اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب
حضرت محمد مصطفیﷺمیں نہ صرف تمام نبیوں کے خصائص کو جمع کردیا بلکہ آپﷺ کو
مزید ایسی خوبیاں عطا کیں جو پہلے کسی نبی اور رسول کو نہیں ملیں،اسی لیے
انبیاء اور رُسل میں سے کوئی آپ ﷺکے برابردرجے والانہیں ہے۔آپ ﷺکی چند
خصوصیات درج ذیل ہیں۔
جامع الکمالات
اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جو مراتب اور درجات عطا کیے ہیں ،ان میں نبوت
ورسالت کا عہدہ اور منصب سب سے نمایاں ،ممتاز اور سب سے بلند تر ہے ۔انبیاء
کی ذات جسمانی وروحانی کمالات کی جامع ہوتی ہے، ان کی نورانیت تمام ملائکہ
سے اعلیٰ اور ان کی بشریت تمام انسانوں سے افضل ہوتی ہے ۔ پھر تمام انبیاء
کرام علیہم السلام اور رُسلِ عظام میں سب سے افضل اور اعلیٰ شخصیت حضرت
محمد رسول اﷲ ﷺ کی ہے ،وہ تمام کمالات جو سابق انبیاء کرام علیہم السلام کو
متفرق طور پر دیئے گئے اﷲ تعالیٰ نے سب آپ کی ذات میں جمع فرمادیے ۔بقولِ
شاعر
یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر
سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے
رحمت دوجہاں اک تیری ذات ہے
اے حبیب خدا تیری کیا بات ہے
رسالتِ عامہ
آپﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے وہ ایک خاص قوم
کی طرف بھیجے گئے ۔ ان کی نبوت ایک محدود مدت اور زمانے کے لیے تھی،حضرت
آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یکے بعد دیگرے انبیاء
کرام تشریف لاتے اورتبلیغ کرتے رہے۔جب کوئی رسول نئی شریعت لے کر آتا تو اس
سے پہلے کی شریعت منسوخ ہوجاتی۔یہ سلسلہ حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ علیہم
السلام تک جاری رہا ،یہاں تک کہ نبی آخر الزماں حضر ت محمد رسول اﷲ ﷺ تشریف
لائے ۔آپ ﷺکی رسالت کسی خاص قوم یا قبیلے ،کسی خاص علاقے یا کسی خاص زمانے
کے لیے محدود نہیں تھی بلکہ ہر قوم کے لیے ،ہر علاقے کے لیے اور قیامت تک
ہر زمانے کے لیے تھی اور رہے گی ۔اس لیے قرآن نے اعلان کیا :
﴿ قُلْ یٰاَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ
جَمِیْعاً۔ ﴾
ترجمہ: ’’(اے رسول ﷺ!) کہہ دیجئے ،اے لوگو !میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول بن
کر آیا ہوں‘‘۔(الاعراف :۱۵۸)
سیرتِ محمدی کی جامعیت اور ہمہ گیریت:
ہمارے رسول کریم ﷺ کی تعلیمات زندگی کے کسی ایک شعبہ تک محدودنہیں ہیں بلکہ
آپ ﷺکی تعلیمات سیاست ،تجارت ،معیشت،معاشرت ، اخلاقیات ،عبادات اور
ایمانیات حتیٰ کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں ۔اسی طرح سیرتِ
محمد یﷺ میں بھی ہمہ گیریت اورجامعیت ہے ۔ آپ کی سیرت میں ہر شعبۂ زندگی سے
تعلق رکھنے والے انسانوں کے لیے رہنمائی اورمثال موجود ہے ۔ آپ نے ہر شعبۂ
زندگی کے افراد کے لیے کامل ترین مثالی نمونہ قائم کیا ہے ۔اسی لیے قرآن
مجید نے واضح اعلان فرمایا:
﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ۔﴾
