لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
دردمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اسی راہ پہ چلانا مجھ کو
ہاں یاد آیا یہ دعا ہماری اصل تھی اس میں ہمارے بچپن کی معصومیت اور
پاکیزگی تھی اس میں پیار، خلوص، محبت، حقیقت اور دردمندی ہے۔
اب حالات کے جس موڑ پر ہم بحیثیت قوم پہنچ چکے ہیں کیا ہم صحیح چل رہے ہیں
اور منزل کی طرف جارہے ہیں اور ہماری منزل ہے کیا - کتابی منزل نہیں بلکہ
حقیقی منزل - کوئی تصور بحیثیت قوم ہم نے قائم کیا ہے اپنی منزل کا (دینی
یا دنیاوی)
کیوں ہم اتنا دور نکل آئے ہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے جب پاکستان بنانے
کی جدوجہد شروع کی تھی اور امید کے دریا سامنے کیے تھے تو سچے دل سے ایک
آزاد ملک کی تمنا اور اس کی کوشش کرنے والے کی یقیناً کوئی منزل تھی کہ
کیسی پاک زمین حاصل کرنی ہے اور اب جبکہ ایک زمین کا قطعہ ہمارے پاس موجود
ہے تو کیا منزل کی طرف ہمارے قدم بھی رواں دواں ہیں یا اب بھی منزل کہیں
اور اور سفر کہیں اور کا ہے۔
اگر سوچیں اور سمجھیں کہ ہم منزل سے دور جارہے ہیں تو اب بھی وقت ہے ہم بہت
دور نہیں گئے ہیں ہاں راستہ بھول گئے ہیں شائد مگر پھر بھی زیادہ دیر نہیں
ہوئی ہے چلو لوٹ چلیں اور قائد کے فرمان کو اٹھا کر دیکھیں کہ منزل کا
بہترین راستہ کون سا ہے اور یہ کیا کشکول جیسا اٹھا رکھا ہے منزل کی طرف
روانگی سے پہلے اس کشکول کو توڑنا ہوگا وگرنہ منزل کی طرف راہ دکھانے اور
کشکول میں خیرات ڈالنے والے ہمیں راستے سے بھٹکاتے ہی رہیں گے اور منزل
کھوٹی کرتے رہیں گے۔
پاکستان ہماری آن ہماری شان سب سے پہلے پاکستان
اللہ اکبر پاکستان زندہ باد |