سنی شیعہ قتل و غارت ،اسباب وسدباب

ملک میں 1979ء کے انقلاب ایران سے پہلے تک شیعہ سنّی حوالے سے تمام تر اختلاف کے باوجود قتل وغارت کی فضاء نہیں تھی ،اس حوالے سے پانچ بڑی کارروئیوں کا ذیل میں ذکرکیاجاتاہے:
6جولائی 1985ء کا واقعہ پہلی بڑی دہشت گردی ہے، یہ واقعہ کوئٹہ شہر میں پیش آیا تھا جس میں بے گناہ درجنوں سنی قتل ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں، نوجوان بچیوں کے سینے کاٹے گئے ،مردوں کے سر قلم کرکے ان کے سروں اور جسم بجلی کے کھمبوں پر لٹکائے گئے ۔اس وقت کے وزیر داخلہ محمد اسلم خٹک نے اعتراف کیا کہ ہم نے231کے قریب ایران سے تعلق رکھنے والے ''سپاہ پاسدران'' کے دہشت گردوں کو، جو اس سانحے میں ملوث ہیں، گرفتار کرلیا ہے اور اسلحہ بھی برآمد کرلیا ہے، مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ۔گورنر بلوچستان موسیٰ خان، نے جو خود اسی گروہ سے تعلق رکھتا تھا ،اسے اندرونی معاملہ قرار دے کر ایک طرف تو وفاقی انکوائری کمیشن کے راستے مسدود کردیے اور دوسری طرف ان تمام افراد کو خاموشی سے رہا کرکے ایران بھیج دیا۔

دوسرا واقعہ 1986کا ہے جب معروف سنی عالم دین علامہ احسان الٰہی ظہیر کو ساتھیوں سمیت جلسے سے خطاب کے دوران ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے شہید کردیا گیا۔ حکومت نے دعوے تو بہت کئے مگر علامہ احسان الٰہی ظہیر اوران ساتھیوں کے قاتل تاحال تختہ دار تک نہیں پہنچائے جاسکے۔

تیسرا واقعہ1988ء کا ہے جب معروف شیعہ عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کو نماز فجر کے لئے جاتے ہوئے امام بارگاہ کے دروازے پر نشانہ بنایا گیا ان کے قاتل بھی انجام تک نہیں پہنچائے جاسکے۔
چوتھا واقعہ 1990ء کا ہے جب معروف سنی عالم دین علامہ حق نواز جھنگوی کو ان کے گھر کی دہلیز پر بے دردی سے قتل کردیاگیا ۔انہوں نے شہادت سے پہلے نماز جمعہ کے خطبے میں نہ صرف اپنے قتل کی سازش بلکہ تاریخ اور قاتلوں تک کی نشان دہی کردی تھی، لیکن نہ انہیں سیکورٹی فراہم کی گئی اور نہ ہی ان کے قاتلوں کو انجام تک پہنچایاجاسکا۔

پانچواں واقعہ 1991کا ہے جب دوسرے معروف سنی عالم دین علامہ ایثارالقاسمی کو انتخابات کے دوران جلسہ عام میں نشانہ بنایا گیا ان کے قاتلوں کو بھی انجام تک نہ پہنچایاجاسکا۔