ترجمہ: ’’بے شک تمہارے لیے رسول اﷲ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے
،(سورۃالاحزاب:۲۱)‘‘۔
امتیوں کی کثرت ِ تعداد
حضور سید عالمﷺکی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کوامتیوں کی
کثرت عطافرمائی ہے، نہ صرف دنیا میں آپ کی امت لوگ کثرت میں ہوں گے بلکہ
جنت میں بھی مسلمانوں کی تعدادباقی تمام انبیاء کرام کے امتیوں سے زیادہ
ہوگی۔ ایک حدیث شریف کے مطابق ’’جنتیوں کی ایک سو بیس(۱۲۰) صفیں ہوں گی جن
میں سے اسی(۸۰)صفیں صرف مسلمانوں کی ہوں گی۔جنتیوں کی اتنی زیادہ تعدادکسی
نبی بلکہ انبیاء کے امتیوں کی بھی نہیں ہوگی۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب ِمکرم ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت(رحم
کرنے والا) بنا کر بھیجا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے :
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔﴾
ترجمہ:’’اور (اے حبیب کریم) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
بھیجا ہے ‘‘۔(سورۃ الانبیاء : 107)
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی صفت ’’ ربّ العالمین ‘‘ بیان فرمائی اور
اپنے رسول مکرم ﷺ کی صفت ’’ رحمۃ للعالمین ‘‘ بیان فرمائی یعنی جس طرح اﷲ
کی’’ ربوبیت ‘‘تمام جہانوں کے لیے عام ہے، اسی طرح اس کے نبی پاک کی رحمت
بھی سب جہانوں کے لیے عام ہے ۔
آپ ہیں سراپارحمت ،آپ ختم المرسلیں
آپ سے بڑھ کرجہاں میں اورکس کی شان ہے
رحمۃ للعالمین کا مفہوم
رحمت کا لغوی معنیٰ ہے’’مہربانی کرنا، کرم کرنا‘‘۔رحمت کامفہوم یہ ہے کہ
کسی کی مجبوری،تکلیف اور غم کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے اس کی مددکرنااور
شفقت کرنارحمت کہلاتا ہے۔جبکہ’’عالمین‘‘ عالم کی جمع ہے جس کا معنیٰ
ہے’’جہان،کائنات‘‘۔اﷲ تعالیٰ نے 18ہزار سے زیادہ جہانوں کو پید افرمایاہے
اوراﷲ تعالیٰ کے سوا ہر چیز’ عالَم‘ میں شمار ہوتی ہے مثلاً عالَمِ
ارواح،عالَمِ دنیا،عالَمِ برزخ،عالَمِ نباتات،عالَمِ جمادات،عالَمِ
جبروت،عالَمِ لاہوت،عالَمِ رویاوغیرہ
رحمۃللعالمین کا معنی ہے:’’تمام جہانوں کے لیے رحمت ہونا‘ ‘اﷲ تعالیٰ نے
رسول اکرم ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ آپ ﷺ
صرف مسلمانوں یا انسانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام کائنات اور تمام مخلوق کے
لیے قیامت تک کے لیے رحمت بن کرتشریف لائے۔
رحمۃ للعالمین کی چندصورتیں اورجھلکیاں پیش خدمت ہیں۔
اہلِ ایمان پر رحمت وشفقت
حضورنبی کریمﷺ کی رحمت ِ کاملہ کا سب سے زیادہ فیضان اہل ایمان کو ملا ہے
اورملتارہے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا
عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمo
ترجمہ:’’بلا شبہ تمہارے پاس تمھیں میں سے ایک عظمت والارسول تشریف لائے
،تمہارا مشقت اور تکلیف میں پڑنا اُن پر گراں گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا
