ڈزنی لینڈ کی اچھوتی دنیا EPCOT CENTER

 یہ ستمبر 1986میں ڈزنی ورلڈ فلوریڈا کے سفر کی مختصر داستان ہے - اسکے بعد زمانہ قیامت کی چال چل گیا - اس زمانے میں کمپیوٹر نئے نئے اور خال خال تھے - انٹر نیٹ کا نام بھی نہیں سناتھا بلکہ شاید ایجاد بھی نہ ہوا تھا - اسوقت سکائپ اور اسی کی طرح کی بہت سی سہولیات خواب وخیال تھیں -موبائل فون یا سیلولر فون متعارف نہیں ہواتھا - قدرت نے ہماری زندگی کو کہاں سے کہاں اور سائنس و ٹیکنالوجی نے دنیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا--عابدہ رحمانی

ڈزنی لینڈ کی اچھوتی دنیا
EPCOT CENTER

عابدہ رحمانی
ورلڈ شوکیس یعنی دنیا کی نمائش گاہ سے مستقبل کی دنیا Future World کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک معلوماتی مرکز پر نظر پڑی اس کا نام World Key Information Service تھا۔ ایک چبوترے میں چاروں ٹیلی ویژن سکرین لگے ہوئے ہیں کیا آپ ایپکاٹ سینٹر میں کسی خاص مقام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟ کیا آپ میجک کنگڈم کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو یہاں کے بارے میں کچھ اور معلومات درکار ہیں؟ اور کیا آپ اٹینڈنٹ کو بلا کر پوچھنا چاہتے ہیں؟ میں نے اٹینڈنٹ والے خانے پر انگلی رکھ دی۔ ذرا دیر کے بعد ایک البیلی امریکن دوشیزہ پردے پر نمودار ہوئی۔ اس نے وہیں سے پوچھا کہ مجھے کیا پوچھنا ہے۔ میں حیران و پریشان اسے دیکھتی رہی۔ یا اللہ یہ جادو ہے کوئی کرشمہ یا واقعی یہ طلسماتی دنیا ہے۔ ایک ٹیلی ویژن کا پردہ اور ہم آمنے سامنے محو گفتگو ہیں۔ اس وقت تو میرا وہی حال تھا محو حیرت ہوں کہ دنیا ........کہ لڑکی ذرا بیزاری سے بولی" کیا آپ کو کچھ پوچھنا ہے؟"

" ہاں ہاں میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ انرجی میں ہم کیاکیا دیکھیں گے۔"

لڑکی امریکن لہجے میں تیز تیز وہاں کے بارے میں تفصیلات بہم پہنچانے لگی۔ میں یہی سوچتی رہی کہ وہ وقت دور نہیں جبکہ ہم اپنے عزیز و اقارب سے اس طرح محو گفتگو ہوں گے۔ واہ رے سائنس اور واہ رے انسانی عقل و دانش! یہاں سے آگے بڑھے تو یہی موضوع زیربحث تھا کہ وہ لڑکی ہمیں کیسے دیکھ رہی تھی؟ کیا اسے صرف آواز سنائی دے رہی تھی؟

فیوچر ورلڈ مستقبل کی دنیا کے بارے میں کیاسوچا جا سکتا ہے اس کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ یہاں ہم پہلے Living Seas زندہ سمندر میں داخل ہوتے ہیں۔جیتے جاگتے سمندر کے پویلین میں داخلے سے پہلے کافی طویل قطار تھی ہم بھی اس میں لگ گئے۔ قطار بندی کے اصول کا ہر جگہ قائل ہونا پڑا۔ لوگ آگے بڑھتے جاتے ہیں قطار سرکتی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو مطلوبہ مقام پر پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے لیکن کوئی بدنظمی اور ہڑبونگ نہیں اور کوئی دھکم پیل نہیں۔ یہاں امریکہ معاشرے میں دھکم پیل کافی ناپسندیدہ بات ہے اگر اتفاقاً کسی سے ٹکرا جائیں تو معذرت ضرور کرنی پڑتی ہے۔ خیراب تو ہمارے دیسی لوگوں میں بھی کافی امریکی آداب آ گئے ہیں ویلکم ، تھینک یو کے جواب میں عام طور سے کہا جانے لگا ہے لیکن قطار بندی کی عادت شاید ہی آئے۔

