اس کے بوجود پورے یورپ میں ہولو کاسٹ کے خلاف بات کرنا یا اس کو غلط کہنا جرم ہے اور کئی ممالک میں تو اس کے خلاف بات کرنے کی سزا موت ہے۔ سوچیں اور غور کریں کہ ایک فرضی، جھوٹے، اور من گھڑت واقعے پر بات کرنا تو قابل گردن زدنی جرم ہے۔ لیکن اربوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکن، آقائے دوجہاں، نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے خلاف قانون پر اعتراض کیا جاتا ہے اور وہ بھی ایک مسلمان ملک میں؟ ویسے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جس بات کو بنیاد بنا کر اس قانون کو ختم کرنے کی بات کی جارہی ہے، اگر یہ قانون ختم ہوگیا تو پھر ایسے واقعات ختم نہیں ہونگے بلکہ مزید بڑھیں گے کیوں کہ ابھی تک تو یہ بات لوگوں کو روکتی ہے کہ ایک قانون موجود اور مجرم کو قانون کے حوالے کیا جائے لیکن جب یہ قانون نہیں رہے گا تو اس کو منطق نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر خدانخواستہ ایسے کسی واقعے کے بعد لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ جب ایسے مجرم کے لیے قانون میں کوئی سزا نہیں ہے تو پھر جذبات مزید بھڑکیں گے اور خون خرابہ مزید بڑھے گا۔ اور لوگ مجرم کو خود ہی سزا دیں گے

مسلمانوں کی جانب سے عیسائیوں کے گھر جلائے جانے کے واقعات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اصل مجرمان کو تحفظ دیا جائے اور اس کی آڑ میں توہین رسالت قانون کو ختم کر کے مغربی قوتوں کے لادینی ایجنڈے کی تکمیل کی جائے۔ تاکہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں بھی مسلمانوں کے مہربان نبی کی شان میں گستاخی کی جائے اور کوئی اس کو روکنے والا نہ ہو۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمارے ارباب اختیار کو شعور اور غیرت دینی عطا کرے کہ وہ ایسی کسی بھی احمقانہ فیصلہ سے باز رہیں آمین
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521149 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More