بے انتہا خواہشمند ہیں اور (بالخصوص) مومنوں پر نہایت مہربان وشفیق اور بہت
رحم فرمانے والے ہیں ‘‘۔(سورۃ التوبہ:128)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگرچہ حضور اکرم ﷺ کی رحمت سب کے لیے ہے ،مگر اپنی
امتِ اجابت اور اہل ایمان پر آپ کی رحمت وشفقت بے حد وبے حساب ہے ۔یہاں تک
کہ آپ خالص دینی معاملات اور عبادات میں بھی امت کی راحت اور سہولت کا خاص
خیال فرماتے تھے ۔چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی جاتی ہیں :
۱۔ اﷲ تعالیٰ نے معراج کے موقع پرامت محمدﷺپر50نمازیں فرض فرمائیں۔آپ ﷺنے
اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں امت کے لیے کمی کی سفارش کی۔ یہاں تک کہ 50نمازوں
کی جگہ صرف 5نمازیں فرض کی گئیں،لیکن 5نمازوں کا ثواب50کے برابرہی رکھا گیا
ہے۔
۲۔ رسول کریم ﷺنے صحابہ کرام کو تین رات نمازِ تراویح پڑھائی، لیکن چوتھی
رات اس وجہ سے تشریف نہیں لائے کہ کہیں یہ نماز امت پر فرض نہ ہوجائے اور
وہ ا س کے ترک کرنے پر عذاب کے مستحق ہوجائیں۔
۳۔ حضر ت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’میرا اور میری امت کا حال اس شخص کی مثل ہے کہ جس نے آگ روشن کی اور
ٹڈیاں اور پروانے اس میں گرنے لگیں اور وہ ان کو آگ سے ہٹاتا تھا ۔پس میں
اہل ایمان کوکمر سے پکڑکرآگ سے بچانے والا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹتے
ہو (یعنی آگ میں گرنا چاہتے ہو)۔
۴۔ اسی طرح ایک صحابی کے اس سوال پر کہ ’’ کیا حج ہر سال فرض ہے؟ ‘‘ ،آپ
خاموش رہے اور فرمایا کہ ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا
‘‘۔
۵۔ آپ نے علماء کرام اورمبلغین کے لیے ایک عام اصول یہ بیان فرمایا کہ…… ’’
دین کو آسان کرکے پیش کرو ،مشکل بنا کر پیش نہ کرو ، لوگوں کو (رحمتِ الٰہی
اور نجات کی ) بشارت سناؤ اور (محض عذاب کی وعیدیں سنا کریامشکل مسائل بیان
کرکے) لوگوں کو دین سے متنفر نہ کرو ‘‘۔
۶۔آپ ﷺ دنیا میں بھی امت کی ہدایت اور نجات کے لیے دعائیں فرماتے رہے اور
آخرت میں بھی اﷲ کے اذن واختیار سے امت کی شفاعت فرمائیں گے ۔
کافروں پر رحمت
حضور رحمت دوعالمﷺکے فیضانِ رحمت سے کافر بھی محروم نہیں رہے ۔پہلی امتیں
جب اﷲ کی نافرمانی کرتی تھیں تو ان پر اجتماعی صور ت میں عذاب نازل ہوتا
رہا ۔حضرت نوح علیہ السلام کی امت پر طوفان آیا ۔۔۔حضرت لوط علیہ السلام کی
امت پر عذاب آیا تو پوری کی پوری بستی تہہ وبالا کردی گئی ۔قومِ عاد پر تیز
آندھی کا طوفان آیا جس نے ہر چیز کوالٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ۔۔۔فرعون اور اس
کے پیروکاروں کودریائے قلزم میں ڈبو دیا گیا وغیرہ ۔ لیکن نبیٔ رحمت ﷺ کی
امت کے لیے قریش مکہ کے مطالبہ عذاب کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ۔
ترجمہ:’’ اور اﷲ ان پر عذاب نازل نہیں فرمائے گا جب تک کہ آپ ان میں موجود
ہیں‘‘۔ (سورۃ الانفال:33)
حضور اکرم ﷺ کے وسیلے اور برکت سے اِس امت کے کفار ومشرکین بھی اجتماعی
عذاب اور ہلاکت سے محفوظ ہیں ۔
