نا مکمل اور تشنہ تکمیل جشن آزادی
کیا ایسے جشن آزادی کی مبارکباد دی جاسکتی ہے
انسانی تاریخ میں کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں جو تاریخ کے ماتھے کا جھومر اور
قوم کیلئے عزت و وقار کی علامت ہوتے ہیں، مسلمانان بر صغیر کی تاریخ میں
چودہ اگست ایک یادگار، ولولہ انگیز اور روح پرور دن ہے، ایک ایسا دن، جس دن
برصغیر کے مسلمانوں کی جدو جہد آزادی کو نقطہ عروج حاصل ہوا، ان کے جذبوں
اور آرزوؤں کی تکمیل ہوئی، چودہ اگست 1947ء کا دن 1857ء کی جنگ آزادی سے لے
کر جولائی 1947ء تک کہ ماہ و سال میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل دن ہے، اس
دن برصغیر کے مسلمانوں کو دو سو سالہ غلامی کے بعد آزادی کا سورج دیکھنا
نصیب ہوا، ہر سال لوٹ کے آنے والے اس دن کا طلوع ہوتا ہوا سورج اس بات کی
علامت ہے کہ قدرت کو ابھی پاکستان کا وجود اور استحکام اور بقاء مطلوب ہے
اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے، پاکستانی قوم
ہر سال اس دن کو جشن آزادی کے طور پر مناتی ہے، گلی، کوچے، محلے بازار اور
شہر سجائے جاتے ہیں، ہر طرف جشن آزادی کے چرچے ہوتے ہیں، پورے ملک کی فضا
ملی نغموں، قومی ترانوں اور آزادی کے گیتوں سے گونج رہی ہوتی ہے اور یہ گیت
”ہمارا پرچم .....یہ پیارا پرچم..... اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں....ہم
ایک ہیں اور عیاں ہیں خون شہیداں کی عظمتوں کے نقوش.....زبان لالہ و گل پر
ہے داستان وطن.....کانوں میں رس گھول رہے ہوتے ہیں، الغرض، صبح سے رات گئے
تک تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس دن کی عظمت کیلئے نغمہ سرا اور رطب
اللسان رہتے ہیں اور ہر سال لوٹ کے آنے والا یہ دن قوم کیلئے آزادی اور
خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے، چاروں اطراف گرمی، جوش، جذبوں اور رنگوں کی
دھنک بکھرتی ہے، لیکن وہ چودہ اگست جو ہماری قومی تاریخ کا اہم باب اور
تحریک آزادی کا سنگ میل ہے ہنوز نامکمل اور تشنہ تکمیل رہتا ہے۔
ہم یہ بات جذباتی ہوکر نہیں لکھ رہے بلکہ اس کی بنیاد وہ حقیقت ہے، جسے ہم
بھول بیٹھے ہیں اور بتدریج بھولتے جارہے ہیں، وہ حقیقت اور اس کا ادراک کیا
ہے؟ ہر سال جشن آزادی کے موقع پر یہ سوال بڑی شدت سے اٹھایا جاتا ہے، اہل
فکر و نظر اس حوالے سے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں لفظوں کے موتی بکھیرتے ہیں،
ماضی سے نسبت اور حوالے تلاش کرتے ہیں اور قوم کو قیام پاکستان کا مقصد
بتاتے ہیں، وہ یاد دلاتے ہیں کہ قیام پاکستان ایک عزم تھا.....ایک منزل تھی
.....اور ایک وعدہ تھا، جو ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ساتھ کیا تھا ”پاکستان کا مطلب کیا .....لاالہ الااللہ“اور اسی
وعدے پر لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر آزادی کی تاریخ
رقم کی، اس خواب کو تعبیر بخشنے کیلئے ہمارے قائدین نے قربانیاں دیں،
تحریکیں چلائیں، گھر بار چھوڑے، کاروبار ختم کئے اور عوام الناس کے دلوں
میں پاکستان بنانے کا جواز فراہم کیا، جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی
جانوں پر کھیل کر اور اپنے پیاروں کے بے گور و کفن لاشے چھوڑ کر آگ و خون
کے دریا عبور کئے اور یہاں آنے میں کامیاب ہوئے، یہ سب کچھ کیا تھا؟ جواز
ہی تھا تو اتنی قربانیاں دی گئیں، لیکن یہ سارا مقصد، فہم و ادراک اور جوش
و جذبہ چودہ اگست کے ڈوبتے سورج کے ساتھ ایک بار پھر ایک سال کیلئے تاریک
اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔
دوستوں.....تخلیق پاکستان صرف ایک جذباتی عمل نہیں تھا بلکہ یہ ٹھوس عوامل