ان پانچ واقعات میں حکومت و انتظامیہ کی سرد مہری بلکہ بے حسی سے قاتل کا حوصلہ بڑھا اور یہ سلسلہ روز افزوں بڑھتا ہی چلاگیا۔1993ء میں اہل تشیع کے جذباتی نوجوانوں نے سپاہ محمد کے نام سے عسکری ونگ قائم کرکے باقاعدہ کاروائیوں کا آغاز کیا اور 1995ء میں اہل سنّت کے جذباتی نوجوانوں نے لشکر جھنگوی کے نام سے عسکری ونگ قائم کرکے باقاعدہ کاروائیوں کا آغاز کردیا۔ اہل تشیع کی نمائندہ جماعت تحریک جعفریہ اور اہل سنت کی نمائندہ جماعت سپاہ صحابہ کی جانب سے بار ہا مختلف فورموں پر برملا وا شگاف الفاظ میں مذکورہ جماعتوں سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیاجاتارہا ۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کے باوجود حکومت و انتظامیہ ان جماعتوں کی کاروائیوں کو تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ کے کھاتے میں ڈالتی رہی اور ''کرے کوئی اور بھرے کوئی اور''کہ مصداق تمام نزلہ ان جماعتوں پر گرتا رہا۔ حکومت نے تمام تر وضاحتوں کو پس پشت ڈال کر ان عسکری ونگز کو نہ صرف پرامن اور دلائل کی زبان سے بات کرنے والی جماعتوں سے نتّھی کیابلکہ اس مفروضے کی بنیاد پر دہشت گردی تک کے الزامات عائد کئے، مقدمات بنائے ،قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا۔ خاص طور پر سپاہ صحابہ کے ساتھ یہ معاملہ بہت زیادہ رہا اور حکومت پروپیگنڈے کی وجہ سے تاحال یہ ذہن ہے لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ ایک ہی ہیں۔سنی شیعہ قتل و غارت گری کی روک تھام کے حوالے سے حکومت و انتظامی سطح پر ہمیں سنجیدہ کوششیں خال خال ہی نظر آتی ہیں اور جہاں کہیں ایسی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی بھی تو اسے نادیدہ قوتوں نے انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکام بنادیا۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کا مذکورہ چاروں جماعتوں کی قیادت کو سوموٹوایکشن کے ذریعے طلب کرنا اور سب کا مؤقف سننا قابل ذکر ہے ۔چیف جسٹس اس سلسلے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے ہی والے تھے کہ عدلیہ اور حکومت میں مصنوعی بحران پیداکرکے چیف جسٹس صاحب کو گھر بھیج دیاگیا۔ان کے بعد آنے والے منصف اعلیٰ صاحبان میں سے کسی نے نہ تو ازخود اس حوالے سے کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی ان فائلوں کی گرد جھاڑنے اور معاملے کو آگے بڑھانے کی ضرورت سمجھی۔ ہم اگر یہ کہیں کہ یہاں بھی انہی نادیدہ قوتوں نے کرشمہ دکھایا تو شاید غلط نہ ہوگا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی جبری برطرفی نے گویا متحارب فرقین کے سفلی جذبات کو مہمیز دی اور 1999ء سے2001ء تک دونوں طرف کے عوام و خواص کے قتل کا ننگا ناچ جاری رہا2001ء میں جنرل پرویز مشرف نے اس مسئلے کاحال یہی سمجھا کہ چاروں جماعتوں پر پابندی عائد کردی ۔حالانکہ اس سے قبل جو چیف سیکرٹری سطح کی میٹنگیں ہوئی ان میں واضح کردیا گیاتھا کہ پابندی مسئلے کا حل نہیں بلکہ پابندی کی وجہ سے جب تنظیمی سرگرمیاں موقوف ہوجائیں گی جن کے ذریعے مثبت ذہن سازی ہوتی اور انتقامی جذبات کو قابو میں رکھاجاتاہے تو اس کا فائدہ عسکری ونگز کو ہوگا اور پرامن کارکنان کی ایک بڑی تعداد بھی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ان سے جاملے گی ،بعد میں یہ خدشات درست بھی ثابت ہوئے قبل ازیں 1990ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے کہنے پر سپاہ صحابہ کی قیادت نے لشکر جھنگوی سے کسی قسم کا تعلق نہ ہونے کے باوجود لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک محمد اسحاق سے سینٹرل جیل ملتان میں ملاقات کی کہ ملک کے وسیع تر مفادمیں آپ قتل و غارت گری کا راستہ اختیارکرنے والے اپنے کارکنان کو سمجھائیں اس ملاقات میں ملک محمد اسحاق نے قتل و غارت کے خاتمے کیلئے تین مطالبات رکھے تھے جن میں پرامن لوگوں سے جھوٹے مقدمات کے خاتمے اور ان کی رہائی ،پڑوسی ملک سے آنے والے گستاخانہ لٹریچر کی ضبطی اور مرتکبین کی سزا اور آئندہ کیلئے اس حوالے سے قانون سازی کے مطالبات شامل تھے ۔مگر اس سلسلے میں کوئی عملی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ شاید یہاں بھی اس نادیدہ قوت نے اپنا کمال دکھادیا۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے تحریک جعفریہ کی قیادت کو بھی سپاہ محمد کی قیادت کے پاس بھیجا تھا یا نہیں اور اس کا کیا نتیجہ نکلا یہ ہنوز پردہ خفا میں ہے ماضی کو ایک طرف رکھ کر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اب بھی ایسی کوئی سنجیدہ کوشش کرسکتے ہیں کیونکہ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتاہے کہ میاں صاحبان اس قتل غارت گری کے حوالے سے اپنے ہر دور اقتدار میں فکر مند رہے ہیں 1990ء میں میاں محمد نواز شریف نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں بھی اس حوالے سے کافی سرگرمی کا مظاہرہ کیاتھا اور طویل غور و خوض کے بعد دونوں طرف کے علماء و راہنما 20نکات پر متفق بھی ہوگئے تھے اس طرح1995ء میں اس حوالے سے سترہ نکات پر اتفاق رائے ہوگیا تھا ،وہ محترمہ بے نظیر بھٹوکا دور وزارت عظمیٰ تھا، نہ 1990ء والی متفقہ 20تجاویز پر قانون سازی ہوسکی، اور نہ ہی 1995ء والے سترہ نکات پر ۔شاید یہاں بھی انہی نادیدہ قوتوں کا جادو چل گیا اور شیعہ سنی قتل و غارت کے خاتمے کی کوئی سبیل نہ نکالی جاسکی ۔