(۲) آپ ﷺ اورآپ کے اصحاب پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔طائف کے سفرمیں آپ
ﷺکو پتھروں سے لہولہان کیاگیا۔ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا
گیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! آپ مشرکین کے لیے بددعا کریں ۔اس پر آپ نے فرمایا :
’’میں لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا بلکہ میں تو رحمت بنا کر بھیجا
گیا ہوں ‘‘۔
(۳) غزوۂ احد میں دندانِ مبارک شہید ہوگئے اور آپ کا چہرہ خون سے تر
تھا،لیکن اس وقت بھی آپ ﷺکی زبان مبارک پر دعائیہ کلمات جاری تھے ۔
’’اے اﷲ ! میری قوم کو ہدایت فرما کیونکہ یہ میرے مقام سے ناآشنا ہیں ‘‘۔
عورتوں کے لیے رحمت
اسلام سے پہلے عور ت طرح طرح کے مظالم اورمصائب کا شکار تھی ۔مثلاً بعض عرب
قبائل میں بیٹیوں کو زندہ دَر گور کیا جاتا تھا ۔۔۔ہندوستان میں بیوہ کو
اوّل تو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں تھا ،وہ بھی شوہر کی چتا میں جل کر مرجاتی
ورنہ ساری عمر بیوہ بن کررہ جاتی ہے۔ بعض معاشروں میں شوہر کو عورت پر
مالکانہ حقوق حاصل تھے اور والدین یا شوہر کے ترکہ میں عورت کا کوئی حصہ
نہیں ہوتاتھا ۔نبی اکرم ﷺ نے اس مظلوم طبقہ پر کرم فرمایا اور ماں ،بیٹی
،بہن اور بیوہ ہر حیثیت میں انہیں قابل احترام ٹھہرایا ۔رسول اﷲ ﷺنے ماں کی
خدمت کرنے پرجنت کی ضمانت دی ہے،چنانچہ ارشادِنبوی ﷺہے :
اَلْجَنَّۃُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُ مَّھَاتِ
ترجمہ:’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے ‘‘۔
اسلام نے عورتوں کو حقوق عطا کیے اوراس کے استحصال کا خاتمہ کیا ۔مثلاً
(۱) بیوہ یا مطلقہ کو عدت کے بعد نکاح ثانی کی اجازت دی اور رسول اکرم ﷺ نے
خود بیوہ اور مطلقہ سے عقد ِنکاح فرمایا تاکہ کوئی شخص اسے حقیر نہ سمجھے
بلکہ اپنے نبی کی سنت سمجھے۔
(۲)عورت کو مہر کا حق دار قرار دیا جو ایک طرح سے اس کی حقیقی عظمت اور
حرمت کی علامت ہے اور نان ونفقہ شوہر کی ذمہ داری قرار دے کر عورت کو معاشی
فکرسے آزاد کردیا
(۳) عورت کو والدین ،شوہراور دیگر قرابتوں کے ترکہ میں وارث قرار دیا ۔
(۴)قرآن نے بیویوں سے حسن ِ معاشرت کا حکم دیا :
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
ترجمہ:’’ اور ان (بیویوں) سے نیک برتاؤ کرو،(سورۃ النساء : ۱۹)
یتیموں اور مساکین پر رحمت :
آپ ﷺ تو ہر ایک کے لیے سراپا رحمت تھے ۔مگر یتیموں اور مساکین کے لیے آپ کا
دریائے رحمت ہمیشہ موجزن رہتا کیونکہ یتیم بہ ظاہر باپ کے ظاہری سہارے سے
محروم اوربے بس ومجبور ہوتا ہے ۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد کامفہوم ہے کہ:’’میں
اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے کے اس طرح قریب ہوں گے ،جس
طرح دوانگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں ‘‘۔
بچوں پر شفقت ورحمت:
حضور انور ﷺ مجسم رحمت وشفقت تھے ۔آپ ﷺنے بچوں پر شفقت کو مسلمانوں کی