کا حامل تھا، ایک قوم کی شناخت اور پہچان کا حامل تھا، اس عظیم اسلامی
ریاست کی جڑیں مدینہ منورہ کی اس ریاست سے ملتی ہیں، جس کی بنیاد پیغمبر
انقلاب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی، دینی اعتبار
سے تحریک آزادی ہمارے عقیدے کا حصہ ہے، اس لحاظ سے چودہ اگست ایک اہم دینی
فریضے سے سبکدوشی کا دن ہے، لیکن ہر بار جشن آزادی منانے کے باوجود ہم ابھی
تک اپنی اس منزل سے کوسوں دور ہیں، جس کیلئے مسلمانان برصغیر نے قربانیاں
دیں اور جس کی نشاندہی کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ ”پاکستان
اسلامی اقدار کی تجربہ گاہ بننے والا ہے۔“ لیکن پاکستان اسلامی اقدار کی
تجربہ گاہ بننے کے بجائے چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کی آماجگاہ بن گیا، ہم
نے تو نعرہ لگایا تھا کہ ہم قرآن و سنت پر مبنی نظام سے ایک نیا جہان
اٹھائیں گے، لیکن ہم نے طاغوتی نظام کی آبیاری کی، ایک مسلمان کیلئے دین
اسلام، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بڑا جواز
اور کیا ہوسکتا ہے، لیکن قیام پاکستان کے بعد اس جواز کی توہین اور وعدہ
خلافی کی گئی اور اس عزم کو فراموش کردیا گیا، سول اور فوجی حکمرانوں نے اس
مملکت کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور ایک غیرت مند،
حریت پسند، آزاد قوم کو اغیار کا منگتا بنا دیا۔
بدقسمتی سے آج تک ہم یہ طے نہ کرسکے کہ ملک کا نظام کون سا ہوگا، کبھی
پارلیمانی طرز حکومت اور کبھی صدارتی نظام کا نعرہ لگایا گیا تو کبھی
بنیادی جمہوریت اور سوشلزم کی باتیں کی گئیں، کبھی فیڈریشن تو کبھی
کنفیڈریشن کے مطالبے ہوئے، حالانکہ صاف سی بات تھی کہ پاکستان کی اساس
اسلام اور پاکستان کی بقاء و سالمیت، استحکام اور ترقی اسلامی نظام حیات کے
ساتھ منسلک ہے، لیکن اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ وطن عزیز کے
باشندوں نے انگریز سے تو نجات حاصل کرلی، لیکن وہ سرمایہ داروں، جاگیر
داروں اور بیورو کریسی کے شکنجے میں پھنس گئے، باسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی
قوم اپنے پرائے کی تمیز نہیں کرسکی، قوم نے ہر بار انہی صیادوں کو معالج
سمجھا جنہوں نے اسے دوا کے بجائے زہر کے پیالے پلائے، آج کرپشن، لوٹ مار،
ملاوٹ، دھوکہ دہی، خود غرضی اور رشوت ستانی کا زہر پوری قوم کے رگ و پے میں
سرایت کرچکا ہے اور قوم نفس پرستی اور خود غرضی کے گڑھے میں اوندھے منہ
گرتی چلی جارہی ہے، یہ ناتمام سا خاکہ ہے ہماری باسٹھ سالہ قومی تاریخ کا،
تحریک پاکستان میں بہنے والا خون، لٹی ہوئی عزتیں، تار تار عصمتیں اور کٹے
پھٹے لاشے آج قوم کے باسٹھ سالہ حافظے سے قیام پاکستان کا جواز مانگ رہے
ہیں، چودہ اگست کا دن اس بات کی علامت تھا کہ اب استعمار، بیورو کریسی،
جاگیرداری اور دھونس و دھاندلی کا نہیں بلکہ انصاف و قانون کا راج ہوگا اور
دنیا میں پاکستان سیاسی، اخلاقی اور اسلامی اصولوں کا گہوارہ ہوگا، لیکن
ایسا نہیں ہوا، ہم نے اس نعمت عظمیٰ کی ذرہ برابر قدر نہیں کی اور اسلاف کی
عظیم الشان قربانیوں کو فراموشی کے گہرے غاروں میں دھکیل دیا، اس کے باوجود
آج پوری قوم باسٹھ واں جشن آزادی منارہی ہے، اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں
کی تعبیر اور لاکھوں مسلمانوں کی آرزوؤں اور امنگوں سے محروم .....نا مکمل
اور تشنہ تکمیل جشن آزادی...... کیا ایسے جشن آزادی کی خوشیاں منائی جاسکتی
ہیں..... اور کیا ایسے جشن آزادی کی مبارکباد دی جاسکتی ہے......!
بے عقل بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں |