توانائی منصوبوں پر کام تیز کرنے کی ضرورت

پاکستان میں ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ کوئی بھی نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کی طرف سے عوامی فلاح کے لئے شروع کیے جانے والے منصوبے خواہ وہ کتنے ہی کامیاب اور اہم کیوں نہ ہوں ان کو ختم کر کے اپنی مرضی سے اور نسبتا کم افادیت والے منصوبے شروع کرنے کو ترجیح دیتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نئی حکومت نہیں چاہتی کہ گزشتہ دور میں شروع ہونے والا منصوبہ مکمل ہو کر سابق حکومت کے کریڈٹ میں چلا جائے اس لئے تقریبا ماضی کی تمام حکومتوں نے کئی اہم پروجیکٹس پر کام صرف اس لئے بند کروایا کہ وہ ان کی حریف جماعتوں کی جانب سے شروع کیا گیا تھااسی کھنچا تانی کی وجہ سے ہم ترقی کے اس سفر میں باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں اس سلسلے میں کئی منصوبے ہیں جن کی مثال دی جا سکتی ہے ان منصوبوں میں نیلم جہلم منصوبہ جو کہ گزشتہ کئی سالوں سے التوا میں پڑا ہوا ہے اور اس پر کام کی رفتار کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کی رفتار بہت ہی سست نظر آتی ہے اور اس کم رفتا ری کی وجہ سے اس کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جس کی خبریں گاہے بگاہے قومی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، نندی پور پاور پلانٹ، چیچو کی ملیاں پاور منصوبہ بھی آپ کے سامنے ہے جس کی مشینری کو سابق حکومت نے صرف اپنی حریف حکومت کو ناکام دیکھانے کے لئے کئی سالوں تک کراچی پورٹ پر روکھے رکھا جس کی وجہ سے مشینری کی وہ حالات ہو گئی کے ا س کی ڈبل قیمت کے برابر اس پر خرچہ کر کے اسے دوبارہ اوور ہال کرانا پڑا اب امید ہے کہ حکومت اس کو مکمل فنکشنل کروائے گی جس سے بجلی کی پیدوار میں اضافہ کی امید ہے، کراچی میں چین کی مدد سے لگایا جانے والا نیوکلیئر پلانٹ پر بھی کئی سال پہلے کام شروع ہو جانا چاہیے تھا مگر حکومتوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے یہ منصوبے التوا کا شکار کیے گئے جس سے ناصرف ان کی لاگت میں آضافہ ہوا بلکہ ملکی کمزور معیشت پر بھی اس کے برئے اثرات مرتب ہوئے۔ آج کل ملک میں سردی کی وجہ سے گیس کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور ایک خوفناک بحران جنم لے چکا ہے جس کے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے سی این جی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا جس کی وجہ سے کئی لوگوں کا روزگار داؤ پر لگ گیا اور ملکی معیشت بھی کمزور ہونے لگی ہے یہ توبھلا ہو ان لوگوں کا جنھیں حالات کا ادراک ہو ا جسکے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کی گیس بحال کر دی مگر سی این جی والوں کو عدلیہ کا دروازہ کھٹکٹنا پڑا اور فیصلہ سی این جی والوں کے حق میں ہونے کی وجہ سے اب سی این جی اسٹیشن والے اور حکومت آمنے سامنے ہیں حکومت کا موقف ہے کہ ان کی پہلی ترجیح گھریلو صارفین ہیں جو یقینا اچھی بات ہے مگر دوسری جانب ٹرانسپورٹ طبقہ بھی کوئی پوش طبقہ نہیں ہے ان کو بھی سی این جی کی بند ش وجہ سے شدید مشکلات کا سامناہے عدلیہ کی جانب سے سی این جی کی بنش پر دیے جانے والے سٹے آرڈر سے گھریلو صارفین ضرور متاثر ہو رہے ہیں اوراس کا نتیجہ جو بھی ہو مگر عوام اس فیصلے سے ضرورخوش نظر آتے ہیں ملک میں گیس کی کمی کو دور کرنے اور گیس کی پیداوار کم ہونے کے بعد ایل این جی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیااس سلسلے میں قطر سے ایل این جی کا معاہدہ کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے جبکہ حکومتی کوششوں سے لگتا ہے کہ کہ 2014ء کے آ خر تک ایل این جی پاکستان پہنچنا شروع ہو جائے گی صنعتوں کو گیس کی کمی سے جس بحران کا سامنا ہے اس کو خاصی حد تک ختم کیا جا سکے گا۔ملک کوآج جس توانائی بحران کا سامنا ہے اس کی ذمہ دار پرویز مشرف کی حکومت اور اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جس نے پانچ سال کے دوران توانائی بحران کے حل کے ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اس بابت کسی قسم کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کے بجائے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اپنائی گئی جس سے بجلی اور گیس کی اندھا دھند لوڈشیڈنگ کر کے ملک کی معیشت اور انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا موجودہ حکومت نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوڈشیڈنگ اور گیس کے بحران پر قابو پائے گی اس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس ضمن میں کافی اقدامات کئے ہیں جو قابل تحسین ہیں بجلی کا 530 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کیا گیاجس کے بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی ہوئی اسی طرح حکومت نے گیس کی امپورٹ کے لئے کوششیں شروع کی ہیں جن سے امید ہے کہ جلد ہی اس بحران سے نجات مل سکے گی پیپلز پارٹی کے دور میں ایل این جی منگوانے کے لئے کچھ کمپنیوں سے معاملات طے کئے گئے تھے مگر ان میں کرپشن کا عنصر غالب نظر آرہا تھا جو کہ بعد ازاں اعلیٰ عدلیہ کی وجہ سے بے نقاب ہو گیااور ان کو منسوخ کر دیا گیا ۔ موجودہ حکومت قطر سے ایل این جی منگوانے کے لیے قطر کی حکومت سے بات چیت کر رہی ہے جس میں شفافیت لانے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ۔ حال ہی میں صنعتوں کو گیس کی سپلائی بند کی گئی تھی مگر ٹیکسٹائل سیکٹر کی درخواست پر حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کوشیڈول کے مطابق گیس کی فراہمی شروع کر دی ہے دوسری طرف حکومت کی کوششوں سے پاکستا ن کو ملنے والی یورپی یونین کی طرف سے جی ایس پلس کا پورا فائدہ اٹھانے کے لئے ٹیکسٹائل سیکٹر کو پوری ذمہ داری اور محنت سے اپنی پیداوار اور اہداف پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی ۔ حکومت اگر نومبر تک ایل این جی منگوانے اور نئے ذخائر تلاش کرنے ور پاک ایران گیس منصوبے کو مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ملکی معیشت اور صنعت کے لئے نہایت عمدہ اقدام ہو گا۔ اس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے حکومت بجلی کی پیداوار کے ضمن میں اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے یہی کارکردگی اسے گیس کی پیدوار اور منصوبوں میں بھی دیکھانے کی ضرورت ہے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ گیس اور بجلی کے جن منصوبوں پر کام شروع ہے ان کی جلد تکمیل کو یقینی بنایا جائے حکومت ان منصوبوں کی جلد تکمیل کرکے ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت اور انڈسٹری میں نئی جان ڈال سکتی ہے۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227346 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More