امتیازی پہچان قرار دیا اور فرمایا:’’جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے، وہ ہم
میں سے نہیں ہے ‘‘۔۔۔ آپ ﷺ کا گزر بچوں کے پاس سے ہوتاتو خود انہیں سلام
فرماتے اوراگرسواری پرہوتے تو بچوں کواپنی سواری پربٹھا کرانھیں ان کے
گھرپہنچادیتے۔۔ایک دن آپ ﷺ حضرت امام حسن کو چوم رہے تھے ۔ اقرع بن حابس آپ
کے پاس بیٹھے تھے ،انہوں نے کہا:’’میرے دس بیٹے ہیں میں نے کبھی کسی کونہیں
چوما ‘‘ ۔اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا
یُرْحَم،ترجمہ:’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔
غلاموں پر رحمت وشفقت :
نبی کریم ﷺ نے ایک طرف تو غلاموں سے حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی اور دوسری
طرف آپ غلاموں کی آزادی کی ترغیب دلاتے رہے ۔ فرمانِ نبوی ﷺہے:’’تمہارے
غلام (نوکر)تمہارے بھائی ہیں ،جن کو اﷲ نے تمہارا ماتحت بنادیا ہے،جیسا خود
کھاؤ ویسا ہی انہیں بھی کھلاؤ اور جیسا خود پہنو ویسا ہی انہیں بھی پہناؤ
اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام کا بوجھ نہ ڈالو‘‘۔
۲۔ ۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم
ﷺ سے دریافت کیا ،یا رسول اﷲ ﷺ! ہم خادم(نوکر) کو کتنی بار معاف کریں ۔دو
مرتبہ پوچھنے پر آپ ﷺخاموش رہے ۔تیسری مرتبہ دریافت کرنے پر آپ ﷺنے فرمایا
:’’ ہر روز ستّر (70)بار معاف کردیا کرو‘‘۔
۳۔ وصالِ مبارک سے پہلے امت کو نصیحت اورتاکیدفرمائی کہ:’’نما ز اور غلاموں
کا خاص خیال رکھنا ‘‘۔
جانوروں اور پرندوں پر رحمت
رسول اکرم ﷺ کی رحمت سے انسان تو کیا جانور اور پرندے بھی محروم نہیں رہے
کیونکہ آپ محض ’’رحمۃللمومنین ‘‘یا ’’رحمۃ للناس ‘‘ نہیں بلکہ
’’رحمۃللعالمین ‘‘ ہیں اور جانوربھی بعض اوقات زبانِ حال سے طلبِ رحمت کے
لیے آپ کی خدمتِ اقدس میں رجوع کیاکرتے تھے ۔
(۱) ایک روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی کے اونٹ نے بارگاہِ
رسالت میں اپنے مالک کی شکایت کی ،آپ نے اس پر دستِ شفقت پھیرا اور اس کے
مالک سے فرمایا: ’’ کیا تو اس چوپائے کے بارے میں اﷲ سے نہیں ڈرتا ؟ اس نے
میرے پاس شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور بہت زیادہ تکلیف دیتا
ہے(اس کا خیال رکھاکرو) ‘‘۔
(۲) ایک مرتبہ سفر میں ایک پرندہ آپ ﷺکے سرمبارک کے اوپر پھڑپھڑانے لگا
گویا وہ آپ سے شکایت کررہا تھا کہ کسی نے اس کے انڈے لے لیے ہیں۔ آپ ﷺ نے
فرمایا: ’’ کس نے اس کے انڈے لے کر اسے تکلیف پہنچائی ہے؟ ‘‘،ایک شخص نے
عرض کیا :اے اﷲ کے رسول ! میں نے اس کے انڈے لیے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: ’’ اس پر رحم کرواور اس کے انڈے واپس کردو‘‘۔(بخاری) ۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد کی محبت روحِ ملت ، جانِ ملت ہے
محمد کی محبت آنِ ملت ، شانِ ملت ہے
خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
محمد کی محبت ، ہے سند آزاد ہونے کی |