ایک جانب سے قطار داخل ہو رہی ہے۔ دوسری جانب سے نکل رہی ہے۔ مائیکرو فون پر ایک لڑکی کی آواز وقفے وقفے سے آتی ہے۔ حرکت کرتے رہو اندر داخل ہوتے وقت کھانا پینا بالکل ممنوع ہے۔ آخری حدود پر کوڑا دان لگے ہوئے ہیں۔ خالی ڈبے، ٹن اور پلاسٹک کی تھیلیاں چھنا چھن لوگ پھینک کر ٹیشو سے ہاتھ منہ پونچھ کر اندر داخل ہوتے ہیں۔

ہال میں اندھیرا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد موسیقی تھی اور سامنے دیوار پر فلم آنے لگی۔ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ زمین نے موجودہ شکل و صورت کیسے اور کتنے عرصے میں حاصل کی؟ سمندر کیسے وجود میں آئے؟ دنیا کے کتنے حصے میں سمندر کیسے وجود میں آئے؟ دنیا میں کتنے حصے پر سمندر ہیں اور سمندر کے کیا فائدے ہیں؟ مجھے بڑی مایوسی ہو رہی تھی۔ اصل میں کتابچے میں دیکھا نہیں تھا۔ بھلا یہ ہے Living Seas شو ختم ہوا تو اعلان ہوا کہ لوگ بار باری اس دروازے سے داخل ہوں۔گروپ والے ایک ساتھ رہیں۔ یہاں لفٹ میں داخل ہوں ۔آپ کو سمندری اڈے الفاAlpha میں لے جائیں گے۔ اب اندازہ ہوا کہ یہ تو محض ایک تعارف تھا ۔لفٹ نیچے کی طرف جانے لگی تو اندازہ ہوا کہ ہم پانی کے نیچے جا رہے ہیں۔ نیچے جا کر لفٹ رکی باہر نکل کر دیکھا تو ایک بہت عمدہ عمارت پانی کی تہ میں آباد ہے۔ بڑے بڑے شیشوں سے باہر کا منظر دیکھا۔چاروں طرف رنگ برنگ چھوٹی بڑی مچھلیاں تیر رہی ہیں شارک اور ڈولفن بھی ہیں سمندری شیر اور سیل بھی ہیں۔ دو چار چھوٹی آبدوز کشتیاں نظر آئیں۔ چند غوطہ خور بھی یہاں وہاں تیرتے ہوئے دکھائی دیے۔ عجیب و غریب کیفیت تھی کہ انسان تو شیشے کی اس عمارت میں بند تھے جبکہ مچھلیاں ہر طرف سے تانک جھانک میں مصرف تھیں۔

یہ پویلین 5.7 ملین گیلن سمندری پانی سے بنایا گیا ہے ہمیں تو بالکل محسوس ہوا جیسے کہ اصلی سمندر میں ہوں۔ یہاں پر مختلف مچھلیوں اور ممالیہ کی دو سو سے زائد اقسام ہیں۔
ہماری ملاقات جیسن سے بھی ہوئی جو کہ زیرزمین یا زیرسمندر تجربات کرنے والا روبوٹ ہے۔

سمندری تحقیقات کو مختلف تجربات کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ چاند کے ساتھ سمندر کے مدوجزر کا تعلق بھی ایک شیشے کے کیس میں دکھایا گیا ہے۔ سمندری علوم کے اضافے کے لیے ویڈیو گیمز ہیں۔ سمندر کے چھوٹے چھوٹے جاندار کو شیشوں میں دکھایا گیا ہے۔

طبیعت تو یہی چاہ رہی تھی کہ دن بھر یہیں بیٹھے رہیں اور انہیں مناظر سے لطف اندوز ہوں لیکن ابھی ہمیں بہت کچھ اور بھی دیکھنا تھا۔ یہاں پر زیرسمندر ریسٹورنٹ، کورل ریف کے نام سے ہے۔ یہاں پر سمندری غذائیں یعنی مختلف اقسام کی مچھلیاں اور دیگر خوردو نوش کی چیزیں دستیاب ہیں۔

اس جگہ کی دلآویزی کو بس چشم تصور سے محسوس کر سکتے ہیں۔

اچانک نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک غوطہ خور شیشے کی ایک ٹیوب نما سرنگ میں نیچے کی طرف آ رہے ہیں۔ تہ میں آ کر وہ کھڑا ہو گیا اور کچھ یوں کمال ہوا کہ اوپر کا پانی اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ اپنا لباس وغیرہ اتارنے کے بعد دیکھا کہ نوجوان سا لڑکا ہے۔ لوگ بہت بے تابی سے اس سے ملنے لگے۔ اور ہم نے ان مناظر کو چھوڑ کر ہائیڈروسپٹر یعنی پانی کے اندر چلنے والی سیڑھیوں سے اوپر کا رخ کیا۔