ہم یہاں محترم میاں صاحبان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ علماء کرام نے ہر دور میں اس قتل و غارت گری کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس کے مکمل خاتمے اور مسئلے کے حل کے لئے اپنی مخلصانہ خدمات بھی پیش کی ہیں ،ان کا دیا ہوا روڈ میپ اب بھی آپ کے سامنے موجود ہے، اور یہ اب بھی آپ جس فورم پر جب بلائیں آنے کیلئے تیار ہیں، تو آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کوئی عملی قدم نہیں اٹھارہے کیا آپ ان نادیدہ قوتوں کے دبائو کا شکار ہیں، جو ہر مرتبہ ہرکوشش کو ناکام بناتی ہیں، اور حکمران اس کا ملبہ علماے کرام کے سر تھوپ کرخود کو بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں 1997میں میاں محمد شہباز شریف نے ایک اتحاد العماء بورڈ تشکیل دیا تھا، جس کی تجاویز کی روشنی میں ان کتابوں پر جن میں اصحاب ،و ازواج مطہرات، و اولاد رسول ۖ کی شان میں گستاخی کی گئی تھی، پابندی لگانے کا عملی آغاز بھی ہوگیاتھا، یہ سلسلہ دس بارہ کتابوں پر پابندی سے آگے نہ بڑھ سکا، آخر وہ کون سی قوت تھی جو اس راہ میں روڑے اٹکارہی تھی ؟ کیا حکومت کا فریضہ نہیں کہ وہ اس قوت کا تعاقب کرے اسے بے نقاب کرے، اس کے مذموم عزائم کو ناکام بنائے، اس کا قانونی ہتھیار سے مقابلہ کرے ،اسے عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے ،اور اس کے دبائو کو ناکام بنائے، اگر ہے ،تو حکومت اس حوالے سے تغافل بلکہ تجاہل عارفانہ سے کیوں کام لے رہی ہے؟

دیر بہت ہوچکی ہے، لیکن مہلت اب بھی باقی ہے، حکومت و عدلیہ نے اگر اس حوالے سے اب بھی عملی قدم نہ اٹھایا اور ہیجان انگیز گستاخ آمیز کتب ،و رسائل اور تقریروں کا راستہ نہ روکا، تو مبادا اس ملک کی گلی گلی مقتل نہ بن جائے۔

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307847 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More