اب جس پویلین میں داخلے کے لیے قطار میں کھڑے تھے یہ (Horizons) تھا اس کو ہم نئے افق کا نام دے سکتے ہیں عجیب و غریب قسم کی اس بلڈنگ میں داخل ہوئے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی خود کار گاڑیوں میں بٹھایا گیا یہ گاڑیاں تھوڑی دیر کے بعد روانہ ہوئیں۔ اب ہم اپنے اطراف میں اکیسویں صدی کا طرز زندگی دیکھ رہے تھے۔

ماضی کے تصورات سے یہ ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے ہم حرکت کرتے ہوئے یہ سب کچھ دیکھتے جا رہے ہیں یہ آواز اور روشنیوں کا کھیل ہے۔

1930ء اور 1940ء میں یورپ اور امریکہ کے پیش بینوں نے کیا سوچا اور ان کے تخیلات کیا تھے؟ اس میں جولیس ور نے کی خلائی جہاز کی خیالی پرواز بھی شامل ہے۔ ماضی سے اس کھیل کا آغاز ہوا اور حال سے ہوتے ہوئے ہم مستقبل کی تخیلاتی دنیا کی طرف بڑھنے لگے۔ موجودہ دور میں روبوٹ بنانے کی فیکٹری، مائیکروچپ کی بناوٹ کیسے ہوئی۔ زیرآب یا زیر سمندر کیا کامیابیاں حاصل ہوئیں اور خلاؤں تک کیسے رسائی ہوئی۔ گویا انسانی ارتقاء کی ایک کہانی سی چل رہی تھی۔

اندھیرے اورٹھنڈک کی وجہ سے مجھ پر غنودگی سے طاری ہونے لگی۔ یہ بھی بھلا کوئی سونے کی جگہ ہے میں نے اپنے حواسوں کو مجتمع کرتے ہوئے پوری آنکھیں وا کیں۔

یہ ہمارا مستقبل ہے۔ ایک روبوٹ کام کرنے میں مصروف ہے۔ ایک ہاتھ سے برتن دھو رہا ہے ، دوسرے سے جھاڑو لگا رہا ہے ۔ ،تیسرے سے وہ چیزیں ترتیب دے رہا ہے اس قسم کے روبوٹ ہمیں مل جائیں تو وارے نیارے ہو جائیں۔ یہاں تو ایک طرف سے فرمائش آتی ہے بھئی یہ کر لو دوسری طرف سے آواز آتی ہے بھئی وہ کر لو۔ ارے بھئی دو ہی ہاتھ ہیں کیا کیا کریں۔۔۔۔۔۔

بڑے میاں ایک مشینی کرسی پر بیٹھے ہیں ۔ وہ برش لگے ان کے جوتے چمکا رہے ہیں۔ ایک ہاتھ ان کے بال تراش رہا ہے دوسراکنگھی کر رہا ہے۔

یہ بہت دلچسپ صورتحال ہے سامنے ٹی وی پر گرل فرینڈ سے محو گفتگو ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اپنا کام بھی کیے جا رہے ہیں۔

غالباً کسی چیز کی مرمت ہو رہی ہے۔ یہ نہیں کہ صرف صورت جاناں دیکھا کیے۔ یہی حال دوسری طرف بھی ہے محترمہ ورزش کرنے میں مصروف ہیں اور بوائے فرینڈ سے باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اور یہ ایک خلائی بستی ہے بچہ کہیں باہر نکل گیا ہے ماں اسے پکڑنے کو آگے بڑھ رہی ہے دونوں خلا میں ڈول رہے ہیں۔ اس مکان میں ہر ایک بے وزنی کی کیفیت میں ہے کوئی یہاں ڈولتا ہوا جا رہا ہے کوئی وہاں۔ کچھ پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو اٹھتے ہوئے چھت تک جا پہنچے ہیں۔

یہ ایک بحری کالونی ، ہے جو زیرآب ہے۔ پانی کے اندر رہتے ہوئے ان کا وہی حال ہے جو ہمارا Living Seas کے پویلین میں تھا۔ مختلف مچھلیاں اور آبی جاندار ان کی خیر خیریت پوچھنے آتے ہیں۔ بچوں کے پالتو جانوروں میں سی لائن اور دیگر مچھلیاں ہیں۔

زراعت میں نئے افق کیا ہوں گے کہ ریگستان سبزہ زار بن دیے جائیں گے۔

Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254290 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More